روسیوں کے دامن پر لگا دھبہ روس ڈوپنگ اسکینڈل کی زد میں
چوری چھپے ممنوعہ ادویہ کھا کر روسی کھلاڑی بین الاقوامی مقابلے جیتتے رہے۔۔۔۔ ایک رپورٹ کے سنسنی خیز انکشافات
ایک دانشور کا قول ہے:''کھیل جسم کی عظیم ترین شاعری ہیں۔'' دور حاضر میں یہی کھیل عظیم قوت بھی بن چکے کیونکہ یہ بہت سے مثبت کام انجام دیتے ہیں ۔ مثلاً اجنبی اقوام کو قریب لے آنا' بہترین تفریح فراہم کرنا' جسم کو مضبوط بنانا اور افراد کو شناخت دینا ۔ عرض کھیلوں کی کئی خوبیاں ہیں۔
سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب سے پیسا اور ہر قیمت پر جیت کا منفی جذبہ ... یہ دونوں عناصر کھیلوں کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں' انہوں نے ان کی خوبیاں گہنا دی ہیں۔
حتی کہ کھیلوں کا انتظام کرنے والے ادارے بھی رشوت لینے دینے کا گڑھ بن چکے ۔ آئے دن خبریں آتی ہیں کہ فلاں سپورٹس ادارے کا عہدے دار مالی بدانتظامی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔فٹ بال کا عالمی ادارہ،فیفا کرپشن اسکینڈل میں لتھڑا ہوا ہے۔تھوڑے عرصہ پہلے بھارتی صنعت کار' سری نواسن کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سربراہی سے ہٹایا گیا۔ موصوف ساری عمر ناجائز ذرائع سے دولت کماتے رہے۔پھر اپنی سازشوں و چالوں کے ذریعے کرکٹ جیسے شریفانہ کھیل کو جوئے بازی' سٹے بازی حتیٰ کہ طوائف بازی کی آماج گاہ بنا دیا۔
کھیلوں میں مادہ پرستی در آنے سے اخلاقی اقدار کو بہت ضعف پہنچا ۔ اب کھلاڑی پیسہ کمانے اور شہرت وعزت پانے کے لیے ناجائز طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں حکومتوں کی آشیر باد سے کھلاڑی غیر قانونی طریقے اپنا تے ہیں تاکہ جیت ہر قیمت پر ان کا مقدر بن سکے۔
کھیلوں میں فتوحات عالمی سطح پر ایک ملک کی اہمیت و عزت بڑھا دیتی ہیں۔کھیلوں میں جیت کی خاطر اختیار کیے جانے والے ناجائز حربوں میں اہم ترین حربہ قوت بخش ادویہ کا استعمال ہے۔ یہ ادویہ کھلاڑی کی جسمانی و ذہنی قوت میں عارضی طور پر اضافہ کرتی ہیں اور اسے تھکنے نہیں دیتیں ۔ چناں چہ وہ غیر معمولی طور پر بہتر کارکردگی دکھا پاتا ہے۔کھیلوں کا انتظام کرنے والے سبھی عالمی اداروں نے ان قوت بخش ادویہ کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔
ظاہر ہے' جو کھلاڑی ان ادویہ کی مدد سے مقابلہ جیت جائے' اسے دھوکے باز اور فراڈیا ہی کہا جائے گا۔ لیکن اخلاقی ا قدار کمزور ہونے اور دولت وشہرت پانے کی ہوس بڑھنے کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً ہر کھیل میں کھلاڑی قوت بخش ادویہ و غذائی اشیا استعمال کر تے ہیں تاکہ فتح اپنے مقدر میں لکھ سکیں۔ اس ناجائز چلن نے کھیلوں کے مقابلوں کو ہی مشکوک بنادیا ۔ اب پتا ہی نہیں چلتا کہ فاتح نے اپنی محنت ' ذہانت ' مہارت سے مقابلہ جیتا یا یہ قوت بخش ادویہ کے استعمال کا نتیجہ ہے۔
