فرعون اور قارون
پورے ملک میں PIA موضوع بحث بنا ہوا ہے اب کیونکہ IMF کے قرضوں تلے ہم دبے ہوئے ہیں
IMF سے قرضے جب لیے جاتے ہیں تو ان کو واپس بھی کرنا ہوتا ہے، حکومت کی حکومتی میعاد 5 سال میں ہمارے آئین میں اگر کوئی ناگہانی یا ہنگامی حالات ملک میں نہ پیدا ہو تو حکومت اپنی میعاد پوری کرتی ہے، صدر اور وزیراعظم باہمی مفاہمت سے فیصلے کرتے ہیں اور تمام اداروں کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے مگر کبھی کبھی پاکستان میں حالات مختلف بھی رہے ہیں، حکومتیں کرپشن کی وجہ سے ختم ہوئی اور اپنی میعاد پوری نہ کرسکیں۔
آرمی کے چیف کو ہنگامی بنیادوں پر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی پڑی اور میرے عزیز ہم وطنو! کے جملے کے ساتھ ہم سب نے ڈکٹیٹر شپ کے دن دیکھے، موجودہ حکومت کی میعاد 2018 تک ہے پھر الیکشن ہوںگے اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے اپنی میعاد بھی پوری کی تھی، موجودہ حکومت کئی دفعہ جاتے جاتے رہ گئی لگتا ایسا ہی ہے چاروں طرف سے گولہ باری برداشت کرتے کرتے بھی ابھی تک رواں دواں ہے۔ آج کل PIA کے ملازمین اس بڑے ادارے کو پرائیویٹائز کرنے کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔
پورے ملک میں PIA موضوع بحث بنا ہوا ہے اب کیونکہ IMF کے قرضوں تلے ہم دبے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان ادائیگیوں کے لیے بڑے بڑے اقدام اٹھانے پڑیںگے ایسا ہی کہنا ہے حکومت کا۔ اربوں، کھربوں کے قرضے لیے جاتے ہیں کہ ملک میں موجودہ اداروں کو بنایا سنوارا جائے اور حالات کو قابو میں لایا جائے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں انفرادی حیثیت کو مضبوط سے مضبوط ترکیا جارہاہے اندھا دھند ٹیکس لگائے جارہے ہیں، بے تحاشا مہنگائی نے زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے ایک عام آدمی بنیادی ضروریات کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے اور قرضے کے بڑے بڑے اژدھے بھی سروں پر سوار کردیے گئے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ اربوں کھربوں کے قرضے جو لیے گئے ہیں ملک سنوارنے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے۔ وہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں جارہے ہیں اور کس کس کو سنوار رہے ہیں، بہر حال بہت ہی ہنگامی صورتحال ہے ۔
ہر دفعہ ہی عوام کا امتحان کیوں؟ برسوں کی لگی ہوئی ملازمتوں سے ملازمین کو فارغ کردیا جائے گا اور ان کے لیے مناسب راستے نہیں دیے جائیںگے تو کس طرح چلے گا؟ ایک فرد کے ساتھ پورا پورا خاندان جڑا ہوتا ہے کس طرح لوگ اپنے بوجھ اٹھائیںگے اور کس طرح اپنے گھروں کو چلائیںگے۔ ذمے داری، احساس اور بہت ہی بہتر ایجنڈا ہو، عوام کے اداروں کے Head کے ساتھ اور ملازمین کے ساتھ بات کی جائے، ملک کی بھلائی کے ساتھ انسانوں کی بھلائی جڑی ہوتی ہے یہ دونوں الگ الگ باتیں نہیں یا الگ الگ ایکشن نہیں انسانوں سے جانوروں جیسا رویہ رکھنا یا گدھوں کی طرح بوجھ لاد دینا کسی بھی طرح مناسب رویہ نہیں، ہر شخص کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے کو ہے۔
