تجارت اور ریاست
ہماری نوجوان اور تازہ دم حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ہلچل مچا دی ہے اورایسےایسے محکموں میں بھی ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں
ہماری نوجوان اور تازہ دم حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ہلچل مچا دی ہے اور ایسے ایسے محکموں میں بھی ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں جن میں محکموں کے ان ملازمین کی ہڑتالیں رہیں گی یا وہ محکمے رہیں گے۔ مثلاً پی آئی اے میں جب ہڑتال ہوئی تو وہ وقت زیادہ دور نہیں ہو گا جب یہ ہڑتال جہازوں کو فضاؤں سے اتار کر خشکی پر بٹھا دے گی۔
سیکڑوں افراد اور ان کے سفری سامان کے ساتھ کسی جہاز کا ہواؤں میں پرواز کرنا ایک لمبے انتظام یعنی مشینری اور ماہرین کا کام ہے جو کوئی ایک افسر نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی انتظامی حکم کے تحت اسے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
مزید برآں حکومتی ادارے کاروباری نہیں ہوا کرتے یہ عوام کی سہولت اور ان کی کسی ضرورت کے تحت تشکیل پاتے ہیں یوں جو کام کوئی ایک فرد نہیں کر سکتا وہ حکومت اجتماعی طور پر کر دیتی ہے اور اس طرح فرد کی ضرورت بھی پوری ہوتی اور قوم کے تمام طبقوں کی بھی۔ حکومت کا کوئی بھی ادارہ اگر کسی وجہ سے قومی خزانے میں کچھ اضافہ بھی کر دیتا ہے تو ایسا کرنے پر مجبور نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے بلکہ کوئی ادارہ جتنا آسودہ ہو گا وہ عوام کی اتنی ہی بہتر خدمت کرے گا وہی بات کہ خوشدل مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔
قومی خدمت کے اداروں کی بہتر حالت ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے اور عوام کو ان سے زیادہ سکون آرام اور سہولت ملتی ہے۔ اس لیے ہر ادارے کو حکومت کی بھی بھرپور سرپرستی ملتی ہے تا کہ عوام تک زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچائی جا سکیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کوئی ادارہ کاروباری ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر کسی ملک میں اچھے اور کار آمد ادارے موجود ہیں تو وہ اس قوم کے لیے ایک نعمت ہیں نہ کہ ان کے ذریعہ کوئی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ عوامی خدمت کے اداروں کو کاروباری بنا دینا قوم کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اس کی حق تلفی ہے۔
ہماری کاروباری مزاج اور تربیت کی حکومت جب سے آئی ہے اس نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ نفع بخش حکومتی ادارے حکومت کے کنٹرول سے نکال کر نجی تحویل میں دیے جا سکتے ہیں تا کہ ان کی آمدنی بہتر ہو اور ان کے انتظام کا بوجھ بھی اتر جائے مزید برآں حکومت کے خزانے میں اضافہ ہو بلکہ اضافے کی ایک مستقل صورت پیدا ہو جائے۔ ایک کاروباری ذہن بالکل یہی سوچے گا اور اپنے طریقے کار کے مطابق اسے درست سمجھا جائے گا۔
لیکن حکومتی نظام کی چولیں ہل جائیں گی اور ملک کی ترقی کی بنیاد یہ ادارے بن جائیں گے جنھیں قومیا لیا جائے گا اور جن کی کارکردگی کا دارومدار ان کی تجارت ہو گی۔ بلاشبہ ہر حکومت کے پاس کاروباری نوعیت کے کئی ادارے ہوتے ہیں اور ان کی پیداوار اگر عوام سے باہر بازار میں فروخت کی جائے تو یہ ممکن تو ہو گا لیکن عوام کے حق میں نہیں ہو گا اسے حق تلفی سمجھا جائے گا۔ یہی وہ مفید ادارے ہوتے ہیں جو ملک کے کسی کمزور شعبے کی مدد کرتے ہیں اور اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ گویا کوئی بھی ریاست اپنے کمزور اور نفع بخش اداروں کے باہمی تعاون سے ہی کھڑی رہتی ہے۔
طاقت ور ادارے دوسرے کمزور اداروں کی مدد کرتے ہیں جو عوام کی کسی ضرورت کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی فلاح کو کاروبار کے معیار پر پرکھا جائے۔ عوام کو تو ہر حال میں زندہ رکھنا ہوتا ہے خواہ اس کے لیے ملک کو کسی سے قرض بھی کیوں نہ لینا پڑے۔ ایسے قرض ریاست کے کمزور اداروں کو زندہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں جو اچھے حکمرانوں اور منتظمین کی محنت سے بحال ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقت بعد یہ اپنا قرض اتار دیتے ہیں کیونکہ ایک مقروض ملک آج کے دور میں اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بدقسمت ہیں وہ ممالک جن کی ترقی کے لیے لیا جانے والا قرض حکمرانوں کی فضول خرچی پر ضایع کر دیا جائے۔ یہ تو قرض سے پینے والی مے کے برابر ہے جو رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکتی۔