اس طرح جوئے بازی اور سٹے بازی بھی مقابلوں کو مشکوک بنا چکیں ۔ اگر کسی ٹیم کے دوتین کھلاڑی بھی جوا کھیلتے ہوئے میچ میں بری کارکردگی دکھائیں' تو کھیل کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ افسوس کہ لالچ و ہوس نے آج کھیلوں کے مقابلوں پر ہمارا اعتماد متزلزل کر دیا۔
روس پر الزام
دسمبر 2014ء میں جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے' اے آر ڈی(ARD) نے ایک دستاویزی پروگرام نشر کیا۔ ایک گھنٹے کے پروگرام میں مختلف سابق روسی کھلاڑیوں کے انٹرویو دکھائے گئے۔ ڈسکس تھرو کی کھلاڑی'یوجینیا پچرینا نے انکشاف کیا کہ روس میں ''99'' فیصد کھلاڑی ڈوپنگ میں ملوث ہیں۔ یاد رہے' کھیلوں کے بین الاقوامی اداروں نے جن قوت بخش ادویہ پر پابندی لگا رکھی ہے' ان کا استعمال اصطلاح میں ''ڈوپنگ'' (Doping)کہلاتا ہے۔
یوجینیا پچرینا نے افشا کیا کہ روس میں ہر قوت بخش ممنوعہ ادویہ باآسانی مل جاتی ہے۔ دوسری روسی کھلاڑی اور لندن میراتھن 2010ء کی فاتح' للیا شوبوخدا نے انکشاف کیا کہ جب رشین ایتھلیٹکس فیڈریشن نے میراتھن سے قبل اس کا طبی معائنہ کیا' تو معلوم ہو گیا کہ وہ قوت بخش ادویہ استعمال کرتی ہے۔ للیا نے پھر فیڈریشن کے متعلقہ افسروں کو ساڑھے چار لاکھ یورو کی رشوت دی تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔دستاویزی پروگرام میں ماریا سوہنوا کو بھی دکھایا گیا۔ ماریہ نے لندن کے اولمپکس میں 800 میٹر کی دوڑ جیت کر طلائی تمغہ پایا تھا۔ ماریہ نے یہ تسلیم کیا کہ وہ ممنوعہ سٹرائیڈ دوا، اوکسنڈرولون (Oxandrolone) استعمال کرتی رہی ہے۔
پروگرام میں زیادہ تر انکشافات و تالے سٹیپانوف نے کیے جو روس میں ڈوپنگ کے خلاف سرگرم عمل سرکاری ادارے' اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کا سابق اعلیٰ افسر ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ روسی سپورٹس اداروں کے افسر کھلاڑیوں کو بھاری قیمت پر ممنوعہ قوت بخش ادویہ فروخت کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ افسر فتح سے حاصل ہونے والی رقم میں بھی حصہ دار بنتے ہیں۔
وتالے سٹیپانوف نے مزید بتایا کہ کوچ اور ڈاکٹر سے لے کر روسی سپورٹس اداروں کی انتظامیہ تک سبھی کھلاڑیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے ممنوعہ قوت بخش ادویہ کا استعمال کریں۔ مدعا یہی ہوتا ہے کہ کھیلوںکے ہر عالمی مقابلے میں روس زیادہ سے زیادہ تمغے جیت سکے۔ گویا پروگرام میں الزام لگایا گیا کہ روسی حکومت بھی اپنے کھلاڑیوں کی ڈوپنگ میں ملوث ہے۔
اس جرمن پروگرام نے یورپ اور امریکا میں کھیلوں کی دنیا کو ہلا ڈالا۔ سابق و حاضر یورپی و امریکی کھلاڑیوں نے روس کا ڈوپنگ اسکینڈل سامنے آنے پر نہایت غم وغصّے کا اظہار کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ روسی کھلاڑی کئی عالمی مقابلوں میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ استعمال کر کے جیت گئے۔ جبکہ دیگر ممالک کے جو کھلاڑی سارا سال محنت کرتے رہے تھے' انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ امر انصاف ا ور اخلاقیات کے منافی ہے۔
