عذیر بلوچ جرم کی رسی کا ایک سرا
کراچی کا یہ علاقہ جو لیاری کے نام سے مشہورہے، یہاں منشیات کا کاروبار قیام پاکستان سے قبل ہورہا ہے
لاہور:
لیاری کی آبادی کا آغاز ان لوگوں سے ہوا جو براعظم افریقہ سے سمندری جہازوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ساحلوں پر آکرآباد ہوتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غلاموں اورکنیزوں کی خریدوفروخت کے بازار لگتے تھے۔
برس ہا برس سے 1970تک یہ سلسلہ جدہ کی آبی بندرگاہ میں بھی جاری رہا، جس زمانے میں سندھ میں ٹالپروں کی حکومت تھی، اس زمانے میں افریقی نژاد مرد اورعورتیں کراچی کے ساحل پر آبی جہاز کے ذریعے آئے ،ان میں بیشتر عورتیں تو تالپروں کی خدمت میں چلی گئیں اورکچھ اس شہرکراچی کے ساحل کے پاس آباد ہوگئے، جسے آج لیاری کہا جاتا ہے اور اس میں بھی بہت سے خاندان آبادی بڑھنے کے ساتھ منگھوپیر تک پھیل گئے، چونکہ یہ افریقہ سے آئے تھے۔
اس لیے ان کا کلچر مختلف تھا، جب ماہ رجب شروع ہوتا تھا تو یہ لوگ اپنے قبیلے اور رسم و رواج کے مطابق منگھوپیر میںمگرمچھ کو نذرانہ دے کر آغازکرتے تھے۔ ڈھول کی تھاپ پرخاص انداز میں رقص ان کے تمدن کاخوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔
ان رسم وعقیدے کے مطابق یہ تھا کہ اگر مگرمچھ نے ان کا نذرانہ قبول کرلیا، یعنی کھا لیا تو ان کا پورا سال اچھا گذرے گا، پھر آہستہ آہستہ یہاں مختلف قبائل کے لوگ آکر آباد ہونا شروع ہوئے، جس میں سلیمانی ، مکرانی، مندی،کھوسہ، نورزئی، جدگال اورملازئی وغیرہ کسی زمانے میں انھوں نے ایران کے ساحلی علاقوں میں اور دوسرے ساحلی علاقوں غلامی کی زندگی گذاری، جب ان ساحلی علاقوں میں قحط سالی پیدا ہوئی، جیسا کہ آج کل تھر میں ہے تو انھوں نے نقل مکانی کی جس میں مشرقی مکران کے ساحل سے نقل مکانی کر کے آنے والے سب اسی لیاری دریا کے اردگرد آباد ہوئے آج بھی بغدادی محلہ اسی کلچر ل تناظر کے ساتھ موجود ہے۔
یہاں پر لسبیلہ سے آئے ہوئے لاسی اورمکران کے مکرانی اورکچھ سے آئے ہوئے کچھی ان سب نے مل کر لیاری کا سماجی تشخص بحال رکھا اور افریقی اندازکا کلچرل قائم کیا ۔ یہ لوگ ماہی گیری اور محنت مزدوری کر کے روزی روٹی کماتے تھے۔ باکسنگ ، فٹبال ان کے بچوں کا کھیل تھا۔1951میں بلدیاتی انتخاب میں سردار اﷲ بخش گبول یہاں کے میئر بھی رہے اور ڈپٹی اسپیکر بھی رہے، یہ مدت 3 سال رہی اﷲ بخش گبول کی اہلیہ کا تعلق افریقہ سے ہی تھا ۔
اسی اﷲ بخش گبول کے بیٹے جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے جن کو ذوالفقارعلی بھٹو نے ایم این اے بنایا، ان کا نام عبدالستارگبول تھا، جو 1970کے عام انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی مقرر ہوئے ۔ انھوں نے 5جولائی1977کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق سے بھی مقابلہ جاری رکھا اور اس محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1986میں لیاری میںایسے فسادات اُبھرے جیسے امریکا کے میامی میں ہوئے تھے یہاں کے لوگ پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی رہے ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی حامی رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی لیاری کو بڑی اہمیت دی۔
