مرد بحران سردار مہتاب احمد خان کا استعفیٰ
اپنی دھن کے پکے سردار مہتاب احمد خان دو سال بھی گورنری نہ چلا سکے
SUKKUR:
یہ خبر آئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی انتہائی معتبر شخصیت اور مدبر سیاست دان سردار مہتاب احمد خان جو خیبر پختون خوا کے گورنر ہیں اگلے چند روز میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔اس فیصلے سے صوبے کی سیاست میں کوئی ہل چل تو دکھائی نہیںدی البتہ کئی سوالات نے ضرور جنم لیا ہے کہ کیا سردار مہتاب کو صدر پاکستان بنایا جا رہا ہے؟ کیا وہ اپنی بیماری کی وجہ سے یہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں؟ کیا وہ پارلیمانی سیاست کرنا چاہتے ہیں؟
کیا قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا عمل جو ممکن ہے کسی فیصلے کی جانب بڑھ رہا ہو اس کے متوقع نتائج کی وجہ سے سردار مہتاب مستعفی ہو رہے ہیں یا پھر ان کے تعلقات پاک فوج سے مثالی نہیں، اس لیے انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ان سوالوں کے جواب جلد یا بدیر مل ہی جائیں گے مگر اپنی دھن کے پکے سردار مہتاب احمد خان دو سال بھی گورنری نہ چلا سکے یہ انھیں جاننے والوں کے لیے کم از کم حیرت کا ضرور باعث ہے۔
آخری ملاقات ان سے گورنر ہاؤس پشاور میں ہوئی تو راقم نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ کیا وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں لیکن انھوں نے یہ سوال ہنسی میں ٹال دیا تھا ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے لیکن سچ بتاتے نہیں! چند ہی روز قبل جب انھوں نے صوبے کے چار سابق گورنرز کو گورنر ہاؤس مدعو کیا تو پچاس سے زیادہ سیاسی شخصیا ت بھی اس موقع پر موجود تھیں اس کے بعد اگلے روز انھوں نے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے اعزاز میں دعوت دے ڈالی تو دال میں کچھ کالا نظر آیا جس پر دو سابق گورنرز نے کہہ ہی دیا کہ ایسا لگتا ہے سردار صاحب گورنر ہاؤس چھوڑ رہے ہیں۔
یہ خبر بھی آئی کہ سردار مہتاب کا استعفیٰ وزیر اعظم کو مل گیا ہے مگر انھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے دیرینہ رفیق کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔سردار مہتاب احمد خان کے سیاسی کیرئیر پر ایک نظر دوڑائی جائے تویہ سال1997 ء کی بات ہے، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب ایبٹ آباد سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبے میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد انھیں وزارت اعلیٰ کا منصب نصیب ہوا۔ان دنوںریٹائرڈ جج محمد رفیق تارڑ صدر مملکت اور میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان تھے۔
سردار مہتاب احمد خان کو اس وقت کے صوبہ سرحد کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا اور شاید فروری کا مہینہ تھا سردار مہتاب احمد خان نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ انھوں نے اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ سکندر زمان جن کا تعلق ہری پور سے تھا کے بعد ہزارہ کے ہی باسی کے طور پر وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔تقریباً دو برس کے عرصے میں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور صوبے کے سول سرونٹس مجھے آج بھی یاد ہیں کہ کبھی انھوں نے سردار مہتاب کے احکامات کو پس پشت نہیں ڈالا، عوامی نیشنل پارٹی کے وزیر بھی ان دنوں بری شہرت کے حامل نہیں تھے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر صوبے کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں مصروف رہے۔
