اثر کیسے پیدا ہو
ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے انگوٹھے کی حرکت سے پیچھے جارہے تھے
PESHAWAR:
ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے انگوٹھے کی حرکت سے پیچھے جارہے تھے، میری زبان سے 'اللہ اکبر' کا ورد تیزی سے جاری تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا نماز عصر کے بعد تسبیح کررہا تھا، میرے ہاتھ کی انگلیاں اور زبان یہ عمل انجام دے رہے تھے، مگر ذہن کسی اور طرف تھا۔ میں نے حسب عادت اپنی نماز چند منٹوں میں ختم کی، جوتے پہنے اور اپنے معاملات میں مشغول ہوگیا۔ میں کئی سال سے نماز پڑھ رہا تھا مگر وہ مجھ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی پیدا نہ کرسکی تھی، اس روز میں سوچنے لگا کہ ایسا کیوں تھا، میری نماز مجھ پر اثر کیوں نہیں ڈال پارہی تھی؟
ہمارے پڑوسی کو دل کی تکلیف تھی، ڈاکٹر نے حتمی طور پر خبردار کرتے ہوئے انھیں آگاہ کردیا کہ سگریٹ نوشی ترک کردیں ورنہ نتیجہ ان کے جان لیوا دل کے دورے کی صورت میں نکلے گا۔ وہ ہاں میں سر ہلاتے رہے، چند ہفتے بعد ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ انتقال کرگئے۔ یہ افسوس ناک خبر سنتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ ڈاکٹر کی ہدایات نے ان پر اثر کیوں نہ ڈالا تھا؟ مولوی صاحب حافظ قرآن تھے، اس کے معنی سے بھی آگاہ تھے، بچوں کو قرآن پڑھاتے بھی تھے، مگر قرآن ان کی روحانی وفکری حالت میں بہتری پیدا نہ کرسکا، کیوں؟ میں ان سوالوں سے پریشان تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ میری نماز، ڈاکٹر کی ہدایت، مولوی صاحب کا قرآن پڑھنا، یہ سب اعمال اثر سے محروم کیوں تھے؟
حکمران عوام کو مشکلات میں گھِرے دیکھنے، ان کی آہ و بکا سننے کے باوجود مسائل حل نہ کرتے، لوگ نماز روزے کی پابندی کے باوجود قربِ الٰہی حاصل نہ کرپاتے، شہری سڑکوں پر کچرا و گندگی دیکھنے، اس سے بیمار پڑنے کے باوجود اسے صاف نہ کرتے، کیوں؟ میں ان تمام سوالوں کے 'کیوں' کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اسی جواب میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل اور ترقی کا راز موجود تھا۔
لہٰذا باریک بینی سے غور کرنے پر مجھے جواب مل گیا، وہ تھا 'توجہ' یعنی concentration کا نہ ہونا۔ اگر ہم غور کریں تو احساس ہوگا کہ ہم اپنے زیادہ تر اعمال، عبادات اور ذمے داریاں صرف جسمانی اعضا زبان، کان، آنکھ اور ہاتھ پاؤں سے انجام دیتے ہیں 'توجہ' سے نہیں، جس کی وجہ سے وہ نتیجہ خیز اور پُراثر ثابت نہیں ہوپاتے۔ مثلاً میری نماز توجہ کے بغیر فقط زبانی تھی، میرے پڑوسی کا ڈاکٹر کی نصیحت سننا بغیر توجہ کے صرف کانوں سے سننا تھا اور مولوی صاحب کا قرآن پڑھنا بھی توجہ سے خالی فقط آنکھوں و زبان کی حد تک تھا۔
توجہ کے بغیر انجام دیے جانے والا عمل ناقص اور بے اثر ہوتا ہے جو کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے آج ہم اپنی اہم ترین ذمے داریاں و عبادات بھی توجہ کے بغیر انجام دیتے ہیں۔ آج والدین تربیت اولاد پر توجہ نہیں دیتے، حکومت عوام کی حالتِ زار پر، انسان مقصد حیات پر، مالدار اپنی دولت اور نوجوان اپنا وقت صحیح راہ پر خرچ کرنے پر ''توجہ'' نہیں دیتے۔ ارتقا کا اہم ترین جز 'توجہ' ہمارے ہر معاملے میں سے غائب ہے۔ توجہ، جو اگر لیڈر کرے تو قوم کی تقدیر بدل دے، والدین کریں تو اولاد کا مستقبل، عوام کرے تو دنیا میں باوقار مقام حاصل کرلیں، اگر عبادات میں شامل ہو توانسان کی روحانی کایا پلٹ جائے۔