انھوں نے اپنا نکاح لیاری کے مولانا محمد علی جوہر عرف ککری گراؤنڈ میں کیا ان کا پہلا بیٹا بلاول بھٹو بھی لیاری ڈسٹرکٹ کے اسپتال میں پیدا ہوا۔ آصف علی زرداری نے بھی لیاری کے لیے بڑا میگا پروجیکٹ دیا، جس پر میں نے کالم بھی لکھا، بس نہ جانے لیاری کا یہ ترقیاتی پیکیج کس سازش کا شکار ہوگیا۔ گبول خاندان کے ایک اور چشم و چراغ نبیل گبول ہیں جو ایم این اے بھی رہ چکے ہیں سچ بولتے ہیں نڈر ہیں مگر شاید سیاست میں وہ کسی مقام پر مطمئن نظر نہیں آئے۔
کراچی کا یہ علاقہ جو لیاری کے نام سے مشہورہے، یہاں منشیات کا کاروبار قیام پاکستان سے قبل ہورہا ہے۔ضیا الحق دورکے دو تحفے کراچی میں ایسے ہیں جس نے اس شہر قائد کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ایک ہیروئین جو ہر مہاجر افغانی کراچی آکر آباد ہوا وہ ساتھ لایا اور اپنے ساتھ کلاشنکوف بھی لایا جس نے کلاشنکوف کلچر کی راہ ہموار کی اور شہرکراچی کو خون میں ڈبو دیا۔
لیاری میں سردارعبدالرحمنٰ بلوچ نامی شخص جو بعد میں عبدالرحمن (ڈکیت) کے نام سے مقبول ہوا اس پر اپنے ماموں کے قتل کا الزام تھا، اس نے اپنے گروپ کے ہمراہ منشیات کا کاروبار کیا جسکا آغاز 1980میں کیا، یہی کاروبار بعد میں عبدالرحمن بلوچ اور بابا لاڈلا نے چلایا پھر ان دونوں میں بھتے پر اختلاف ہوا اور دونوں علیحدہ ہوگئے۔ بابا لاڈلا جس کا اصل نام نور محمد تھا مگر اس کی دادی اسے لاڈلا کے نام سے بلاتی تھی ۔ عبدالرحمن 1996میں گرفتار ہوا اور پھر فرارہوگیا اور 18جون 2006کو کوئٹہ میں دوبارہ گرفتار ہوا۔شنید ہے کہ بابا لاڈلا ایرانی سرحد کے قریب مارا گیا۔تاہم پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
گزشتہ حکمرانوں کے دور میں پورے شہر میں گینگ وار تھی ہر علاقے میں سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپس حرکت میں آچکے تھے ۔اغوا ،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ہر ایک اپنے علاقے میں کررہا تھا، اس وقت ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور ان کے ایک وزیر نے ایک سیاسی چال یہ چلی کہ لیاری گینگسٹرز کو جمع کرکے انھیں ''پیپلزامن کمیٹی'' کی چھتری کے نیچے جمع کردیا اور ان کو ہتھیار بھی دیے۔
یہ بھی کہا گیا کہ'' یہ ہمارے بچے ہیں'' شاید کوشش یہ تھی کہ ان کو بے لگام رکھنے سے بہتر ہے کہ پارٹی کے قوائد وضوابط میں لے آئے مگر عبدالرحمن ڈکیت کے مارے جانے کے بعد عذیر بلوچ کوکمیٹی کی قیادت دی گئی ۔عذیر کے والد فیض محمد فیضوکو ارشد پپو گروپ نے ہلاک کیا تھا۔ 2008 میں ارشد پپو کے قتل کا الزام عذیر بلوچ پر لگا اس کی وجہ یہ ہے جب عذیر بلوچ اپنے باپ کے قتل کے بعد اس کا مقدمہ لڑرہا تھا تو ارشد پپو رحمن ڈکیت کے گروپس میں چلا گیا۔
