خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں اضافہ ماہانہ 500سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری
خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی،جلد بازی میں کی گئی کورٹ میرج اور فرسودہ روایات بھی شامل ہے.
خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، فیملی عدالتوں سے ماہانہ 500سے زائد خلع کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں۔
ایک ہزار خواتین خلع کیلیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جبکہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6ہزارمقدمات زیر التوا ہیں، خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی، جلد بازی میںکی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے، تفصیلات کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے پانچوں اضلاع کی 10 فیملی عدالتوں میں ماہانہ ایک ہزار سے زائد خواتین خلع کیلیے رجوع کررہی ہیں۔
جبکہ 5 سو سے زائد خواتین کو خلع کی ڈگری جاری ہورہی ہیں، عدالتی ذرائع کے مطابق ضلع شرقی کی جج زبحیہ خٹک اور یوسف ملک کی دو فیملی عدالتوں میں 2800کے قریب فیملی کیس زیرسماعت ہیں، ضلع ملیر جج عبدالقیوم اور فتح مبین کی عدالتوں میں 594سے زائد مقدمات ، ضلع غربی کو عدالت نمبر 8اور 10 میں 1800 کے قریب فیملی مقدمات زیر التوا ہیں،جنوبی کی ججزعالیہ انور سمیت 2 عدالتوں میں 1200 دعوے زیر سماعت ہیں ،ضلع وسطی کی عدالتوں میں بھی تقریباً 1500 سے زائد مقدمات زیرسماعت ہیں، ان زیر سماعت اور خلع حاصل کرنیوالی خواتین کی زیادہ تر تعداد نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کیا اورکورٹ میرج کی تھی، انھیں دونوں گھرانوں نے قبول نہیں کیا، انھیں گھر سے فرار ہونے کے طعنوں کا سامناکرنا پڑا، شوہر کی جانب سے بے رخی اور جھوٹ پر مبنی وعدوں کی قلعی کھل گئی تھی۔
ابراہیم حیدری کی رہائشی مسماۃ روزینہ کا عدالت میں کہنا تھا کہ اس کی شادی ایک برس قبل جمال سے ہوئی تھی جلد ہی اس کے رویے میں تبدیلی آگئی تھی اور مارپیٹ کرنا اس نے اپنا وطیرہ بنالیا تھا، بلاآخر وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگیا اور دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا جس پر اس نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع حاصل کرلی، مسماۃ صفیہ نے استدعا کی تھی کہ اس کی شادی دس برس قبل لطیف سے ہوئی تھی اور وہ اسے لودھراں لے گیا تھا لیکن اس کے اہل خانہ نے اسے بہو قبول نہیں کیا، وہ عزت اور محبت نہیں دی جو ایک بیٹی کو دی جانی چاہیے تھی ،مختلف اوقات میں اسے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا، ظلم سے تنگ آکر واپس کراچی آنا پڑا اور ملیر کی عدالت سے خلع حاصل کی۔
روشن بی بی نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی شادی 22برس قبل پولیس افسر چنگیز خان سے ہوئی تھی، اس دوران 5 بچے بھی ہوئے اس عرصے میں شوہر کے رویے سے تنگ آکر پہلے دومرتبہ خلع لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن مصالحت ہونے پر واپس لیا ، بعدازاں 2004 میں اس نے اس کی مرضی کے خلاف بغیر اجازت سونیا نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی تھی اور اسے علم ہونے پر جھوٹ بولا اور کہا کہ اس نے دوسری اہلیہ کو طلاق دے دی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا، بعدازاں اس نے بچوں کے اخراجات بھی بند کردیے تھے ۔
ایسے حالات میں خودکشی کو ترجیح دینے سے بہتر خلع کو دی اور خلع حاصل کرلی، رحیم یار خان کی رہاشی مسماۃ فرزانہ کا کہنا تھا کہ اس کی شادی اس کے والدین نے وٹہ سٹہ کے تحت کی، اس کے شوہر کی بہن کو اس کے بھائی سلیم نے گھریلو ناچاقی کے باعث طلاق دی تو اس کے شوہر نے اپنا رویہ بدل لیا اور مار پیٹ کرنے لگا اور اس کے والدین نے شوہر سے خلع لینے پر زور دیا جس پر خلع داخل کیا ہے، بہاول پور کی رہائشی مسماۃ طاہرہ نے خلع کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی شادی والدین نے اس کی مرضی کے خلاف وسیم سے کی تھی۔
