’بیلنس لائف‘ کام چوروں کے لیے اچھا بہانا ہے
دنیا میں جس کسی نے بھی بڑا کام کیا ہے ہمیں اُن کی ان کی زندگیوں میں بیلنس لائف نہیں، جنون نظر آتا ہے۔
بیلنس لائف، یعنی کہ زندگی میں وقت کو صحیح طرح سے تقسیم کرکے گزارنا ایک مفید اور قابلِ عمل ضابطہ حیات ہے۔ آپ آفس کے وقت پر کام کریں، نماز کے وقت نماز پڑھیں، شام کو گھر پر بیوی اور بچوں کو وقت دیں، کچھ وقت عزیز رشتہ داروں کے لئے، کچھ پڑھنے پڑھانے کے لئے، کچھ دین سیکھنے کے لئے، کچھ اللہ کے ذکر کے لئے اور کچھ اپنے کسی آئیڈیے یا وژن کے لئے جسے آپ مستقبل میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ اگر اس طرح سے وقت تقسیم ہوسکے (اور اس کی بھرپور کوشش بھی کرنی چاہیئے) تو کیا کہنے۔
مگر ہمارے معاشرے میں یہ بہت مشکل کام ہے، اور ایسا نہ ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ معاشرے میں زندہ رہنے کی بنیادی شرائط مفقود ہیں۔ جس معاشرے میں سکون ہو نہ انصاف، بجلی ہو نہ پانی، سچائی ہو نہ دیانتداری وہاں آئیڈیلز کے ساتھ جینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ آدمی بیلنس لائف کا تو وہاں سوچے جہاں ہر شخص اپنے حصے کا کام کررہا ہو۔ جہاں ایک ایک آدمی کو پورے پورے اداروں کا کام کرنا پڑے، پوری نسل کی آبیاری کرنی پڑے وہاں بیلنس لائف کا رونا نہیں رونا چاہیئے۔ یہ راگ ٹریننگ ورکشاپس میں الاپنے تک تو ٹھیک ہیں مگر جو تھوڑے بہت لوگ کام کر رہے ہیں انہیں بیلنس لائف کے جال میں نہیں پھنسانا چاہیئے۔ پِتّہ ماری کی محنت کرنی ہی پڑتی ہے۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنی ہی پڑتی ہیں۔ جب تک رات کے اندھیروں کو دن کے اجالوں میں بدلنے کا فن نہ آئے، نصیب کی تاریکیاں دور نہیں ہوتیں۔
اگر آپ کسی بڑے منصوبے یا پلان پر کام کر رہے ہیں تو اس پر زندگی تباہ کرنی ہی پڑتی ہے، تب کہیں جا کے اُمید کی کوئی کِرن پھوٹتی ہے۔ چپ چاپ سر جھکا کے کام کرتے رہیں اور بیلنس لائف ان کے لئے چھوڑ دیں جنہیں نہ تو بیلنس کا مطلب آتا ہے نہ لائف کا۔
دوسری وجہ بیلنس لائف پر عملدرآمد نہ ہوسکنے کی ہر فیلڈ، ہر شے میں تکمیل (پرفیکشن) کا جنون ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ امتحانوں میں بھی سر فہرست رہے، بیت بازی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہ ہو، کرکٹ ایسی کھیلے کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ زبان یوں بولے کہ لکھنؤ کی یاد تازہ ہوجائے اور دین پر ایسی گِرفت کہ اِمام غزالی کا شاگرد ٹھہرے۔ ہمارا بس چلتا تو بچہ فیکٹری سے آرڈر پر بنوا لیتے (ویسے یہ دن بھی دور نہیں ہے) اور اِس پہ فتنہ یہ کہ اب اِسی بچے کو تلوار بنا کر پڑوسیوں، رشتہ داروں اور ملک کے باسیوں کی گردنیں اتارنے لگتے ہیں۔ کیا ہی کم ظرفی ہے کہ اُس چیز پر اِتراتے ہیں جو سرتاپا خُدا کی دین ہے اور اپنا کوئی کمال ہی نہیں ہے۔
2 سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں اُمت اِس انتظار میں ہے کہ ایسا عالم آئے جو فزکس کا بھی بادشاہ ہو، وہ شیخ الحدیث آئیں جو پائلٹ بھی ہوں، ایسا اِمام مسجد ہو جو بہترین بزنس مین بھی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اِسی دھما چوکڑی اور ذہن کے فتور میں نہ تو ہم بزنس مین اور پائلٹ بناسکے اور نہ ہی شیخ الحدیث۔ جو شخص بخاری پڑھا لے وہ شیخ الحدیث اور جس نے نکڑ کی دکان کھول لی وہ بزنس مین۔ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا، خُدارا کسی ایک فیلڈ کا اِنتخاب کریں اور زندگی لگا دیں۔ بعد میں آنے والے لوگ آپ کی بیلنس لائف کے گیت خود ہی گاتے رہیں گے۔
