نواز شریف مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کررہے ہیں
عظیم برطانوی دانشور اور فلاسفر، برٹرنڈرسل، نے ساٹھ کے عشرے ہی میں تنازعہ کشمیر کے بارے میں کہہ دیا تھا
KARACHI:
عظیم برطانوی دانشور اور فلاسفر، برٹرنڈرسل، نے ساٹھ کے عشرے ہی میں تنازعہ کشمیر کے بارے میں کہہ دیا تھا: ''کشمیر کا مسئلہ خطہ زمین کا نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کا ہے۔'' گزشتہ چھ عشرے سے زائد عرصے سے پاکستان کے ہر حکمران اور مقتدر جماعت کی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہی پالیسی رہی ہے۔
پاکستان نے اسی بنیاد پر بھارت سے ایک چھوٹی (کارگل) اور دو بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ کچھ نقصان بھی اٹھایا ہے لیکن پاکستان، پاکستانی حکام اور ہمارے عوام مسئلہ کشمیر سے دستکش ہوئے ہیں نہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچا ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف جب پہلے دوبار اقتدار میں آئے تب بھی اور اب تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھی مسئلہ کشمیر کی حمایت کرنے اور تقریباً سات دہائیاں قدیم اس تنازعے کے کسی متفقہ حل کے لیے مسلسل کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو مگر شکوہ ہے کہ نواز شریف مسئلہ کشمیر کو کم ترجیح دے رہے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ محض غلط فہمی اور بدگمانی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدگمانی نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ یہ ''غلط فہمی'' اگر دانستہ ہے تو یہ نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہمارے جہادیوں کے حق میں۔ یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر جہاں پاکستان بھر میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت اور بھارتی استبداد کے خلاف جلسے جلوس ہوئے، وہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ہماری بعض جہادی تحریکوں اور تنظیموں نے بھی ریلیاں نکالیں۔ ان جلوسوں سے جہادی تحریکوں کے ''بے بدل'' قائدین نے خطاب بھی فرمایا اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق حکومت پر تنقید کے تِیر بھی برسائے۔ بے مثل رہنما جناب حافظ محمد سعید نے وزیر اعظم نواز شریف کو ہدف بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
''ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا محور محض بھارت سے تجارتی تعلقات استوار کرنا رہ گیا ہے۔'' گزارش یہ کہ پاکستان کو بھارت سے تجارتی تعلقات بھی بڑھانے چاہئیں کہ یہ پاکستان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی اور تجارت کے لیے تو ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی سدِ راہ نہیں بن رہی۔ یہ مگر سراسر الزام ہے، تہمت ہے کہ جناب نواز شریف مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں یا اسے پچھواڑے میں پھینک دیا گیا ہے۔
حقائق، اس الزام کے مقابل، برعکس ہیں۔ جس وقت مکرمی حافظ محمد سعید صاحب مدظلہ العالی مسئلہ کشمیر کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب پر بوجوہ مذکورہ الزام عائد کر رہے تھے، عین اس وقت وزیر اعظم پاکستان آزاد کشمیر (مظفر آباد) میں، غیر مبہم الفاظ میں، یہ کہہ رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستانی اور بھارتی قیادت کا امتحان ہے۔وہ ''اوفا'' کا میدان ہو یا یو این او کا پلیٹ فارم۔ حافظ صاحب اور میاں صاحب کی سوچ و عمل میں بنیادی فرق مگر یہ ہے کہ اول الذکر تلوار کی زبان سے یہ مسئلہ حل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں جب کہ ثانی الذکر یہ چاہتے ہیں کہ مکالمے کی طاقت بروئے کار لائی جائے۔ اسی پُرامن طاقت سے گرہ کشائی ہو گی مگر ''مجاہدین'' چاہتے ہیں کہ میاں صاحب اُنہی کا اسلوبِ عمل اختیار کرتے ہوئے بھارت سے ٹکرا جائیں۔ ایسا مگر ممکن نہیں۔ جناب نواز شریف اس خونریز تصادم پر آمادہ ہیں نہ اس کی افادیت کے قائل۔
