خنجر کس کی پیٹھ میں لگے گا
یوں لگتا ہے کرسی بدلتے ہی کھوپڑی بھی الُٹی گھوم جاتی ہے ۔ آنکھیں اپنی جگہ بدل لیتی ہیں
یوں لگتا ہے کرسی بدلتے ہی کھوپڑی بھی الُٹی گھوم جاتی ہے ۔ آنکھیں اپنی جگہ بدل لیتی ہیں ۔ کان میں ایک فلٹر لگ جاتا ہے ۔ جو صرف خوشامد کو سُننا پسند کرتا ہے ۔ یہ کرسی کا کمال ہے کہ جو غریب سینے سے لگے ہوتے ہیں ان کے جسموں سے بُو آنے لگتی ہے۔ جن کے ساتھ سڑکوں پر بجلی لانے کے لیے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں وہ اچھوت ہو جاتے ہیں ۔ کیا کمال ہے اس کرسی کا جو ہمیں اپنا کل بھُلا دیتا ہے ۔ ہائے کیا دن تھے جب آپ کو یہ اپنی جان سے پیارے لگتے تھے ۔ آپ اسلام آباد میں ان کے کاندھے سے کاندھا ملا کر نعرہ لگاتے تھے کہ ''نج کاری نامنظور ''۔ اب یہ لوگ آپ کو سیاسی کھلونے لگنے لگے ہیں ۔ جن سے آپ بات کرنا پسند نہیں کر رہے ہیں ۔ واہ رے واہ کرسی تو بھی کیا چیز ہے ۔
اس کرسی کا رونا صرف ان بھائیوں سے ہی کیوں ۔ ؟ کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ ہم نعرے لگاتے رہے کہ ہمیں ایک ایسی ریاست چاہیے جہاں ہر شخص کو اظہار کی آزادی ہو ۔ اور اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی ہم نے فیض احمد فیض کے اظہار پر پابندی لگا دی ۔ جب تک اقتدار ہمارے پاس نہیں تھا ۔ جب تک ہماری ریاست نہیں تھی تب تک ہمیں اظہار کی آزادی چاہیے تھی ۔ اور جیسے ہی یہ کرسی ہمیں نصیب ہو گئی تو اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی ہم نے اپنے گندمی جسم کا دل '' فرنگی'' کر لیا ۔ اور جب وقت بدلا تو ہم نے اسی فیض احمد فیض کو اپنی کتابوں میں سنسر کے ساتھ پڑھانا شروع کر دیا ۔ کیا برا ہے اگر'' کرسی والوں'' کے خیالات کرسی بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ تو کوئی بات نہیں یہ تو ہمارا ریکارڈ ہے ۔
کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی ہے کہ عوام کے غم میں نڈھال کس طرح سے سیاستدانوں کو لگام دینے کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔ عوام باری لگانے والے سیاستدانوں سے پریشان تھے ۔ اور کیسے عوامی پاکستان بنانے کا عزم کرنے والے ایوب خان نے اپنی کابینہ انھیں سیاست دانوں سے بھر دی تھی ۔
وہ بار بار اپنی نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ سیاست دان بس اپنی کرسی سے چپک کر رہنا چاہتے تھے ۔ اور پھر کیا ہوا ۔ مارشل نے کرسی پر بیٹھنے کے بعد سیاسی لوگوں کی روش کو ترک کر دیا یا پھر اُسے اور طاقت کے ساتھ گلے لگا لیا ۔؟یہ لوگ فن کار ہیں ۔ان کے ذمے جو کردار دیا جائے اُس کو بھرپور طور پر نبھاتے ہیں ۔ جب اپوزیشن میں ہوں تو آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے ہر مظاہرہ کرنے والا ان کا ساتھی ہے ۔ اور تمام مظاہرہ کرنے والے لوگ حق کی کھُلی کتاب ہیں ۔ مگر جوں ہی ان کو ڈائریکٹر صاحب نئی کرسی دے دیتے ہیں ۔ تو یہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کا بھی ریکارڈ توڑ دیتے ہیں ۔
