ایڈورٹائزنگ جو پاکستان بدل سکتی ہے

گزرتی ایک کار میں سے ایک ہاتھ نمودار ہوتا ہے اور شان بے نیازی سے کولڈ ڈرنک کا ایک کین سڑک پہ اچھال دیتا ہے۔

ISLAMABAD:
گزرتی ایک کار میں سے ایک ہاتھ نمودار ہوتا ہے اور شان بے نیازی سے کولڈ ڈرنک کا ایک کین سڑک پہ اچھال دیتا ہے۔ ہم پھر دیکھتے ہیں کہ فضا میں رنگ برنگے چھوٹے بڑے پولی تھین بیگ جنھیں ہم پیار سے ''شاپر'' کہتے ہیں ہر طرف ڈولتے پھر رہے ہیں، ادھر زمین پر بھی ان کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ یہاں سے ہٹتے ہیں تو لوگ سڑک پہ پھیلے گٹر کے پانی سے بچ نکلنے کی ناکام کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

منظر بدلتا ہے اور ایک صاحب دبے پاؤں اپنا کوڑا پڑوسیوں کے گھر کے آگے پھینکتے نظر آتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہیں تو دو عدد جوان موٹر سائیکل سوار سامنے آتے ہیں، پیچھے والا منہ آگے کرکے نہایت اطمینان سے پان کی پیک اُگل ڈالتا ہے۔ ٹی وی اسکرین پھر ایک دم صاف ہوجاتا ہے اور حدیث نبویؐ ظاہر ہوتی ہے کہ ''مگر رسول اکرمؐؐ کا ارشاد تو یہ ہے کہ صفائی و پاکیزگی نصف ایمان ہے۔'' یہ تھا پہلا کمیونیکیشن میسج۔

دوسرے کا آغاز ایک گھر کے کچن سے ہوتا ہے جہاں سنک کے نل سے پانی مسلسل ٹپک رہا ہے جب کہ خاتون خانہ ضایع ہوتے پانی سے بے پرواہ اپنے کام کاج میں مشغول ہیں۔ منظر اچانک تبدیل ہوتا ہے اور باتھ روم کے واش بیسن کا نل پوری رفتار سے پانی بہاتا نظر آتا ہے جب کہ ایک شخص مزے سے شیو کرنے میں مگن ہے۔ ہم یہاں سے ہٹتے ہیں تو ایک گاڑی پہ پڑتی پانی کی بوچھاڑ کا سامنا ہوتا ہے کہ ڈرائیور بے تحاشا پانی سے گاڑی ''نہلاتے'' نظر آتے ہیں۔

یہ لیجیے منظر پھر بدل گیا اور یہ سامنے فرش پر جگہ جگہ پانی لیک کرتے ہوئے پائپ سے لان کو پانی دیا جارہا ہے۔ آگے بڑھتے ہیں تو زیر زمین واٹرٹینک اوورفلو ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹی وی اسکرین پھر ایک دم صاف ہوجاتا ہے اور حدیث نبویؐ ظاہر ہوتی ہے کہ ''مگر جب آپؐ سے پوچھا گیا کہ ''کیا وضو میں بھی ضرورت سے زیادہ پانی کا استعمال اصراف ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیا: ہاں، اگرچہ تم بہتی نہر کے کنارے پر ہی کیوں نہ ہو۔'' یہ تھا دوسرا کمیونیکیشن میسج۔

تیسرا میسج شروع ہوتا ہے، ایک درخت کے تنے پر برستی بے رحم کلہاڑی کے منظر سے۔ ہمیں پھر نظر آتا ہے ایک بچہ دوڑتا ہوا آتا ہے اور کیاری میں لگے ننھے سے پودے کو اکھاڑ ڈالتا ہے۔ بچے کے ماں باپ ہنستے اور تالیاں بجاتے نظر آتے ہیں۔ ہم کچھ اور آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہرے بھرے ایک درخت کے تنے کے ساتھ کوڑا کرکٹ جمع کرکے جلایا جا رہا ہے۔ منظر بدلتا ہے اور عظیم الشان درختوں کے کٹے ہوئے تنے بے چارگی سے پڑے نظر آتے ہیں۔ یہاں سے ہٹتے ہیں تو ہمیں سوکھے ہوئے اداس درختوں کی افسردہ قطار نظر آتی ہے۔ ٹی وی اسکرین پھر ایک دم صاف ہوجاتا ہے اور حدیث نبویؐ ظاہر ہوتی ہے کہ ''مگر رسول اکرمؐ نے تو فرمایا کہ: جو کوئی مومن بندہ درخت کا پودا لگائے یا کاشت کرے پھر اس میں سے پرندہ یا آدمی یا کوئی جانور کھائے تو وہ اس کے حق میں صدقہ ہوگا۔'' یہ تھا تیسرا کمیونیکیشن میسج۔