اگر ہم بھارت کی معروف صحافی اور اینکر، برکھا دَت، کی تازہ کتاب (This Unquiet Land) کا بالتفصیل مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ناموافق حالات میں بھی میاں محمد نواز شریف مقدور بھر کوششیں کرتے رہے ہیں کہ کشمیر کا تنازعہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہو جائے۔ کارگل میں ''کسی'' کی مہم جوئی کا ملبہ بھی نواز شریف پر ڈال دیا گیا تو پاکستان اور بھارت ایک بار پھر باقاعدہ بڑی جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے تھے۔
اس بحران سے نمٹنے اور برِصغیر کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نواز شریف، اپنے دوسرے دورِ وزارتِ عظمی کے دوران، واشنگٹن پہنچے۔ میاں صاحب، امریکی صدر، بل کلنٹن، کے توسط اور درمیان داری سے پاکستان کو بچانے کی سعی کررہے تھے۔امریکی دارالحکومت میں امریکی صدر، بھارتی پروپیگنڈے اور کارگل جنگ کی وجہ سے عالمی دباؤ میں تھے اور ان کا واضح جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔
برکھا دَت اپنی مذکورہ بالا کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ان سخت حالات میں بھی وزیر اعظم پاکستان نواز شریف یہ کہنے سے باز نہ آئے کہ امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور مسئلہ کشمیر حل کرنے میں مدد کریں لیکن بِل کلنٹن نے یہ مطالبہ ماننے یا درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا (صفحہ 62) بھارت ایسے مخالفِ پاکستان ملک کی ایک صحافی، جس نے پاکستان کے لیے کبھی کلمۂ خیر لکھا نہ کہا، کی یہ شہادت اس امر کا کافی ثبوت ہونا چاہیے کہ واقعتاً نواز شریف صاحب پُر آزمائش اور سخت حالات میں بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی مقدور بھر کوششیں کرتے رہے ہیں۔ہم نواز شریف کے وکیل ہیں نہ وظیفہ خوار، لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ تندہی اور سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر کا اونٹ کسی کروٹ بٹھانے کی ممکنہ ترین سعی کر رہے ہیں تو اس کوشش کی تحسین بھی کی جانی چاہیے اور حوصلہ افزائی کے لیے ان کے اقدامات کو تسلیم بھی کیا جانا چاہیے۔
جناب نواز شریف مسئلہ کشمیر کو ''لٹمس ٹیسٹ'' بھی قرار دے چکے ہیں۔ یعنی پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی قابلیتوں کے لیے ایک امتحان۔ مقبوضہ کشمیر کے مرکزی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے میاں صاحب کے اس بیان کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ نواز شریف اب بھی کہہ رہے ہیں اور ماضی میں بھی بالاصرار کہتے رہے ہیں کہ تنازعہ کشمیر حل نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات بے ثمر ہی رہیں گے۔
گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اسی صورت میں گرمجوشی پیدا ہو گی جب ستّر سال پرانا یہ قضیہ حل ہو گا۔ میاں صاحب نے گزشتہ برس، اکتوبر کے مہینے میں، یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر ایک ''فلیش پوائنٹ'' ہے اور اس کے حل کے لیے کسی ''تھرڈ پارٹی''کو بھی آگے آنا چاہیے یعنی امریکا و برطانیہ سمیت مؤثر طاقتوں کو قدم آگے بڑھاتے ہوئے اہلِ کشمیر کو قابضین کے ظلم سے نجات دلانے میں اپنا اخلاقی اور انسانی کردار ادا کرنا ہو گا۔ گزشتہ دو، اڑھائی برسوں کے دوران اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی، دوبار، نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حق میں ببانگِ دہل کلمۂ حق بلند کیا ہے۔
اس وجہ سے بھارتی میڈیا کے پیٹ میں بڑے مروڑ بھی اٹھے ہیں لیکن نواز شریف نے خاموشی اختیار کی ہے نہ مخالف میڈیا سے خائف ہوئے ہیں۔ ان حقائق کے باوصف ہمارے بعض ''مجاہد'' لیڈروں کی طرف سے نواز شریف کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں، سمجھ سے بالا ہے۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف اب ان ''مجاہدین'' کے بتائے ہوئے ''راستوں'' پر چلنے سے تو رہے!!