جس آمریت کے خلاف بھٹو نے آواز لگائی تھی ۔ گلی گلی جا کر لوگوں کو بتایا تھا کہ اب وہ جاگ چکے ہیں ۔ انھیں اب اقتدار سے کوئی دور نہیں رکھ سکتا ۔ وہ ہی بھٹو جو مزدوروں کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں ۔ انھیں کی حکومت میں مزدوروں پر گولی چل جاتی ہے ۔ یہ معراج محمد خان جنھیں بھٹو اپنا سیاسی جانشین کہتے تھے ۔ اسی معراج محمد خان کو مزدورں کی آواز بننے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ۔ وہ حسین نقی جو صحافت سے لے کر سڑکوںتک بھٹو کا ساتھ دیتے ہیں ۔انھیں عبرت کا نشان بنانے کی ٹھان لی جاتی ہے ۔ اور یہ دونوں تو اب بھی گواہی دینے کے لیے اس دنیا میں سانسیں لے رہے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ کی حکومت کا کیا قصور ہے۔ یہ تو وہی کر رہے ہیں جو اس کرسی کی ڈیمانڈ ہیں ۔
پھر کیا ہوا ۔ ؟ بھٹو نے جب اظہار پر پابندی لگائی تو ایک '' مرد مجاہد '' آگیا ۔ جو ضیاء کا نام لے کر بھی تاریکی تھا۔ جس نے اپنے پچھلوں سے سبق سیکھتے ہوئے وہ ہی کیا جو اس کرسی پر بیٹھے ہر شخص کو کرنا چاہیے تھا ۔ یہ ''مرد مجاہد'' تو سب کو مات دے گیا ۔ جو کام چھپ کر کیے جاتے تھے انھیں سر عام کرنے پر فخر محسوس کیا گیا ۔ مجمع لگا کے لوگوں کی چمڑیاں ادھیڑی گئیں ۔ اُسے فخر کے ساتھ دکھایا گیا کہ دیکھو میں کسی سے کم نہیں ہوں ۔
جو رہی سہی آزادی باقی تھی اُس کو ملیامیٹ کر دیا ۔ ایک نئے پاکستان کا تحفہ دیا گیا جہاں صرف خوف ہے ۔ اور اس کے سائے ہماری آنے والی نسلوں تک کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ میں اُسی دور کی بات کر رہا ہوں جسے جالب نے لکھا ہے ۔ میں اُسی وقت کی بات کر رہا ہوں ۔ جب آج کے وزیر اعظم نے سیاسی کرسی سنبھالی تھی ۔ اُسی ضیاء کے جانے کے بعد یہ نوید دی گئی تھی کہ شاید اب ہمارا آج بدل جائے ۔ لیکن ہوا کیا نہ آج بدلا نہ کل بدلنے کی کوئی امید ہے ۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا صرف ہمارے یہاں ہی کرسی بدلنے سے شخصیت بدل جاتی ہے یا پھر دنیا بھر میں یہ ہی ہوتا ہے۔ کیا ہمارے لوگ ایسے ہیں یا پھر اس کرسی کا کمال ہے کہ وہ لوگوں کو بدل دیتی ہے۔ یہ اوباما صاحب تھے۔ جن کی آمد پر ہمارے یہاں کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے اور فخر سے فرما رہے تھے کہ اب امریکا بدل جائے گا کیونکہ وہاں ایک ایسا شخص کرسی پر بیٹھ گیا ہے جس کے نام کے درمیان میں حسین آتا ہے اور جس کا باپ بھی مسلمان تھا ۔ وہ کرسی کو بدل کر رکھ دے گا لیکن اس مجاہد نے بھی وہ ہی کیا جہاں بش چھوڑ کر گیا تھا ۔
کہتے تھے کہ اس کے آنے کے بعد اب کرسی مزاج بدلے گی اور دیکھیے گا کہ اب امریکا افغانستان سے چلا جائے گا ۔ عراق میں ہر طرف امن کی بانسری بجے گی۔کچھ لوگ تو اتنے جذباتی تھے کہ فورا جیب سے نکال کر اُسے امن کا نوبیل انعام بھی دے دیا ۔ مجھ جیسے چھوٹے دل کے لوگ خوش تھے کہ چلو اب تبدیلی آہی جائے گی ۔ لیکن شام ، لیبیا ، مصر نے میرا ذہن پختہ کر دیا کہ مسئلہ کرسی میں ہی ہے۔ اب چاہے یہ پاکستان میں ہو یا امریکا میں، یہ ہی لوگوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ ورنہ تو یہ سب لوگ دودھ کے دھلُے ہوئے ہیں ۔
