یہ تماشے آخر کب تلک
وفاقی حکومت اور ملازمین کے درمیان حالیہ تنازع نے بستر مرگ پر پڑی قومی ایئرلائن کو مزید حالت نزع میں مبتلا کر دیا ہے۔
KARACHI:
وفاقی حکومت اور ملازمین کے درمیان حالیہ تنازع نے بستر مرگ پر پڑی قومی ایئرلائن کو مزید حالت نزع میں مبتلا کر دیا ہے۔ منگل کو دو کارکنوں کی پراسرار گولیوں سے ہلاکت کی وجہ سے حالات انتہائی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ فضائی سروس معطل ہو جانے کے باعث روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، مگر تنازعہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ قومی ایئرلائن کا مسئلہ کیا ہے؟ اس موضوع پر جتنے منہ اتنی باتیں ہیں، جس کی وجہ سے مسئلہ الجھتا جا رہا ہے۔ بہت کم لوگ اس معاملہ کو حقیقت کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ مزید گنجلک ہو گیا ہے۔
قومی ایئرلائن 11 مارچ 1955ء کو وفاقی حکومت کے ایک حکم نامے کے ذریعے وجود میں آئی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی خواہش پر دو مسلم سرمایہ داروں احمد داؤد اور مرزا احمد اصفہانی کی سرمایہ کاری سے اکتوبر 1946ء میں کلکتہ میں رجسٹر ہونے والی اورینٹ ایئرلائن کو اس میں ضم کر دیا گیا۔ PIA کا سنہری دور 1959ء میں اس وقت شروع ہوا جب ایئر مارشل نور خان کو اس کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
اس زمانے سے جنرل ضیاء کے دور تک اس کا شمار دنیا کی دس بہترین ایئرلائنز میں ہوا کرتا تھا۔ مگر 1988ء سے 1999ء کے دوران قائم ہونے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے بغیر میرٹ اندھادھند تقرریاں کر کے اسے دو کلیدی نقصان پہنچائے۔ اول، نااہل اسٹاف کی بھرمار نے اس کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا۔ دوئم، ضرورت سے زیادہ اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعات کے بوجھ کے علاوہ ہر سطح پر کرپشن اور بدعنوانیوں نے مالیاتی خسارے سے دوچار کر دیا۔
پرویز مشرف کے دور میں ایئرلائن کو اس بحران سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جب کہ 2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ان تمام کارکنوں کو بحال کر دیا، جنھیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1997ء میں فارغ کیا تھا۔ ان تمام کارکنوں کو تین سال کے arrears ادا کیے گئے، جو کئی ارب کے قریب تھے اور جس کا بوجھ ایئرلائن کی ڈوبتی معیشت کو برداشت کرنا پڑا۔ عالمی معیار کے مطابق ایک جہاز کے لیے 150 افراد کا عملہ ہونا چاہیے، لیکن PIA میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جہاز کے لیے 650 افراد کا عملہ ہے، جو عالمی معیار کا تقریباً 5 گنا بنتا ہے۔
پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنے اپنے ادوار میں بھاری معاوضوں پر ایسے ماہرین کا تقرر کیا، جو قومی ایئرلائن کے معاملات سے قطعی ناواقف تھے۔ یہ ماہرین ایئرلائن کو تو نہ بچا سکے، مگر اس کے مالیاتی بوجھ میں مزید اضافے کا باعث بن گئے۔ یوں ایئرلائن پانچ برسوں کے دوران تقریباً دیوالیہ ہو گئی، جس پر تیل کمپنیوں اور جہازوں کی مرمت کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ دیگر واجبات کا بوجھ تقریباً 350 ارب تک جا پہنچا ہے۔ اس صورتحال میں لازمی بات ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اس کی نجکاری کے لیے دباؤ ڈالیں گے، تا کہ واجبات کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔
PIA کے حالیہ دلدل میں پھنسنے کا دوسرا سبب نجی ایئرلائنوں کا اندرون ملک اور بعض بین الاقوامی روٹس پر سروس شروع کرنا بھی ہے۔ ان میں سے کئی ایئرلائنوں نے سستی اور بروقت سروس مہیا کی، حالانکہ نجی ایئرلائنوں میں پیشہ ورانہ اہلیت کی کمی رہی ہے، جس کی وجہ سے دو ایئرلائنوں کو بھیانک حادثوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ خلیج کی چند ایئرلائنوں کو دن میں کئی پروازوں کی اجازت دی گئی، جس کی وجہ سے مسافروں کی اکثریت ان ایئرلائنوں کی طرف متوجہ ہونا شروع ہو گئی، جس سے PIA کے بزنس پر مزید منفی اثرات مرتب ہوئے۔
