خدا اور امریکا
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جن کے لیے نواز شریف روانہ ہوئے تھے
جب دنیا کے کسی علاقے، لوگوں، پر ''خامہ فرسائی'' کرتے ہیں تو تھوڑی سی اپنے اندر کمی، خامی اور شرم بھی محسوس ہوتی ہے کہ کیا قلم اور علم ہمیں اس لیے ملا تھا یا ملا ہے کہ ہم آنکھیں بند کرکے لکھیں، کیا قلم اور علم کی حرمت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آغاز فرد سے کیا جائے اور بات اپنی کی جائے۔
یہ ایک اتنی بڑی وجہ ہے کہ میں اکثر ''اوروں'' پر لکھتے لکھتے بھی ''اپنوں'' پر لوٹ آتا ہوں کہ ہم نے کیا ''کمال'' کیا ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید کے ''تیر'' برسائیں اور یقین کیجیے جب بھی اس احساس کے ساتھ اخبار کو کھولا پڑھا تو ہمیشہ دکھ اور مایوسی ہی کا سامنا ہوا۔ اس میں قصور نہ ہمارا ہے نہ اخبار کا، بلکہ قصور ان کا ہے جو اخبار میں ''خبر'' بنتے ہیں یا جن کی وجہ سے اخبار میں ''خبر'' بنتی ہے۔
چند خبریں۔ ''فقیر والی میں نوجوان کا سر تن سے جدا کرکے چوک میں رکھ دیا گیا پاس ایک خط پڑا تھا کہ لڑکے لڑکیوں کی غلط حرکتوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔'' نہ اس خبر پر اعتراض ہے، نہ جو کچھ کیا گیا اس پر کوئی تبصرہ۔ سوال صرف یہ ہے کہ قانون کہاں ہے۔ تہذیب کہاں ہے۔ تہذیب کی گراوٹ نے یہ حادثہ جنم دیا۔ قانون کے نہ ہونے نے ایک جان کا نقصان کیا، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ فرد تائب ہوکر کوئی بڑا عالم بن جاتا، کوئی بڑا راہ نما بن جاتا، کوئی کرسکتا ہے فیصلہ۔ اور پھر آخری سوال کہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم ہوگئی۔
سزا کا یہ انداز کیا دہشت گردوں کی نشاندہی نہیں کر رہا کہ وہ اس معاشرے میں ''سرائیت'' کرچکے ہیں اور داعش کی بھرتی جاری ہے۔چلیں آگے بڑھیں افتخار محمد چوہدری فرماتے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے باریاں لینے والوں کا راستا روکنا ہوگا۔ سابق چیف جسٹس فرماتے ہیں موجودہ حکومت ملک کو جمہوری انداز میں چلانے میں ناکام ہوگئی ہے اور ملک کی بہتری کے لیے، صدارتی نظام لانا ہوگا۔
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جن کے لیے نواز شریف روانہ ہوئے تھے۔ جو دراصل اپنے لیے ہی روانہ ہوئے تھے کہ اس سے بہتر سیاست کو کیش کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا ۔ بحال ہونے کے بعد جو افتخار شاہی چلی ہے تو صبح شام لوگوں کو حاضر ہونے کے احکامات ملے۔ لوگ سمجھے کہ شاید اب ملک میں انصاف کا دوردورہ ہوگا۔ تحریک انصاف بھی یہی سمجھتی تھی۔ مگر ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سب کچھ وقت سے جوڑ دیتے ہیں اور وقت ایک سا نہیں رہتا۔
میں نے پڑھا تھا کہ بادشاہ نے صاحبزادے بادشاہ سے جو والد کو معزول کرکے بادشاہ بنے تھے کہا کہ نظربندی میں کوئی مصروفیت تو ہے نہیں کچھ مصروفیت چاہتا ہوں، صاحبزادے نے کہا کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہا کہ بچوں کو پڑھاؤں گا تو وقت گزر جائے گا۔ زیرک صاحبزادے بادشاہ نے کہا ''اچھا! ابھی تک حکمرانی کی خو دماغ سے نہیں نکلی؟''