زندگی کے ہر شعبے میں اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں عمل تو انجام دیا جاتا ہے مگر توجہ و یکسوئی کے ساتھ نہیں۔ کسی عمل میں اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ''توجہ'' اس میں شامل ہو۔ میں نے خود یہ تجربہ کرکے دیکھا، میں نے فیصلہ کیا کہ نماز کے بعد کم از کم تسبیح پوری concentration کے ساتھ کروں گا۔ چنانچہ نماز ختم ہونے کے بعد تسبیح کے وقت میں نے کسی عجلت یا دوسرے خیال کو ذہن میں جگہ دیے بغیر اللہ کی بڑائی اور موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے صدقِ دل سے 'اللہ اکبر' کہنا شروع کیا۔
ابھی میں نے دوسری بار ہی اس کیفیت میں اللہ کا نام اپنی زبان سے ادا کیا تھا کہ میرے سر سے پاؤں تک جسم میں سکون بھری روحانی لہریں سی اترنے لگیں، میرا روواں روواں اس اسمِ پاک کی تاثیر کو محسوس کرنے لگا۔ دھیمے کرنٹ کی سی وہ لہریں میرے دماغ میں اوپر سے داخل ہوتیں اور سینے سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں پھیل جاتیں، میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، ہر بار اللہ کا نام لینے پر میری یہی حالت ہوتی۔ نماز ختم ہونے کے بعد بھی میں کافی دیر تک اس کیفیت کے اثرات اپنے قلب اور جسم پر محسوس کرتا رہا۔
اس روز مجھ پر انکشاف ہوا کہ توجہ کے بغیر اعمال اور عبادتیں ہمیں روحانی طور پر کہیں پہنچا سکتی ہیں نہ دنیاوی طور پہ۔ عمل بغیر توجہ کے ایسا ہی ہے جیسے جسم بغیر روح کے۔ توجہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز بھی اٹھنے بیٹھنے کی ورزش کے سوا کچھ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسان روزانہ مختلف عمل و عبادات انجام دینے کے باوجود باطنی و ظاہری ترقی نہیں کرپاتے۔ یہ 'توجہ کا نہ ہونا' ہی ہے کہ مریض بیماری کی وجوہات و بچاؤ کے طریقے جاننے کے باوجود اسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے، لوگ برے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اسی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اسی لیے ہی عبادت گاہیں عابدوں سے، تعلیمی ادارے طالب علموں سے، اسپتال جدید سہولتوں سے بھرے ہونے کے باوجود معاشرے ان کے مثبت اثرات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ توجہ ہی وہ حساس نظام ہے جو ہمارے کسی عمل کو زندہ کرتا ہے، اس میں روح پھونکتا ہے۔ اگر concentration کا نظام منقطع ہوجائے تو عمل کتنا ہی کیا جائے نتیجہ دینے سے محروم رہتا ہے۔ ہمارے اور ترقی یافتہ معاشروں میں ایک بڑا فرق 'توجہ' کا بھی ہے، وہ دینی نہ سہی کم از کم اپنی دنیاوی ذمے داریاں پوری توجہ سے انجام دیتے ہیں، جہاں ایک جھاڑو لگانے والا بھی استعمال شدہ سگریٹ کا ذرا سا ٹکڑا بھی چھوڑے بغیر پوری توجہ سے سڑک صاف کرتا ہے، جب کہ ہم عبادات میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔
توجہ ہی ترقی کا راستہ ہے، خواہ دنیاوی ہو یا روحانی، یہی بندے کو رب سے ملاتی ہے۔ یہی طریقہ اللہ کے ولیوں کے ہاں بھی ہمیں ملتا ہے، جو خصوصاً رب کا ذکر بہت 'توجہ' سے کرتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ زندہ اور روح دار ہوتا ہے، اسی لیے ان سے کرشمے تک رونما ہوتے ہیں۔ رب کے قریب انسان اسی صورت جاسکتا ہے جب اس کی پوری توجہ اس طرف ہو۔
ہمیں بھی اپنے اندر موجود 'توجہ' کے منقطع شدہ نظام کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اسی سے ہماری روحانی، معاشرتی ہر طرح کی ترقی کا براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ توجہ قائم کرنے کا بہترین طریقہ کم کھانا ہے، اس لیے کہ اس سے خمار و غنودگی نہیں ہوتی، جو توجہ میں خلل کی بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں جتنے بڑے دانشور، سائنسدان یا وہ لوگ جنھوں نے معاشروں میں انقلاب متعارف کرائے، گزرے ہیں، وہ سب کے سب بہت کم کھانے والے تھے اور کم سونے والے بھی۔
ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے انگوٹھے کی حرکت سے پیچھے جارہے تھے، میری زبان سے 'اللہ اکبر' کا ورد تیزی سے جاری تھا۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا نماز عصر کے بعد تسبیح کررہا تھا، میرے ہاتھ کی انگلیاں اور زبان یہ عمل انجام دے رہے تھے، مگر ذہن کسی اور طرف تھا۔ میں نے حسب عادت اپنی نماز چند منٹوں میں ختم کی، جوتے پہنے اور اپنے معاملات میں مشغول ہوگیا۔ میں کئی سال سے نماز پڑھ رہا تھا مگر وہ مجھ میں کوئی قابل ذکر تبدیلی پیدا نہ کرسکی تھی، اس روز میں سوچنے لگا کہ ایسا کیوں تھا، میری نماز مجھ پر اثر کیوں نہیں ڈال پارہی تھی؟
ہمارے پڑوسی کو دل کی تکلیف تھی، ڈاکٹر نے حتمی طور پر خبردار کرتے ہوئے انھیں آگاہ کردیا کہ سگریٹ نوشی ترک کردیں ورنہ نتیجہ ان کے جان لیوا دل کے دورے کی صورت میں نکلے گا۔ وہ ہاں میں سر ہلاتے رہے، چند ہفتے بعد ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ انتقال کرگئے۔ یہ افسوس ناک خبر سنتے ہی میرے ذہن میں یہ خیال گردش کرنے لگا کہ ڈاکٹر کی ہدایات نے ان پر اثر کیوں نہ ڈالا تھا؟ مولوی صاحب حافظ قرآن تھے، اس کے معنی سے بھی آگاہ تھے، بچوں کو قرآن پڑھاتے بھی تھے، مگر قرآن ان کی روحانی وفکری حالت میں بہتری پیدا نہ کرسکا، کیوں؟ میں ان سوالوں سے پریشان تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ میری نماز، ڈاکٹر کی ہدایت، مولوی صاحب کا قرآن پڑھنا، یہ سب اعمال اثر سے محروم کیوں تھے؟
حکمران عوام کو مشکلات میں گھِرے دیکھنے، ان کی آہ و بکا سننے کے باوجود مسائل حل نہ کرتے، لوگ نماز روزے کی پابندی کے باوجود قربِ الٰہی حاصل نہ کرپاتے، شہری سڑکوں پر کچرا و گندگی دیکھنے، اس سے بیمار پڑنے کے باوجود اسے صاف نہ کرتے، کیوں؟ میں ان تمام سوالوں کے 'کیوں' کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اسی جواب میں ہمارے بہت سے مسائل کا حل اور ترقی کا راز موجود تھا۔
لہٰذا باریک بینی سے غور کرنے پر مجھے جواب مل گیا، وہ تھا 'توجہ' یعنی concentration کا نہ ہونا۔ اگر ہم غور کریں تو احساس ہوگا کہ ہم اپنے زیادہ تر اعمال، عبادات اور ذمے داریاں صرف جسمانی اعضا زبان، کان، آنکھ اور ہاتھ پاؤں سے انجام دیتے ہیں 'توجہ' سے نہیں، جس کی وجہ سے وہ نتیجہ خیز اور پُراثر ثابت نہیں ہوپاتے۔ مثلاً میری نماز توجہ کے بغیر فقط زبانی تھی، میرے پڑوسی کا ڈاکٹر کی نصیحت سننا بغیر توجہ کے صرف کانوں سے سننا تھا اور مولوی صاحب کا قرآن پڑھنا بھی توجہ سے خالی فقط آنکھوں و زبان کی حد تک تھا۔
توجہ کے بغیر انجام دیے جانے والا عمل ناقص اور بے اثر ہوتا ہے جو کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے آج ہم اپنی اہم ترین ذمے داریاں و عبادات بھی توجہ کے بغیر انجام دیتے ہیں۔ آج والدین تربیت اولاد پر توجہ نہیں دیتے، حکومت عوام کی حالتِ زار پر، انسان مقصد حیات پر، مالدار اپنی دولت اور نوجوان اپنا وقت صحیح راہ پر خرچ کرنے پر ''توجہ'' نہیں دیتے۔ ارتقا کا اہم ترین جز 'توجہ' ہمارے ہر معاملے میں سے غائب ہے۔ توجہ، جو اگر لیڈر کرے تو قوم کی تقدیر بدل دے، والدین کریں تو اولاد کا مستقبل، عوام کرے تو دنیا میں باوقار مقام حاصل کرلیں، اگر عبادات میں شامل ہو توانسان کی روحانی کایا پلٹ جائے۔