۔ غفار ذکری اس کا کلری علی محمد محلہ میں کمانڈر بنا جب کہ عذیر بلوچ نے انکارکردیا، اسی زمانے میں سی آئی ڈی کے ایس پی چوہدری اسلم نے عذیربلوچ کوگرفتار کرلیا جو 2003میں سجاول سے گرفتارہوا پھر وہ پے رول پر رہا ہوگیا اور عذیر بلوچ نے سماجی کام شروع کردیے، ایک اسکول بھی بنوایا 2012میں امن کمیٹی کا بلا مقابلہ لیڈر بنا اور 2013میں جتنے لوگ پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن میںآئے اس میں سب عذیربلوچ کے سفارشی تھے، عذیر بلوچ کے گروپ میں جو لوگ شامل تھے۔
ان میں تاجو گروپ، جنگو ، سیکو ، فیصل پٹھان ، وصی اﷲ لاکھو ، ایک کالعدم مذہبی تنظیم کمانڈر، ثنا بلوچ، شیرازکامریڈ ، محمد لاشاری، سلمان داود ، چاکیواڑہ والا، ملا نذیر،کامران،کامی بلوچ ، نعیم لاہوتی، ملا سہیل ، علی داد گذری، جب کہ لاڈلا گروپ میں نور محمد لاڈلا ، زاہد لاڈلا، شاہد رحمن، شکیل کمانڈو، سکندر سکو، ناصر خان، گل محمد، باسط الیاس موت ، موسیٰ بلوچ ، یوسف گوجی، معراج بلوچ ، یونس بلوچ ، استاد تاجو ، ملا نثار، عمرکچھی وصی اﷲ لاکھو یہ لیاری کے وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح وہاں کی مار دھاڑ ،قتل وغارت گری ، اغوا، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا حصہ رہے ۔
پیپلز امن کمیٹی 2008سے 2011تک عبدالرحمن ڈکیت کے ذریعے چلائی گئی جس میں بلوچ اور نیازی کے ساتھ 1000ممبران تھے۔ 2009میں عبدالرحمن کے مارے جانے کے بعد عذیر بلوچ 2013تک چلاتا رہا اور یہ امن کمیٹی لیاری سے نکل کر ملیر،گڈاپ، پر اناگولیمار، ماویٰ گوٹھ ، سندھ اور بلوچستان کے نواحی علاقوں تک پھیل گئی تھی۔آج جب یہ خبر عام ہوگئی کہ عذیرجان بلوچ کو رینجرز نے گرفتار کرلیا ہے جب کہ وہ 14دسمبر 2014سے پوچھ گچھ تفتیش کے لیے تحویل میں تھا۔
اب عوام لیاری سمیت اس شہر میں امن وسکون چاہتے ہیں اور وہ پاک آرمی کے ماتحت کام کرنے والی رینجرز کے ان اقدامات سے بہت خوش ہیں جو انھوں نے اس شہرکو پر سکون بنانے میں کیے ہیں۔
اب قدرے سکون ہوا ہے کاروبار بھی بہتر ہوا ہے حالانکہ اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ گیا ہے اب بھی جان ومال محفوظ نہیں اسکولوں کی سیکیورٹی مسئلہ بنی ہوئی ہے اگر وفاقی حکومت چاہے تو رینجرزکوکم سے کم تین سال کی مدت کے لیے اس شہر قائد کا داخلی امن سنبھالنے کا اختیار دے جس کے تحت ہر علاقے میں رینجرزکی چوکیاں ہوں، اسنیپ چیکنگ جاری رہے اور خفیہ معلومات کا سلسلہ تمام اہم اداروں سے مربوط رہے کیونکہ اس امن وسکون کے معاملے کو کسی طور پر سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں رہنا چاہیے اور عذیر بلوچ جن جن لوگوں کے نام لیتا ہے کم سے کم ان کی نگرانی تو ہو انھیں ملک سے فرار ہونے کا موقعہ نہ دیا جائے۔
اس شہر میں قبضہ مافیا اور اغوا کے ذریعے تاوان کی تحقیق ہوتو حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔عذیر بلوچ ہو یا ڈاکٹر عاصم یہ تو جرم کی رسی کا ایک سرا ہیں ، دیکھنا یہ ہے اس رسی سے کتنے لوگ مستفیض ہوتے رہے۔
CPLCکے سابق سربراہ کوپکڑ کر چھوڑدیا گیا ، حالانکہ اغوا اور تاوان کے داخلی معاملات ہوں یا بیرون ملک افریقہ میں اغوا ہونے والے سمندری جہاز کے ملازمین ہوں سب کے معاملے پر جوکچھ ہوا، اس میں کتنے لوگوں نے کتنی رقم لی اورکیسے کیسے اہم لوگ اس کے سہولت کار تھے کم ازکم یہ معاملہ عوام کے سامنے تو آئے۔فش ہاربر کی بحالی پر توجہ ہونی چاہیے، کرمنل عناصر ضرور اپنے انجام کو پہنچیں مگر انصاف ہونا چاہیے اور ماہی گیروں کی زندگی میں بہتری آنی چاہیے۔
