بیگم میرے افسانوں کی پہلی قاری ہیں

طاہر صاحب کے مطابق جدید افسانے کا موضوع، اسلوب اور مواد جدید ہوتا ہے.

تجریدیت کے خلاف ہوں، افسانہ نگاری کا مستقبل جدید افسانے سے وابستہ ہے۔ فوٹو : فائل

یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب وہ ریڈیو میں ملازم تھے۔ سر میں افسانہ نگاری کا سودا سمایا تھا۔

''افکار'' کا دفتر ریڈیو اسٹیشن کے نزدیک ہی تھا، جو صہبا لکھنوی کی ادارت میں نکلتا تھا۔ افسانہ لکھا، تو خواہش ہوئی، اُسے ''افکار'' میں شایع کروایا جائے۔ اُن کے بہ قول، صہبا صاحب دل کے بہت اچھے، مگر ذرا سخت آدمی تھے، بڑے بڑے ادیبوں کو ڈانٹ دیا کرتے۔ اسی باعث جب جیب میں افسانہ ڈالے وہ ''افکار'' کے دفتر میں داخل ہوئے، تو خاصے ڈرے ہوئے تھے۔ صہبا صاحب کے پوچھنے پر ''کیسے آنا ہوا؟'' اُنھوں نے جواب دیا،''بس، یوں ہی چلا آیا!'' کچھ دیر متذبذب بیٹھے پرانے رسالے دیکھتے رہے۔ پھر ڈرتے ڈرتے افسانہ اُن کے سامنے رکھا۔ صہبا صاحب نے کہا،''پڑھ کر جواب دوں گا!''

ہفتے بھر بے چین رہنے کے بعد پھر ''افکار'' کے دفتر پہنچ گئے۔ صہبا صاحب اکیلے ہی تھے۔ سلام دعا ہوئی، لیکن افسانے کا کوئی ذکر نہیں آیا۔ کچھ دیر متذبذب بیٹھے رہے کہ پوچھنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ جب رخصت ہونے لگے، تو صہبا صاحب نے کہا،''تمھارا افسانہ دیکھ لیا ہے، ایک اور افسانہ دے دو!'' مزید کوئی سوال کیے بغیر وہ گھر لوٹ آئے، بس یہی سوچتے رہے کہ نہ جانے اُنھیں افسانہ پسند آیا بھی ہے یا نہیں! خیر، جب دوسرا افسانہ پیش کیا، تب اُنھوں نے خود ہی کہا،''تمھارا افسانہ میں نے پڑھ لیا ہے۔ اچھا لکھا ہے۔ دوسرا افسانہ اِس لیے منگوایا ہے کہ پہلے کی اشاعت کے بعد اِسے شایع کروں گا!''

یوں لکھنے کا باقاعدہ آغاز ہوا!

یہ کہانی ہے جدید افسانے کے علم بردار طاہر نقوی کی، جن کی گفت گو، ٹھیک اُن کی تخلیقات کے مانند، پیچیدگیوں سے پاک رواں، مختصر اور واضح ہے۔ فن افسانہ نگاری پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے اِس تخلیق کار کے افسانوں کا انگریزی اور ہندی کے علاوہ ہندوستان میں بولی جانے والی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا، پاک و ہند کے قدآور ناقدین نے اُن پر مضامین لکھے، سنجیدہ ادبی حلقوں میں اُن کے افسانے زیربحث آئے، منتخبات میں ان کی تخلیقات نے جگہ حاصل کی۔

82ء میں اُن کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ''بند لبوں کی چیخ'' شایع ہوا۔ فلیپ پر ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر مجتبیٰ حسین اور رام لال کی رائے موجود تھی۔ ناقدین اور قارئین دونوں ہی نے اُسے سراہا، رائٹرز گلڈ نے اُسے آدم جی ایوارڈ سے نوازا، جسے وہ اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں۔ یہ ایوارڈ وجۂ تنازع بھی بنا۔ بہت واویلا ہوا کہ ایک جونیئر کو ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔ دوسرا مجموعہ ''حبس کے بعد پہلی بارش'' 89ء میں منظرعام پر آیا۔ اگلے مجموعے ''شام کا پرندہ'' کا سن اشاعت 98ء تھا۔ چوتھا مجموعہ ''دیر کبھی نہیں ہوتی'' 2005 میں چھپا، جسے ''اذکار و افکار اکیڈمی'' نے ادبی ایوارڈ سے نوازا۔ 2012 میں پانچواں مجموعہ ''کوئوں کی بستی میں ایک آدمی'' شایع ہوا۔