دنیا بھر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کاروباری نظام میں بعض اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ کاروباری حلقوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی توجہ اپنے مخصوص شعبہ پر مبذول رکھیں۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ شعبہ جات کو Outsource کرنے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً شکر بنانے کے ایک کارخانہ میں اب صرف شکر بنتی ہے۔ کارکنوں کی طبی سہولیات، ان کے کھانے پینے کا انتظام اور محافظین کا تقرر خود کرنے کے بجائے اسے Outsource کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کرنے کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں اور ادارہ دیگر جھنجھٹوں میں الجھنے سے بچ جاتا ہے۔
پاکستان کے پبلک سیکٹر اداروں میں مختلف شعبہ جات کو Outsource کرنے کا کوئی قابل ذکر کلچر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تصور پر بھی اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ادارے کو اونے پونے اپنے چہیتوں کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے۔ جس کا واضح ثبوت PTCL اور KESC کی نجکاری ہے۔
اگر حکومت کچن اور انجینئرنگ سمیت بعض ذیلی شعبہ جات کی Outsourcing کر کے اس ادارے کو پبلک پارٹنرشپ کے ذریعے چلانے کی کوشش کرے تو حالیہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایئرلائن کے ان ریٹائرڈ افسران اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں، جنھوں نے ایک طویل عرصہ اس میں گزارا ہے اور اس کے معاملات کے بارے میں واضح آگہی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایئرلائن کو حالیہ بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادار کر سکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، حکومت کی نیت کچھ اور ہے۔ یہی سبب ہے کہ قومی ایئرلائن کے حالیہ بحران پر وفاقی حکومت کے وزرا نے جو متکبرانہ طرز عمل اختیار کیا، اس کے نتیجے میں تناؤ میں اضافہ ہوا اور دو قیمتی جانوں کے زیاں کے علاوہ کروڑوں روپے روز کا نقصان ہو رہا ہے۔
غالب نے کہا تھا کہ ''ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے''۔ وطن عزیز میں تو ہر روز ہی تماشے سجتے رہتے ہیں، جو حکمران اشرافیہ کی غیر سنجیدگی، تدبر اور دوراندیشی سے عاری ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی اس روش کے باعث ملک کو درپیش مختلف نوعیت کے بحرانوں ہی میں اضافہ نہیں ہو رہا، بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات اور اکائیوں کے درمیان تضادات بھی مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے صاحب اقتدار اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کو معاشرے میں تیزی کے ساتھ ابھرنے اور گہرے ہونے والے تضادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
پاکستان میں ریاستی اداروں کو دانستہ طور پر اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ ان میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے، جس کی وجہ سے گورننس کی فرسودگی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کو اصل خطرہ بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی اشرافیائی کلچر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مخصوص گروہ سے ہے، جو اقتدار کے سنگھاسن پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اسی کارازرفتہ نظم حکمرانی کا شاخسانہ ہے کہ قومی وسائل پر مکمل دسترس اور تمام تر ریاستی طاقت کے باوجود موجودہ اشرافیائی نظام عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
اس سلسلے میں بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے جوزف کوہن کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا، جن کا کہنا ہے کہ ''ہوسکتا ہے کہ پاکستانی مقتدر اشرافیہ اتنی مضبوط ہو کہ وہ ریاست کو ناکام ہونے سے بچالے، لیکن اس میں اتنی بصیرت اور طاقت نہیں کہ وہ کوئی ایسی تبدیلی لا سکے، جو ریاست کی Transformation کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکے''۔ اس جائزہ سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے قیام کے وقت سے نظم حکمرانی کے جس بحران میں گرفتار ہو گئی تھی، حکمران اشرافیہ کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں اور ان پر تسلسل کے ساتھ اصرار کے نتیجے میں وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والے چھوٹے بڑے مسائل بحرانی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔
سرد جنگ کے بعد جب عالمی سطح پر دوررس تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں، تو ریاستی ڈھانچے کو Transform کیے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ کیونکہ ان تبدیلیوں کے براہ راست اثرات پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرتی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے پالیسی سازی کے طریقہ کار میں کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور اقتدار اعلیٰ پر قابض نااہل اور کرپٹ اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ اقتدار و اختیار کا بے جا و بے دریغ استعمال (Power Abuse) ہے، جو صاحب اقتدار و اختیار کو عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی پر اکساتا ہے۔ یہ روش اور رویہ بھی نظم حکمرانی کے بحران سے جڑا ایک اہم انتظامی معاملہ ہے۔ نظم حکمرانی کا یہ بحران دراصل کمزور حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ کمزور حکمرانی نے ملک میں جاری اشرافیائی نظام (Oligarchy) کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چونکہ ملک میں مقبول ووٹ حاصل کرنے والی بیشتر جماعتیں اسی اشرافیائی نظام کا حصہ ہیں، اس لیے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط بنانے پر متفق ہیں۔ انھی اشرافیائی قوتوں نے پاکستان میںایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ترتیب دیا ہے، جس میں صرف مراعات یافتہ طبقات کے لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔
چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ PIA یا اسٹیل مل سمیت کسی بھی پبلک ادارے کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور مسائل کا عوام دوست حل تلاش کرنے میں موجودہ حکومت کی نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی اس میں اہلیت ہے۔ یہ قومی اداروں کو اونے پونے بیچ کر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے، جو اس ملک اور اس کے عوام کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔
وفاقی حکومت اور ملازمین کے درمیان حالیہ تنازع نے بستر مرگ پر پڑی قومی ایئرلائن کو مزید حالت نزع میں مبتلا کر دیا ہے۔ منگل کو دو کارکنوں کی پراسرار گولیوں سے ہلاکت کی وجہ سے حالات انتہائی دگرگوں ہو چکے ہیں۔ فضائی سروس معطل ہو جانے کے باعث روزانہ کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے، مگر تنازعہ اپنی جگہ برقرار ہے۔ قومی ایئرلائن کا مسئلہ کیا ہے؟ اس موضوع پر جتنے منہ اتنی باتیں ہیں، جس کی وجہ سے مسئلہ الجھتا جا رہا ہے۔ بہت کم لوگ اس معاملہ کو حقیقت کی عینک سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ان کی شنوائی نہیں ہے، جس کی وجہ سے مسئلہ مزید گنجلک ہو گیا ہے۔
قومی ایئرلائن 11 مارچ 1955ء کو وفاقی حکومت کے ایک حکم نامے کے ذریعے وجود میں آئی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی خواہش پر دو مسلم سرمایہ داروں احمد داؤد اور مرزا احمد اصفہانی کی سرمایہ کاری سے اکتوبر 1946ء میں کلکتہ میں رجسٹر ہونے والی اورینٹ ایئرلائن کو اس میں ضم کر دیا گیا۔ PIA کا سنہری دور 1959ء میں اس وقت شروع ہوا جب ایئر مارشل نور خان کو اس کا منیجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔
اس زمانے سے جنرل ضیاء کے دور تک اس کا شمار دنیا کی دس بہترین ایئرلائنز میں ہوا کرتا تھا۔ مگر 1988ء سے 1999ء کے دوران قائم ہونے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے بغیر میرٹ اندھادھند تقرریاں کر کے اسے دو کلیدی نقصان پہنچائے۔ اول، نااہل اسٹاف کی بھرمار نے اس کی پیشہ ورانہ کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا۔ دوئم، ضرورت سے زیادہ اسٹاف کی تنخواہوں اور مراعات کے بوجھ کے علاوہ ہر سطح پر کرپشن اور بدعنوانیوں نے مالیاتی خسارے سے دوچار کر دیا۔