لیاری کی آبادی کا آغاز ان لوگوں سے ہوا جو براعظم افریقہ سے سمندری جہازوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ساحلوں پر آکرآباد ہوتے رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غلاموں اورکنیزوں کی خریدوفروخت کے بازار لگتے تھے۔
برس ہا برس سے 1970تک یہ سلسلہ جدہ کی آبی بندرگاہ میں بھی جاری رہا، جس زمانے میں سندھ میں ٹالپروں کی حکومت تھی، اس زمانے میں افریقی نژاد مرد اورعورتیں کراچی کے ساحل پر آبی جہاز کے ذریعے آئے ،ان میں بیشتر عورتیں تو تالپروں کی خدمت میں چلی گئیں اورکچھ اس شہرکراچی کے ساحل کے پاس آباد ہوگئے، جسے آج لیاری کہا جاتا ہے اور اس میں بھی بہت سے خاندان آبادی بڑھنے کے ساتھ منگھوپیر تک پھیل گئے، چونکہ یہ افریقہ سے آئے تھے۔
اس لیے ان کا کلچر مختلف تھا، جب ماہ رجب شروع ہوتا تھا تو یہ لوگ اپنے قبیلے اور رسم و رواج کے مطابق منگھوپیر میںمگرمچھ کو نذرانہ دے کر آغازکرتے تھے۔ ڈھول کی تھاپ پرخاص انداز میں رقص ان کے تمدن کاخوبصورت امتزاج پیش کرتا ہے۔
ان رسم وعقیدے کے مطابق یہ تھا کہ اگر مگرمچھ نے ان کا نذرانہ قبول کرلیا، یعنی کھا لیا تو ان کا پورا سال اچھا گذرے گا، پھر آہستہ آہستہ یہاں مختلف قبائل کے لوگ آکر آباد ہونا شروع ہوئے، جس میں سلیمانی ، مکرانی، مندی،کھوسہ، نورزئی، جدگال اورملازئی وغیرہ کسی زمانے میں انھوں نے ایران کے ساحلی علاقوں میں اور دوسرے ساحلی علاقوں غلامی کی زندگی گذاری، جب ان ساحلی علاقوں میں قحط سالی پیدا ہوئی، جیسا کہ آج کل تھر میں ہے تو انھوں نے نقل مکانی کی جس میں مشرقی مکران کے ساحل سے نقل مکانی کر کے آنے والے سب اسی لیاری دریا کے اردگرد آباد ہوئے آج بھی بغدادی محلہ اسی کلچر ل تناظر کے ساتھ موجود ہے۔
یہاں پر لسبیلہ سے آئے ہوئے لاسی اورمکران کے مکرانی اورکچھ سے آئے ہوئے کچھی ان سب نے مل کر لیاری کا سماجی تشخص بحال رکھا اور افریقی اندازکا کلچرل قائم کیا ۔ یہ لوگ ماہی گیری اور محنت مزدوری کر کے روزی روٹی کماتے تھے۔ باکسنگ ، فٹبال ان کے بچوں کا کھیل تھا۔1951میں بلدیاتی انتخاب میں سردار اﷲ بخش گبول یہاں کے میئر بھی رہے اور ڈپٹی اسپیکر بھی رہے، یہ مدت 3 سال رہی اﷲ بخش گبول کی اہلیہ کا تعلق افریقہ سے ہی تھا ۔
اسی اﷲ بخش گبول کے بیٹے جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے جن کو ذوالفقارعلی بھٹو نے ایم این اے بنایا، ان کا نام عبدالستارگبول تھا، جو 1970کے عام انتخابات میں ممبر قومی اسمبلی مقرر ہوئے ۔ انھوں نے 5جولائی1977کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق سے بھی مقابلہ جاری رکھا اور اس محاذ آرائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1986میں لیاری میںایسے فسادات اُبھرے جیسے امریکا کے میامی میں ہوئے تھے یہاں کے لوگ پی پی پی اور ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی رہے ان کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھی حامی رہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی لیاری کو بڑی اہمیت دی۔
