اوباما اور رومنی میں کانٹے کا مقابلہ 2000کے الیکشن کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے ماہرین

غیرجانبدار ووٹر 46،46 فیصد پر منقسم ، نئے صدر کے اعلان میں ایک ہفتے کی تاخیر بھی ہوسکتی ہے، ماہرین

مختلف ریاستوں میں ووٹنگ جاری، گنتی کا عمل منگل تک مکمل ہونے کا امکان ہے فوٹو : فائل

امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل جاری ہے اور موجودہ صدر بارک اوباما اور ان کے حریف مٹ رومنی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔

کون سپر پاور کا نظام حکومت چلانے کی ذمے داری سنبھالے گا؟ اس بارے میں کوئی بھی حتمی بات نہیں کہہ سکتا لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکی الیکشن پر دنیا بھر کے لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ ری پبلکن امیدوار مٹ رومنی آئیووا، اوہائیو، پین سلوینیا اور ورجینیا میں مہم چلا رہے ہیں جبکہ بارک اوباما نیوہیمپشائر، فلوریڈا، اوہائیو اور کولوراڈو کا رخ کر رہے ہیں۔ اے بی سی اور واشنگٹن پوسٹ کے مشترکہ سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں امیدواروں کو 48،48 فیصد رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہے۔ متذبذب ووٹروں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روزانہ متعدد اہم اور فاتح گر ریاستوں کے دوروں کے باعث صدر اوباما اور مٹ رومنی دونوں پر تھکاوٹ کے اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔

مقابلہ اتنا سخت ہے کہ کہیں سے بھی فتح کا دعویٰ یا جیت کی پیش گوئی کی آوازیں نہیں آرہیں۔ دونوں امیدواروں نے الیکشن کی مقررہ تاریخ سے قبل آخری دنوں میںمٹ رومنی اور اوباما نے اپنے حامیوں اور عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور کررہے ہیں۔ سابق صدر بل کلنٹن بھی اوباما کی مدد کیلئے میدان میں اتر آئے ہیں،صدر اوباما نے ورجینیا کے شہر برسٹوو میں24ہزار لوگوں کے مجمع کو بتایا کہ اب انتخابی مہم کی منصوبہ بندی کا وقت ختم ہو گیا ہے، اب طاقت ہمارے پاس نہیں رہی، اب منصوبہ بندی وغیرہ سے فرق نہیں پڑتا،اب سب کچھ آپ پر اور رضاکاروں پر منحصر ہے۔

جمہوریت کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ مٹ رومنی کو موقع نہ دیں کہ وہ امریکہ کو دوبارہ ایسے دور کی طرف لے جائیں جب وال سٹریٹ جو جی چاہے کرتی تھی۔ دوسری طرف نیوہیمپشائر میں اپنی مہم کے دوران مٹ رومنی نے صدر اوباما کی اس بات پر تنقید کی کہ ری پبلکن پارٹی سے بہترین انتقام ووٹنگ ہے۔ انہوں نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ ہم امریکہ کوبہتر مقام پر لے کر جائیں۔ ہم اس وقت بہت قریب ہیں، روشن مستقبل کا دروازہ ہمارے سامنے ہے۔تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ موجودہ امریکی الیکشن کے حتمی نتیجے میں مزید ایک ہفتہ بھی لگ سکتا ہے۔


دوسری جانب ریاست اوہائیو کی ینگز ٹائون یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنسز ڈپارٹمنٹ کے پال سریسک کی رائے یہ بھی ہے کہ اوباما اور مٹ رومنی کا معرکہ انتہائی کانٹے کا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ان انتخابات کا فیصلہ بھی جج کریں۔ وہائٹ ہائوس میں آئندہ چار سال قیام کے لئے دونوں امیدواوں کو کم ازکم دوسوستر الیکٹورل ووٹوں کی ضرورت ہے، دونوں امیدواروں کیلئے سب سے بڑا چیلنج غیر جانبدار اور متذبذب ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ کچھ سروے رپورٹس کے مطابق تقریبا 9ریاستوں میں بارک اوبامہ کو معمولی برتری حاصل ہے، یہ وہ ریاستیں ہیں جو صدارتی الیکشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

