مردم شماریاتنے مسائل کیوں
گزشتہ18برس سے متوقع مردم شماری کے ایک بار پھر ٹلنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں
WASHINGTON/ISLAMABAD/KARACHI:
گزشتہ18برس سے متوقع مردم شماری کے ایک بار پھر ٹلنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ، حالانکہ وفاقی حکومت نے مارچ2016 سے مردم شماری کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مد میں14.5ملین روپے مختص کردیے ہیں ، جس کا نصف (یعنی7.4ملین)فوج کو جائے گا، جواس دوران امن وامان کی صورتحال کوکنٹرول کرنے کی ذمے دار ہو گی ، مگر جس انداز میں ملک کے سیاسی حالات چل رہے ہیں ، انھیں دیکھتے ہوئے بعض واقفان حال کا خیال ہے کہ شاید مردم شماری ایک بار پھر ٹل جائے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مردم شماری کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ پاکستانی آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ اور اب تک ہونے والی مردم شماری کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردم شماری کا آغاز سب سے پہلے سلطنت روما میں شروع ہوا، جہاں فوج میں بھرتی کے لیے بالغ نوجوانوں کا شمار کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے برصغیر کی پہلی مکمل مردم شماری1871-72کے دوران کی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1865 میں شمالی علاقوں میں ہونے والی مردم شماری برصغیر کی پہلی مردم شماری تھی۔ بہر حال 1871کے بعد سے ہر دس برس بعد تواتر کے ساتھ مردم شماری ہوتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد 1951سے1998تک (بشمول 1961، 1972،1981)کل پانچ مردم شماریاں ہوچکی ہیں ، جب کہ اس سال مارچ میں چھٹی مردم شماری متوقع ہے جس کے لیے بظاہر تیاریاں ہورہی ہیں۔
مردم شماری خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے، جسے تیکنیکی بنیادوں پر قطعی غیر سیاسی انداز میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر پہلے مرحلے میں مکانات کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کر کے ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد افراد کا شمار شروع ہوتا ہے۔ یہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
اول،De-Jureجس میں لوگوں کی اصل رہائش گاہ کے حوالے سے انھیں رجسٹر کیا جاتا ہے۔ دوئم،De-Facto یعنی جو جہاں رہائش پذیر ہے، اس حوالے سے اس کا اندراج ، مردم شماری کے دوران شہریوں کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش، صنف، مادری زبان، عقیدہ اور تعلیم جیسے کالم بھرے جاتے ہیں۔اس طرح شہریوں کا مکملData ریاست کو مل جاتا ہے۔ یعنی صنفی تناسب کیا ہے۔ عمر کے لحاظ سے آبادی کیا ہے۔خواندگی کی شرح کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
آئین پاکستان کے چوتھے شیڈول کے حصہ اول کے مطابق مردم شماری وفاقی سبجیکٹ ہے۔ آئین کی شق51 (3) کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا ازسرنو تعین ہر مردم شماری کے بعد ممکن ہوتا ہے۔اسی طرح وفاقی اور صوبائی انتخابی حلقوں میں ردوبدل بھی مردم شماری سے مشروط ہے، جب کہ آئین کی شق160(2)کے مطابق ہر مردم شماری کے بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل اور صوبوں کے لیے فنڈز کا تعین کیا جانا چاہیے۔حکومت پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے31اگست1973کو جاری کیے گئے خطOM No.8/9/72 TRV میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں صوبوں کے کوٹے کا تعین اور اس میں ردوبدل ہر مردم شماری کے بعد کی جاسکے گی۔
پاکستان میں چونکہ سیاست اور سیاسی مفادات ہر کام پر حاوی آجاتے ہیں، اس لیے بعض ایسے کام کہ جو ریاستی نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں، وہ بھی سیاسی مداخلت کی نذر ہوجاتے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ مردم شماری کے ساتھ ہوا جو شروع ہی سے متنازع رہی ہے۔ صرف1951کی مردم شماری پر کوئی واضح اعتراضات نہیں اٹھے تھے۔
کیونکہ ملک نیا نیا بنا تھا اور لوگوں کے ذہن میں ابھی علاقائی حقوق کا تصور اجاگر نہیں ہوا تھا ، لیکن1961کی مردم شماری کے بارے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا تھا۔ مشرقی پاکستان سے یہ اعتراض اٹھا تھا کہ اس کی آبادی دانستہ کم ظاہر کی گئی ہے تاکہ اس کو ملنے والے وسائل اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹا کم کیا جا سکے۔