روس کی وزارت کھیل نے ابتدا میں اس پروگرام کو بے بنیاد قرار دیا ۔ وزارت کا دعویٰ تھا کہ یہ اس مخالفانہ مہم کا حصہ ہے جس کے ذریعے مغرب روس کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ بہر حال انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی ہدایت پر واڈا (ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی) نے ایک کمیشن ترتیب دیا جو روس میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ کے استعمال پر تحقیق کرنے لگا۔
9 نومبر 2015ء کو کمیشن اپنی روپورٹ منظر عام پر لے آیا۔ رپورٹ نے جرمن دستاویزی پروگرام کے انکشافات کی تصدیق کرتے ہوئے افشا کیا کہ کھیلوں کی روسی دنیا میں ڈوپنگ عام ہے اور یہ کہ سرکاری افسروں کی سرپرستی میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر 13نومبر کو آئی اے اے ایف نے روس کے ایتھلیٹک فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی۔ گویا اب یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ شاید اس سال برازیل میں ہونے والے اولمپکس میں روسی ایتھلیٹ شرکت نہ کر سکیں۔
اسی دوران روسی صدر' پیوٹن نے معاملے میں دخل دیتے ہوئے ا پنی وزارت کھیل کو ہدایت دی کہ جو افسر' کوچ' ڈاکٹر وغیرہ ڈوپنگ اسکینڈل میں ملوث ہیں' انہیں بہ مطابق قانون سزا دی جائے۔ دیکھیں اب روسی کھلاڑی اولمپکس میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں۔
روس کا ڈوپنگ اسکینڈل خاص طور پر سبھی کھلاڑیوں کو یہ اخلاقی سبق دیتا ہے کہ وہ محنت سے اپنے کھیل میں مہارت حاصل کریں اور جیت کی خاطر دھوکے بازی سے کام نہ لیں۔ آئرش کہاوت ہے:''جیسے ایک چھوٹا سا سوراخ کشتی ڈبو دیتا ہے، اسی طرح بظاہر عام سا گناہ بھی انسان کی شخصیت پارہ پارہ کر ڈالتا ہے۔''
سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جب سے پیسا اور ہر قیمت پر جیت کا منفی جذبہ ... یہ دونوں عناصر کھیلوں کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں' انہوں نے ان کی خوبیاں گہنا دی ہیں۔
حتی کہ کھیلوں کا انتظام کرنے والے ادارے بھی رشوت لینے دینے کا گڑھ بن چکے ۔ آئے دن خبریں آتی ہیں کہ فلاں سپورٹس ادارے کا عہدے دار مالی بدانتظامی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔فٹ بال کا عالمی ادارہ،فیفا کرپشن اسکینڈل میں لتھڑا ہوا ہے۔تھوڑے عرصہ پہلے بھارتی صنعت کار' سری نواسن کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی سربراہی سے ہٹایا گیا۔ موصوف ساری عمر ناجائز ذرائع سے دولت کماتے رہے۔پھر اپنی سازشوں و چالوں کے ذریعے کرکٹ جیسے شریفانہ کھیل کو جوئے بازی' سٹے بازی حتیٰ کہ طوائف بازی کی آماج گاہ بنا دیا۔
کھیلوں میں مادہ پرستی در آنے سے اخلاقی اقدار کو بہت ضعف پہنچا ۔ اب کھلاڑی پیسہ کمانے اور شہرت وعزت پانے کے لیے ناجائز طریقے بھی استعمال کرتے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ کھیلوں کے عالمی مقابلوں میں حکومتوں کی آشیر باد سے کھلاڑی غیر قانونی طریقے اپنا تے ہیں تاکہ جیت ہر قیمت پر ان کا مقدر بن سکے۔
