دہشت گردی سامراجی ملکوں کی سازش

دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو غیر متوقع واقعات اور تحریکوں کے پس منظر اور محرکات پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہوں۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

KARACHI:
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو غیر متوقع اور حیرت انگیز واقعات اور تحریکوں کے پس منظر اور محرکات پر غور کرنے کی زحمت کرتے ہوں، اس کے برخلاف سامراجی ملکوں میں ایسے بے شمار لوگ اور ادارے موجود ہیں جن کی نظریں تبدیلیوں ان کے محرکات اور ان کے نتائج پر لگی ہوتی ہیں، یہ کوئی خود رو عناصر نہیں بلکہ بڑے نظم و ضبط بڑی منصوبہ بندیوں سے تشکیل پانے والے اور بامقصد عناصر ہیں۔

دنیا میں جاگیردارانہ نظام کے بعد جس نظام نے اس کی جگہ لی ہم اسے سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ نظام اپنے نام ہی سے ایک ایسے طبقے کا نام لگتا ہے جو دنیا کی 80 فیصد سے زیادہ دولت پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے، ظاہر ہے جس نظام کی تباہیوں سے 90 فیصد سے زیادہ عوام متاثر ہوتے ہوں اس کی حفاظت کرنا آسان کام نہیں۔

اس نظام کے سرپرستوں نے انتہائی عیاری سے قانون اور انصاف کا ایک ایسا نظام رائج کیا جسے بظاہر عوام کے حقوق کا محافظ قرار دیا گیا لیکن ذرا سنجیدگی اور گہرائی سے اس عوامی حقوق کے تحفظ کے نظام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ نظام اپنی فطرت اور اصل میں عوام کو کس کر رکھنے کا ایک ایسا مضبوط شکنجہ ہے جو صرف اور صرف سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ غریب آدمی زندگی بھر اس کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے اور تھک ہار کر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے لیکن قانون اور انصاف ہمیشہ اس کی پہنچ سے دور رہتا ہے۔

اس قسم کے ظالمانہ اور وحشیانہ نظام سے جس کی زد میں آنے والے لاکھوں غریب بھوک پیاس تعلیم اور علاج معالجے سے محروم رہتے ہیں، ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کہیں یہ 90 فیصد مظلوم اس طبقاتی ظلم کے خلاف ہتھیار نہ اٹھا لیں، 1989ء کے انقلاب فرانس نے ان وحشیوں کو اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے نظام کی بقا اور حفاظت کے لیے بے شمار طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں، اپنی اور اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لیے اس طبقے نے جو سب سے زیادہ موثر اور طاقتور ذریعہ تلاش کیا ہے، وہ ہے ریاست اور اس کی مشینری۔ حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پوری مشینری کو عوام کے خون پسینے کی کمائی سے چلایا جاتا ہے۔

دولت کی ہوس کی اس نظام میں کوئی انتہا نہیں ہوتی ارتکاز زر کے اس نامنصفانہ اور شیطانی نظام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے لامحدود نجی ملکیت کے حق کو ہر ملک کے آئین کا بنیادی حصہ بنا دیا گیا، جب عوام کی محنت سے کمائی ہوئی اس دولت کے خلاف اس نظام زر کی ناانصافیوں کے خلاف عوامی بغاوت کا خطرہ پیدا ہوتا ہے تو اس نظام کے دلال مفکر فلسفی دانشور ماہرین معاشیات ماہرین نفسیات عوام کے غصے عوام کی نفرت عوام کے اشتعال کا رخ موڑنے کے لیے کوئی ایسا معنوی خطرہ کھڑا کر دیتے ہیں کہ عوام کی توجہ فطرتاً طبقاتی نظام کی طرف سے ہٹ جاتی ہے۔


