گوروں کے جنازے
جب دولہا کے گھر گاڑی رکے تو دلہن کا پاؤں زمین پر نہ لگنے کی رسم ہوتی ہے
PESHAWAR:
سیر کرتے ایک قبرستان پر نظر پڑی۔ پہلے سمجھا کہ پھولوں کی نرسری ہے۔پھر اچانک بورڈ پر نظر پڑی تو دل نے فوراً کہا ''انگریز آخر انگریز ہے۔
کیا اعلیٰ قبرستان بنایا ہے۔'' اپنے قبرستان اتنے خوفناک ہیں کہ وہاں نشے بازوں، جیب کتروں اور بدمعاشوں کا ہیڈکوارٹر بن جاتا ہے۔میں کئی خواتین کو جانتا ہوں جو لاہور میں اچھی جگہ نہیں خریدنے دیتیں کہ ساتھ قبرستان ہے۔ ان کو جینا مرنا یادہے مگر قبرستان کی اداسی اور ویرانی دیکھ کر آدمی کا دل دہل جاتا ہے۔
یورپ میں آدمی مرے تو اسے اتنی شان سے دفن کرتے ہیں کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مہنگا تابوت خریدا جاتا ہے جس میں ساگوان کی لکڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ اندر کی تہوں میں شنیل کا کپڑا لگا ہوتا ہے۔ مردے کو بہترین لباس پہنایا جاتا ہے۔ بو والی نکٹائی اور جنرل والی قمیض اور قبر پر اٹلی کا پالش کیا ہوا ماربل لگتا ہے ۔
پھر اسے پھولوں بھری وادی (قبرستان) میں قرینے سے بنائی جگہ میں دفن کیا جاتا ہے اور کوئی چیخ وغیرہ یا بین کرنے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہمارے ہاں کوئی مرے تو اس کے ساتھ کئی عزیزوں کی معاشی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت بعض رشتہ داروں کا دماغ ماؤف کردیتی ہے۔ یہاں پر موت کو موت کی طرح لیا جاتا ہے۔جنازے کے لیے بہترین لیموزین (بڑی گاڑی) ہوتی ہے۔
شادی کا بھی سن لیں ۔جب دولہا کے گھر گاڑی رکے تو دلہن کا پاؤں زمین پر نہ لگنے کی رسم ہوتی ہے۔ یعنی دولہاا اس کو کمرے تک گود میں اٹھا کر لے جاتا ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ رسم نہیں ورنہ دو دو من وزنی دلہنیں کرین کے ساتھ اٹھانی پڑتیں۔ شادی پر ہر ایرے غیرے کو نہیں بلایا جاتا، خاندان کے قریبی دوست اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہماری طرح پورے محلے والوں کو دعوت دینی پڑتی ہے۔ جس کو نہ بلاؤ وہ ساری عمر منہ پھیلائے رہتا ہے۔ دولہے کا شہ بالا تقریب کا سب سے اہم شخص ہوتا ہے۔ ساری تقریب کا اہتمام وہی کرتا ہے۔
(سفرنامہ ''ماڈرن کولمبس''سے اقتباس)
سیر کرتے ایک قبرستان پر نظر پڑی۔ پہلے سمجھا کہ پھولوں کی نرسری ہے۔پھر اچانک بورڈ پر نظر پڑی تو دل نے فوراً کہا ''انگریز آخر انگریز ہے۔
کیا اعلیٰ قبرستان بنایا ہے۔'' اپنے قبرستان اتنے خوفناک ہیں کہ وہاں نشے بازوں، جیب کتروں اور بدمعاشوں کا ہیڈکوارٹر بن جاتا ہے۔میں کئی خواتین کو جانتا ہوں جو لاہور میں اچھی جگہ نہیں خریدنے دیتیں کہ ساتھ قبرستان ہے۔ ان کو جینا مرنا یادہے مگر قبرستان کی اداسی اور ویرانی دیکھ کر آدمی کا دل دہل جاتا ہے۔
یورپ میں آدمی مرے تو اسے اتنی شان سے دفن کرتے ہیں کہ آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مہنگا تابوت خریدا جاتا ہے جس میں ساگوان کی لکڑی کا استعمال ہوتا ہے۔ اندر کی تہوں میں شنیل کا کپڑا لگا ہوتا ہے۔ مردے کو بہترین لباس پہنایا جاتا ہے۔ بو والی نکٹائی اور جنرل والی قمیض اور قبر پر اٹلی کا پالش کیا ہوا ماربل لگتا ہے ۔
پھر اسے پھولوں بھری وادی (قبرستان) میں قرینے سے بنائی جگہ میں دفن کیا جاتا ہے اور کوئی چیخ وغیرہ یا بین کرنے کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ہمارے ہاں کوئی مرے تو اس کے ساتھ کئی عزیزوں کی معاشی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت بعض رشتہ داروں کا دماغ ماؤف کردیتی ہے۔ یہاں پر موت کو موت کی طرح لیا جاتا ہے۔جنازے کے لیے بہترین لیموزین (بڑی گاڑی) ہوتی ہے۔
شادی کا بھی سن لیں ۔جب دولہا کے گھر گاڑی رکے تو دلہن کا پاؤں زمین پر نہ لگنے کی رسم ہوتی ہے۔ یعنی دولہاا اس کو کمرے تک گود میں اٹھا کر لے جاتا ہے۔ شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ رسم نہیں ورنہ دو دو من وزنی دلہنیں کرین کے ساتھ اٹھانی پڑتیں۔ شادی پر ہر ایرے غیرے کو نہیں بلایا جاتا، خاندان کے قریبی دوست اور رشتہ دار ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہماری طرح پورے محلے والوں کو دعوت دینی پڑتی ہے۔ جس کو نہ بلاؤ وہ ساری عمر منہ پھیلائے رہتا ہے۔ دولہے کا شہ بالا تقریب کا سب سے اہم شخص ہوتا ہے۔ ساری تقریب کا اہتمام وہی کرتا ہے۔
(سفرنامہ ''ماڈرن کولمبس''سے اقتباس)