ایک دوسرے کو جینے کا حق دینا ہی ریاست کا اولین ذمے داری ہے اور اسے یہ فرض ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔ فرعون اور قارون، یہ دونوں اﷲ کی طرف سے بھیجی گئی دو مثالیں ہیں اور ایسی سبق آموز مثالیں ہیں جو تا قیامت تک رہیںگی اور ہر پل ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے آپ کو سمیت اپنی اولادوں کو بھی اور اپنی آیندہ نسلوں کو بھی اسی کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے اصول بنانے چاہیے۔
اخلاقیات اور حقوق العباد اتنے ہی ضروری ہیں جیسا کہ سانس لینا اور کھانا کھانا ضروری ہے۔قارون کا خزانہ بھی قارون کے کام نہ آیا اور سب کا سب اﷲ کا ہی عطا کردہ تھا۔ فرعون کی فرعونیت بھی دھری کی دھری رہ گئی اور بس پھر وہ ہی ہوا جو اﷲ کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہے ایک لمحہ بھی ہم نہ بھولیںگے کہ حقوق العباد کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے اور اس کا ضابطہ اخلاق بھی متعین کردیاگیا ہے۔
حکومتی سربراہ کا رابطہ عوام کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہو جیسا کہ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے یہ کوئی افسانہ یا کوئی خوبصورت ٹیگ لائن نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان بھی ہمیں بتایا جاتا ہے اور یہی اﷲ کا حکم عالیشان ہے، پیدا ہونے والے بچے سے لے کر 80 سال کے بوڑھے ہونے تک کے مدارج دنیا میں آنے والا اپنے ارد گرد خود دیکھتا ہے پھر حیرت ہوتی ہے کہ سیکھتا کیوں نہیں؟ بچے جب گھٹنوں پر چلنا سیکھتے ہیں تو جو ان کے ارد گرد پیروں پر چلنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ان کو دیکھتے ہیں اور چلنے کی کوشش کرتے ہیں پھر والدین ان کو کھڑا ہونا سکھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ چلنا شروع کردیتے ہیں، صرف وہ رہ جاتے ہیں جو خدا کی طرف سے اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں یا پھر خدا کی طرف سے کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں، قومیں بھی بالکل اسی بچے کی طرح ہوتی ہے بڑھتی ہے جوان ہوتی ہے پھر مجبور ہوتی ہے اور اپنا ایک لائحہ عمل بناتی ہے تاکہ نسل در نسل پلتی پھولتی رہیں مالک ہونے سے ملازمین تک کا سلسلہ ایک مکمل ضابطہ ہونا ضروری ہے تاکہ کسی کا حق نہ مارا جائے اور خوشی کی انصاف کی فضا بنی رہے۔
بڑے بڑے نقصانات اٹھانے کے باوجود اگر اب بھی ہمارے ملک میں ''میں، میں'' کی صدائیں گونجتی رہے گی تو گاڑی آگے کیسے بڑھے گی اگر صاف مک مکا کرکے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلانا ہے تو یہ جو سب کا سانجھا گھر ہے یہ کیسے چلے گا؟ اﷲ کے واسطے قرضے ضرور حاصل کیجیے مگر پالیسیز ایک عام آدمی کی فلاح کے لیے بنائیں اب موجودہ صورتحال میں دو PIA کے ملازمین شہید ہوگئے ہیں اور اب ملازمین اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہڑتالوں کی کال دے رہے ہیں ۔
ان سے بات کیجیے ان کو اعتماد میں لیجیے۔اگر یہاں یہ بات کی جائے کہ ان اداروں میں بے حساب اپنے پسندیدہ افراد کو نوازا جاتا رہا ہے بغیر کسی صلاحیتوں کو دیکھے بغیر بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا جاتا رہا ہے اور ان افراد کے ذریعے سے اپنے فوائد کو دیکھا جاتا رہا ہے تو اصل میں تو اسی کلچر کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔
بے پناہ صلاحیتوں والے یہ ادارے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے رہے ہیں بلکہ اگر PIA کی بات کی جائے تو کئی دوسری دنیا کی ایئر لائن کو ٹریننگ دینے والا ان کو بنانے والا ادارہ آج خود یتیموں والی زندگی پر کھڑا ہے اور اس کو اس حال پر پہنچایاگیا ہے چیختے چلاتے ہوئے افراد، روتے پیٹتے ہوئے چہرے، بے بس اور بیکار صلاحیتوں سے بھرے نوجوان جو کبھی خوفناک کردار میں ڈھل جاتے ہیں کبھی قاتل بن جاتے ہیں کبھی مقتول، خوف بے بسی کی فضا چاروں طرف موجود، تعلیمی اداروں سے تجارتی اداروں تک چل تو سب کچھ رہا ہے مگر کیسے چل رہا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔
پہاڑوں کی بلندیاں ہو یا سمندر کی گہرائیاں باصلاحیت افراد کی موجودگی نے ہی یہ سب کو بنائے رکھا ہے مزید کس طرح مضبوط ہوگا اور کس طرح آگے بڑھا جائے گا یہی تو مقصد میںجس کو لے کر ہر فرد نے آگے آنا، کسی بھی طرح تعلیم وتربیت کا ماحول بنائیں اور افراد کو بے انتہا سہولتوں کے ساتھ اس کی ترغیب دی جائیں ایک دوسرے کی کونسلنگ کی جائے نہ کہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے شروعات ہوتی ہے تو اختتام بھی ہوتا ہے ہر کمال کو زوال ہے سوائے اﷲ پاک کے، سو اب بسم اﷲ کرے، آگے بڑھے اور بڑھتے ہی چلے جائیں، کان پکتے جارہے ہیں ایسے ایسے لفظوں سے جو نئی ایجادات ہے جیسے کہ چائنا کٹنگ اور وغیرہ وغیرہ۔ہماری کئی سالوں کی ٹیگ لائن، پاکستان نازک دور سے گزر رہاہے اور ہم حالت جنگ میں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ٹیگ لائن کا اضافہ ہوگیا ہے ماشا اﷲ پاکستان تیزی سے ترقی کررہاہے قوم خوش ہے جی ہاں قوم خوش ہے اور خوشی کے مارے ادھر ادھر مرتے پھررہے ہیں کہ خوشی بہت زیادہ ہے سنبھالے نہیں سنبھل رہی، اﷲ ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں ہدایت کے راستے پر چلادے۔(آمین)
آرمی کے چیف کو ہنگامی بنیادوں پر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی پڑی اور میرے عزیز ہم وطنو! کے جملے کے ساتھ ہم سب نے ڈکٹیٹر شپ کے دن دیکھے، موجودہ حکومت کی میعاد 2018 تک ہے پھر الیکشن ہوںگے اس سے پہلے پیپلزپارٹی نے اپنی میعاد بھی پوری کی تھی، موجودہ حکومت کئی دفعہ جاتے جاتے رہ گئی لگتا ایسا ہی ہے چاروں طرف سے گولہ باری برداشت کرتے کرتے بھی ابھی تک رواں دواں ہے۔ آج کل PIA کے ملازمین اس بڑے ادارے کو پرائیویٹائز کرنے کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔
پورے ملک میں PIA موضوع بحث بنا ہوا ہے اب کیونکہ IMF کے قرضوں تلے ہم دبے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان ادائیگیوں کے لیے بڑے بڑے اقدام اٹھانے پڑیںگے ایسا ہی کہنا ہے حکومت کا۔ اربوں، کھربوں کے قرضے لیے جاتے ہیں کہ ملک میں موجودہ اداروں کو بنایا سنوارا جائے اور حالات کو قابو میں لایا جائے مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں انفرادی حیثیت کو مضبوط سے مضبوط ترکیا جارہاہے اندھا دھند ٹیکس لگائے جارہے ہیں، بے تحاشا مہنگائی نے زندگی کو عذاب بنا رکھا ہے ایک عام آدمی بنیادی ضروریات کے لیے مارا مارا پھر رہا ہے اور قرضے کے بڑے بڑے اژدھے بھی سروں پر سوار کردیے گئے ہیں اور ظلم یہ ہے کہ اربوں کھربوں کے قرضے جو لیے گئے ہیں ملک سنوارنے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے۔ وہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ کہاں جارہے ہیں اور کس کس کو سنوار رہے ہیں، بہر حال بہت ہی ہنگامی صورتحال ہے ۔
ہر دفعہ ہی عوام کا امتحان کیوں؟ برسوں کی لگی ہوئی ملازمتوں سے ملازمین کو فارغ کردیا جائے گا اور ان کے لیے مناسب راستے نہیں دیے جائیںگے تو کس طرح چلے گا؟ ایک فرد کے ساتھ پورا پورا خاندان جڑا ہوتا ہے کس طرح لوگ اپنے بوجھ اٹھائیںگے اور کس طرح اپنے گھروں کو چلائیںگے۔ ذمے داری، احساس اور بہت ہی بہتر ایجنڈا ہو، عوام کے اداروں کے Head کے ساتھ اور ملازمین کے ساتھ بات کی جائے، ملک کی بھلائی کے ساتھ انسانوں کی بھلائی جڑی ہوتی ہے یہ دونوں الگ الگ باتیں نہیں یا الگ الگ ایکشن نہیں انسانوں سے جانوروں جیسا رویہ رکھنا یا گدھوں کی طرح بوجھ لاد دینا کسی بھی طرح مناسب رویہ نہیں، ہر شخص کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ دوسرے کو ہے۔
ایک دوسرے کو جینے کا حق دینا ہی ریاست کا اولین ذمے داری ہے اور اسے یہ فرض ہر حال میں پورا کرنا چاہیے۔ فرعون اور قارون، یہ دونوں اﷲ کی طرف سے بھیجی گئی دو مثالیں ہیں اور ایسی سبق آموز مثالیں ہیں جو تا قیامت تک رہیںگی اور ہر پل ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے آپ کو سمیت اپنی اولادوں کو بھی اور اپنی آیندہ نسلوں کو بھی اسی کو سامنے رکھتے ہوئے زندگی کے اصول بنانے چاہیے۔
اخلاقیات اور حقوق العباد اتنے ہی ضروری ہیں جیسا کہ سانس لینا اور کھانا کھانا ضروری ہے۔قارون کا خزانہ بھی قارون کے کام نہ آیا اور سب کا سب اﷲ کا ہی عطا کردہ تھا۔ فرعون کی فرعونیت بھی دھری کی دھری رہ گئی اور بس پھر وہ ہی ہوا جو اﷲ کے بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہے ایک لمحہ بھی ہم نہ بھولیںگے کہ حقوق العباد کی بڑی اہمیت بتائی گئی ہے اور اس کا ضابطہ اخلاق بھی متعین کردیاگیا ہے۔
حکومتی سربراہ کا رابطہ عوام کے ساتھ بالکل ایسا ہی ہو جیسا کہ اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے یہ کوئی افسانہ یا کوئی خوبصورت ٹیگ لائن نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان بھی ہمیں بتایا جاتا ہے اور یہی اﷲ کا حکم عالیشان ہے، پیدا ہونے والے بچے سے لے کر 80 سال کے بوڑھے ہونے تک کے مدارج دنیا میں آنے والا اپنے ارد گرد خود دیکھتا ہے پھر حیرت ہوتی ہے کہ سیکھتا کیوں نہیں؟ بچے جب گھٹنوں پر چلنا سیکھتے ہیں تو جو ان کے ارد گرد پیروں پر چلنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