دنیا ہمت کی مرہون منّت ہے، حوصلہ کریں، ہمت باندھیں اور جو چاہیں وہ کر گزریں کون روکتا ہے؟ ہر شخص کا بیلنس (اعتدال) اپنا ہے۔ اونٹ کی ٹانگ کا بیلنس کچھ اور تو چوہے کی ٹانگ کا کچھ اور۔ درجن کا آدھا چھ، تو عشرے کا آدھا پانچ۔ ایک ہی معیار پر سب کو جانچنے کا طریقہ کیا ہو؟
یہ لوگ اِمام غزالی ؒ کے پاس کیوں نہیں گئے؟ بیلنس لائف کا رونا روتے ہوئے جب وہ 12 سال کے لئے قاضی القضات (چیف جسٹس) کا عہدہ چھوڑ کر تصّوف کی راہ پر چل پڑے، اور اِمام ابوحنیفہؒ سے کیوں نہیں کہا کہ حضرت رات کو سو جایا کریں، بیلنس لائف اور پوری نیند بڑی چیز ہے۔ فقہ کا کام کوئی اور کرلے گا۔ قائداعظم ؒ کو کیوں نہیں ٹوکا کہ آپ تن تنہا کیا کروڑوں مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں؟ علامہ اقبال ؒ سے کیوں گلہ نہیں کیا کہ کیا اُردو فارسی میں آپ کے بعد کوئی شاعر نہ آئے گا؟ مدر ٹریسا کو کیوں نہ کہا کہ کیوں زندگی جھگیوں میں بسر کرتی ہو، نیلسن منڈیلا سے کیوں نہ عرض کی کہ حضرت 27 سال سے جیل میں ہیں، چھوڑیں ضد کو اور بیلنس لائف گزاریں، اِسٹیو جابز کی مثال لائیں۔ بِل گیٹس کو دیکھیں۔ ہر وہ شخص جس نے کوئی بڑا کام کیا، مادام کیوری سے لے کر عبدالستار ایدھی تک، ان کی زندگیوں میں بیلنس لائف نہیں، جنون نظر آتا ہے۔
اب ایسے لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا اور میرے جیسے نالائقوں کو چند کتابیں پڑھنے اور چند لائنیں لکھنے پر لوگ بیلنس لائف، بیوی بچوں سے محبت اور گھر گر ہستی کا طعنہ دینے آجاتے ہیں۔ آئیے ایسی لائف گزارتے ہیں کہ یہ پروفیشنل ٹرینرز اپنی ورکشاپس میں مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔
[poll id="946"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
مگر ہمارے معاشرے میں یہ بہت مشکل کام ہے، اور ایسا نہ ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ معاشرے میں زندہ رہنے کی بنیادی شرائط مفقود ہیں۔ جس معاشرے میں سکون ہو نہ انصاف، بجلی ہو نہ پانی، سچائی ہو نہ دیانتداری وہاں آئیڈیلز کے ساتھ جینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے۔ آدمی بیلنس لائف کا تو وہاں سوچے جہاں ہر شخص اپنے حصے کا کام کررہا ہو۔ جہاں ایک ایک آدمی کو پورے پورے اداروں کا کام کرنا پڑے، پوری نسل کی آبیاری کرنی پڑے وہاں بیلنس لائف کا رونا نہیں رونا چاہیئے۔ یہ راگ ٹریننگ ورکشاپس میں الاپنے تک تو ٹھیک ہیں مگر جو تھوڑے بہت لوگ کام کر رہے ہیں انہیں بیلنس لائف کے جال میں نہیں پھنسانا چاہیئے۔ پِتّہ ماری کی محنت کرنی ہی پڑتی ہے۔ مہنگے خواب دیکھنے کے لئے آنکھیں بیچنی ہی پڑتی ہیں۔ جب تک رات کے اندھیروں کو دن کے اجالوں میں بدلنے کا فن نہ آئے، نصیب کی تاریکیاں دور نہیں ہوتیں۔
اگر آپ کسی بڑے منصوبے یا پلان پر کام کر رہے ہیں تو اس پر زندگی تباہ کرنی ہی پڑتی ہے، تب کہیں جا کے اُمید کی کوئی کِرن پھوٹتی ہے۔ چپ چاپ سر جھکا کے کام کرتے رہیں اور بیلنس لائف ان کے لئے چھوڑ دیں جنہیں نہ تو بیلنس کا مطلب آتا ہے نہ لائف کا۔
