ندامت سے گناہوں کا تدارک کیجیے

رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس کا کوئی گناہ نہیں۔‘‘

رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے ’’ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس کا کوئی گناہ نہیں۔‘‘:فوٹو : فائل

PESHAWAR:
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں ''بے شک ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے اور گناہوں کی دوا استغفار ہے، اے لوگو! اﷲ کی بارگاہ میں توبہ کیا کرو، بے شک میں بھی اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں روزانہ سو بار توبہ کرتا ہوں۔'' (صحیح مسلم)

انسان خطا کا پیکر ہے۔ اس سے کئی قسم کی بڑی چھوٹی خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں، کبھی عملاً کرلیتا ہے اور کبھی سہواً۔ کبھی چھپ کر اور کبھی اعلانیہ، کبھی نفس کے دھوکے میں آکر اور کبھی شیطان کی چالوں میں پھنس کر۔ گناہوں کو مٹانے کے لیے توبہ کا سہارا لینا چاہیے۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اسی کے بارے میں فرماتے ہیں '' تم ابنِ آدم خطائیں کرنے والے ہو، اور خطائیں کرنے والوں میں سے بہتر وہ ہیں، جو توبہ کرنے والے ہیں۔'' (کنزالاعمال)

٭ توبہ کیسے کی جائے؟

اس کے لیے ایک چھوٹا اور آسان سا کام کرنا پڑے گا۔ اپنے گناہوں کو یاد کرکے، ان کا قرار کرکے، ان پر شرمندہ ہوجائیے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے سر جھکا دیجیے اور آئندہ ان گناہوں سے دور رہنے کا وعدہ کرلیجیے، یہی توبہ ہے۔

رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے توبہ کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا '' ندامت توبہ ہے '' (طبرانی)

توبہ کے لیے کسی وقت، جگہ اور کیفیت کی شرط نہیں، بل کہ یہ عمر کے کسی بھی حصے میں، کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور کسی بھی حالت میں کی جاسکتی ہے۔ لیکن توبہ میں جلدی کرنی چاہیے کیوں کہ زندگی فانی ہے اس کا کوئی بھروسا نہیں۔

٭ توبہ کرنے سے کتنے گناہ معاف ہوتے ہیں؟


اس کے بارے میں بھی ایک حدیثِ نبویؐ ہے۔ نبی اکرم ﷺ رحمتِ الٰہی کی وسعت و عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں '' اگر تم میں سے کوئی اتنے گناہ کرے کہ آسمان و زمین کے درمیان اس کے گناہ بھر جائیں پھر توبہ کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے'' (کنزالاعمال)

رحمتِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے '' گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہے، جیسے اس کا کوئی گناہ نہیں۔''

(مجمع الزوائد)

دل آئینے کی مانند صاف ہوتا ہے۔ اگر انسان نیکیاں کرتا رہے تو دل کی نورانیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اگر گناہ کرتا رہے تو دل کی نورانیت کم ہوتی رہتی ہے۔ اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے۔

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے ''جب کوئی ایک گناہ کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نشان لگ جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نشان مٹ جاتا ہے اور دل صاف ہوجاتا ہے، لیکن اگر وہ توبہ نہ کرے اور گناہ کرتا رہے تو سیاہ نشان بڑھتا رہتا ہے حتیٰ کہ تمام دل سیاہی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔'' (سنن ترمذی)

اس لیے اگر سیاہ دل کو سفید اور نورانی کرنا ہو تو توبہ ہی وہ عمل ہے، جس سے دل کی سیاہی ختم ہوتی ہے اور شفافیت ملتی ہے۔

اﷲ عز و جل ہمارا مالک ہے اور ہم سب اس کے عاجز بندے ہیں۔ ہم غفلت اور سستی کی وجہ سے گناہوں میں پڑ جاتے ہیں اور راہِ ہدایت سے دور چلے جاتے اور ہر جگہ بھٹکتے رہتے ہیں۔ گناہوں سے مشکلات میں پڑجاتے اور پریشانیوں میں گِھر جاتے ہیں۔ مصیبتوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ تکلیفوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہر جگہ سے تھک ہار کر جب ہم بارگاہِ ایزدی میں توبہ کے لیے سر جھکاتے ہیں، تو مالکِ کائنات کی رحمت ہمارا استقبال کرتی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں '' توبہ کرنے والے کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی تاجر قافلہ لے کر جنگل میں جارہا ہو اور وہ دوپہر کے وقت تھک کر سوجائے، جب جاگے تو اس کا قافلہ، سامانِ تجارت، اونٹ وغیرہ نہ ملیں، وہ سارے جنگل میں ڈھونڈتا رہے پھر بھی نہ ملیں، پریشانی اور تھکن سے اسے پھر نیند آجائے، دوسری بار جب جاگے تو اس کا قافلہ، سامانِ تجارت، اونٹ وغیرہ اس کے سامنے موجود ہوں تو وہ کتنا خوش ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ توبہ کی نیّت سے اپنے دروازے پر واپس آنے والے پر اس سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔'' (صحیح مسلم)

وہ مالکِ کائنات بے نیاز ہوتے ہوئے بھی ہمارے لیے دروازۂ رحمت کھولے ہوئے ہے اور اعلان فرما رہا ہے کہ ''اے ایمان والو! اﷲ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلو۔'' ( التحریم آیت نمبر 8)

اور ہم گناہ گار ہوکر اور اس کے محتاج ہوکر بھی اس کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوتے۔ لاکھوں گناہوں کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے ہیں پھر بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، اپنی زندگی پر غور کرنا چاہیے اور رب العالمین کی رحمت حاصل کرنے کے لیے توبہ کرنی چاہیے اس سے پہلے کہ موت کا وقت آجائے یا توبہ کا دروازہ بند ہوجائے۔
Load Next Story