تو یہی قصہ یہاں ہے اور کوڑی بہت دور کی لائے ہیں کہ نظام ہی بدل ڈالا جائے۔ یعنی پاکستان کی بنیاد جس نظام پر رکھی گئی تھی اسے تبدیل کردیا جائے اور صدارتی یعنی ایک فرد کا نظام استعمال کیا جائے اور ایک فرد ہوں گے افتخار چوہدری۔ ایں خیال است و محال است و جنوں است چوہدری صاحب۔ ہم نہ کسی کے حامی نہ مخالف۔ حامی پاکستان کے ہیں اور مخالف پاکستان مخالف قوتوں کے۔ ایک غیر ملکی خبر ہے کہ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال گناہ ہے ایک فتویٰ ہے۔ اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔
تبصرہ کوئی نہیں کرتے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون استعمال کرنا چاہیے نافذ کرنا چاہیے۔ فتویٰ ساری دنیا میں کہرام پیدا کردیتا ہے۔ دوست پریشان مسلمانوں کے اور دشمن خوش، یہ ایک خیال ہے ہمارا آزاد انسان کی طرح۔ایک اور خبر بہت اہم ہے۔ امریکا میں خاتون مشیر انتخاب کے ایک روز بعد قتل، دو حملہ آور ہلاک، 2 ملزم گرفتار۔ یہ واقعہ میکسیکوکے شہر ٹمکیسکو کا ہے۔
یہ ریاست موریکوں کا شہر ہے، آبادی ایک لاکھ کے قریب، یہ ریاست منشیات فروشی کے حوالے سے بہترین ریاست ہے، شہر میں جرائم پیشہ افراد کے منظم گروہ ہیں جو اغوا برائے تاوان، اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ اس سے پہلے مارچ 2015 میں میئر کی خاتون امیدوار ایک خاتون کو جرائم پیشہ گروہ نے قتل کردیا تھا۔
لیجیے یہ لیں امریکا بہادر عرف "Do More" جو خود اپنے ملک کی ایک ریاست کو نہیں سنبھال پا رہا ہے۔ 52 ریاستوں کا یہ ملک ہے اور دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہی عراق، شام، افغانستان، پاکستان میں کود پڑے کہ یہاں انھیں دہشت گردی بہت نظر آتی ہے کیونکہ یہ سارے مسلمان ملک ہیں اور چاہے کہیں یا نہ کہیں دل میں تو امریکنوں کے یہی ہے کہ مسلمان کا مطلب دہشت گرد۔ تو اب ان لوگوں کو کیسے مسلمان قرار دیا جائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ کہہ دیں کہ یہ ریاست، افغانستان، پاکستان سے متاثر ہے! یہی ہے وہ دہرا معیار اور یہی ہے New World Order یعنی دنیا کے لیے کچھ اور اپنے لیے کچھ اور۔ اس میں صرف امریکا نہیں پورا یورپ شامل ہے۔ ہم تو محض اشارے کرتے ہیں۔
اب واقعات کی تصویریں یا واقعات سے حقائق کو دریافت کرنا آپ کا کام ہے کیونکہ اسی اخبار میں امریکی میڈیا کے حوالے سے صفحہ نمبر 5 پر ایک خبر ہے کہ بھارت کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ خبر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسلحے کے تاجروں بین الاقوامی اور شدت پسندوں کے سوا سب لوگ دونوں ممالک کو ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے تو بھارت کا بہتر مستقبل نظر میں ہے اور اہم ہے پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ورنہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے بہتر مستقبل کے لیے بھارت کو ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ہے دوغلہ پن دوسری بات یہ کہ اسلحے کے بین الاقوامی تاجر کون ہیں؟ کون سے ممالک اسلحہ تیار کرکے ایشیا کو آیندہ جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں تاکہ اسلحہ Test بھی ہوجائے اور فروخت بھی اور منشیات کہاں استعمال ہو رہے ہیں، کیسے وہاں پہنچ رہی ہیں، کیوں پہنچ رہی ہیں، کون تیار کر رہا ہے؟ افغانستان کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اسے اس حال تک کس نے پہنچایا ہے۔
