حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کیخلاف کارروائی کی ہدایت
وزرات داخلہ کے حکم پرایف آئی اے اور تفتیشی اداروں نے حکمت عملی وضع کرلی
وفاقی وزارت داخلہ نے ایک مرتبہ پھر حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کے خلاف کارروائی کا حکم دیدیا ہے۔
جس پر ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی اداروں نے اپنی حکمت عملی کے تحت منی چینجر کے خلاف کریک ڈاؤن کی حکمت عملی وضع کرلی ہے جبکہ دوسری طرف منی ایکس چینج کمپنیوں کے مالکان نے اس صورتحال پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی اداروں کے رویئے کے باعث متعدد منی چینجرز پہلے ہی اپنا کاروبار دبئی اور دیگر ممالک منتقل کرچکے ہیں اگر پھر تفتیشی اداروں نے اپنا ''دھندہ'' کرنے کیلیے ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات نمودار ہونگے تفصیلات کے مطابق حوالہ اور ہنڈی کے خلاف کئی سال سے جاری کریک ڈائون قیمتی زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی روکنے اور ڈالرکی قیمت کومستحکم کرنے میں تو تاحال کامیاب نہیں ہوسکا ہے، تاہم فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) اور پولیس افسران کیلیے یہ انتہائی مفید رہا ہے۔
ایف آئی اے اور پولیس حکام حوالہ اور ہنڈی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف تاحال کوئی قابل ذکرکامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم قانونی کاروبار سے وابستہ ملک کے صف اول کے منی چینجرزکے خلاف کارروائی کرکے انھیں ہراساں کرنے میں ملوث رہے ہیں جسکے نتیجے میں متعدد منی چینجرز اپنا کاروبار دبئی منتقل کرچکے ہیں، ماضی میں ایف آئی اے کی جانب سے ملک کی صف اول کی منی ایکس چینج کمپنی خانانی اینڈ کالیا کے خلاف حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے اربوں روپے کی بیرون ملک منتقلی کا مقدمہ درج کیا گیا اور کمپنی کے تمام چیئرمین اور تمام ڈائریکٹرز دو سال سے زائد جیل میں بھی رہے تاہم ایف آئی اے اپنا مقدمہ عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی اور تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا، نتیجے میں خانانی اینڈ کالیا نے اپنا تمام کاروبار دبئی منتقل کرلیا جس سے نہ صرف اس کمپنی سے وابستہ ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے۔
بلکہ پاکستان ہر سال پاکستان منتقل کیے جانیوالے خطیر زرمبادلہ سے بھی محروم ہوگیا، اس کے علاوہ ایف آئی اے نے متعدد منی ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف مقدمات بنائے، ایک مقدمے میں بھی ملزمان کو سزا نہیں مل سکی دوسری جانب ایف آئی اے کے متعلقہ تفتیشی اور اعلیٰ افسران بڑے پیمانے پر قانونی کاروبار کرنیوالی منی ایکسچینج کمپنیوں کو ہراساں کیا اور مبینہ طور پر ان کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے عوض کروڑوں روپے فی کمپنی وصول کیے، وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے کو حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کیخلاف ازسرنو کریک ڈائون کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماضی میں ایف آئی اے کی جانب سے بڑے پیمانے پر منی ایکس چینج کمپنیوں کے مالکان کو ہراساں کیے جانے کے سبب اس کاروبار سے وابستہ کاروباری حضرات میں وزیر داخلہ کی نئی ہدایات کے بعد ایک مرتبہ پھر خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور مزید منی ایکس چینج کمپنیوں نے اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں، ذرائع کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران منی ایکس چینج کمپنیوں کیخلاف کریک ڈائون کرنیوالے ایف آئی اے افسران کی معاشی ساکھ سے متاثر ہوکر سندھ پولیس میں دہشت گردی کی روک تھام کیلیے بنائے گئے۔
خصوصی شعبوں میں تعینات افسران نے بھی منی چینجرزکے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں اور اس سلسلے میں سندھ پولیس کے افسران بھی ایف آئی اے کا نام استعمال کررہے ہیں، چند دن قبل ایک تاجر کی جانب سے دی جانے والی تحریری درخواست میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ انسپکٹر انوار لودھی کی سربراہی میںسادہ کپڑوں میں ملبوس8 سے 10مسلح افراد نے ان کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور اپنا تعارف ایف آئی اے کے افسران کے طور پر کرایا بعد ازاں سی آئی ڈی کے اعلی افسران کی مداخلت کے بعد یہ لوگ واپس گئے۔
اسی طرح متعدد منی چینجرز کی جانب سے سی آئی ڈی میں ہی تعینات ایک انسپکٹر راجہ خالد کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر وزارت داخلہ نے تحقیقات کا حکم دیا تھا، ایف آئی اے حکام یہ تمام معاملات سندھ پولیس کے اعلی افسران کے علم میں لائے تھے، ذرائع نے بتایا ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی نے تاجروں اور صنعتکاروں کی شکایات پر انسپکٹر انوار لودھی اور راجہ خالد کا تبادلہ اندرون سندھ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں تاہم تاحال یہ افسران سی آئی ڈی کے انسداد انتہا پسندی سیل میں ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