عظیم برطانوی دانشور اور فلاسفر، برٹرنڈرسل، نے ساٹھ کے عشرے ہی میں تنازعہ کشمیر کے بارے میں کہہ دیا تھا: ''کشمیر کا مسئلہ خطہ زمین کا نہیں بلکہ حقِ خودارادیت کا ہے۔'' گزشتہ چھ عشرے سے زائد عرصے سے پاکستان کے ہر حکمران اور مقتدر جماعت کی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہی پالیسی رہی ہے۔
پاکستان نے اسی بنیاد پر بھارت سے ایک چھوٹی (کارگل) اور دو بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ کچھ نقصان بھی اٹھایا ہے لیکن پاکستان، پاکستانی حکام اور ہمارے عوام مسئلہ کشمیر سے دستکش ہوئے ہیں نہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی سفارتی اور اخلاقی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچا ہے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف جب پہلے دوبار اقتدار میں آئے تب بھی اور اب تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد بھی مسئلہ کشمیر کی حمایت کرنے اور تقریباً سات دہائیاں قدیم اس تنازعے کے کسی متفقہ حل کے لیے مسلسل کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض لوگوں کو مگر شکوہ ہے کہ نواز شریف مسئلہ کشمیر کو کم ترجیح دے رہے ہیں۔
ہمارا خیال ہے کہ یہ محض غلط فہمی اور بدگمانی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدگمانی نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ یہ ''غلط فہمی'' اگر دانستہ ہے تو یہ نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی ہمارے جہادیوں کے حق میں۔ یومِ یک جہتی کشمیر کے موقع پر جہاں پاکستان بھر میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی حمایت اور بھارتی استبداد کے خلاف جلسے جلوس ہوئے، وہیں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ہماری بعض جہادی تحریکوں اور تنظیموں نے بھی ریلیاں نکالیں۔ ان جلوسوں سے جہادی تحریکوں کے ''بے بدل'' قائدین نے خطاب بھی فرمایا اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق حکومت پر تنقید کے تِیر بھی برسائے۔ بے مثل رہنما جناب حافظ محمد سعید نے وزیر اعظم نواز شریف کو ہدف بناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
''ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا محور محض بھارت سے تجارتی تعلقات استوار کرنا رہ گیا ہے۔'' گزارش یہ کہ پاکستان کو بھارت سے تجارتی تعلقات بھی بڑھانے چاہئیں کہ یہ پاکستان کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی اور تجارت کے لیے تو ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھی سدِ راہ نہیں بن رہی۔ یہ مگر سراسر الزام ہے، تہمت ہے کہ جناب نواز شریف مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں یا اسے پچھواڑے میں پھینک دیا گیا ہے۔
حقائق، اس الزام کے مقابل، برعکس ہیں۔ جس وقت مکرمی حافظ محمد سعید صاحب مدظلہ العالی مسئلہ کشمیر کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے میاں صاحب پر بوجوہ مذکورہ الزام عائد کر رہے تھے، عین اس وقت وزیر اعظم پاکستان آزاد کشمیر (مظفر آباد) میں، غیر مبہم الفاظ میں، یہ کہہ رہے تھے کہ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستانی اور بھارتی قیادت کا امتحان ہے۔وہ ''اوفا'' کا میدان ہو یا یو این او کا پلیٹ فارم۔ حافظ صاحب اور میاں صاحب کی سوچ و عمل میں بنیادی فرق مگر یہ ہے کہ اول الذکر تلوار کی زبان سے یہ مسئلہ حل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں جب کہ ثانی الذکر یہ چاہتے ہیں کہ مکالمے کی طاقت بروئے کار لائی جائے۔ اسی پُرامن طاقت سے گرہ کشائی ہو گی مگر ''مجاہدین'' چاہتے ہیں کہ میاں صاحب اُنہی کا اسلوبِ عمل اختیار کرتے ہوئے بھارت سے ٹکرا جائیں۔ ایسا مگر ممکن نہیں۔ جناب نواز شریف اس خونریز تصادم پر آمادہ ہیں نہ اس کی افادیت کے قائل۔