اس وقت صوبے میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے وفاق اور صوبے میں اتفاق تھا چنانچہ مشکلات کا دور دور تک اندازہ نہ تھا۔اس دوران1998 ء میں مجھے انھیں قریب سے جاننے کا موقع ملا اور وجہ قومی کھیل تھے۔انھوں نے قومی کھیلوں کے انعقاد کے لیے جس قدر دلچسپی لی وہ صرف صوبے بلکہ سارے ملک میں کھیلوں کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ان دنوں قیوم اسپورٹس کمپلیکس کی تزئین و آرائش ہوئی ،فٹ بال اسٹیڈیم کی حالت بہتر بنائی گئی، کمنٹیٹرز باکس بنائے گئے، الغرض سردار مہتاب ہر کام میں بہ نفس نفیس دل چسپی لیا کرتے تھے اور پھر پشاور میں منعقد ہونے والے قومی کھیل پاکستان کی تاریخ کے شاندار ترین کھیل قرار پائے۔
سردار مہتاب کو اسپورٹس رائٹرز ایسوسی ایشن نے کھیلوں کے مرد بحران کا خطاب دیا اور سردار مہتاب احمد خان کھلاڑیوں اور منتظمین کے دل و دماغ میں رچ بس گئے۔پشاور کے عوام انھیں اچانک دوروں کے حوالے سے بھی جانتے ہیں کبھی وہ کسی مسجد میں نماز پڑھنے نکل پڑتے اور کبھی قصہ خوانی بازار میں دکھائی دیتے ،کبھی صدر بازار میں ہوتے تو کبھی اندرون شہر لوگوں کے ہجوم میں دکھائی دیتے۔
ایسا لگتا تھا کہ وہ ہزارہ کے نہیں بلکہ پشاور کے رہنے والے ہیں۔ایک بار نواں کلی سے تعلق رکھنے والے اسکواش کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر عمدہ کارکردگی دکھائی تو مجھے اس وقت کے چیف سیکریٹری شکیل درانی کا فون آیا کہ وزیر اعلیٰ ان کھلاڑیوں کو نقد انعامات دینا چاہتے ہیں آپ کے خیال میں کتنی رقم ہونی چاہیے اور میں نے بھی بنا سوچے دس لاکھ روپے کہہ دیے ان دنوں دس لاکھ روپے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی اگلے ہی دن شکیل درانی ملے اور مجھے بتایا کہ سردار مہتاب احمد خان نے دس لاکھ روپے منظور کر لیے ہیں۔ جب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر واجد علی شاہ پشاور تشریف لائے تو سردار مہتاب احمد خان نے خاص طور پر انھیں عشائیہ میں بلایا اور کھیلوں کی ترقی کے حوالے سے گفت گو کی۔
صوبے کو ایک دبنگ وزیر اعلیٰ ملا تھا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ آٹے کا بحران اور پھر صوبے میں دھڑا دھڑ فلور ملز کا بننا یہ ایک بڑا مسئلہ بنا تھا جس کا انھوں نے بڑی بردباری سے سامنا کیا۔پھر12 اکتوبر1999 ء کو پاکستان میں جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور سردار مہتاب ایک طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، وزیر اعظم میاں نواز شریف سعودی فرمان روا کے مہمان بن گئے لیکن سردار مہتاب احمد خان نے ملک نہ چھوڑا۔انھیں چند دوستوں سے گلہ ضرور ہو گا کہ وہ جیلوں میں ان سے ملاقات کے لیے نہیں آئے لیکن جو آئے ان کا سردار مہتاب نے ہاتھ نہیں چھوڑا اور انھیں عزت و افتخار سے نوازا۔
گورنر بنے تو دن رات کام کیا مگر ان کی گورنری کے دو سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ وہ گورنر ہاؤس چھوڑرہے ہیں۔ بہت سے گورنر آئے اور چلے گئے ان میں اکثر اب بھی خیبر پختون خوا اور قبائلی عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں مگر شاید ان سب میں اب سردار مہتاب احمد خان کو بھی معتبر مقام حاصل رہے کیوںکہ انھوں نے قبائلی علاقوں اور محب وطن قبائلیوں کو اپنے دل سے لگا کر رکھا ۔وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے بہت کر گئے جو باقی رہ گیا ہے وہ نیا گورنر کرے گا شاید نیا گورنر کوئی ریٹائرڈ جنرل ہو یا پھر سیاست دان، سردار مہتاب احمد خان قبائل کے دل و دماغ میں رہیں گے۔