طاہر نقوی دیباچہ یا پیش لفظ لکھوانے کے قائل نہیں۔ ماسوائے ''بند لبوں کی چیخ'' کے، کسی مجموعے پر کسی ادیب یا نقاد کی رائے موجود نہیں۔ اُن کے مطابق اُس سمے دوستوں کے مشورے پر ایسا کیا گیا تھا، مگر بعد میں یہ مشق نہیں اپنائی۔ کیا ادیب معاشرے سے کٹ کر لکھ سکتا ہے؟ اِس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق ادیب تو معاشرے میں رہ کر لکھتا ہے۔

پورا نام طاہر رضا نقوی ہے۔ آبائی وطن یوپی کا گائوں بن ہیڑہ ہے۔ پیدایش دہرہ دون کی ہے۔ اُنھوں نے 1942 میں ثامن نقوی کے گھر آنکھ کھولی، جو ''سروے آف انڈیا'' سے منسلک تھے۔ تقسیم کے بعد اُنھوں نے ''سروے آف پاکستان'' میں ذمے داری سنبھالی، جس کا دفتر مری میں تھا۔ لگ بھگ ڈھائی برس وہاں بیتے۔ پھر اُن کے خاندان نے کراچی کا رخ کیا۔ کھارادر کے علاقے میں ڈیرا ڈالا۔

محلے کی گلیوں میں گلی ڈنڈا اور کرکٹ کھیلنے والے طاہر نقوی خاصے شرارتی تھے۔ ہر معاملے میں آگے آگے رہتے۔ دو بہن، چار بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ اُن کے والد انتہائی کُم گو انسان تھا۔ اُن کی کم گوئی اولاد کو یاوہ گوئی سے باز رکھتی۔ احترام کا فاصلہ ہمیشہ قائم رہتا۔ والد کے رعب کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہی نہیں ہونے دی جاتی، جو سزا کا موجب بنے۔

گنتی قابل طلبا میں ہوتی تھی۔ ایک سرکاری اسکول سے دوسری جماعت کا مرحلہ طے کرنے کے بعد چھلانگ لگائی اور پانچویں جماعت میں پہنچ گئے۔ بعد کا سفر تعلیم گاہ سیکنڈری اسکول، جوڑیا بازار سے طے ہوا۔ قابلیت نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے میں معاون ثابت ہوئی۔ 59ء میں اُسی درس گاہ سے اچھے نمبروں کے ساتھ میٹرک کیا۔ ڈی جے اور آدم جی سمیت کسی بھی نمایاں کالج میں داخلہ مل سکتا تھا، لیکن ایک نجی درس گاہ رضا علی کالج کا رخ کیا، جس کا سبب اُن کے بہ قول، وہ نالائق دوست بنے، جو میٹرک میں اچھے نمبر حاصل نہیں کر سکے تھے، اور ایک نجی ادارے میں داخلہ لینے پر مجبور تھے۔ بس، وہ بھی اُن ہی کے ساتھ بندھے چلے گئے۔

گوکہ ذہن میں مستقبل کا کوئی واضح خاکہ موجود نہیں تھا، تاہم والد کی خواہش کے برعکس اُنھوں نے پری انجینئرنگ کے مضمون کا انتخاب کیا۔ انٹر کے بعد جناح کالج پہنچ گئے، جہاں سے 67ء میں بی ایس سی کی سند حاصل کی۔ طلبا سیاست اُس زمانے میں عروج پر تھی، امتحانات کے دوران احتجاجاً پرچے پھاڑ کر ''واک آئوٹ'' کرنا معمول تھا، اِسی وجہ سے چند برس ضایع ہوئے۔ بعد کی تعلیم پرائیویٹ حاصل کی۔ اسلامک ہسٹری اور اردو میں جامعہ کراچی سے ماسٹرز کیا۔ زمانۂ طالب علمی اُن کا رجحان بائیں بازو کی جانب تھا۔ ''نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن'' کے راہ نمائوں کے ساتھ خاصا اٹھنا بیٹھنا رہا، البتہ جلسے جلسوں سے، احتجاجی سرگرمیوں سے دُور رہے۔
انٹر کے بعد ہی عملی زندگی میں قدم رکھ دیا، اور ریڈیو پاکستان میں ڈھائی سو روپے ماہ وار پر ملازم ہوگئے۔

