یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کا المیہ
امریکا یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور تشدد نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔
امریکا یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب اور تشدد نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ پیرس دہشت گردی کے بعد اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے اثرات نہ صرف یورپ بھر میں مرتب ہوئے بلکہ یہ امریکا تک جا پہنچے۔ پچھلے سال نومبر میں پیرس میں دہشت گردی ہوئی اس کے فوراً بعد دسمبر میں امریکا میں ایک کمیونٹی سینٹر میں چودہ افراد مارے گئے جس کا ذمے دار ایک مسلمان جوڑے کو ٹھہرایا گیا۔
بیوی کا تعلق پاکستان سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کا تعلق داعش سے تھا۔ پچھلے سال کے آخر میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں نے امریکا میں مقیم مسلمان کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ میں اضافہ کر دیا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحقیق کے مطابق 2015ء میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں تین گنا اضافہ ہوا جس کا نشانہ مسلمان کاروباری ادارے اور مساجد تھیں۔ نفرت پر مبنی ان جرائم میں تیزی سے اضافے کا سبب دہشت گردی کے وہ واقعات تھے جو گزشتہ سال کے آخر میں رونما ہوئے۔
نائن الیون کے بعد امریکا یورپ میں مسلمان عدم تحفظ میں مبتلا ہوئے اور ان میں پایا جانے والا یہ عدم تحفظ اب اپنی انتہا پر ہے۔ پیرس حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کی دائیں بازو کی وہ پارٹی جو مسلمانوں کی مخالف ہے اس کی مقبولیت میں تیس فیصد اضافہ ہو گیا۔ ظاہر ہے مغرب میں مقیم سارے مسلمان نہ دہشت گرد ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اس سوسائٹی میں رہتے ہوئے وہ ذمے داریاں پوری نہیں کیں جو انھیں کرنی چاہیے تھیں کہ وہ اپنے اندر موجود شدت پسندوں اور مذہبی جنونیوں کی نشان دہی کر کے اپنی قانونی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ امریکا یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف سازش ہو رہی ہے صحیح نہیں ہے۔
اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنا ملک چھوڑ کر مغرب میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وقت پر صحیح فیصلہ نہ ہو تو جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے۔ شادی گوری سے ہو یا اپنی ہم وطن سے اولاد وہاں کی تہذیب میں رنگی جاتی ہے۔ اس سے پہلے وہاں عورتوں کے بے پناہ حقوق کے سبب ایشیا کے پس ماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جو حقیقت میں مردوں کی غلام ہوتی ہیں اپنے مردوں کو ایسا تگنی کا ناچ نچاتی ہیں کہ اب مرد عورتوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اولاد پہلے ماں کے ساتھ ہوتی ہے پھر نہ ماں کی رہتی ہے نہ باپ کی۔
زندگی کے ابتدائی پندرہ بیس سال گزرنے پر پتہ چلتا ہے کہ نہ بیوی رہی نہ اولاد۔ دونوں ہی ہاتھ سے نکل گئے۔ مذہب علیحدہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یعنی خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ماضی کی طرف پلٹنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ حال کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مغربی تہذیب میں رائج بیوی اور بچوں کے حقوق ہی ہیں جس نے یہ دونوں اس سے چھین لیے۔ چنانچہ وہ ماضی پرست ہو جاتا ہے۔
ماضی میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور مذہب پرست ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں سے سبق سیکھتے ہوئے مسلم ملکوں سے تعلق رکھنے والے ردعمل کے طور پر مذہبی ہو جاتے ہیں۔ گھر ان کے جزیرے ہوتے ہیں حتی کہ ٹی وی پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ گھر کے دروازے سے باہر مغربی تہذیب' گھر کے اندر مذہب۔ اندر اور باہر کی سخت ترین لڑائی میں پہلے مذہبی شدت پسندی آتی ہے اس کے بعد مذہبی جنونیت۔ اسلام خطرے میں نظر آتا ہے اپنے ملک واپس جا نہیں سکتے بس یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش امریکا یورپ بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔
اپنے ملکوں میں واپس جا نہیں سکتے کہ وہاں سے بھاگ کر جان کی بازی لگا کر ہر چیز قربان کر کے اپنے نئے وطن پہنچے تھے۔ نیا وطن قبول ہے لیکن اس کی مغربی تہذیب قبول نہیں جس کا اہم ترین جزو سیکولر ازم ہے۔ یہ سیکولر ازم ہی تو ہے جس نے انھیں یورپ امریکا میں برابر کا شہری بنایا۔ مقامی آبادی کے برابر ہر طرح کے حقوق دیے جس میں معاشی سماجی سیاسی اور مذہبی حقوق شامل ہیں۔
مذہبی آزادیوں کا یہ عالم کہ آپ اپنی مسجد بنائیں مدرسے بنائیں تبلیغ کریں اور اس کے ذریعے مقامی گوروں اور گوریوں کو مشرف بہ اسلام کر کے شادی کر لیں کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مذہب تبدیل کرنے کی بھی کوئی سزا نہیں۔ آپ اپنی پسند سے کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔ سیکولر ازم نہ لامذہبیت ہے نہ کفر ہے۔ سیکولر ازم میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست کسی مذہب سے نا انصافی نہیں کر سکتی کیونکہ آئینی طور پر وہ ہر مذہب کی حفاظت کرتی ہے۔
سیکولر ازم میں ریاست کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن وہ ریاست کے ہر فرد کے مذہبی حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور وہ اس کے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے اپنی تمام ریاستی طاقت استعمال کرتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سیکولر ازم یورپ امریکا اور دنیا کے دوسرے حصوں میں رائج ہو تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے ملک میں نہیں... سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ سیکولر ازم دنیا کی تاریخ میں آج تک رائج نظام ہے جس کے ذریعے ریاست انسانی حقوق کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کر سکتی ہے۔
انسان نے ہزاروں سال کی جدوجہد میں آگ و خون کا سمندر عبور کر کے جو آزادیاں حاصل کی ہیں سیکولر ازم اس کی جدید ترین اور انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔
فروری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
بیوی کا تعلق پاکستان سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کا تعلق داعش سے تھا۔ پچھلے سال کے آخر میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی دہشت گردی کی ان وارداتوں نے امریکا میں مقیم مسلمان کمیونٹی میں بڑے پیمانے پر عدم تحفظ میں اضافہ کر دیا۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحقیق کے مطابق 2015ء میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں تین گنا اضافہ ہوا جس کا نشانہ مسلمان کاروباری ادارے اور مساجد تھیں۔ نفرت پر مبنی ان جرائم میں تیزی سے اضافے کا سبب دہشت گردی کے وہ واقعات تھے جو گزشتہ سال کے آخر میں رونما ہوئے۔
نائن الیون کے بعد امریکا یورپ میں مسلمان عدم تحفظ میں مبتلا ہوئے اور ان میں پایا جانے والا یہ عدم تحفظ اب اپنی انتہا پر ہے۔ پیرس حملے کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرانس کی دائیں بازو کی وہ پارٹی جو مسلمانوں کی مخالف ہے اس کی مقبولیت میں تیس فیصد اضافہ ہو گیا۔ ظاہر ہے مغرب میں مقیم سارے مسلمان نہ دہشت گرد ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں نے اس سوسائٹی میں رہتے ہوئے وہ ذمے داریاں پوری نہیں کیں جو انھیں کرنی چاہیے تھیں کہ وہ اپنے اندر موجود شدت پسندوں اور مذہبی جنونیوں کی نشان دہی کر کے اپنی قانونی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہوتے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ امریکا یورپ میں مقیم مسلمانوں کے خلاف سازش ہو رہی ہے صحیح نہیں ہے۔