یہ خبر آئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی انتہائی معتبر شخصیت اور مدبر سیاست دان سردار مہتاب احمد خان جو خیبر پختون خوا کے گورنر ہیں اگلے چند روز میں اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔اس فیصلے سے صوبے کی سیاست میں کوئی ہل چل تو دکھائی نہیںدی البتہ کئی سوالات نے ضرور جنم لیا ہے کہ کیا سردار مہتاب کو صدر پاکستان بنایا جا رہا ہے؟ کیا وہ اپنی بیماری کی وجہ سے یہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں؟ کیا وہ پارلیمانی سیاست کرنا چاہتے ہیں؟
کیا قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا عمل جو ممکن ہے کسی فیصلے کی جانب بڑھ رہا ہو اس کے متوقع نتائج کی وجہ سے سردار مہتاب مستعفی ہو رہے ہیں یا پھر ان کے تعلقات پاک فوج سے مثالی نہیں، اس لیے انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ان سوالوں کے جواب جلد یا بدیر مل ہی جائیں گے مگر اپنی دھن کے پکے سردار مہتاب احمد خان دو سال بھی گورنری نہ چلا سکے یہ انھیں جاننے والوں کے لیے کم از کم حیرت کا ضرور باعث ہے۔
آخری ملاقات ان سے گورنر ہاؤس پشاور میں ہوئی تو راقم نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ کیا وہ عہدہ چھوڑ رہے ہیں لیکن انھوں نے یہ سوال ہنسی میں ٹال دیا تھا ہم بخوبی جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے لیکن سچ بتاتے نہیں! چند ہی روز قبل جب انھوں نے صوبے کے چار سابق گورنرز کو گورنر ہاؤس مدعو کیا تو پچاس سے زیادہ سیاسی شخصیا ت بھی اس موقع پر موجود تھیں اس کے بعد اگلے روز انھوں نے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کے اعزاز میں دعوت دے ڈالی تو دال میں کچھ کالا نظر آیا جس پر دو سابق گورنرز نے کہہ ہی دیا کہ ایسا لگتا ہے سردار صاحب گورنر ہاؤس چھوڑ رہے ہیں۔
یہ خبر بھی آئی کہ سردار مہتاب کا استعفیٰ وزیر اعظم کو مل گیا ہے مگر انھوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے دیرینہ رفیق کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔سردار مہتاب احمد خان کے سیاسی کیرئیر پر ایک نظر دوڑائی جائے تویہ سال1997 ء کی بات ہے، ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے سردار مہتاب ایبٹ آباد سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبے میں مخلوط حکومت کے قیام کے بعد انھیں وزارت اعلیٰ کا منصب نصیب ہوا۔ان دنوںریٹائرڈ جج محمد رفیق تارڑ صدر مملکت اور میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان تھے۔
سردار مہتاب احمد خان کو اس وقت کے صوبہ سرحد کا وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پاکستان مسلم لیگ کا بھرپور ساتھ دیا اور شاید فروری کا مہینہ تھا سردار مہتاب احمد خان نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی ذمے داریاں سنبھال لیں۔یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ انھوں نے اس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ سکندر زمان جن کا تعلق ہری پور سے تھا کے بعد ہزارہ کے ہی باسی کے طور پر وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا۔تقریباً دو برس کے عرصے میں ان کی صلاحیتیں کھل کر سامنے آئیں اور صوبے کے سول سرونٹس مجھے آج بھی یاد ہیں کہ کبھی انھوں نے سردار مہتاب کے احکامات کو پس پشت نہیں ڈالا، عوامی نیشنل پارٹی کے وزیر بھی ان دنوں بری شہرت کے حامل نہیں تھے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر صوبے کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں مصروف رہے۔