یاد نہیں ہے آپ کو ایک صاحب اپنا سینہ چوڑا کر کے کہا کرتے تھے کہ میں نہیں میری کرسی بہت مضبوط ہے ۔ اور پھر کیا ہوا کرسی جیسے ہی ہٹا لی گئی تو زمین بھی کھسک گئی ۔ ایسی ہی خوش فہمی تو فرعون سے لے کر ہٹلر تک سب کو تھی ۔ مگر اس کرسی نے کس کے ساتھ وفا کی ہے ۔ تو پھر آپ کو کیوں یہ گمان ہے کہ یہ کرسی میرے ساتھ رہے گی ۔
دور کی بات نہیں کرتا ۔ جب اسلام آباد کے ڈی چوک پر ''وی'' کا نشان بنا کر اپنی وکٹری بتائی جا رہی تھی اُس وقت کرسی کے سارے پائے ایک ایک کر کے کیوں لرز رہے تھے ۔ اُس وقت آپ کو ان لوگوں کی سیاسی ضرورت کیوں پڑی تھی جن پر اس وقت آپ سیاسی احتجاج کا الزام لگا رہے ہیں ۔ احتجاج، دھرنے ، مظاہرے یہ سب تو ہوتے ہی سیاسی ہے ۔ ڈی چوک والوں کو آپ سیاسی نہیں کہہ رہے تھے ۔وہاں بھی آپ کو ایک سازش محسوس ہو رہی تھی ۔ یہاں بھی آپ کو ایک سازش کی بُو آ رہی ہے۔ مگر میری الجھن کچھ اور ہے ۔
ڈی چوک والی قسط میں ایسا کیا تھا کہ کرسی کے پائے لرز رہے تھے ۔ آپ کی سوچ یہ تھی کہ کرسی ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے ۔ ایسا کیا تھا کہ آپ عوام سے جڑ کر رہنا چاہتے تھے ۔ ایسی کیا بات تھی کہ آپ کو سیاسی لوگوں کی ضرورت تھی ۔ اور اب چلنے والی قسط میں کیا فرق آیا ہے ۔ آپ کو کس نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ آپ کی کرسی کے پائے لرز نہیں رہے ہیں۔اب آپ کو یہ خیال کیوں آیا ہے کہ کرسی ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ ایسا کیا ہوا ہے کہ جن سیاسی لوگوں کو اکٹھا کر کے آپ نے ڈی چوک کا میلہ ختم کیا تھا ۔
وہ ہی سیاسی لوگ آپ کو برے لگنے لگے ہیں ۔ معاملہ کچھ اور ہے ۔ میں چھوٹا آدمی ہوں ۔ سمجھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے دوست وفادار تھے یا نئے دوستوں میں کوئی جفا نہیں کرے گا ۔ ایک سال میں دوست اور دشمن بدل چکے ہیں ۔ مگر معلوم نہیں کیوں مجھے شک ہو رہا ہے کہ بات اتنی سیدھی نہیں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ اپنی کرسی کو پکڑے رکھیں۔ ہم یہ ڈھونڈتے ہیں کہ آستین میں سانپ کون پال رہا ہے ۔اور خنجر کس کی پیٹھ میں لگنے والا ہے ۔
اس کرسی کا رونا صرف ان بھائیوں سے ہی کیوں ۔ ؟ کیا آپ کو یاد نہیں ہے کہ ہم نعرے لگاتے رہے کہ ہمیں ایک ایسی ریاست چاہیے جہاں ہر شخص کو اظہار کی آزادی ہو ۔ اور اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی ہم نے فیض احمد فیض کے اظہار پر پابندی لگا دی ۔ جب تک اقتدار ہمارے پاس نہیں تھا ۔ جب تک ہماری ریاست نہیں تھی تب تک ہمیں اظہار کی آزادی چاہیے تھی ۔ اور جیسے ہی یہ کرسی ہمیں نصیب ہو گئی تو اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی ہم نے اپنے گندمی جسم کا دل '' فرنگی'' کر لیا ۔ اور جب وقت بدلا تو ہم نے اسی فیض احمد فیض کو اپنی کتابوں میں سنسر کے ساتھ پڑھانا شروع کر دیا ۔ کیا برا ہے اگر'' کرسی والوں'' کے خیالات کرسی بدلنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ تو کوئی بات نہیں یہ تو ہمارا ریکارڈ ہے ۔