انھوں نے اپنا نکاح لیاری کے مولانا محمد علی جوہر عرف ککری گراؤنڈ میں کیا ان کا پہلا بیٹا بلاول بھٹو بھی لیاری ڈسٹرکٹ کے اسپتال میں پیدا ہوا۔ آصف علی زرداری نے بھی لیاری کے لیے بڑا میگا پروجیکٹ دیا، جس پر میں نے کالم بھی لکھا، بس نہ جانے لیاری کا یہ ترقیاتی پیکیج کس سازش کا شکار ہوگیا۔ گبول خاندان کے ایک اور چشم و چراغ نبیل گبول ہیں جو ایم این اے بھی رہ چکے ہیں سچ بولتے ہیں نڈر ہیں مگر شاید سیاست میں وہ کسی مقام پر مطمئن نظر نہیں آئے۔
کراچی کا یہ علاقہ جو لیاری کے نام سے مشہورہے، یہاں منشیات کا کاروبار قیام پاکستان سے قبل ہورہا ہے۔ضیا الحق دورکے دو تحفے کراچی میں ایسے ہیں جس نے اس شہر قائد کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ایک ہیروئین جو ہر مہاجر افغانی کراچی آکر آباد ہوا وہ ساتھ لایا اور اپنے ساتھ کلاشنکوف بھی لایا جس نے کلاشنکوف کلچر کی راہ ہموار کی اور شہرکراچی کو خون میں ڈبو دیا۔
لیاری میں سردارعبدالرحمنٰ بلوچ نامی شخص جو بعد میں عبدالرحمن (ڈکیت) کے نام سے مقبول ہوا اس پر اپنے ماموں کے قتل کا الزام تھا، اس نے اپنے گروپ کے ہمراہ منشیات کا کاروبار کیا جسکا آغاز 1980میں کیا، یہی کاروبار بعد میں عبدالرحمن بلوچ اور بابا لاڈلا نے چلایا پھر ان دونوں میں بھتے پر اختلاف ہوا اور دونوں علیحدہ ہوگئے۔ بابا لاڈلا جس کا اصل نام نور محمد تھا مگر اس کی دادی اسے لاڈلا کے نام سے بلاتی تھی ۔ عبدالرحمن 1996میں گرفتار ہوا اور پھر فرارہوگیا اور 18جون 2006کو کوئٹہ میں دوبارہ گرفتار ہوا۔شنید ہے کہ بابا لاڈلا ایرانی سرحد کے قریب مارا گیا۔تاہم پولیس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔
گزشتہ حکمرانوں کے دور میں پورے شہر میں گینگ وار تھی ہر علاقے میں سیاسی جماعتوں کے مسلح گروپس حرکت میں آچکے تھے ۔اغوا ،ٹارگٹ کلنگ ،بھتہ خوری ہر ایک اپنے علاقے میں کررہا تھا، اس وقت ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور ان کے ایک وزیر نے ایک سیاسی چال یہ چلی کہ لیاری گینگسٹرز کو جمع کرکے انھیں ''پیپلزامن کمیٹی'' کی چھتری کے نیچے جمع کردیا اور ان کو ہتھیار بھی دیے۔
یہ بھی کہا گیا کہ'' یہ ہمارے بچے ہیں'' شاید کوشش یہ تھی کہ ان کو بے لگام رکھنے سے بہتر ہے کہ پارٹی کے قوائد وضوابط میں لے آئے مگر عبدالرحمن ڈکیت کے مارے جانے کے بعد عذیر بلوچ کوکمیٹی کی قیادت دی گئی ۔عذیر کے والد فیض محمد فیضوکو ارشد پپو گروپ نے ہلاک کیا تھا۔ 2008 میں ارشد پپو کے قتل کا الزام عذیر بلوچ پر لگا اس کی وجہ یہ ہے جب عذیر بلوچ اپنے باپ کے قتل کے بعد اس کا مقدمہ لڑرہا تھا تو ارشد پپو رحمن ڈکیت کے گروپس میں چلا گیا۔
۔ غفار ذکری اس کا کلری علی محمد محلہ میں کمانڈر بنا جب کہ عذیر بلوچ نے انکارکردیا، اسی زمانے میں سی آئی ڈی کے ایس پی چوہدری اسلم نے عذیربلوچ کوگرفتار کرلیا جو 2003میں سجاول سے گرفتارہوا پھر وہ پے رول پر رہا ہوگیا اور عذیر بلوچ نے سماجی کام شروع کردیے، ایک اسکول بھی بنوایا 2012میں امن کمیٹی کا بلا مقابلہ لیڈر بنا اور 2013میں جتنے لوگ پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن میںآئے اس میں سب عذیربلوچ کے سفارشی تھے، عذیر بلوچ کے گروپ میں جو لوگ شامل تھے۔