کھیلوں میں فتوحات عالمی سطح پر ایک ملک کی اہمیت و عزت بڑھا دیتی ہیں۔کھیلوں میں جیت کی خاطر اختیار کیے جانے والے ناجائز حربوں میں اہم ترین حربہ قوت بخش ادویہ کا استعمال ہے۔ یہ ادویہ کھلاڑی کی جسمانی و ذہنی قوت میں عارضی طور پر اضافہ کرتی ہیں اور اسے تھکنے نہیں دیتیں ۔ چناں چہ وہ غیر معمولی طور پر بہتر کارکردگی دکھا پاتا ہے۔کھیلوں کا انتظام کرنے والے سبھی عالمی اداروں نے ان قوت بخش ادویہ کے استعمال پر پابندی لگا رکھی ہے۔
ظاہر ہے' جو کھلاڑی ان ادویہ کی مدد سے مقابلہ جیت جائے' اسے دھوکے باز اور فراڈیا ہی کہا جائے گا۔ لیکن اخلاقی ا قدار کمزور ہونے اور دولت وشہرت پانے کی ہوس بڑھنے کا نتیجہ ہے کہ آج تقریباً ہر کھیل میں کھلاڑی قوت بخش ادویہ و غذائی اشیا استعمال کر تے ہیں تاکہ فتح اپنے مقدر میں لکھ سکیں۔ اس ناجائز چلن نے کھیلوں کے مقابلوں کو ہی مشکوک بنادیا ۔ اب پتا ہی نہیں چلتا کہ فاتح نے اپنی محنت ' ذہانت ' مہارت سے مقابلہ جیتا یا یہ قوت بخش ادویہ کے استعمال کا نتیجہ ہے۔
اس طرح جوئے بازی اور سٹے بازی بھی مقابلوں کو مشکوک بنا چکیں ۔ اگر کسی ٹیم کے دوتین کھلاڑی بھی جوا کھیلتے ہوئے میچ میں بری کارکردگی دکھائیں' تو کھیل کا پانسہ پلٹ جاتا ہے۔ افسوس کہ لالچ و ہوس نے آج کھیلوں کے مقابلوں پر ہمارا اعتماد متزلزل کر دیا۔
روس پر الزام
دسمبر 2014ء میں جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے' اے آر ڈی(ARD) نے ایک دستاویزی پروگرام نشر کیا۔ ایک گھنٹے کے پروگرام میں مختلف سابق روسی کھلاڑیوں کے انٹرویو دکھائے گئے۔ ڈسکس تھرو کی کھلاڑی'یوجینیا پچرینا نے انکشاف کیا کہ روس میں ''99'' فیصد کھلاڑی ڈوپنگ میں ملوث ہیں۔ یاد رہے' کھیلوں کے بین الاقوامی اداروں نے جن قوت بخش ادویہ پر پابندی لگا رکھی ہے' ان کا استعمال اصطلاح میں ''ڈوپنگ'' (Doping)کہلاتا ہے۔
یوجینیا پچرینا نے افشا کیا کہ روس میں ہر قوت بخش ممنوعہ ادویہ باآسانی مل جاتی ہے۔ دوسری روسی کھلاڑی اور لندن میراتھن 2010ء کی فاتح' للیا شوبوخدا نے انکشاف کیا کہ جب رشین ایتھلیٹکس فیڈریشن نے میراتھن سے قبل اس کا طبی معائنہ کیا' تو معلوم ہو گیا کہ وہ قوت بخش ادویہ استعمال کرتی ہے۔ للیا نے پھر فیڈریشن کے متعلقہ افسروں کو ساڑھے چار لاکھ یورو کی رشوت دی تاکہ وہ اپنا منہ بند رکھیں۔دستاویزی پروگرام میں ماریا سوہنوا کو بھی دکھایا گیا۔ ماریہ نے لندن کے اولمپکس میں 800 میٹر کی دوڑ جیت کر طلائی تمغہ پایا تھا۔ ماریہ نے یہ تسلیم کیا کہ وہ ممنوعہ سٹرائیڈ دوا، اوکسنڈرولون (Oxandrolone) استعمال کرتی رہی ہے۔