جسے اس نے والدین کی خوشی کی خاطر وقتی طور پر قبول کیا تھا لیکن شوہر کو اس بات کا علم ہونے پر تہمت لگانی شروع کردی تھی، بلاآخر اس سے نجات حاصل کرنے کیلیے آسان راستہ اختیار کیا اورخلع کی درخواست دائر کردی،عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میں دس سے زائد خواتین خلع کیلیے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج ،جبری شادی کرنیوالی خواتین کی ہیں دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کررہی ہیں۔
ایک ہزار خواتین خلع کیلیے عدالتوں سے رجوع کرتی ہیں جبکہ پانچوں اضلاع کی فیملی عدالتوں میں تقریباً 6ہزارمقدمات زیر التوا ہیں، خلع لینے کی وجوہات میں جبراً شادی، جلد بازی میںکی گئی کورٹ میرج اور معاشرے کی دیگر فرسودہ روایات کے ساتھ ساتھ خواتین کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرنا بھی شامل ہے، تفصیلات کے مطابق خواتین میں خلع لینے کے رجحان میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے پانچوں اضلاع کی 10 فیملی عدالتوں میں ماہانہ ایک ہزار سے زائد خواتین خلع کیلیے رجوع کررہی ہیں۔
جبکہ 5 سو سے زائد خواتین کو خلع کی ڈگری جاری ہورہی ہیں، عدالتی ذرائع کے مطابق ضلع شرقی کی جج زبحیہ خٹک اور یوسف ملک کی دو فیملی عدالتوں میں 2800کے قریب فیملی کیس زیرسماعت ہیں، ضلع ملیر جج عبدالقیوم اور فتح مبین کی عدالتوں میں 594سے زائد مقدمات ، ضلع غربی کو عدالت نمبر 8اور 10 میں 1800 کے قریب فیملی مقدمات زیر التوا ہیں،جنوبی کی ججزعالیہ انور سمیت 2 عدالتوں میں 1200 دعوے زیر سماعت ہیں ،ضلع وسطی کی عدالتوں میں بھی تقریباً 1500 سے زائد مقدمات زیرسماعت ہیں، ان زیر سماعت اور خلع حاصل کرنیوالی خواتین کی زیادہ تر تعداد نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کیا اورکورٹ میرج کی تھی، انھیں دونوں گھرانوں نے قبول نہیں کیا، انھیں گھر سے فرار ہونے کے طعنوں کا سامناکرنا پڑا، شوہر کی جانب سے بے رخی اور جھوٹ پر مبنی وعدوں کی قلعی کھل گئی تھی۔
ابراہیم حیدری کی رہائشی مسماۃ روزینہ کا عدالت میں کہنا تھا کہ اس کی شادی ایک برس قبل جمال سے ہوئی تھی جلد ہی اس کے رویے میں تبدیلی آگئی تھی اور مارپیٹ کرنا اس نے اپنا وطیرہ بنالیا تھا، بلاآخر وہ اسے چھوڑ کر فرار ہوگیا اور دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کیا جس پر اس نے عدالت سے رجوع کیا اور خلع حاصل کرلی، مسماۃ صفیہ نے استدعا کی تھی کہ اس کی شادی دس برس قبل لطیف سے ہوئی تھی اور وہ اسے لودھراں لے گیا تھا لیکن اس کے اہل خانہ نے اسے بہو قبول نہیں کیا، وہ عزت اور محبت نہیں دی جو ایک بیٹی کو دی جانی چاہیے تھی ،مختلف اوقات میں اسے طعنوں کا سامنا کرنا پڑا، ظلم سے تنگ آکر واپس کراچی آنا پڑا اور ملیر کی عدالت سے خلع حاصل کی۔
روشن بی بی نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی شادی 22برس قبل پولیس افسر چنگیز خان سے ہوئی تھی، اس دوران 5 بچے بھی ہوئے اس عرصے میں شوہر کے رویے سے تنگ آکر پہلے دومرتبہ خلع لینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن مصالحت ہونے پر واپس لیا ، بعدازاں 2004 میں اس نے اس کی مرضی کے خلاف بغیر اجازت سونیا نامی خاتون سے دوسری شادی کرلی تھی اور اسے علم ہونے پر جھوٹ بولا اور کہا کہ اس نے دوسری اہلیہ کو طلاق دے دی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا، بعدازاں اس نے بچوں کے اخراجات بھی بند کردیے تھے ۔
ایسے حالات میں خودکشی کو ترجیح دینے سے بہتر خلع کو دی اور خلع حاصل کرلی، رحیم یار خان کی رہاشی مسماۃ فرزانہ کا کہنا تھا کہ اس کی شادی اس کے والدین نے وٹہ سٹہ کے تحت کی، اس کے شوہر کی بہن کو اس کے بھائی سلیم نے گھریلو ناچاقی کے باعث طلاق دی تو اس کے شوہر نے اپنا رویہ بدل لیا اور مار پیٹ کرنے لگا اور اس کے والدین نے شوہر سے خلع لینے پر زور دیا جس پر خلع داخل کیا ہے، بہاول پور کی رہائشی مسماۃ طاہرہ نے خلع کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ اس کی شادی والدین نے اس کی مرضی کے خلاف وسیم سے کی تھی۔
جسے اس نے والدین کی خوشی کی خاطر وقتی طور پر قبول کیا تھا لیکن شوہر کو اس بات کا علم ہونے پر تہمت لگانی شروع کردی تھی، بلاآخر اس سے نجات حاصل کرنے کیلیے آسان راستہ اختیار کیا اورخلع کی درخواست دائر کردی،عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ فیملی عدالتوں میں دس سے زائد خواتین خلع کیلیے رجوع کرتی ہیں جن میں زیادہ تعداد کورٹ میرج ،جبری شادی کرنیوالی خواتین کی ہیں دیگر شوہر کے ظلم سے تنگ آکر رجوع کررہی ہیں۔