کون ذمے دار ہے وہاں کے حالات کا اور کون ہے جو وہاں امن قائم نہیں ہونے دے رہا اور کیوں؟سوالات، دلچسپ بھی ہیں اہم بھی، اور خطرناک بھی! اور یہ آج کے سوالات نہیں ہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔سال 2015 میں خام تیل کی گرتی عالمی قیمتوں کا خاتمہ عوام کو منتقل نہ ہوسکا۔ گیارہ سال کی کم ترین سطح پر جانے والی قیمتوں کا کوئی فائدہ حکومت نے عوام کو نہیں ہونے دیا بلکہ ٹیکسوں کی بھرمار کے ذریعے اس فائدے کو روکا گیا بھارت میں یہ فائدہ عوام تک پہنچا۔
یہاں ہر بار ایک نئے ٹیکس نے عوام کی زندگی دوبھرکردی ہے، یہ بھی اخبار کی خبر ہے اور دوسری خبر ہے کہ کاٹن یارن، چینی اور امریکی منڈیوں میں بھارت اور ویتنام نے پاکستان کی جگہ لے لی، ایک اور خبر ہے کہ بھارتی روئی کی پاکستان آمد نے روئی کی مقامی قیمتوں میں جمود پیدا کردیا۔ چین اور امریکا میں پاکستان اپنی سوتی دھاگے کی منڈی کھو رہا ہے اور بھارت اور ویتنام نے اپنے قدم جما لیے ہیں پاکستان کی جگہ۔بیمار ترکی کو اتاترک ملا تو اس نے ترکی کو یہاں پہنچادیا۔
ہمیں قائد اعظم نے نیا ملک بناکر دیا تو پہلے ہم نے اسے آدھا کردیا پھر اس کا یہ حال کردیا کیا لوگ ہیں ہم بھی قائد اعظم کو ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے وسط میں قبر میں بند کرکے پہرے لگا دیے اور ان کی تصویروں کے نوٹ سے کرپشن کا بازارگرم کردیا۔ یہ ہے قوم کا پاکستان کے بانی قائد اعظم کو خراج تحسین۔ خوش رہو اس غریب ملک کے سرمایہ دار سیاستدانو!کیونکہ ہمیں سوائے خدا اور امریکا کے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔
یہ ایک اتنی بڑی وجہ ہے کہ میں اکثر ''اوروں'' پر لکھتے لکھتے بھی ''اپنوں'' پر لوٹ آتا ہوں کہ ہم نے کیا ''کمال'' کیا ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید کے ''تیر'' برسائیں اور یقین کیجیے جب بھی اس احساس کے ساتھ اخبار کو کھولا پڑھا تو ہمیشہ دکھ اور مایوسی ہی کا سامنا ہوا۔ اس میں قصور نہ ہمارا ہے نہ اخبار کا، بلکہ قصور ان کا ہے جو اخبار میں ''خبر'' بنتے ہیں یا جن کی وجہ سے اخبار میں ''خبر'' بنتی ہے۔
چند خبریں۔ ''فقیر والی میں نوجوان کا سر تن سے جدا کرکے چوک میں رکھ دیا گیا پاس ایک خط پڑا تھا کہ لڑکے لڑکیوں کی غلط حرکتوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔'' نہ اس خبر پر اعتراض ہے، نہ جو کچھ کیا گیا اس پر کوئی تبصرہ۔ سوال صرف یہ ہے کہ قانون کہاں ہے۔ تہذیب کہاں ہے۔ تہذیب کی گراوٹ نے یہ حادثہ جنم دیا۔ قانون کے نہ ہونے نے ایک جان کا نقصان کیا، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ فرد تائب ہوکر کوئی بڑا عالم بن جاتا، کوئی بڑا راہ نما بن جاتا، کوئی کرسکتا ہے فیصلہ۔ اور پھر آخری سوال کہ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم ہوگئی۔