پرویز مشرف کے دور میں ایئرلائن کو اس بحران سے نکالنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جب کہ 2008ء میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے ان تمام کارکنوں کو بحال کر دیا، جنھیں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1997ء میں فارغ کیا تھا۔ ان تمام کارکنوں کو تین سال کے arrears ادا کیے گئے، جو کئی ارب کے قریب تھے اور جس کا بوجھ ایئرلائن کی ڈوبتی معیشت کو برداشت کرنا پڑا۔ عالمی معیار کے مطابق ایک جہاز کے لیے 150 افراد کا عملہ ہونا چاہیے، لیکن PIA میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک جہاز کے لیے 650 افراد کا عملہ ہے، جو عالمی معیار کا تقریباً 5 گنا بنتا ہے۔
پھر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) نے اپنے اپنے ادوار میں بھاری معاوضوں پر ایسے ماہرین کا تقرر کیا، جو قومی ایئرلائن کے معاملات سے قطعی ناواقف تھے۔ یہ ماہرین ایئرلائن کو تو نہ بچا سکے، مگر اس کے مالیاتی بوجھ میں مزید اضافے کا باعث بن گئے۔ یوں ایئرلائن پانچ برسوں کے دوران تقریباً دیوالیہ ہو گئی، جس پر تیل کمپنیوں اور جہازوں کی مرمت کرنے والی کمپنیوں کے علاوہ دیگر واجبات کا بوجھ تقریباً 350 ارب تک جا پہنچا ہے۔ اس صورتحال میں لازمی بات ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اس کی نجکاری کے لیے دباؤ ڈالیں گے، تا کہ واجبات کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔
PIA کے حالیہ دلدل میں پھنسنے کا دوسرا سبب نجی ایئرلائنوں کا اندرون ملک اور بعض بین الاقوامی روٹس پر سروس شروع کرنا بھی ہے۔ ان میں سے کئی ایئرلائنوں نے سستی اور بروقت سروس مہیا کی، حالانکہ نجی ایئرلائنوں میں پیشہ ورانہ اہلیت کی کمی رہی ہے، جس کی وجہ سے دو ایئرلائنوں کو بھیانک حادثوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ خلیج کی چند ایئرلائنوں کو دن میں کئی پروازوں کی اجازت دی گئی، جس کی وجہ سے مسافروں کی اکثریت ان ایئرلائنوں کی طرف متوجہ ہونا شروع ہو گئی، جس سے PIA کے بزنس پر مزید منفی اثرات مرتب ہوئے۔
دنیا بھر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کاروباری نظام میں بعض اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ کاروباری حلقوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی توجہ اپنے مخصوص شعبہ پر مبذول رکھیں۔ اس مقصد کے لیے متعلقہ شعبہ جات کو Outsource کرنے کا رجحان سامنے آیا ہے، مثلاً شکر بنانے کے ایک کارخانہ میں اب صرف شکر بنتی ہے۔ کارکنوں کی طبی سہولیات، ان کے کھانے پینے کا انتظام اور محافظین کا تقرر خود کرنے کے بجائے اسے Outsource کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح پیشہ ورانہ ذمے داریاں پوری کرنے کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں اور ادارہ دیگر جھنجھٹوں میں الجھنے سے بچ جاتا ہے۔
پاکستان کے پبلک سیکٹر اداروں میں مختلف شعبہ جات کو Outsource کرنے کا کوئی قابل ذکر کلچر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تصور پر بھی اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہیں ہو رہا۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ادارے کو اونے پونے اپنے چہیتوں کے ہاتھ فروخت کر دیا جائے۔ جس کا واضح ثبوت PTCL اور KESC کی نجکاری ہے۔
اگر حکومت کچن اور انجینئرنگ سمیت بعض ذیلی شعبہ جات کی Outsourcing کر کے اس ادارے کو پبلک پارٹنرشپ کے ذریعے چلانے کی کوشش کرے تو حالیہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایئرلائن کے ان ریٹائرڈ افسران اور ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں، جنھوں نے ایک طویل عرصہ اس میں گزارا ہے اور اس کے معاملات کے بارے میں واضح آگہی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایئرلائن کو حالیہ بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادار کر سکتے ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، حکومت کی نیت کچھ اور ہے۔ یہی سبب ہے کہ قومی ایئرلائن کے حالیہ بحران پر وفاقی حکومت کے وزرا نے جو متکبرانہ طرز عمل اختیار کیا، اس کے نتیجے میں تناؤ میں اضافہ ہوا اور دو قیمتی جانوں کے زیاں کے علاوہ کروڑوں روپے روز کا نقصان ہو رہا ہے۔