اس کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنا ملک چھوڑ کر مغرب میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وقت پر صحیح فیصلہ نہ ہو تو جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے۔ شادی گوری سے ہو یا اپنی ہم وطن سے اولاد وہاں کی تہذیب میں رنگی جاتی ہے۔ اس سے پہلے وہاں عورتوں کے بے پناہ حقوق کے سبب ایشیا کے پس ماندہ ترین علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین جو حقیقت میں مردوں کی غلام ہوتی ہیں اپنے مردوں کو ایسا تگنی کا ناچ نچاتی ہیں کہ اب مرد عورتوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ اولاد پہلے ماں کے ساتھ ہوتی ہے پھر نہ ماں کی رہتی ہے نہ باپ کی۔
زندگی کے ابتدائی پندرہ بیس سال گزرنے پر پتہ چلتا ہے کہ نہ بیوی رہی نہ اولاد۔ دونوں ہی ہاتھ سے نکل گئے۔ مذہب علیحدہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ یعنی خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ماضی کی طرف پلٹنا اس کی مجبوری بن جاتی ہے۔ حال کی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مغربی تہذیب میں رائج بیوی اور بچوں کے حقوق ہی ہیں جس نے یہ دونوں اس سے چھین لیے۔ چنانچہ وہ ماضی پرست ہو جاتا ہے۔
ماضی میں پناہ ڈھونڈتا ہے اور مذہب پرست ہو جاتا ہے۔ ان لوگوں سے سبق سیکھتے ہوئے مسلم ملکوں سے تعلق رکھنے والے ردعمل کے طور پر مذہبی ہو جاتے ہیں۔ گھر ان کے جزیرے ہوتے ہیں حتی کہ ٹی وی پر بھی پابندی ہوتی ہے۔ گھر کے دروازے سے باہر مغربی تہذیب' گھر کے اندر مذہب۔ اندر اور باہر کی سخت ترین لڑائی میں پہلے مذہبی شدت پسندی آتی ہے اس کے بعد مذہبی جنونیت۔ اسلام خطرے میں نظر آتا ہے اپنے ملک واپس جا نہیں سکتے بس یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش امریکا یورپ بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔
اپنے ملکوں میں واپس جا نہیں سکتے کہ وہاں سے بھاگ کر جان کی بازی لگا کر ہر چیز قربان کر کے اپنے نئے وطن پہنچے تھے۔ نیا وطن قبول ہے لیکن اس کی مغربی تہذیب قبول نہیں جس کا اہم ترین جزو سیکولر ازم ہے۔ یہ سیکولر ازم ہی تو ہے جس نے انھیں یورپ امریکا میں برابر کا شہری بنایا۔ مقامی آبادی کے برابر ہر طرح کے حقوق دیے جس میں معاشی سماجی سیاسی اور مذہبی حقوق شامل ہیں۔
مذہبی آزادیوں کا یہ عالم کہ آپ اپنی مسجد بنائیں مدرسے بنائیں تبلیغ کریں اور اس کے ذریعے مقامی گوروں اور گوریوں کو مشرف بہ اسلام کر کے شادی کر لیں کوئی روک ٹوک نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مذہب تبدیل کرنے کی بھی کوئی سزا نہیں۔ آپ اپنی پسند سے کوئی بھی مذہب اختیار کر سکتے ہیں۔ سیکولر ازم نہ لامذہبیت ہے نہ کفر ہے۔ سیکولر ازم میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ریاست کسی مذہب سے نا انصافی نہیں کر سکتی کیونکہ آئینی طور پر وہ ہر مذہب کی حفاظت کرتی ہے۔
سیکولر ازم میں ریاست کا تو کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن وہ ریاست کے ہر فرد کے مذہبی حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور وہ اس کے مذہبی حقوق کی حفاظت کے لیے اپنی تمام ریاستی طاقت استعمال کرتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ سیکولر ازم یورپ امریکا اور دنیا کے دوسرے حصوں میں رائج ہو تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے ملک میں نہیں... سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں؟ سیکولر ازم دنیا کی تاریخ میں آج تک رائج نظام ہے جس کے ذریعے ریاست انسانی حقوق کی زیادہ سے زیادہ حفاظت کر سکتی ہے۔
انسان نے ہزاروں سال کی جدوجہد میں آگ و خون کا سمندر عبور کر کے جو آزادیاں حاصل کی ہیں سیکولر ازم اس کی جدید ترین اور انتہائی ترقی یافتہ شکل ہے۔
فروری کے تیسرے اور چوتھے ہفتے سابق صدر آصف علی زرداری کے لیے احتیاط طلب وقت کا آغاز ہو جائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997