ان میں تاجو گروپ، جنگو ، سیکو ، فیصل پٹھان ، وصی اﷲ لاکھو ، ایک کالعدم مذہبی تنظیم کمانڈر، ثنا بلوچ، شیرازکامریڈ ، محمد لاشاری، سلمان داود ، چاکیواڑہ والا، ملا نذیر،کامران،کامی بلوچ ، نعیم لاہوتی، ملا سہیل ، علی داد گذری، جب کہ لاڈلا گروپ میں نور محمد لاڈلا ، زاہد لاڈلا، شاہد رحمن، شکیل کمانڈو، سکندر سکو، ناصر خان، گل محمد، باسط الیاس موت ، موسیٰ بلوچ ، یوسف گوجی، معراج بلوچ ، یونس بلوچ ، استاد تاجو ، ملا نثار، عمرکچھی وصی اﷲ لاکھو یہ لیاری کے وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طرح وہاں کی مار دھاڑ ،قتل وغارت گری ، اغوا، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا حصہ رہے ۔
پیپلز امن کمیٹی 2008سے 2011تک عبدالرحمن ڈکیت کے ذریعے چلائی گئی جس میں بلوچ اور نیازی کے ساتھ 1000ممبران تھے۔ 2009میں عبدالرحمن کے مارے جانے کے بعد عذیر بلوچ 2013تک چلاتا رہا اور یہ امن کمیٹی لیاری سے نکل کر ملیر،گڈاپ، پر اناگولیمار، ماویٰ گوٹھ ، سندھ اور بلوچستان کے نواحی علاقوں تک پھیل گئی تھی۔آج جب یہ خبر عام ہوگئی کہ عذیرجان بلوچ کو رینجرز نے گرفتار کرلیا ہے جب کہ وہ 14دسمبر 2014سے پوچھ گچھ تفتیش کے لیے تحویل میں تھا۔
اب عوام لیاری سمیت اس شہر میں امن وسکون چاہتے ہیں اور وہ پاک آرمی کے ماتحت کام کرنے والی رینجرز کے ان اقدامات سے بہت خوش ہیں جو انھوں نے اس شہرکو پر سکون بنانے میں کیے ہیں۔
اب قدرے سکون ہوا ہے کاروبار بھی بہتر ہوا ہے حالانکہ اسٹریٹ کرائم بہت بڑھ گیا ہے اب بھی جان ومال محفوظ نہیں اسکولوں کی سیکیورٹی مسئلہ بنی ہوئی ہے اگر وفاقی حکومت چاہے تو رینجرزکوکم سے کم تین سال کی مدت کے لیے اس شہر قائد کا داخلی امن سنبھالنے کا اختیار دے جس کے تحت ہر علاقے میں رینجرزکی چوکیاں ہوں، اسنیپ چیکنگ جاری رہے اور خفیہ معلومات کا سلسلہ تمام اہم اداروں سے مربوط رہے کیونکہ اس امن وسکون کے معاملے کو کسی طور پر سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں رہنا چاہیے اور عذیر بلوچ جن جن لوگوں کے نام لیتا ہے کم سے کم ان کی نگرانی تو ہو انھیں ملک سے فرار ہونے کا موقعہ نہ دیا جائے۔
اس شہر میں قبضہ مافیا اور اغوا کے ذریعے تاوان کی تحقیق ہوتو حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے۔عذیر بلوچ ہو یا ڈاکٹر عاصم یہ تو جرم کی رسی کا ایک سرا ہیں ، دیکھنا یہ ہے اس رسی سے کتنے لوگ مستفیض ہوتے رہے۔
CPLCکے سابق سربراہ کوپکڑ کر چھوڑدیا گیا ، حالانکہ اغوا اور تاوان کے داخلی معاملات ہوں یا بیرون ملک افریقہ میں اغوا ہونے والے سمندری جہاز کے ملازمین ہوں سب کے معاملے پر جوکچھ ہوا، اس میں کتنے لوگوں نے کتنی رقم لی اورکیسے کیسے اہم لوگ اس کے سہولت کار تھے کم ازکم یہ معاملہ عوام کے سامنے تو آئے۔فش ہاربر کی بحالی پر توجہ ہونی چاہیے، کرمنل عناصر ضرور اپنے انجام کو پہنچیں مگر انصاف ہونا چاہیے اور ماہی گیروں کی زندگی میں بہتری آنی چاہیے۔