جس پر ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی اداروں نے اپنی حکمت عملی کے تحت منی چینجر کے خلاف کریک ڈاؤن کی حکمت عملی وضع کرلی ہے جبکہ دوسری طرف منی ایکس چینج کمپنیوں کے مالکان نے اس صورتحال پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتیشی اداروں کے رویئے کے باعث متعدد منی چینجرز پہلے ہی اپنا کاروبار دبئی اور دیگر ممالک منتقل کرچکے ہیں اگر پھر تفتیشی اداروں نے اپنا ''دھندہ'' کرنے کیلیے ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوشش کی تو اس سے ملکی معیشت پر منفی اثرات نمودار ہونگے تفصیلات کے مطابق حوالہ اور ہنڈی کے خلاف کئی سال سے جاری کریک ڈائون قیمتی زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی روکنے اور ڈالرکی قیمت کومستحکم کرنے میں تو تاحال کامیاب نہیں ہوسکا ہے، تاہم فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) اور پولیس افسران کیلیے یہ انتہائی مفید رہا ہے۔
ایف آئی اے اور پولیس حکام حوالہ اور ہنڈی کا غیرقانونی کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف تاحال کوئی قابل ذکرکامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں تاہم قانونی کاروبار سے وابستہ ملک کے صف اول کے منی چینجرزکے خلاف کارروائی کرکے انھیں ہراساں کرنے میں ملوث رہے ہیں جسکے نتیجے میں متعدد منی چینجرز اپنا کاروبار دبئی منتقل کرچکے ہیں، ماضی میں ایف آئی اے کی جانب سے ملک کی صف اول کی منی ایکس چینج کمپنی خانانی اینڈ کالیا کے خلاف حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے اربوں روپے کی بیرون ملک منتقلی کا مقدمہ درج کیا گیا اور کمپنی کے تمام چیئرمین اور تمام ڈائریکٹرز دو سال سے زائد جیل میں بھی رہے تاہم ایف آئی اے اپنا مقدمہ عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام ہوگئی اور تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا گیا، نتیجے میں خانانی اینڈ کالیا نے اپنا تمام کاروبار دبئی منتقل کرلیا جس سے نہ صرف اس کمپنی سے وابستہ ہزاروں افراد بیروزگار ہوگئے۔
بلکہ پاکستان ہر سال پاکستان منتقل کیے جانیوالے خطیر زرمبادلہ سے بھی محروم ہوگیا، اس کے علاوہ ایف آئی اے نے متعدد منی ایکس چینج کمپنیوں کے خلاف مقدمات بنائے، ایک مقدمے میں بھی ملزمان کو سزا نہیں مل سکی دوسری جانب ایف آئی اے کے متعلقہ تفتیشی اور اعلیٰ افسران بڑے پیمانے پر قانونی کاروبار کرنیوالی منی ایکسچینج کمپنیوں کو ہراساں کیا اور مبینہ طور پر ان کیخلاف کارروائی نہ کرنے کے عوض کروڑوں روپے فی کمپنی وصول کیے، وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے ایک مرتبہ پھر ایف آئی اے کو حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کیخلاف ازسرنو کریک ڈائون کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ماضی میں ایف آئی اے کی جانب سے بڑے پیمانے پر منی ایکس چینج کمپنیوں کے مالکان کو ہراساں کیے جانے کے سبب اس کاروبار سے وابستہ کاروباری حضرات میں وزیر داخلہ کی نئی ہدایات کے بعد ایک مرتبہ پھر خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور مزید منی ایکس چینج کمپنیوں نے اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں، ذرائع کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران منی ایکس چینج کمپنیوں کیخلاف کریک ڈائون کرنیوالے ایف آئی اے افسران کی معاشی ساکھ سے متاثر ہوکر سندھ پولیس میں دہشت گردی کی روک تھام کیلیے بنائے گئے۔
خصوصی شعبوں میں تعینات افسران نے بھی منی چینجرزکے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارنا شروع کردیے ہیں اور اس سلسلے میں سندھ پولیس کے افسران بھی ایف آئی اے کا نام استعمال کررہے ہیں، چند دن قبل ایک تاجر کی جانب سے دی جانے والی تحریری درخواست میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ انسپکٹر انوار لودھی کی سربراہی میںسادہ کپڑوں میں ملبوس8 سے 10مسلح افراد نے ان کے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کی اور اپنا تعارف ایف آئی اے کے افسران کے طور پر کرایا بعد ازاں سی آئی ڈی کے اعلی افسران کی مداخلت کے بعد یہ لوگ واپس گئے۔
اسی طرح متعدد منی چینجرز کی جانب سے سی آئی ڈی میں ہی تعینات ایک انسپکٹر راجہ خالد کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر وزارت داخلہ نے تحقیقات کا حکم دیا تھا، ایف آئی اے حکام یہ تمام معاملات سندھ پولیس کے اعلی افسران کے علم میں لائے تھے، ذرائع نے بتایا ایڈیشنل آئی جی سی آئی ڈی نے تاجروں اور صنعتکاروں کی شکایات پر انسپکٹر انوار لودھی اور راجہ خالد کا تبادلہ اندرون سندھ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں تاہم تاحال یہ افسران سی آئی ڈی کے انسداد انتہا پسندی سیل میں ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