زندگی کے ہر شعبے میں اسی طرح کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں عمل تو انجام دیا جاتا ہے مگر توجہ و یکسوئی کے ساتھ نہیں۔ کسی عمل میں اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ''توجہ'' اس میں شامل ہو۔ میں نے خود یہ تجربہ کرکے دیکھا، میں نے فیصلہ کیا کہ نماز کے بعد کم از کم تسبیح پوری concentration کے ساتھ کروں گا۔ چنانچہ نماز ختم ہونے کے بعد تسبیح کے وقت میں نے کسی عجلت یا دوسرے خیال کو ذہن میں جگہ دیے بغیر اللہ کی بڑائی اور موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے صدقِ دل سے 'اللہ اکبر' کہنا شروع کیا۔
ابھی میں نے دوسری بار ہی اس کیفیت میں اللہ کا نام اپنی زبان سے ادا کیا تھا کہ میرے سر سے پاؤں تک جسم میں سکون بھری روحانی لہریں سی اترنے لگیں، میرا روواں روواں اس اسمِ پاک کی تاثیر کو محسوس کرنے لگا۔ دھیمے کرنٹ کی سی وہ لہریں میرے دماغ میں اوپر سے داخل ہوتیں اور سینے سے ہوتی ہوئی پورے جسم میں پھیل جاتیں، میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے، ہر بار اللہ کا نام لینے پر میری یہی حالت ہوتی۔ نماز ختم ہونے کے بعد بھی میں کافی دیر تک اس کیفیت کے اثرات اپنے قلب اور جسم پر محسوس کرتا رہا۔
اس روز مجھ پر انکشاف ہوا کہ توجہ کے بغیر اعمال اور عبادتیں ہمیں روحانی طور پر کہیں پہنچا سکتی ہیں نہ دنیاوی طور پہ۔ عمل بغیر توجہ کے ایسا ہی ہے جیسے جسم بغیر روح کے۔ توجہ کے بغیر پڑھی جانے والی نماز بھی اٹھنے بیٹھنے کی ورزش کے سوا کچھ نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسان روزانہ مختلف عمل و عبادات انجام دینے کے باوجود باطنی و ظاہری ترقی نہیں کرپاتے۔ یہ 'توجہ کا نہ ہونا' ہی ہے کہ مریض بیماری کی وجوہات و بچاؤ کے طریقے جاننے کے باوجود اسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے، لوگ برے نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود اسی برائی کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اسی لیے ہی عبادت گاہیں عابدوں سے، تعلیمی ادارے طالب علموں سے، اسپتال جدید سہولتوں سے بھرے ہونے کے باوجود معاشرے ان کے مثبت اثرات حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ توجہ ہی وہ حساس نظام ہے جو ہمارے کسی عمل کو زندہ کرتا ہے، اس میں روح پھونکتا ہے۔ اگر concentration کا نظام منقطع ہوجائے تو عمل کتنا ہی کیا جائے نتیجہ دینے سے محروم رہتا ہے۔ ہمارے اور ترقی یافتہ معاشروں میں ایک بڑا فرق 'توجہ' کا بھی ہے، وہ دینی نہ سہی کم از کم اپنی دنیاوی ذمے داریاں پوری توجہ سے انجام دیتے ہیں، جہاں ایک جھاڑو لگانے والا بھی استعمال شدہ سگریٹ کا ذرا سا ٹکڑا بھی چھوڑے بغیر پوری توجہ سے سڑک صاف کرتا ہے، جب کہ ہم عبادات میں بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔
توجہ ہی ترقی کا راستہ ہے، خواہ دنیاوی ہو یا روحانی، یہی بندے کو رب سے ملاتی ہے۔ یہی طریقہ اللہ کے ولیوں کے ہاں بھی ہمیں ملتا ہے، جو خصوصاً رب کا ذکر بہت 'توجہ' سے کرتے ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ زندہ اور روح دار ہوتا ہے، اسی لیے ان سے کرشمے تک رونما ہوتے ہیں۔ رب کے قریب انسان اسی صورت جاسکتا ہے جب اس کی پوری توجہ اس طرف ہو۔
ہمیں بھی اپنے اندر موجود 'توجہ' کے منقطع شدہ نظام کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اسی سے ہماری روحانی، معاشرتی ہر طرح کی ترقی کا براہ راست اور گہرا تعلق ہے۔ توجہ قائم کرنے کا بہترین طریقہ کم کھانا ہے، اس لیے کہ اس سے خمار و غنودگی نہیں ہوتی، جو توجہ میں خلل کی بڑی وجہ ہے۔ دنیا میں جتنے بڑے دانشور، سائنسدان یا وہ لوگ جنھوں نے معاشروں میں انقلاب متعارف کرائے، گزرے ہیں، وہ سب کے سب بہت کم کھانے والے تھے اور کم سونے والے بھی۔