غالب نے کہا تھا کہ ''ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے''۔ وطن عزیز میں تو ہر روز ہی تماشے سجتے رہتے ہیں، جو حکمران اشرافیہ کی غیر سنجیدگی، تدبر اور دوراندیشی سے عاری ذہن کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی اس روش کے باعث ملک کو درپیش مختلف نوعیت کے بحرانوں ہی میں اضافہ نہیں ہو رہا، بلکہ معاشرے کے مختلف طبقات اور اکائیوں کے درمیان تضادات بھی مزید گہرے ہو رہے ہیں۔ محسوس یہ ہو رہا ہے جیسے صاحب اقتدار اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کو معاشرے میں تیزی کے ساتھ ابھرنے اور گہرے ہونے والے تضادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
پاکستان میں ریاستی اداروں کو دانستہ طور پر اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ ان میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی ہے، جس کی وجہ سے گورننس کی فرسودگی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کو اصل خطرہ بیرونی دشمن سے زیادہ اندرونی اشرافیائی کلچر اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مخصوص گروہ سے ہے، جو اقتدار کے سنگھاسن پر کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔ اسی کارازرفتہ نظم حکمرانی کا شاخسانہ ہے کہ قومی وسائل پر مکمل دسترس اور تمام تر ریاستی طاقت کے باوجود موجودہ اشرافیائی نظام عوام کو کچھ ڈیلیور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔
اس سلسلے میں بروکنگس انسٹی ٹیوٹ کے جوزف کوہن کا حوالہ دینا بے محل نہ ہو گا، جن کا کہنا ہے کہ ''ہوسکتا ہے کہ پاکستانی مقتدر اشرافیہ اتنی مضبوط ہو کہ وہ ریاست کو ناکام ہونے سے بچالے، لیکن اس میں اتنی بصیرت اور طاقت نہیں کہ وہ کوئی ایسی تبدیلی لا سکے، جو ریاست کی Transformation کر کے اسے ترقی کی راہ پر ڈال سکے''۔ اس جائزہ سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے قیام کے وقت سے نظم حکمرانی کے جس بحران میں گرفتار ہو گئی تھی، حکمران اشرافیہ کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملیوں اور ان پر تسلسل کے ساتھ اصرار کے نتیجے میں وقتاًفوقتاً پیدا ہونے والے چھوٹے بڑے مسائل بحرانی شکل اختیار کرتے چلے گئے۔
سرد جنگ کے بعد جب عالمی سطح پر دوررس تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں، تو ریاستی ڈھانچے کو Transform کیے بغیر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہوتا چلا گیا۔ کیونکہ ان تبدیلیوں کے براہ راست اثرات پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرتی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے پالیسی سازی کے طریقہ کار میں کلیدی تبدیلیوں کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی ہے۔ مگر فرسودہ انتظامی ڈھانچہ اور اقتدار اعلیٰ پر قابض نااہل اور کرپٹ اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) اس تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پاکستان میں دوسرا بڑا مسئلہ اقتدار و اختیار کا بے جا و بے دریغ استعمال (Power Abuse) ہے، جو صاحب اقتدار و اختیار کو عدالتی فیصلوں کی حکم عدولی پر اکساتا ہے۔ یہ روش اور رویہ بھی نظم حکمرانی کے بحران سے جڑا ایک اہم انتظامی معاملہ ہے۔ نظم حکمرانی کا یہ بحران دراصل کمزور حکمرانی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ کمزور حکمرانی نے ملک میں جاری اشرافیائی نظام (Oligarchy) کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ چونکہ ملک میں مقبول ووٹ حاصل کرنے والی بیشتر جماعتیں اسی اشرافیائی نظام کا حصہ ہیں، اس لیے اسے توڑنے کے بجائے مضبوط بنانے پر متفق ہیں۔ انھی اشرافیائی قوتوں نے پاکستان میںایک ایسا سیاسی ڈھانچہ ترتیب دیا ہے، جس میں صرف مراعات یافتہ طبقات کے لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔
چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ PIA یا اسٹیل مل سمیت کسی بھی پبلک ادارے کو درپیش بحرانوں سے نکالنے اور مسائل کا عوام دوست حل تلاش کرنے میں موجودہ حکومت کی نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی اس میں اہلیت ہے۔ یہ قومی اداروں کو اونے پونے بیچ کر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے، جو اس ملک اور اس کے عوام کی سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