جب کہ 1972کی مردم شماری کے بارے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے کچھ حلقوں نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائرکیا کہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے جس کا اعتراف عدالت میں اس وقت کے صوبائی سیکریٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کے دباؤ پر کراچی کی آبادی میں ردوبدل کیا،مگر مجموعی طور پر یہ شفاف مردم شماری تھی۔1981 میں جنرل ضیا کے دور میں ہونے والی مردم شماری پر چند معمولی اعتراضات کے سوا کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
1990کا عشرہ پاکستان کی سیاست میں خاصا ہیجان انگیز تھا۔1988سے1999کے دوران چار حکومتیں قائم ہوئیں، جن میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔اس پورے عشرے کے دوران سیاسی انتشار اپنے عروج پر رہا۔ کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا تھا ، جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے بارے میں بھی یہ رائے پائی جاتی تھی کہ وہاں بھی حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں ہیں۔چنانچہ 1991-92میں متوقع مردم شماری کرانے کا رسک کوئی بھی حکومت نہیں لے سکی۔
یوں مردم شماری مسلسل ٹلتی رہی۔ بالآخر 7برس کی تاخیر کے بعد میاں نواز شریف کی دوسری حکومت نے 1998میں مردم شماری کرانے کا بیڑا اٹھایا لیکن یہ عمل بھی ادھورا ہی رہا۔البتہ اس کی بنیاد پر آج تک بڑے قومی سیاسی اور مالیاتی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس مردم شماری کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان میں بھی مردم شماری کی گئی۔
قانون کے مطابق 2008میں مردم شماری ہونا تھی۔2011ء میں خانہ شماری سے اس کا آغاز ہوا ، مگر شدید سیلاب کے باعث لاکھوں خاندانوں کے بے گھر ہوجانے کی وجہ سے اس سلسلے کو وہیں روک دیا گیا۔اس کے بعد یہ معاملہ ٹلتا چلا گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے2013 میں اپنی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مردم شماری کرانے کے عزم کا اظہارکیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ مارچ2016سے مردم شماری کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ14.5ملین روپے بھی مختص کیے گئے ہیں، مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، ان کے پیش نظر مارچ میں مردم شماری کے شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔
پاکستان میں مردم شماری کے متنازعہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ اول، ریاستی ادارے خاصی حد تک متنازع ہوچکے ہیں۔ خاص طورپر غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس حد تک متنازع بنادیے گئے ہیں کہ ان پر سے عوام کا اعتبار ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں ہمیشہ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دوئم، ملک میں مردم شماری کے لیے کوئی تربیت یافتہ مستقل عملہ نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں عام طور پر پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے اساتذہ کو اس مقصد کے لیے معمولی تربیت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اکثر خانہ پری کرتے ہیں۔ اس لیے ان خدشات کا اظہار کیا جارہاہے کہ اس روایتی اندازمیں کرائی گئی مردم شماری کو کچھ حلقے سیاسی بنیادوں پر تسلیم کرنے سے انکار نہ کردیں۔اس لیے ضروری ہے کہ مردم شماری کو بھیOutsourceکردیا جائے اور کسی بین الاقوامی ادارے سے کرائی جائے تاکہ اس پر اعتراضات نہ اٹھ سکیں۔
ترقی کی راہ پر گامزن کسی ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مردم شماری جیسے حساس اور نازک امور کو انتہائی شفاف انداز میں قواعد و ضوابط کے مطابق کرانے کی کوشش کرے۔ تاکہ اگلے دس برس کے لیے وسائل کی تقسیم کا کلیہ طے ہونے کے علاوہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا میرٹ کی بنیاد پر تعین ہوسکے ۔ اس کے علاوہ مردم شماری سے حاصل شدہ Data کو عوام کی آگہی کے لیے مشتہر کیے جانے سے ریاستی امور پر عوام کا اعتبار قائم ہوتا ہے۔