اگر کسی حکمران کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کی ریاست کا کوئی ناکام ادارہ یا محکمہ اگر کسی ماہر کو دے دیا جائے جو اپنی مہارت اور سرمایہ کاری سے اسے بحال کر دے تو اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا اس کے اپنے پاس سب لوگ نالائق ہیں جو اپنے کسی ادارے کو زندہ نہیں رکھ سکتے اور غیروں کے پاس اس کا علاج تلاش کرتے ہیں بلکہ صورت حال تو یوں ہے کہ اپنے لوگ اپنے اداروں کو زیادہ سمجھتے ہیں اور انھیں بہتر طریقے سے کامیاب کر سکتے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ سب کچھ ان کا دیکھا بھالا ہوتا ہے بلکہ اس کا سارا ماحول ہی ان کا اپنا ہوتا ہے جہاں وہ زیادہ دلجمعی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
کسی ریاستی ادارے کی نجکاری جس کا ذکر ان دنوں کیا جا رہا ہے درحقیقت ایسے شکوک کو جنم دیتی ہے جو کسی حکمران کے حق میں نہیں جاتے اور اس کی ذاتی نفع خوری کا الزام بن جاتے ہیں۔ یہ جو انسانی تاریخ کے ہر دور میں کہا گیا ہے کہ کاروبار سلطنت کسی کاروباری شخص کو نہ دیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی ذہنیت اور مزاج کے مطابق اپنی ریاست کو بھی کاروبار کی جنس اور سامان سمجھ لے گا اور اسے کاروبار میں لگا دے گا۔
ہمارے ہاں ان دنوں ایک کاروباری ادارہ اور اس کے اہم ارکان حکمران ہیں اور ان دنوں نجکاری کی باتیں اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ کئی ادارے نجکاری کے خلاف ہڑتال پر چلے گئے ہیں اور پی آئی اے جیسا ناگزیر ادارہ معطل ہو چکا ہے جو ناقابل برداشت ہے کئی دن سے ہڑتال جاری ہے اور کام بند ہے۔ ہمارے جہاز فضاؤں میں نہیں زمین پر کھڑے ہیں یہ صورت حال خدا کرے جلد ہی حل ہو جائے۔ اس ضمن میں مزید کچھ بعد میں عرض کیا جائے گا تب تک صورت حال کچھ واضح ہو جائے گی اور عین ممکن ہے ہڑتال ختم ہو جائے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔
سیکڑوں افراد اور ان کے سفری سامان کے ساتھ کسی جہاز کا ہواؤں میں پرواز کرنا ایک لمبے انتظام یعنی مشینری اور ماہرین کا کام ہے جو کوئی ایک افسر نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی انتظامی حکم کے تحت اسے عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
مزید برآں حکومتی ادارے کاروباری نہیں ہوا کرتے یہ عوام کی سہولت اور ان کی کسی ضرورت کے تحت تشکیل پاتے ہیں یوں جو کام کوئی ایک فرد نہیں کر سکتا وہ حکومت اجتماعی طور پر کر دیتی ہے اور اس طرح فرد کی ضرورت بھی پوری ہوتی اور قوم کے تمام طبقوں کی بھی۔ حکومت کا کوئی بھی ادارہ اگر کسی وجہ سے قومی خزانے میں کچھ اضافہ بھی کر دیتا ہے تو ایسا کرنے پر مجبور نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے بلکہ کوئی ادارہ جتنا آسودہ ہو گا وہ عوام کی اتنی ہی بہتر خدمت کرے گا وہی بات کہ خوشدل مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔
قومی خدمت کے اداروں کی بہتر حالت ان اداروں کی کارکردگی کو بہتر بناتی ہے اور عوام کو ان سے زیادہ سکون آرام اور سہولت ملتی ہے۔ اس لیے ہر ادارے کو حکومت کی بھی بھرپور سرپرستی ملتی ہے تا کہ عوام تک زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچائی جا سکیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کا کوئی ادارہ کاروباری ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر کسی ملک میں اچھے اور کار آمد ادارے موجود ہیں تو وہ اس قوم کے لیے ایک نعمت ہیں نہ کہ ان کے ذریعہ کوئی کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ عوامی خدمت کے اداروں کو کاروباری بنا دینا قوم کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ اس کی حق تلفی ہے۔