پروگرام میں زیادہ تر انکشافات و تالے سٹیپانوف نے کیے جو روس میں ڈوپنگ کے خلاف سرگرم عمل سرکاری ادارے' اینٹی ڈوپنگ ایجنسی کا سابق اعلیٰ افسر ہے۔ اس نے انکشاف کیا کہ روسی سپورٹس اداروں کے افسر کھلاڑیوں کو بھاری قیمت پر ممنوعہ قوت بخش ادویہ فروخت کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ افسر فتح سے حاصل ہونے والی رقم میں بھی حصہ دار بنتے ہیں۔
وتالے سٹیپانوف نے مزید بتایا کہ کوچ اور ڈاکٹر سے لے کر روسی سپورٹس اداروں کی انتظامیہ تک سبھی کھلاڑیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی بڑھانے کے لیے ممنوعہ قوت بخش ادویہ کا استعمال کریں۔ مدعا یہی ہوتا ہے کہ کھیلوںکے ہر عالمی مقابلے میں روس زیادہ سے زیادہ تمغے جیت سکے۔ گویا پروگرام میں الزام لگایا گیا کہ روسی حکومت بھی اپنے کھلاڑیوں کی ڈوپنگ میں ملوث ہے۔
اس جرمن پروگرام نے یورپ اور امریکا میں کھیلوں کی دنیا کو ہلا ڈالا۔ سابق و حاضر یورپی و امریکی کھلاڑیوں نے روس کا ڈوپنگ اسکینڈل سامنے آنے پر نہایت غم وغصّے کا اظہار کیا۔ ان کاکہنا تھا کہ روسی کھلاڑی کئی عالمی مقابلوں میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ استعمال کر کے جیت گئے۔ جبکہ دیگر ممالک کے جو کھلاڑی سارا سال محنت کرتے رہے تھے' انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ یہ امر انصاف ا ور اخلاقیات کے منافی ہے۔
روس کی وزارت کھیل نے ابتدا میں اس پروگرام کو بے بنیاد قرار دیا ۔ وزارت کا دعویٰ تھا کہ یہ اس مخالفانہ مہم کا حصہ ہے جس کے ذریعے مغرب روس کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔ بہر حال انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کی ہدایت پر واڈا (ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی) نے ایک کمیشن ترتیب دیا جو روس میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ کے استعمال پر تحقیق کرنے لگا۔
9 نومبر 2015ء کو کمیشن اپنی روپورٹ منظر عام پر لے آیا۔ رپورٹ نے جرمن دستاویزی پروگرام کے انکشافات کی تصدیق کرتے ہوئے افشا کیا کہ کھیلوں کی روسی دنیا میں ڈوپنگ عام ہے اور یہ کہ سرکاری افسروں کی سرپرستی میں ممنوعہ قوت بخش ادویہ استعمال ہوتی ہیں۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر 13نومبر کو آئی اے اے ایف نے روس کے ایتھلیٹک فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی۔ گویا اب یہ خطرہ منڈلا رہا ہے کہ شاید اس سال برازیل میں ہونے والے اولمپکس میں روسی ایتھلیٹ شرکت نہ کر سکیں۔
اسی دوران روسی صدر' پیوٹن نے معاملے میں دخل دیتے ہوئے ا پنی وزارت کھیل کو ہدایت دی کہ جو افسر' کوچ' ڈاکٹر وغیرہ ڈوپنگ اسکینڈل میں ملوث ہیں' انہیں بہ مطابق قانون سزا دی جائے۔ دیکھیں اب روسی کھلاڑی اولمپکس میں شرکت کرتے ہیں یا نہیں۔
روس کا ڈوپنگ اسکینڈل خاص طور پر سبھی کھلاڑیوں کو یہ اخلاقی سبق دیتا ہے کہ وہ محنت سے اپنے کھیل میں مہارت حاصل کریں اور جیت کی خاطر دھوکے بازی سے کام نہ لیں۔ آئرش کہاوت ہے:''جیسے ایک چھوٹا سا سوراخ کشتی ڈبو دیتا ہے، اسی طرح بظاہر عام سا گناہ بھی انسان کی شخصیت پارہ پارہ کر ڈالتا ہے۔''