صرف ایک لاکھ فوجی اہلکار میسر مردم شماری خطرے میں پڑ گئی

پونے 4لاکھ جوان درکار مگر ضرب عضب و ملکی سیکیورٹی صورتحال کے باعث فراہمی مشکل

پونے 4لاکھ جوان درکار مگر ضرب عضب و ملکی سیکیورٹی صورتحال کے باعث فراہمی مشکل فوٹو: رائٹرز

جی ایچ کیو نے ضرب عضب اور ملکی سیکیورٹی میں مصروفیت کے باعث مردم شماری کیلیے صرف ایک لاکھ فوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے باعث مردم شماری کی بروقت تکمیل پر شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔

گزشتہ روز ایک اجلاس میں وزارت خزانہ اور ادارہ شماریات کے حکام نے فوجی جوانوں کی کم تعداد سے پیدا ہونیوالی پیچیدگیوں پر غور کیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ شفاف اور محفوظ مردم شماری کیلیے فوج کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ ادارہ شماریات کے حکام نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف مردم شماری کمشنر آصف باجوہ نے وزیر خزانہ اسحق ڈارکو بتایا کہ جی ایچ کیو نے ایک لاکھ فوجی فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے مگر اتنی تعداد میں فوجی قابل بھروسہ مردم شماری کیلیے ناکافی ہیں۔


اسحق ڈار نے آصف باجوہ کو تین روز میں مکمل ایکشن پلان پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اسحق ڈار خود بھی اضافی فوجیوں کی خدمات کے حصول کے لیے فوجی قیادت سے رابطہ کریں گے۔ سول حکومت کی جانب سے مردم شماری کے لیے تمام انتظامات مکمل ہیں اور صرف فوجی جوانوں کی عدم دستیابی کا ہی مسئلہ باقی ہے۔21 جنوری کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آصف باجوہ نے کہا تھا کہ ایک لاکھ67 ہزار بلاکس میں اتنے ہی فوجی درکار ہیں جبکہ سیکیورٹی کیلیے اضافی فوجی جوان چاہئیں، اس لیے مردم شماری کے لیے مجموعی طور پر ایک لاکھ67 ہزار سے لیکر3 لاکھ 75 ہزار جوان چاہئیں۔

انھوں نے مزید کہا تھا کہ فوجی جوان نگرانی اور سیکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے اور ان کے بغیر مردم شماری نہیں ہوسکتی۔ اس سے قبل مکمل مردم شماری 1998 میں ہوئی تھی اور اس کے لیے ڈھائی لاکھ فوجی جوان تعینات کیے گئے تھے۔ اس وقت بلاکس کی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار تھی جوکہ اب ایک لاکھ 67 ہزار ہے اور اس کے لیے تقریبا 60 فیصد اضافی افرادی قوت چاہیے۔ اس حوالے سے موقف لینے کے لیے آصف باجوہ سے رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ نہ ہوسکا۔
Load Next Story