دوسری وجہ بیلنس لائف پر عملدرآمد نہ ہوسکنے کی ہر فیلڈ، ہر شے میں تکمیل (پرفیکشن) کا جنون ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ امتحانوں میں بھی سر فہرست رہے، بیت بازی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہ ہو، کرکٹ ایسی کھیلے کہ لوگ دانتوں میں انگلیاں دبا لیں۔ زبان یوں بولے کہ لکھنؤ کی یاد تازہ ہوجائے اور دین پر ایسی گِرفت کہ اِمام غزالی کا شاگرد ٹھہرے۔ ہمارا بس چلتا تو بچہ فیکٹری سے آرڈر پر بنوا لیتے (ویسے یہ دن بھی دور نہیں ہے) اور اِس پہ فتنہ یہ کہ اب اِسی بچے کو تلوار بنا کر پڑوسیوں، رشتہ داروں اور ملک کے باسیوں کی گردنیں اتارنے لگتے ہیں۔ کیا ہی کم ظرفی ہے کہ اُس چیز پر اِتراتے ہیں جو سرتاپا خُدا کی دین ہے اور اپنا کوئی کمال ہی نہیں ہے۔
2 سو سال سے برصغیر پاک و ہند میں اُمت اِس انتظار میں ہے کہ ایسا عالم آئے جو فزکس کا بھی بادشاہ ہو، وہ شیخ الحدیث آئیں جو پائلٹ بھی ہوں، ایسا اِمام مسجد ہو جو بہترین بزنس مین بھی ہو وغیرہ وغیرہ۔ اِسی دھما چوکڑی اور ذہن کے فتور میں نہ تو ہم بزنس مین اور پائلٹ بناسکے اور نہ ہی شیخ الحدیث۔ جو شخص بخاری پڑھا لے وہ شیخ الحدیث اور جس نے نکڑ کی دکان کھول لی وہ بزنس مین۔ مغرب کے پاس پیسہ ہے دین نہیں۔ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ ایسا نہیں ہوتا، خُدارا کسی ایک فیلڈ کا اِنتخاب کریں اور زندگی لگا دیں۔ بعد میں آنے والے لوگ آپ کی بیلنس لائف کے گیت خود ہی گاتے رہیں گے۔
دنیا ہمت کی مرہون منّت ہے، حوصلہ کریں، ہمت باندھیں اور جو چاہیں وہ کر گزریں کون روکتا ہے؟ ہر شخص کا بیلنس (اعتدال) اپنا ہے۔ اونٹ کی ٹانگ کا بیلنس کچھ اور تو چوہے کی ٹانگ کا کچھ اور۔ درجن کا آدھا چھ، تو عشرے کا آدھا پانچ۔ ایک ہی معیار پر سب کو جانچنے کا طریقہ کیا ہو؟
یہ لوگ اِمام غزالی ؒ کے پاس کیوں نہیں گئے؟ بیلنس لائف کا رونا روتے ہوئے جب وہ 12 سال کے لئے قاضی القضات (چیف جسٹس) کا عہدہ چھوڑ کر تصّوف کی راہ پر چل پڑے، اور اِمام ابوحنیفہؒ سے کیوں نہیں کہا کہ حضرت رات کو سو جایا کریں، بیلنس لائف اور پوری نیند بڑی چیز ہے۔ فقہ کا کام کوئی اور کرلے گا۔ قائداعظم ؒ کو کیوں نہیں ٹوکا کہ آپ تن تنہا کیا کروڑوں مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں؟ علامہ اقبال ؒ سے کیوں گلہ نہیں کیا کہ کیا اُردو فارسی میں آپ کے بعد کوئی شاعر نہ آئے گا؟ مدر ٹریسا کو کیوں نہ کہا کہ کیوں زندگی جھگیوں میں بسر کرتی ہو، نیلسن منڈیلا سے کیوں نہ عرض کی کہ حضرت 27 سال سے جیل میں ہیں، چھوڑیں ضد کو اور بیلنس لائف گزاریں، اِسٹیو جابز کی مثال لائیں۔ بِل گیٹس کو دیکھیں۔ ہر وہ شخص جس نے کوئی بڑا کام کیا، مادام کیوری سے لے کر عبدالستار ایدھی تک، ان کی زندگیوں میں بیلنس لائف نہیں، جنون نظر آتا ہے۔
اب ایسے لوگوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا اور میرے جیسے نالائقوں کو چند کتابیں پڑھنے اور چند لائنیں لکھنے پر لوگ بیلنس لائف، بیوی بچوں سے محبت اور گھر گر ہستی کا طعنہ دینے آجاتے ہیں۔ آئیے ایسی لائف گزارتے ہیں کہ یہ پروفیشنل ٹرینرز اپنی ورکشاپس میں مثال کے طور پر پیش کر سکیں۔
[poll id="946"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