اس وقت صوبے میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے وفاق اور صوبے میں اتفاق تھا چنانچہ مشکلات کا دور دور تک اندازہ نہ تھا۔اس دوران1998 ء میں مجھے انھیں قریب سے جاننے کا موقع ملا اور وجہ قومی کھیل تھے۔انھوں نے قومی کھیلوں کے انعقاد کے لیے جس قدر دلچسپی لی وہ صرف صوبے بلکہ سارے ملک میں کھیلوں کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ان دنوں قیوم اسپورٹس کمپلیکس کی تزئین و آرائش ہوئی ،فٹ بال اسٹیڈیم کی حالت بہتر بنائی گئی، کمنٹیٹرز باکس بنائے گئے، الغرض سردار مہتاب ہر کام میں بہ نفس نفیس دل چسپی لیا کرتے تھے اور پھر پشاور میں منعقد ہونے والے قومی کھیل پاکستان کی تاریخ کے شاندار ترین کھیل قرار پائے۔
سردار مہتاب کو اسپورٹس رائٹرز ایسوسی ایشن نے کھیلوں کے مرد بحران کا خطاب دیا اور سردار مہتاب احمد خان کھلاڑیوں اور منتظمین کے دل و دماغ میں رچ بس گئے۔پشاور کے عوام انھیں اچانک دوروں کے حوالے سے بھی جانتے ہیں کبھی وہ کسی مسجد میں نماز پڑھنے نکل پڑتے اور کبھی قصہ خوانی بازار میں دکھائی دیتے ،کبھی صدر بازار میں ہوتے تو کبھی اندرون شہر لوگوں کے ہجوم میں دکھائی دیتے۔
ایسا لگتا تھا کہ وہ ہزارہ کے نہیں بلکہ پشاور کے رہنے والے ہیں۔ایک بار نواں کلی سے تعلق رکھنے والے اسکواش کھلاڑیوں نے بین الاقوامی سطح پر عمدہ کارکردگی دکھائی تو مجھے اس وقت کے چیف سیکریٹری شکیل درانی کا فون آیا کہ وزیر اعلیٰ ان کھلاڑیوں کو نقد انعامات دینا چاہتے ہیں آپ کے خیال میں کتنی رقم ہونی چاہیے اور میں نے بھی بنا سوچے دس لاکھ روپے کہہ دیے ان دنوں دس لاکھ روپے کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی اگلے ہی دن شکیل درانی ملے اور مجھے بتایا کہ سردار مہتاب احمد خان نے دس لاکھ روپے منظور کر لیے ہیں۔ جب پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر واجد علی شاہ پشاور تشریف لائے تو سردار مہتاب احمد خان نے خاص طور پر انھیں عشائیہ میں بلایا اور کھیلوں کی ترقی کے حوالے سے گفت گو کی۔
صوبے کو ایک دبنگ وزیر اعلیٰ ملا تھا ۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ آٹے کا بحران اور پھر صوبے میں دھڑا دھڑ فلور ملز کا بننا یہ ایک بڑا مسئلہ بنا تھا جس کا انھوں نے بڑی بردباری سے سامنا کیا۔پھر12 اکتوبر1999 ء کو پاکستان میں جمہوریت کی بساط الٹ دی گئی اور سردار مہتاب ایک طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے لیکن انھوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، وزیر اعظم میاں نواز شریف سعودی فرمان روا کے مہمان بن گئے لیکن سردار مہتاب احمد خان نے ملک نہ چھوڑا۔انھیں چند دوستوں سے گلہ ضرور ہو گا کہ وہ جیلوں میں ان سے ملاقات کے لیے نہیں آئے لیکن جو آئے ان کا سردار مہتاب نے ہاتھ نہیں چھوڑا اور انھیں عزت و افتخار سے نوازا۔
گورنر بنے تو دن رات کام کیا مگر ان کی گورنری کے دو سال بھی پورے نہیں ہوئے کہ وہ گورنر ہاؤس چھوڑرہے ہیں۔ بہت سے گورنر آئے اور چلے گئے ان میں اکثر اب بھی خیبر پختون خوا اور قبائلی عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں مگر شاید ان سب میں اب سردار مہتاب احمد خان کو بھی معتبر مقام حاصل رہے کیوںکہ انھوں نے قبائلی علاقوں اور محب وطن قبائلیوں کو اپنے دل سے لگا کر رکھا ۔وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے بہت کر گئے جو باقی رہ گیا ہے وہ نیا گورنر کرے گا شاید نیا گورنر کوئی ریٹائرڈ جنرل ہو یا پھر سیاست دان، سردار مہتاب احمد خان قبائل کے دل و دماغ میں رہیں گے۔