سزا کا یہ انداز کیا دہشت گردوں کی نشاندہی نہیں کر رہا کہ وہ اس معاشرے میں ''سرائیت'' کرچکے ہیں اور داعش کی بھرتی جاری ہے۔چلیں آگے بڑھیں افتخار محمد چوہدری فرماتے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے باریاں لینے والوں کا راستا روکنا ہوگا۔ سابق چیف جسٹس فرماتے ہیں موجودہ حکومت ملک کو جمہوری انداز میں چلانے میں ناکام ہوگئی ہے اور ملک کی بہتری کے لیے، صدارتی نظام لانا ہوگا۔
یہ وہی چیف جسٹس ہیں جن کے لیے نواز شریف روانہ ہوئے تھے۔ جو دراصل اپنے لیے ہی روانہ ہوئے تھے کہ اس سے بہتر سیاست کو کیش کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا ۔ بحال ہونے کے بعد جو افتخار شاہی چلی ہے تو صبح شام لوگوں کو حاضر ہونے کے احکامات ملے۔ لوگ سمجھے کہ شاید اب ملک میں انصاف کا دوردورہ ہوگا۔ تحریک انصاف بھی یہی سمجھتی تھی۔ مگر ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سب کچھ وقت سے جوڑ دیتے ہیں اور وقت ایک سا نہیں رہتا۔
میں نے پڑھا تھا کہ بادشاہ نے صاحبزادے بادشاہ سے جو والد کو معزول کرکے بادشاہ بنے تھے کہا کہ نظربندی میں کوئی مصروفیت تو ہے نہیں کچھ مصروفیت چاہتا ہوں، صاحبزادے نے کہا کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کہا کہ بچوں کو پڑھاؤں گا تو وقت گزر جائے گا۔ زیرک صاحبزادے بادشاہ نے کہا ''اچھا! ابھی تک حکمرانی کی خو دماغ سے نہیں نکلی؟''
تو یہی قصہ یہاں ہے اور کوڑی بہت دور کی لائے ہیں کہ نظام ہی بدل ڈالا جائے۔ یعنی پاکستان کی بنیاد جس نظام پر رکھی گئی تھی اسے تبدیل کردیا جائے اور صدارتی یعنی ایک فرد کا نظام استعمال کیا جائے اور ایک فرد ہوں گے افتخار چوہدری۔ ایں خیال است و محال است و جنوں است چوہدری صاحب۔ ہم نہ کسی کے حامی نہ مخالف۔ حامی پاکستان کے ہیں اور مخالف پاکستان مخالف قوتوں کے۔ ایک غیر ملکی خبر ہے کہ دوران ڈرائیونگ موبائل فون کا استعمال گناہ ہے ایک فتویٰ ہے۔ اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔
تبصرہ کوئی نہیں کرتے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ قانون استعمال کرنا چاہیے نافذ کرنا چاہیے۔ فتویٰ ساری دنیا میں کہرام پیدا کردیتا ہے۔ دوست پریشان مسلمانوں کے اور دشمن خوش، یہ ایک خیال ہے ہمارا آزاد انسان کی طرح۔ایک اور خبر بہت اہم ہے۔ امریکا میں خاتون مشیر انتخاب کے ایک روز بعد قتل، دو حملہ آور ہلاک، 2 ملزم گرفتار۔ یہ واقعہ میکسیکوکے شہر ٹمکیسکو کا ہے۔
یہ ریاست موریکوں کا شہر ہے، آبادی ایک لاکھ کے قریب، یہ ریاست منشیات فروشی کے حوالے سے بہترین ریاست ہے، شہر میں جرائم پیشہ افراد کے منظم گروہ ہیں جو اغوا برائے تاوان، اور بھتہ خوری میں ملوث ہیں۔ اس سے پہلے مارچ 2015 میں میئر کی خاتون امیدوار ایک خاتون کو جرائم پیشہ گروہ نے قتل کردیا تھا۔
لیجیے یہ لیں امریکا بہادر عرف "Do More" جو خود اپنے ملک کی ایک ریاست کو نہیں سنبھال پا رہا ہے۔ 52 ریاستوں کا یہ ملک ہے اور دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہی عراق، شام، افغانستان، پاکستان میں کود پڑے کہ یہاں انھیں دہشت گردی بہت نظر آتی ہے کیونکہ یہ سارے مسلمان ملک ہیں اور چاہے کہیں یا نہ کہیں دل میں تو امریکنوں کے یہی ہے کہ مسلمان کا مطلب دہشت گرد۔ تو اب ان لوگوں کو کیسے مسلمان قرار دیا جائے گا۔