گزشتہ18برس سے متوقع مردم شماری کے ایک بار پھر ٹلنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں ، حالانکہ وفاقی حکومت نے مارچ2016 سے مردم شماری کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مد میں14.5ملین روپے مختص کردیے ہیں ، جس کا نصف (یعنی7.4ملین)فوج کو جائے گا، جواس دوران امن وامان کی صورتحال کوکنٹرول کرنے کی ذمے دار ہو گی ، مگر جس انداز میں ملک کے سیاسی حالات چل رہے ہیں ، انھیں دیکھتے ہوئے بعض واقفان حال کا خیال ہے کہ شاید مردم شماری ایک بار پھر ٹل جائے۔ لہٰذا یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مردم شماری کیا ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہے؟ پاکستانی آئین اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ اور اب تک ہونے والی مردم شماری کے کیا نتائج برآمد ہوئے؟
جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے تو اس کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مردم شماری کا آغاز سب سے پہلے سلطنت روما میں شروع ہوا، جہاں فوج میں بھرتی کے لیے بالغ نوجوانوں کا شمار کیا جاتا تھا۔ انگریزوں نے برصغیر کی پہلی مکمل مردم شماری1871-72کے دوران کی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1865 میں شمالی علاقوں میں ہونے والی مردم شماری برصغیر کی پہلی مردم شماری تھی۔ بہر حال 1871کے بعد سے ہر دس برس بعد تواتر کے ساتھ مردم شماری ہوتی رہی۔ قیام پاکستان کے بعد 1951سے1998تک (بشمول 1961، 1972،1981)کل پانچ مردم شماریاں ہوچکی ہیں ، جب کہ اس سال مارچ میں چھٹی مردم شماری متوقع ہے جس کے لیے بظاہر تیاریاں ہورہی ہیں۔
مردم شماری خالصتاً ایک انتظامی معاملہ ہے، جسے تیکنیکی بنیادوں پر قطعی غیر سیاسی انداز میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ عام طور پر پہلے مرحلے میں مکانات کو مختلف کٹیگریز میں تقسیم کر کے ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد افراد کا شمار شروع ہوتا ہے۔ یہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
اول،De-Jureجس میں لوگوں کی اصل رہائش گاہ کے حوالے سے انھیں رجسٹر کیا جاتا ہے۔ دوئم،De-Facto یعنی جو جہاں رہائش پذیر ہے، اس حوالے سے اس کا اندراج ، مردم شماری کے دوران شہریوں کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش، صنف، مادری زبان، عقیدہ اور تعلیم جیسے کالم بھرے جاتے ہیں۔اس طرح شہریوں کا مکملData ریاست کو مل جاتا ہے۔ یعنی صنفی تناسب کیا ہے۔ عمر کے لحاظ سے آبادی کیا ہے۔خواندگی کی شرح کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ
آئین پاکستان کے چوتھے شیڈول کے حصہ اول کے مطابق مردم شماری وفاقی سبجیکٹ ہے۔ آئین کی شق51 (3) کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا ازسرنو تعین ہر مردم شماری کے بعد ممکن ہوتا ہے۔اسی طرح وفاقی اور صوبائی انتخابی حلقوں میں ردوبدل بھی مردم شماری سے مشروط ہے، جب کہ آئین کی شق160(2)کے مطابق ہر مردم شماری کے بعد قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل اور صوبوں کے لیے فنڈز کا تعین کیا جانا چاہیے۔حکومت پاکستان کی اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے31اگست1973کو جاری کیے گئے خطOM No.8/9/72 TRV میں واضح کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں صوبوں کے کوٹے کا تعین اور اس میں ردوبدل ہر مردم شماری کے بعد کی جاسکے گی۔
پاکستان میں چونکہ سیاست اور سیاسی مفادات ہر کام پر حاوی آجاتے ہیں، اس لیے بعض ایسے کام کہ جو ریاستی نظام کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں، وہ بھی سیاسی مداخلت کی نذر ہوجاتے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ مردم شماری کے ساتھ ہوا جو شروع ہی سے متنازع رہی ہے۔ صرف1951کی مردم شماری پر کوئی واضح اعتراضات نہیں اٹھے تھے۔
کیونکہ ملک نیا نیا بنا تھا اور لوگوں کے ذہن میں ابھی علاقائی حقوق کا تصور اجاگر نہیں ہوا تھا ، لیکن1961کی مردم شماری کے بارے میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا تھا۔ مشرقی پاکستان سے یہ اعتراض اٹھا تھا کہ اس کی آبادی دانستہ کم ظاہر کی گئی ہے تاکہ اس کو ملنے والے وسائل اور سرکاری ملازمتوں میں کوٹا کم کیا جا سکے۔