ان کو دیکھتے ہیں اور چلنے کی کوشش کرتے ہیں پھر والدین ان کو کھڑا ہونا سکھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ چلنا شروع کردیتے ہیں، صرف وہ رہ جاتے ہیں جو خدا کی طرف سے اس صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں یا پھر خدا کی طرف سے کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں، قومیں بھی بالکل اسی بچے کی طرح ہوتی ہے بڑھتی ہے جوان ہوتی ہے پھر مجبور ہوتی ہے اور اپنا ایک لائحہ عمل بناتی ہے تاکہ نسل در نسل پلتی پھولتی رہیں مالک ہونے سے ملازمین تک کا سلسلہ ایک مکمل ضابطہ ہونا ضروری ہے تاکہ کسی کا حق نہ مارا جائے اور خوشی کی انصاف کی فضا بنی رہے۔
بڑے بڑے نقصانات اٹھانے کے باوجود اگر اب بھی ہمارے ملک میں ''میں، میں'' کی صدائیں گونجتی رہے گی تو گاڑی آگے کیسے بڑھے گی اگر صاف مک مکا کرکے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلانا ہے تو یہ جو سب کا سانجھا گھر ہے یہ کیسے چلے گا؟ اﷲ کے واسطے قرضے ضرور حاصل کیجیے مگر پالیسیز ایک عام آدمی کی فلاح کے لیے بنائیں اب موجودہ صورتحال میں دو PIA کے ملازمین شہید ہوگئے ہیں اور اب ملازمین اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہڑتالوں کی کال دے رہے ہیں ۔
ان سے بات کیجیے ان کو اعتماد میں لیجیے۔اگر یہاں یہ بات کی جائے کہ ان اداروں میں بے حساب اپنے پسندیدہ افراد کو نوازا جاتا رہا ہے بغیر کسی صلاحیتوں کو دیکھے بغیر بڑے بڑے عہدوں پر بٹھایا جاتا رہا ہے اور ان افراد کے ذریعے سے اپنے فوائد کو دیکھا جاتا رہا ہے تو اصل میں تو اسی کلچر کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔
بے پناہ صلاحیتوں والے یہ ادارے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے رہے ہیں بلکہ اگر PIA کی بات کی جائے تو کئی دوسری دنیا کی ایئر لائن کو ٹریننگ دینے والا ان کو بنانے والا ادارہ آج خود یتیموں والی زندگی پر کھڑا ہے اور اس کو اس حال پر پہنچایاگیا ہے چیختے چلاتے ہوئے افراد، روتے پیٹتے ہوئے چہرے، بے بس اور بیکار صلاحیتوں سے بھرے نوجوان جو کبھی خوفناک کردار میں ڈھل جاتے ہیں کبھی قاتل بن جاتے ہیں کبھی مقتول، خوف بے بسی کی فضا چاروں طرف موجود، تعلیمی اداروں سے تجارتی اداروں تک چل تو سب کچھ رہا ہے مگر کیسے چل رہا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔
پہاڑوں کی بلندیاں ہو یا سمندر کی گہرائیاں باصلاحیت افراد کی موجودگی نے ہی یہ سب کو بنائے رکھا ہے مزید کس طرح مضبوط ہوگا اور کس طرح آگے بڑھا جائے گا یہی تو مقصد میںجس کو لے کر ہر فرد نے آگے آنا، کسی بھی طرح تعلیم وتربیت کا ماحول بنائیں اور افراد کو بے انتہا سہولتوں کے ساتھ اس کی ترغیب دی جائیں ایک دوسرے کی کونسلنگ کی جائے نہ کہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا جائے شروعات ہوتی ہے تو اختتام بھی ہوتا ہے ہر کمال کو زوال ہے سوائے اﷲ پاک کے، سو اب بسم اﷲ کرے، آگے بڑھے اور بڑھتے ہی چلے جائیں، کان پکتے جارہے ہیں ایسے ایسے لفظوں سے جو نئی ایجادات ہے جیسے کہ چائنا کٹنگ اور وغیرہ وغیرہ۔ہماری کئی سالوں کی ٹیگ لائن، پاکستان نازک دور سے گزر رہاہے اور ہم حالت جنگ میں ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ٹیگ لائن کا اضافہ ہوگیا ہے ماشا اﷲ پاکستان تیزی سے ترقی کررہاہے قوم خوش ہے جی ہاں قوم خوش ہے اور خوشی کے مارے ادھر ادھر مرتے پھررہے ہیں کہ خوشی بہت زیادہ ہے سنبھالے نہیں سنبھل رہی، اﷲ ہم سب پر رحم کرے اور ہمیں ہدایت کے راستے پر چلادے۔(آمین)