ہوسکتا ہے کہ کہہ دیں کہ یہ ریاست، افغانستان، پاکستان سے متاثر ہے! یہی ہے وہ دہرا معیار اور یہی ہے New World Order یعنی دنیا کے لیے کچھ اور اپنے لیے کچھ اور۔ اس میں صرف امریکا نہیں پورا یورپ شامل ہے۔ ہم تو محض اشارے کرتے ہیں۔
اب واقعات کی تصویریں یا واقعات سے حقائق کو دریافت کرنا آپ کا کام ہے کیونکہ اسی اخبار میں امریکی میڈیا کے حوالے سے صفحہ نمبر 5 پر ایک خبر ہے کہ بھارت کو اپنے بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ خبر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اسلحے کے تاجروں بین الاقوامی اور شدت پسندوں کے سوا سب لوگ دونوں ممالک کو ساتھ دیکھنا چاہتے ہیں۔
سب سے پہلے تو بھارت کا بہتر مستقبل نظر میں ہے اور اہم ہے پاکستان کا نام نہیں لیا گیا ورنہ کہا جاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے بہتر مستقبل کے لیے بھارت کو ایسا کرنا چاہیے۔ یہ ہے دوغلہ پن دوسری بات یہ کہ اسلحے کے بین الاقوامی تاجر کون ہیں؟ کون سے ممالک اسلحہ تیار کرکے ایشیا کو آیندہ جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں تاکہ اسلحہ Test بھی ہوجائے اور فروخت بھی اور منشیات کہاں استعمال ہو رہے ہیں، کیسے وہاں پہنچ رہی ہیں، کیوں پہنچ رہی ہیں، کون تیار کر رہا ہے؟ افغانستان کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اسے اس حال تک کس نے پہنچایا ہے۔
کون ذمے دار ہے وہاں کے حالات کا اور کون ہے جو وہاں امن قائم نہیں ہونے دے رہا اور کیوں؟سوالات، دلچسپ بھی ہیں اہم بھی، اور خطرناک بھی! اور یہ آج کے سوالات نہیں ہیں نصف صدی کا قصہ ہے۔سال 2015 میں خام تیل کی گرتی عالمی قیمتوں کا خاتمہ عوام کو منتقل نہ ہوسکا۔ گیارہ سال کی کم ترین سطح پر جانے والی قیمتوں کا کوئی فائدہ حکومت نے عوام کو نہیں ہونے دیا بلکہ ٹیکسوں کی بھرمار کے ذریعے اس فائدے کو روکا گیا بھارت میں یہ فائدہ عوام تک پہنچا۔
یہاں ہر بار ایک نئے ٹیکس نے عوام کی زندگی دوبھرکردی ہے، یہ بھی اخبار کی خبر ہے اور دوسری خبر ہے کہ کاٹن یارن، چینی اور امریکی منڈیوں میں بھارت اور ویتنام نے پاکستان کی جگہ لے لی، ایک اور خبر ہے کہ بھارتی روئی کی پاکستان آمد نے روئی کی مقامی قیمتوں میں جمود پیدا کردیا۔ چین اور امریکا میں پاکستان اپنی سوتی دھاگے کی منڈی کھو رہا ہے اور بھارت اور ویتنام نے اپنے قدم جما لیے ہیں پاکستان کی جگہ۔بیمار ترکی کو اتاترک ملا تو اس نے ترکی کو یہاں پہنچادیا۔
ہمیں قائد اعظم نے نیا ملک بناکر دیا تو پہلے ہم نے اسے آدھا کردیا پھر اس کا یہ حال کردیا کیا لوگ ہیں ہم بھی قائد اعظم کو ہم نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے وسط میں قبر میں بند کرکے پہرے لگا دیے اور ان کی تصویروں کے نوٹ سے کرپشن کا بازارگرم کردیا۔ یہ ہے قوم کا پاکستان کے بانی قائد اعظم کو خراج تحسین۔ خوش رہو اس غریب ملک کے سرمایہ دار سیاستدانو!کیونکہ ہمیں سوائے خدا اور امریکا کے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