مٹ رومنی اور بارک اوباما کی جانب سے مختلف ریاستوں کے دورے اور خطاب اب آخری مراحل میں ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں امیدوار اپنے تجربے کے زریعے جو کچھ کرسکتے تھے، کرچکے، اب گیند عوام کے کورٹ میں ہے۔ اس وقت دونوں امیدواروں کو سب سے زیادہ تشویش یہ ہے کہ کہیں 2000کی تاریخ نہ دہرادیجائے جب ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش پاپولر ووٹ میں تو شکست کھاگئے لیکن انہوں نے اپنے حریف ڈیموکریٹس کے ایل گور کو الیکٹورل کالج ووٹوں سے ہرادیا تھا، ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا وہ عمل ڈیموکریٹس کے لیے اب بھی ایک بھیانک خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس الیکشن کا حتمی نتیجہ بھی کئی ہفتوں کے بعد آیا تھا، اب 2012 میں ماہرین کا خیال ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ ووٹوں کی دوبارہ گنتی ہوسکتی ہے جو یقینی طور پر صدارتی امیدوار کے تعین میں اہم کردار ادا کرینگے۔ اتوار کے دن اے بی سی نیوز اور واشنگٹن پوسٹ کے مشترکہ سروے میں دونوں امیدواروں کو 48،48 فیصد حمایت حاصل ہوئی ہے، یہی نہیں بلکہ غیر جانبدار ووٹر بھی 46، 46 فیصد پر منقسم ہیں۔ رومنی سفید فام، معمر اور مذہبی لوگوں میں جبکہ اوباما عورتوں، غیر سفید فاموں اور نوجوانوں میں زیادہ مقبول ہیں۔ آئی این پی کے مطابق اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے حوالے سے بنائی گئی فلم صدارتی انتخابات سے دو روز قبل اتوار کو ریلیز ہوگئی ،جسے امریکی میڈیا خاصی کوریج دے رہاہے۔ ماہرین کے مطابق اوباما کو دوبارہ صدارتی انتخابات جتوانے کے لئے فلم کواہم حربے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے ۔

اس سے انھیں مزید عوامی حمایت حاصل ہوگی اوروہ آسانی سے صدارتی انتخابات جیت جائیںگے۔ فلم ''سیل ٹیم سکس، دی ریڈ آن اسامہ بن لادن'' اوباما کی انتخابی مہم میں بڑی فنڈ ریز رکمپنی وین سٹین اور وولٹیج پکچرز کی جانب سے نیشنل جیو گرافک چینل پرآن ائیرکردی گئی۔ فلم کے ہدایتکار جان سٹاک ویل ہیں جبکہ فلم کا دورانیہ 90منٹ ہے ۔ جان سٹاک ویل امریکی صدارتی انتخابات سے دو روز قبل اس فلم کو ریلیز کرکے بہت بڑا مالی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر ریلیز سے فلم ہٹ ہوجائیگی اور بڑا بزنس کریگی۔ دوسری جانب پاکستانی مبصرین نے کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وائٹ ہائوس اس فلم کا سب سے بڑا سپانسر ہے اورشوٹنگ سے پہلے یقینی طور پر وائٹ ہائوس نے سکرپٹ فراہم کیا ہوگا۔ فلم کے ڈائریکٹر جان سٹاک ویل نے ان خبروں کو مسترد کردیا کہ فلم اوباما کو انتخابات جتوانے کیلئے دو روز قبل ریلیز کی جارہی ہے۔

فلم کا سکرپٹ اس مقصد کیلئے لکھا گیا نہ اس کیلئے عکس بندی کی گئی، فلم سامنے آنے سے لوگوں کو معلومات فراہم کرنے میں مدد ملے گی کہ اسامہ کو آپریشن کے دوران کیسے ہلاک کیا گیا۔ اِدھر وسکونسن کے شہر ملواکی میں اوباما کی ریلی میں پاپ سٹار کیٹی پیری نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی شاندارپرفارمنس کے ذریعے لوگوں کو ووٹ دینے کی ترغیب دی ۔ اُدھر واشنگٹن کی سڑکوں پر ہر سائز اور مختلف شکلوں کی کٹھ پتلیاں مارچ کرتی نظرآئیں۔ مشہورکرداروں کے ماسک پہنے لوگ ناچتے گاتے رومنی کی پبلک براڈکاسٹنگ سروس کے فنڈزمیں کٹوتی سے متعلق بیانات پرانوکھا احتجاج کررہے تھے۔

Recommended Stories

Load Next Story