کیا یہ بات کسی سے ڈھکی چھُپی ہے کہ عوام کے غم میں نڈھال کس طرح سے سیاستدانوں کو لگام دینے کا نعرہ لگایا گیا تھا ۔ عوام باری لگانے والے سیاستدانوں سے پریشان تھے ۔ اور کیسے عوامی پاکستان بنانے کا عزم کرنے والے ایوب خان نے اپنی کابینہ انھیں سیاست دانوں سے بھر دی تھی ۔
وہ بار بار اپنی نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ سیاست دان بس اپنی کرسی سے چپک کر رہنا چاہتے تھے ۔ اور پھر کیا ہوا ۔ مارشل نے کرسی پر بیٹھنے کے بعد سیاسی لوگوں کی روش کو ترک کر دیا یا پھر اُسے اور طاقت کے ساتھ گلے لگا لیا ۔؟یہ لوگ فن کار ہیں ۔ان کے ذمے جو کردار دیا جائے اُس کو بھرپور طور پر نبھاتے ہیں ۔ جب اپوزیشن میں ہوں تو آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ جیسے ہر مظاہرہ کرنے والا ان کا ساتھی ہے ۔ اور تمام مظاہرہ کرنے والے لوگ حق کی کھُلی کتاب ہیں ۔ مگر جوں ہی ان کو ڈائریکٹر صاحب نئی کرسی دے دیتے ہیں ۔ تو یہ بادشاہوں اور شہنشاہوں کا بھی ریکارڈ توڑ دیتے ہیں ۔
جس آمریت کے خلاف بھٹو نے آواز لگائی تھی ۔ گلی گلی جا کر لوگوں کو بتایا تھا کہ اب وہ جاگ چکے ہیں ۔ انھیں اب اقتدار سے کوئی دور نہیں رکھ سکتا ۔ وہ ہی بھٹو جو مزدوروں کی طاقت سے اقتدار میں آتے ہیں ۔ انھیں کی حکومت میں مزدوروں پر گولی چل جاتی ہے ۔ یہ معراج محمد خان جنھیں بھٹو اپنا سیاسی جانشین کہتے تھے ۔ اسی معراج محمد خان کو مزدورں کی آواز بننے کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے ۔ وہ حسین نقی جو صحافت سے لے کر سڑکوںتک بھٹو کا ساتھ دیتے ہیں ۔انھیں عبرت کا نشان بنانے کی ٹھان لی جاتی ہے ۔ اور یہ دونوں تو اب بھی گواہی دینے کے لیے اس دنیا میں سانسیں لے رہے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ کی حکومت کا کیا قصور ہے۔ یہ تو وہی کر رہے ہیں جو اس کرسی کی ڈیمانڈ ہیں ۔
پھر کیا ہوا ۔ ؟ بھٹو نے جب اظہار پر پابندی لگائی تو ایک '' مرد مجاہد '' آگیا ۔ جو ضیاء کا نام لے کر بھی تاریکی تھا۔ جس نے اپنے پچھلوں سے سبق سیکھتے ہوئے وہ ہی کیا جو اس کرسی پر بیٹھے ہر شخص کو کرنا چاہیے تھا ۔ یہ ''مرد مجاہد'' تو سب کو مات دے گیا ۔ جو کام چھپ کر کیے جاتے تھے انھیں سر عام کرنے پر فخر محسوس کیا گیا ۔ مجمع لگا کے لوگوں کی چمڑیاں ادھیڑی گئیں ۔ اُسے فخر کے ساتھ دکھایا گیا کہ دیکھو میں کسی سے کم نہیں ہوں ۔
جو رہی سہی آزادی باقی تھی اُس کو ملیامیٹ کر دیا ۔ ایک نئے پاکستان کا تحفہ دیا گیا جہاں صرف خوف ہے ۔ اور اس کے سائے ہماری آنے والی نسلوں تک کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ میں اُسی دور کی بات کر رہا ہوں جسے جالب نے لکھا ہے ۔ میں اُسی وقت کی بات کر رہا ہوں ۔ جب آج کے وزیر اعظم نے سیاسی کرسی سنبھالی تھی ۔ اُسی ضیاء کے جانے کے بعد یہ نوید دی گئی تھی کہ شاید اب ہمارا آج بدل جائے ۔ لیکن ہوا کیا نہ آج بدلا نہ کل بدلنے کی کوئی امید ہے ۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا صرف ہمارے یہاں ہی کرسی بدلنے سے شخصیت بدل جاتی ہے یا پھر دنیا بھر میں یہ ہی ہوتا ہے۔ کیا ہمارے لوگ ایسے ہیں یا پھر اس کرسی کا کمال ہے کہ وہ لوگوں کو بدل دیتی ہے۔ یہ اوباما صاحب تھے۔ جن کی آمد پر ہمارے یہاں کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے اور فخر سے فرما رہے تھے کہ اب امریکا بدل جائے گا کیونکہ وہاں ایک ایسا شخص کرسی پر بیٹھ گیا ہے جس کے نام کے درمیان میں حسین آتا ہے اور جس کا باپ بھی مسلمان تھا ۔ وہ کرسی کو بدل کر رکھ دے گا لیکن اس مجاہد نے بھی وہ ہی کیا جہاں بش چھوڑ کر گیا تھا ۔