بعد کی زندگی اُسی ادارے میں گزری۔ جُوں جُوں تعلیمی مراحل طے کرتے گئے، ترقی کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔ 99ء میں قبل از وقت ریٹائرمینٹ لے لی۔ اُس سمے سینئر ریڈیو انجینئر کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے تھے۔ ریٹائرمینٹ کا سبب صاحب زادے کی امریکا جا کر ایم ایس کرنے کی خواہش تھی۔ جو پیسے ہاتھ آئے، وہ بیٹے کے تعلیمی اخراجات پر خرچ کیے۔ بعد کے برسوں میں چند کالجز میں تدریسی ذمے داریاں نبھائیں۔ ایک چینل سے بہ طور اسکرپٹ رائٹر بھی منسلک رہے، لیکن کہیں جم کر ملازمت نہیں کی۔

کتابوں سے دوستی پرانی ہے۔ فکشن، مطالعے کا محور رہا۔ یوں تو سب ہی کو پڑھا، لیکن پریم چند نے زیادہ متاثر کیا۔ اپنے پسندیدہ لکھاری کی بابت کہتے ہیں،''اُنھیں لکھے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا ہے، مگر آج بھی آپ اُن کے افسانے پڑھیں، تو یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ آج ہی کے افسانے ہوں۔ یہ بڑے ادیب کی خوبی ہے۔ اگر آپ کا لکھا ہوا دو برس بعد 'آئوٹ آف ڈیٹ' ہوجائے، تو بات نہیں بنتی۔''


لکھنے کا آغاز بچوں کے رسائل سے کیا۔ کہانی کی صنف پہلا انتخاب تھا۔ تخلیقات اخبارات و رسائل میں باقاعدگی سے شایع ہوئیں۔ 68ء میں نیم فلمی، نیم ادبی رسائل کی جانب متوجہ ہوئے۔ اِس دوران خالص ادبی جریدے میں چھپنے کی خواہش نے بے کل رہا، جس کی تحریک پر ایک افسانہ ''پہلی سے پہلے'' لکھا، جو ''افکار'' میں شایع ہوا۔ دوسرا افسانہ ''گول دائرے'' بھی ''افکار'' ہی میں چھپا۔ پھر تو ایک سلسلہ چل نکلا۔ پاک و ہند کے معتبر پرچوں میں تخلیقات شایع ہوئیں۔ اس زمانے میں جدید افسانہ نمو پا رہا تھا۔ ''اوراق'' میں مسلسل چھپنے کی وجہ سے یہ مشہور ہوگیا کہ اُن کا تعلق ڈاکٹر وزیرآغا گروپ سے ہے، تاہم قاسمی صاحب کے پرچے ''فنون'' میں بھی اُن کے افسانوں نے جگہ حاصل کی۔ ہندوستان سے نکلنے والے رسائل ''نیا ادب''، ''نیا دور'' اور ''بیسویں صدی'' میں باقاعدگی سے نگارشات شایع ہوئیں۔

''اوراق'' پر جدید فکر غالب تھی۔ اس سے جُڑنے کے بعد اُن کی تخلیقات میں بھی جدید رنگ در آیا، جدید افسانہ نگار کی حیثیت سے اُنھیں شناخت کیا جانے لگا۔ جس زمانے میں اُنھوں نے لکھنا شروع کیا، اردو افسانہ تجریدی رنگ میں رنگا ہوا تھا، تاہم اُنھوں نے اِس تجربے سے گریز کیا۔ کہتے ہیں، وہ تجریدیت کے خلاف ہیں، اِس کی وجہ سے قاری ادب سے دور ہوگیا۔ ہاں، علامت نگاری کے قائل ہیں۔ یہ تجربہ اُن کی تخلیقات میں نظر بھی آتا ہے، البتہ اس تعلق سے بھی نظریہ واضح ہے۔ کہتے ہیں،''علامت، مقصد تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ تو ایسی علامات نہ ہو، جو سمجھ میں نہ آئیں۔''

گوکہ جدیدیت کے بعد دیگر تحاریک نے بھی اردو ادب پر اپنا اثر چھوڑا، لیکن وہ خود کو جدید افسانہ نگار ہی کہنے میں مطمئن ہیں۔ مابعدجدیدیت کے قائل نہیں۔ کہنا ہے، اِس فکر کے تحت لکھے جانے والے افسانے قاری کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ''ابھی تو جدیدیت ہی کا پوری طرح اطلاق نہیں ہوا، پھر مابعد جدیدیت کا سوال کہاں سے آگیا!''