اس ظالمانہ نظام نے جب سے گلوبلائزیشن کا چولا زیب تن کیا ہے، اس کی قہاری میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے اور دنیا بھر میں اس کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں کے لیے سخت تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سو انھوں نے دنیا کے 7 ارب غریب عوام کی توجہ اس نظام ظلم سے ہٹانے کے لیے دہشت گردی اور خودکش حملوں کا وہ تیر بہدف نسخہ ایجاد کیا، جو دنیا بھر کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ دہشت گردی کو مذہبی انتہاپسندی کا نام دے کر دنیا بھر کے غریب عوام کو اس طرح خوف زدہ کر دیا گیا کہ ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگا اور اس کی توجہ طبقاتی مظالم سے ہٹ کر اپنی بقا کی طرف مبذول ہو گئی۔

یہ انتہاپسندی یا دہشت گردی کوئی اچانک جنم لینے والی تحریک نہیں بلکہ اس کا باضابطہ آغاز روس کو افغانستان سے نکالنے کے امریکی جہاد سے ہوا اس کی قیادت کرنے والے لوگ ہی آج کی مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے اہم کردار ہیں۔ دلچسپ بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہی ملک جنھوں نے دہشت گردوں کو جنم دیا، پالا پوسا، بڑا کیا، آج دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے سب سے بڑے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ بعض اوقات سپیروں کو سانپوں سے خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، ان کی بین بے اثر ہو جاتی ہے۔ 9/11 کا حادثہ سانپوں کی وہ بغاوت بن گیا جس نے سپیروں کو ہلا کر رکھ دیا۔

سانپوں کا یہی خوف سپیروں کو عراق اور افغانستان لے گیا۔ اگرچہ انتہاپسندی کا چوغہ اوڑھے ہوئے یہ سانپ بظاہر سپیروں سے برگشتہ نظر آتے ہیں لیکن سپیروں نے ان سے جو کام لینا تھا، وہ لے لیا۔ ساری دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹ گئی اور دہشت گردی کی طرف مبذول ہو گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی یہ اتنی بڑی خدمت ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔

مذہبی انتہاپسند اور دہشت گردوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا بھر میں اسلامی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس فریب کا بھانڈا اس وقت پھوٹ جاتا ہے جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ دہشت گردی کا شکار مسلمان اور مسلم ممالک ہی ہو رہے ہیں۔ مسلمان مردوں، عورتوں حتیٰ کہ معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل اور ذبح کیا جا رہا ہے، مسجدوں، مدرسوں اور بزرگوں کے مزاروں کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے۔

مسلمان حیران ہیں کہ یہ کیسا اسلامی نظام ہے جس میں مسلمان ہی قتل ہو رہے ہیں؟ اس مکروہ سازش کو بدنام ہونے اور آشکار ہونے سے بچانے کے لیے مغربی ملکوں میں بھی ایک آدھ دھماکا کر دیا جاتا ہے جب کہ مسلم ملک قتل گاہیں بنے ہوئے ہیں۔ صرف پاکستان میں 50 ہزار سے زیادہ مسلمان شہید ہو چکے ہیں، عراق، شام، یمن اور افریقہ کے کئی مسلم ملک اس قہاری کا شکار ہیں۔

اسرائیل کو مسلمانوں خصوصاً فلسطینیوں اور عربوں کا سب سے بڑا دشمن مانا جاتا ہے، لوگ بجا طور پر حیران ہیں کہ مسلمانوں اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن مسلم انتہا پسندوں کی نظروں سے کیوں اوجھل ہے۔ بلاشبہ سرمایہ داروں کے اور سرمایہ داروں کے سرپرستوں کے منصوبے کامیاب ہو رہے ہیں اور دنیا کے عوام سرمایہ دارانہ نظام کی سفاکیوں کو بھول کر اس بے لگام دہشت گردی سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جلد یا بدیر اس ظالمانہ طبقاتی نظام کے خلاف دنیا بھر کے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے، پھر نہ دہشت گرد اسے بچا سکیں گے، نہ مذہبی انتہاپسند اسے بچا سکیں گے۔
Load Next Story