کہتے تھے کہ اس کے آنے کے بعد اب کرسی مزاج بدلے گی اور دیکھیے گا کہ اب امریکا افغانستان سے چلا جائے گا ۔ عراق میں ہر طرف امن کی بانسری بجے گی۔کچھ لوگ تو اتنے جذباتی تھے کہ فورا جیب سے نکال کر اُسے امن کا نوبیل انعام بھی دے دیا ۔ مجھ جیسے چھوٹے دل کے لوگ خوش تھے کہ چلو اب تبدیلی آہی جائے گی ۔ لیکن شام ، لیبیا ، مصر نے میرا ذہن پختہ کر دیا کہ مسئلہ کرسی میں ہی ہے۔ اب چاہے یہ پاکستان میں ہو یا امریکا میں، یہ ہی لوگوں کو بگاڑ دیتی ہے۔ ورنہ تو یہ سب لوگ دودھ کے دھلُے ہوئے ہیں ۔
یاد نہیں ہے آپ کو ایک صاحب اپنا سینہ چوڑا کر کے کہا کرتے تھے کہ میں نہیں میری کرسی بہت مضبوط ہے ۔ اور پھر کیا ہوا کرسی جیسے ہی ہٹا لی گئی تو زمین بھی کھسک گئی ۔ ایسی ہی خوش فہمی تو فرعون سے لے کر ہٹلر تک سب کو تھی ۔ مگر اس کرسی نے کس کے ساتھ وفا کی ہے ۔ تو پھر آپ کو کیوں یہ گمان ہے کہ یہ کرسی میرے ساتھ رہے گی ۔
دور کی بات نہیں کرتا ۔ جب اسلام آباد کے ڈی چوک پر ''وی'' کا نشان بنا کر اپنی وکٹری بتائی جا رہی تھی اُس وقت کرسی کے سارے پائے ایک ایک کر کے کیوں لرز رہے تھے ۔ اُس وقت آپ کو ان لوگوں کی سیاسی ضرورت کیوں پڑی تھی جن پر اس وقت آپ سیاسی احتجاج کا الزام لگا رہے ہیں ۔ احتجاج، دھرنے ، مظاہرے یہ سب تو ہوتے ہی سیاسی ہے ۔ ڈی چوک والوں کو آپ سیاسی نہیں کہہ رہے تھے ۔وہاں بھی آپ کو ایک سازش محسوس ہو رہی تھی ۔ یہاں بھی آپ کو ایک سازش کی بُو آ رہی ہے۔ مگر میری الجھن کچھ اور ہے ۔
ڈی چوک والی قسط میں ایسا کیا تھا کہ کرسی کے پائے لرز رہے تھے ۔ آپ کی سوچ یہ تھی کہ کرسی ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے ۔ ایسا کیا تھا کہ آپ عوام سے جڑ کر رہنا چاہتے تھے ۔ ایسی کیا بات تھی کہ آپ کو سیاسی لوگوں کی ضرورت تھی ۔ اور اب چلنے والی قسط میں کیا فرق آیا ہے ۔ آپ کو کس نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ آپ کی کرسی کے پائے لرز نہیں رہے ہیں۔اب آپ کو یہ خیال کیوں آیا ہے کہ کرسی ہمیشہ رہنے والی ہے ۔ ایسا کیا ہوا ہے کہ جن سیاسی لوگوں کو اکٹھا کر کے آپ نے ڈی چوک کا میلہ ختم کیا تھا ۔
وہ ہی سیاسی لوگ آپ کو برے لگنے لگے ہیں ۔ معاملہ کچھ اور ہے ۔ میں چھوٹا آدمی ہوں ۔ سمجھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ پچھلے دوست وفادار تھے یا نئے دوستوں میں کوئی جفا نہیں کرے گا ۔ ایک سال میں دوست اور دشمن بدل چکے ہیں ۔ مگر معلوم نہیں کیوں مجھے شک ہو رہا ہے کہ بات اتنی سیدھی نہیں ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ آپ اپنی کرسی کو پکڑے رکھیں۔ ہم یہ ڈھونڈتے ہیں کہ آستین میں سانپ کون پال رہا ہے ۔اور خنجر کس کی پیٹھ میں لگنے والا ہے ۔