طاہر صاحب کے مطابق جدید افسانے کا موضوع، اسلوب اور مواد جدید ہوتا ہے، یہ بیانیہ افسانے سے مختلف ہے، ایک جملے کے کئی معنی نکلتے ہیں۔ جدیدیت سے مراد اُن کے نزدیک جدید ماحول، ذہن اور طرز زندگی کو موضوع بنانے کا عمل ہے۔ ''ابتدا میں اِس تحریک کے تحت تجریدی افسانے لکھے گئے، پھر جدید افسانہ آگیا، جو اپنے موضوعات ساتھ لے آیا۔ واقعات کے علاوہ معمولی خیال پر بھی افسانہ لکھنے کے امکانات نے جنم لیا۔ اِس صنف کو تخلیق کار اور قاری دونوں ہی نے پسند کیا، یہ اب تک لکھا جارہا ہے۔ جدید افسانہ میری ترجیح ہے۔ پہلے میں بیانیہ افسانے لکھتا تھا، ابتدائی چند افسانوں کے بعد اِس جانب آگیا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ افسانے کا مستقبل جدید افسانے سے وابستہ ہے۔''

اُنھوں نے اپنے والد، ثامن نقوی کا شعری مجموعہ ''کوئی سنتا نہیں آواز'' مرتب کرکے 2008 میں شایع کروایا۔ بتاتے ہیں، ہندوستان کے زمانے میں والد باقاعدگی سے شعر کہا کرتے تھے، پاکستان آنے کے بعد معاشی معاملات میں ایسے الجھے کہ یہ مشق ترک ہوگئی۔ خوش قسمتی سے شاعری تحریری صورت میں محفوظ رہی، جسے والد کی وفات کے بعد انھوں نے کتابی شکل دی۔ ثامن نقوی نے ''ساداتِ بن ہیڑہ'' کے عنوان سے بھی کتاب لکھی تھی، جس کی اشاعت کا انتظام طاہر نقوی ہی نے کیا۔

وہ ایک ادبی جریدہ نکالنے کے خواہش مند تھے، سہ ماہی رجحان اسی خواہش کا نتیجہ تھا۔91ء میں اُس کا پہلا شمارہ شایع ہوا۔ بدقسمتی سے فقط دو ہی شمارے نکل سکے۔ ''چُوں کہ میں تنہا بھاگ دوڑ کر رہا تھا، پھر معاشی مسائل بھی تھے، افسانہ نگاری بھی متاثر ہورہی تھی، اِس لیے اس سے دامن چھڑا لیا۔''

ڈاکٹر وزیر آغا کا ذکر بڑے احترام سے کرتے ہیں۔ کہنا ہے، ڈاکٹر صاحب کی عادت تھی کہ نیا شمارہ آنے سے پہلے شاعر اور ادیبوں کو باقاعدہ خط لکھ کر مطلع کرتے۔ اِسی طرح افسانے کے سُقم کی بھی بڑی خوبی سے نشان دہی کرتے، تخلیق کار سے اُس میں بہتری کے لیے مشورہ کرتے۔ ''گوکہ میرے افسانے 'فنون' میں بھی شایع ہوئے، لیکن قاسمی صاحب سے ڈاکٹر صاحب کے اختلافات کے باوجود اُنھوں نے کبھی اِس بات پر اعتراض نہیں کیا۔''
زیر ترتیب کتابوں کا موضوع نکلا، تو بتانے لگے کہ ٹی وی ڈراموں کا انتخاب مکمل ہوچکا ہے، ادبی موضوعات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ بھی تیار ہے، اُن کے فن سے متعلق مختلف ادیبوں کے تحریر کردہ مضامین کو بھی کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے، تاہم مذکورہ کتابوں کی اشاعت کی راہ میں ایک رکاوٹ حائل ہے۔

''میں افسانوں کو ترجیح دیتا ہوں۔ جب چند افسانے جمع ہوجاتے ہیں، تو یہی سوچتا ہوں کہ پہلے افسانوں کا مجموعہ آجائے۔ دیگر کتابیں لانے کا ارادہ تو ہے، دیکھیں وہ کب شایع ہوتی ہیں۔''

اُن کی زندگی میں خوش گوار لمحات کی فراوانی ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ 70ء میں آیا، جب اُن کی ممتاز طاہر نقوی سے شادی ہوئی۔ تدریس کے پیشے سے وابستہ اُن کی زوجہ اردو کی پروفیسر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔ بتاتے ہیں، بیگم اُن کے افسانوں کی پہلی قاری ہیں، اُن کے پاس جو کتابیں آتی ہیں، وہ پہلے بیگم ہی پڑھتی ہیں، اُن پر مضمون لکھتے سمے بھی اُن ہی سے مشورہ کرتے ہیں۔ اپنوں کی جدائی سے دُکھ بھری یادیں منسلک ہیں، البتہ زندگی سے کوئی شکوہ نہیں۔