ہماری کاروباری مزاج اور تربیت کی حکومت جب سے آئی ہے اس نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا ہے کہ نفع بخش حکومتی ادارے حکومت کے کنٹرول سے نکال کر نجی تحویل میں دیے جا سکتے ہیں تا کہ ان کی آمدنی بہتر ہو اور ان کے انتظام کا بوجھ بھی اتر جائے مزید برآں حکومت کے خزانے میں اضافہ ہو بلکہ اضافے کی ایک مستقل صورت پیدا ہو جائے۔ ایک کاروباری ذہن بالکل یہی سوچے گا اور اپنے طریقے کار کے مطابق اسے درست سمجھا جائے گا۔
لیکن حکومتی نظام کی چولیں ہل جائیں گی اور ملک کی ترقی کی بنیاد یہ ادارے بن جائیں گے جنھیں قومیا لیا جائے گا اور جن کی کارکردگی کا دارومدار ان کی تجارت ہو گی۔ بلاشبہ ہر حکومت کے پاس کاروباری نوعیت کے کئی ادارے ہوتے ہیں اور ان کی پیداوار اگر عوام سے باہر بازار میں فروخت کی جائے تو یہ ممکن تو ہو گا لیکن عوام کے حق میں نہیں ہو گا اسے حق تلفی سمجھا جائے گا۔ یہی وہ مفید ادارے ہوتے ہیں جو ملک کے کسی کمزور شعبے کی مدد کرتے ہیں اور اسے اس کے پاؤں پر کھڑا کر دیتے ہیں۔ گویا کوئی بھی ریاست اپنے کمزور اور نفع بخش اداروں کے باہمی تعاون سے ہی کھڑی رہتی ہے۔
طاقت ور ادارے دوسرے کمزور اداروں کی مدد کرتے ہیں جو عوام کی کسی ضرورت کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ عوام کی فلاح کو کاروبار کے معیار پر پرکھا جائے۔ عوام کو تو ہر حال میں زندہ رکھنا ہوتا ہے خواہ اس کے لیے ملک کو کسی سے قرض بھی کیوں نہ لینا پڑے۔ ایسے قرض ریاست کے کمزور اداروں کو زندہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں جو اچھے حکمرانوں اور منتظمین کی محنت سے بحال ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ وقت بعد یہ اپنا قرض اتار دیتے ہیں کیونکہ ایک مقروض ملک آج کے دور میں اپنی آزادی برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بدقسمت ہیں وہ ممالک جن کی ترقی کے لیے لیا جانے والا قرض حکمرانوں کی فضول خرچی پر ضایع کر دیا جائے۔ یہ تو قرض سے پینے والی مے کے برابر ہے جو رنگ لائے بغیر نہیں رہ سکتی۔
اگر کسی حکمران کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کی ریاست کا کوئی ناکام ادارہ یا محکمہ اگر کسی ماہر کو دے دیا جائے جو اپنی مہارت اور سرمایہ کاری سے اسے بحال کر دے تو اسے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا اس کے اپنے پاس سب لوگ نالائق ہیں جو اپنے کسی ادارے کو زندہ نہیں رکھ سکتے اور غیروں کے پاس اس کا علاج تلاش کرتے ہیں بلکہ صورت حال تو یوں ہے کہ اپنے لوگ اپنے اداروں کو زیادہ سمجھتے ہیں اور انھیں بہتر طریقے سے کامیاب کر سکتے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ کہ سب کچھ ان کا دیکھا بھالا ہوتا ہے بلکہ اس کا سارا ماحول ہی ان کا اپنا ہوتا ہے جہاں وہ زیادہ دلجمعی کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
کسی ریاستی ادارے کی نجکاری جس کا ذکر ان دنوں کیا جا رہا ہے درحقیقت ایسے شکوک کو جنم دیتی ہے جو کسی حکمران کے حق میں نہیں جاتے اور اس کی ذاتی نفع خوری کا الزام بن جاتے ہیں۔ یہ جو انسانی تاریخ کے ہر دور میں کہا گیا ہے کہ کاروبار سلطنت کسی کاروباری شخص کو نہ دیا جائے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی ذہنیت اور مزاج کے مطابق اپنی ریاست کو بھی کاروبار کی جنس اور سامان سمجھ لے گا اور اسے کاروبار میں لگا دے گا۔
ہمارے ہاں ان دنوں ایک کاروباری ادارہ اور اس کے اہم ارکان حکمران ہیں اور ان دنوں نجکاری کی باتیں اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ کئی ادارے نجکاری کے خلاف ہڑتال پر چلے گئے ہیں اور پی آئی اے جیسا ناگزیر ادارہ معطل ہو چکا ہے جو ناقابل برداشت ہے کئی دن سے ہڑتال جاری ہے اور کام بند ہے۔ ہمارے جہاز فضاؤں میں نہیں زمین پر کھڑے ہیں یہ صورت حال خدا کرے جلد ہی حل ہو جائے۔ اس ضمن میں مزید کچھ بعد میں عرض کیا جائے گا تب تک صورت حال کچھ واضح ہو جائے گی اور عین ممکن ہے ہڑتال ختم ہو جائے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