اگر ہم بھارت کی معروف صحافی اور اینکر، برکھا دَت، کی تازہ کتاب (This Unquiet Land) کا بالتفصیل مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ناموافق حالات میں بھی میاں محمد نواز شریف مقدور بھر کوششیں کرتے رہے ہیں کہ کشمیر کا تنازعہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہو جائے۔ کارگل میں ''کسی'' کی مہم جوئی کا ملبہ بھی نواز شریف پر ڈال دیا گیا تو پاکستان اور بھارت ایک بار پھر باقاعدہ بڑی جنگ کے دہانے پر آ کھڑے ہوئے تھے۔
اس بحران سے نمٹنے اور برِصغیر کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے نواز شریف، اپنے دوسرے دورِ وزارتِ عظمی کے دوران، واشنگٹن پہنچے۔ میاں صاحب، امریکی صدر، بل کلنٹن، کے توسط اور درمیان داری سے پاکستان کو بچانے کی سعی کررہے تھے۔امریکی دارالحکومت میں امریکی صدر، بھارتی پروپیگنڈے اور کارگل جنگ کی وجہ سے عالمی دباؤ میں تھے اور ان کا واضح جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔
برکھا دَت اپنی مذکورہ بالا کتاب میں رقمطراز ہیں کہ ان سخت حالات میں بھی وزیر اعظم پاکستان نواز شریف یہ کہنے سے باز نہ آئے کہ امریکی صدر کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھیں اور مسئلہ کشمیر حل کرنے میں مدد کریں لیکن بِل کلنٹن نے یہ مطالبہ ماننے یا درخواست قبول کرنے سے انکار کر دیا (صفحہ 62) بھارت ایسے مخالفِ پاکستان ملک کی ایک صحافی، جس نے پاکستان کے لیے کبھی کلمۂ خیر لکھا نہ کہا، کی یہ شہادت اس امر کا کافی ثبوت ہونا چاہیے کہ واقعتاً نواز شریف صاحب پُر آزمائش اور سخت حالات میں بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کی مقدور بھر کوششیں کرتے رہے ہیں۔ہم نواز شریف کے وکیل ہیں نہ وظیفہ خوار، لیکن انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر وہ تندہی اور سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر کا اونٹ کسی کروٹ بٹھانے کی ممکنہ ترین سعی کر رہے ہیں تو اس کوشش کی تحسین بھی کی جانی چاہیے اور حوصلہ افزائی کے لیے ان کے اقدامات کو تسلیم بھی کیا جانا چاہیے۔
جناب نواز شریف مسئلہ کشمیر کو ''لٹمس ٹیسٹ'' بھی قرار دے چکے ہیں۔ یعنی پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی قابلیتوں کے لیے ایک امتحان۔ مقبوضہ کشمیر کے مرکزی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے میاں صاحب کے اس بیان کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ نواز شریف اب بھی کہہ رہے ہیں اور ماضی میں بھی بالاصرار کہتے رہے ہیں کہ تنازعہ کشمیر حل نہ ہوا تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات بے ثمر ہی رہیں گے۔
گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اسی صورت میں گرمجوشی پیدا ہو گی جب ستّر سال پرانا یہ قضیہ حل ہو گا۔ میاں صاحب نے گزشتہ برس، اکتوبر کے مہینے میں، یہ بھی کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر ایک ''فلیش پوائنٹ'' ہے اور اس کے حل کے لیے کسی ''تھرڈ پارٹی''کو بھی آگے آنا چاہیے یعنی امریکا و برطانیہ سمیت مؤثر طاقتوں کو قدم آگے بڑھاتے ہوئے اہلِ کشمیر کو قابضین کے ظلم سے نجات دلانے میں اپنا اخلاقی اور انسانی کردار ادا کرنا ہو گا۔ گزشتہ دو، اڑھائی برسوں کے دوران اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی، دوبار، نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حق میں ببانگِ دہل کلمۂ حق بلند کیا ہے۔
اس وجہ سے بھارتی میڈیا کے پیٹ میں بڑے مروڑ بھی اٹھے ہیں لیکن نواز شریف نے خاموشی اختیار کی ہے نہ مخالف میڈیا سے خائف ہوئے ہیں۔ ان حقائق کے باوصف ہمارے بعض ''مجاہد'' لیڈروں کی طرف سے نواز شریف کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر رہے ہیں، سمجھ سے بالا ہے۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف اب ان ''مجاہدین'' کے بتائے ہوئے ''راستوں'' پر چلنے سے تو رہے!!