اُن کے نزدیک اردو ادب کا مستقبل روشن ہے۔ ''مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بہت اچھے افسانے لکھے جارہے ہیں، شاعری ہورہی ہے، ادب ترقی کر رہا ہے۔'' یقین رکھتے ہیں کہ اردو زبان باقی رہے گی کہ یہ آج بھی پڑھی اور لکھی جارہی ہے۔ ''صرف پاکستان اور انڈیا میں نہیں، آج اردو میں لکھنے والے کئی ادیب اور شاعر یورپ اور امریکا میں مقیم ہیں۔ وہاں باقاعدگی سے ادبی تقریبات ہوتی ہیں۔''

اِس خیال سے متفق ہیں کہ کتاب ادیب کے لیے اولاد کے مانند ہوتی ہے۔ ہر مجموعے میں کوئی نہ کوئی ایسا افسانہ ہے، جو دل کے قریب ہے، جسے وہ اپنے نمایندہ افسانوں میں شمار کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں ''دیر کبھی نہیں ہوتی''، ''آزمایش''، ''شور''، ''اجنبی''، ''ابال''، ''دستک''، ''ایمرجینسی'' اور ''کوئوں کی بستی میں ایک آدمی'' کا ذکر کرتے ہیں۔ افسانہ ''افسانہ نگار کی اپنے کردار سے آخری ملاقات '' ذاتی طور پر بہت پسند ہے، جسے ڈاکٹر انور سدید نے سال کا بہترین افسانہ قرار دیا تھا۔ اُسے لکھتے سمے بھی عجیب و غریب صورت حال سے گزرے۔

گھر میں ہوں، تو کرتا پاجامہ پہلی ترجیح ہے۔ باہر جاتے ہوئے پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔ ماش کی دال پسندیدہ ڈش ہے۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پریم چند کو پسندیدہ افسانہ نگار قرار دیتے ہیں۔ شاعری میں زیادہ دل چسپی نہیں۔ فلموں میں ''خاموش رہو'' اچھی لگی۔ دلیپ کمار کے مداح ہیں۔ لتا کی آواز بھاتی ہے۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ تینوں کی شادی ہوچکی ہے۔ شفیق والد ہیں۔ خواہش ہے کہ اولاد ترقی کرے۔ یہ آرزو بھی ہے کہ کوئی ایسا افسانہ لکھ دیں، جو امر ہوجائے۔

کچھ ذکر ڈراما نویسی کا۔۔۔
ریڈیو ہی کے زمانے میں ڈراما نویسی کا آغاز ہوگیا تھا۔ تھے تو انجینئر، مگر افسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے واقفیت کے طفیل بڑی پختگی کے ساتھ اسکرپٹ لکھا کرتے۔ پھر پی ٹی وی کے لیے لکھنے لگے۔ کوئٹہ سینٹر سے 98ء میں نشر ہونے والا سیریل ''بارش کے بعد'' اُن کی پہچان بنا، جس کے ہدایت کار، سجاد احمد تھے۔ اِس سیریل کو غیرمعمولی پزیرائی ملی۔

کوئٹہ سینٹر ہی سے نشر ہونے والے اُن کے تحریر کردہ ایک اور سیریل ''آدم کے بیٹے'' کا بھی بہت چرچا ہوا۔ یہ پی ٹی وی نیشنل ایوارڈ کے لیے نام زد ہوا۔ ایک اور سیریل ''کسک'' بھی بہت مقبول ہوا۔ پرائیویٹ چینلز کے لیے بھی لکھا۔ ان کے تحریر کردہ طویل دورانیے کے کھیل ''عمر قید''، ''ڈھلتی شام کا سورج'' اور ''ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی'' بہت مقبول ہوئے۔ 2008 تک وہ اِس حیثیت سے مصروف رہے۔ پھر وقت نے عارضی طور پر ڈراما نویسی سے دُور کر دیا۔ ٹی وی ڈراموں کے بدلتے مزاج کو وہ اِس دُوری کا بنیادی سبب قرار دیتے ہیں۔ ان کے بہ قول ،اگر ادبی ذوق رکھنے والے ہدایت کار رابطہ کریں، تو پھر لکھنے کا ارادہ باندھ سکتے ہیں۔
Load Next Story