جب کہ 1972کی مردم شماری کے بارے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے کچھ حلقوں نے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائرکیا کہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے جس کا اعتراف عدالت میں اس وقت کے صوبائی سیکریٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے کیا۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وفاقی حکومت کے دباؤ پر کراچی کی آبادی میں ردوبدل کیا،مگر مجموعی طور پر یہ شفاف مردم شماری تھی۔1981 میں جنرل ضیا کے دور میں ہونے والی مردم شماری پر چند معمولی اعتراضات کے سوا کوئی بڑا اعتراض سامنے نہیں آیا۔
1990کا عشرہ پاکستان کی سیاست میں خاصا ہیجان انگیز تھا۔1988سے1999کے دوران چار حکومتیں قائم ہوئیں، جن میں سے کوئی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرسکی۔اس پورے عشرے کے دوران سیاسی انتشار اپنے عروج پر رہا۔ کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوگیا تھا ، جب کہ ملک کے دیگر حصوں کے بارے میں بھی یہ رائے پائی جاتی تھی کہ وہاں بھی حالات مردم شماری کے لیے سازگار نہیں ہیں۔چنانچہ 1991-92میں متوقع مردم شماری کرانے کا رسک کوئی بھی حکومت نہیں لے سکی۔
یوں مردم شماری مسلسل ٹلتی رہی۔ بالآخر 7برس کی تاخیر کے بعد میاں نواز شریف کی دوسری حکومت نے 1998میں مردم شماری کرانے کا بیڑا اٹھایا لیکن یہ عمل بھی ادھورا ہی رہا۔البتہ اس کی بنیاد پر آج تک بڑے قومی سیاسی اور مالیاتی فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس مردم شماری کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ آزاد جموں و کشمیر اورگلگت بلتستان میں بھی مردم شماری کی گئی۔
قانون کے مطابق 2008میں مردم شماری ہونا تھی۔2011ء میں خانہ شماری سے اس کا آغاز ہوا ، مگر شدید سیلاب کے باعث لاکھوں خاندانوں کے بے گھر ہوجانے کی وجہ سے اس سلسلے کو وہیں روک دیا گیا۔اس کے بعد یہ معاملہ ٹلتا چلا گیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے2013 میں اپنی حکومت کے قیام کے ساتھ ہی مردم شماری کرانے کے عزم کا اظہارکیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل میں اس سلسلے میں فیصلہ کیا گیا کہ مارچ2016سے مردم شماری کا آغاز کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ14.5ملین روپے بھی مختص کیے گئے ہیں، مگر واقفان حال کا کہنا ہے کہ ملک کے سیاسی حالات جس نہج پر جا رہے ہیں، ان کے پیش نظر مارچ میں مردم شماری کے شروع ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے۔
پاکستان میں مردم شماری کے متنازعہ ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ اول، ریاستی ادارے خاصی حد تک متنازع ہوچکے ہیں۔ خاص طورپر غلط حکومتی پالیسیوں کے باعث اس حد تک متنازع بنادیے گئے ہیں کہ ان پر سے عوام کا اعتبار ختم ہوچکا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے فیصلوں اور اقدامات کے بارے میں ہمیشہ شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ دوئم، ملک میں مردم شماری کے لیے کوئی تربیت یافتہ مستقل عملہ نہیں ہے، جیسا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ہوتا ہے۔
پاکستان میں عام طور پر پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے اساتذہ کو اس مقصد کے لیے معمولی تربیت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جن کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ وہ اکثر خانہ پری کرتے ہیں۔ اس لیے ان خدشات کا اظہار کیا جارہاہے کہ اس روایتی اندازمیں کرائی گئی مردم شماری کو کچھ حلقے سیاسی بنیادوں پر تسلیم کرنے سے انکار نہ کردیں۔اس لیے ضروری ہے کہ مردم شماری کو بھیOutsourceکردیا جائے اور کسی بین الاقوامی ادارے سے کرائی جائے تاکہ اس پر اعتراضات نہ اٹھ سکیں۔
ترقی کی راہ پر گامزن کسی ملک کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ مردم شماری جیسے حساس اور نازک امور کو انتہائی شفاف انداز میں قواعد و ضوابط کے مطابق کرانے کی کوشش کرے۔ تاکہ اگلے دس برس کے لیے وسائل کی تقسیم کا کلیہ طے ہونے کے علاوہ نئی انتخابی حلقہ بندیاں اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کا میرٹ کی بنیاد پر تعین ہوسکے ۔ اس کے علاوہ مردم شماری سے حاصل شدہ Data کو عوام کی آگہی کے لیے مشتہر کیے جانے سے ریاستی امور پر عوام کا اعتبار قائم ہوتا ہے۔