صفائی، پانی کی بچت اور درختوں کی اہمیت کے بارے میں یہ تین پیغامات ہماری سماجی بدتہذیبی اور معاشرتی بے حسی کی روزمرہ مثالوں کی عکاسی پر مشتمل تھے، جن کے آخر میں احادیث مبارکؐ ظاہر ہوتی تھیں جو ہمارے ان روزمرہ کے رویوں اور معمولات کی بالکل برعکس تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ کئی سال پہلے میں نے یہ پبلک سروس میسج ADS بنائے تھے، تاہم قلیل میڈیا بجٹ کے باعث یہ بہت کم ہی آن ایئر ہوسکے۔ گزرتے برسوں میں ہمارے سماجی رویوں میں مزید گراوٹ آچکی ہے، اس حد تک کہ ہر طرح کی برائی نہ صرف برائی نہیں رہی ہے بلکہ ہماری زندگیوں کا ''نارمل'' حصہ بھی بن چکی ہے۔

ہم چاہے کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں، تعلیم کی شرح 101 فیصد بھی ہوجائے، ہر طرف فلائی اوورز اور میٹرو بن جائیں، بڑے بڑے مال کھل جائیں، بجلی کے کتنے ہی کارخانے لگ جائیں ہم مگر سماجی و معاشرتی جہالت پہ مبنی کردار کے ساتھ کبھی حقیقی ترقی نہیں کرسکتے۔ سب کے لیے یکساں قانون و انصاف اور ڈسپلن، ایمانداری اور سچائی، فرض شناسی، دوسروں کا خیال، وعدوں کی پاسداری، پڑوسیوں کا خیال، دوسروں کا راستہ نہ بند کرنا، یتیموں کا مال نہ کھانا، وقت کی پابندی، صفائی ستھرائی، اپنی باری کا انتظار کرنا، خود سے قطار بنانا، برے کو برا کہنا اور برتنا چاہے، اس برے سے ہمارا کیسا ہی تعلق یا مفاد ہی وابستہ کیوں نہ ہو، حسد اور غیبت سے بچنا، دوسروں کی عزت کرنا، اپنی غلطی ماننا، درخت نہ کاٹنا۔

ان سب اور ان سب جیسی تمام انسانی خوبیوں کے بغیر ہم کبھی بھی صحیح معنوں میں ترقی نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ دوسروں کو کتے اور گدھے کا گوشت کھلانا حلال جانتے ہیں اور دوسرے جیسے کتے اور گدھے کے گوشت کے علاوہ سب ہی کچھ مثلاً کرپشن و بے ایمانی کا مال کھانا اور دوسروں کا حق مارنا حلال سمجھتے ہیں۔ جب کہ ادھر کینیڈا، ڈنمارک سے لے کر سنگاپور اور جاپان سے لے کر نیوزی لینڈ تک آپ کو ہر ترقی یافتہ ملک میں انسانی کردار کی یہ خوبیاں عام ملیں گی۔

معاشرتی ترقی کے بغیر معاشی ترقی بنیادوں کے بغیر عمارت کی سی ہے نہ مضبوط بنتی ہے نہ بلند ہوسکتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں پائی جانے والی معاشرتی خوبیاں اسلام نے ہمیں سکھائیں مگر عمل وہ کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں یہ خوبیاں دوبارہ سے سکھائی جائیں اور اس کے لیے احادیثؐ پر مبنی MASS پبلک سروس کمیونیکیشن کیمپینز کی ضرورت ہے۔

احادیث نبویؐ کے پیغامات پر مبنی پبلک سروس کمیونیکیشن کیمپینز، ہماری حکومتیں، میڈیا چینلز اور کاروباری کمپنیاں سبھی بنا اور چلا سکتے ہیں۔ ہم وفاقی اور پنجاب و خیبرپختونخوا کی حکومتوں سے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ یہ کیمپینز بنائیں اور چلائیں گی۔ ان کیمپینز کے چلانے اور ان کے کروڑوں لوگوں پر مثبت اثرات کا ثواب جاریہ اور ایک مہذب اور ایماندار انسانی معاشرے کی تشکیل کا کریڈٹ ہمارے حکمرانوں کو ملے گا۔

ہمارے حکمران حکمرانوں سے لیڈر بن سکیں گے کہ لیڈر قوم کی تعمیر و تربیت کرتے ہیں تو قومیں ملکوں کی تعمیر کرتی ہیں۔ میڈیا چینلز بھی اپنے پرائم ٹائم کی زکوٰۃ کے طور پر پرائم ٹائم میں یہ کیمپینز چلا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں میڈیا چینلز مختلف کمپنیوں کے اشتراک سے بھی یہ کمپینز بنا اور چلا سکتے ہیں۔ حقوق العباد کے بارے میں احادیث مبارکہؐ زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کیمپینز سارا سال مسلسل جاری رہیں ہر سال۔ یہ ایڈورٹائزنگ ہم پاکستانیوں کو بدل سکتی ہے تبھی بدلے گا پاکستان۔
Load Next Story