امریکی الیکشن اور ہماری ٹینشن
الیکشن کا جو بھی نتیجہ نکلے اس سے پاکستان یا پاکستانیوں کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔
LONDON:
امریکا میں سینڈی طوفان آیا اور گزر گیا۔ ہماری خواہشیں پھر ادھوری رہ گئیں۔
یہ طوفان جس نوعیت کا تھا اس سے لگتا تھا کہ امریکا مکمل تباہ نہ بھی ہوا تو اس کی حالت ایسی ضرور ہو جائے گی کہ وہ سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہے گا' لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس طوفان سے تباہی ہوئی لیکن امریکا کی دس ریاستوں میں صرف 100افراد ہلاک ہوئے۔ان میں وہ ہلاکتیں بھی شامل ہیں جو خود طوفانی لہروں سے اٹھکیلیاں کرنے اسکیٹنگ کے لیے گئے۔ ادھر لاکھوں گھر اور کارخانے بجلی سے محروم ہوگئے' یہ بھی کچھ انوکھا نہیں ہمارے کارخانے اور گھر ایک مدت سے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
نیو یارک اور نیو جرسی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستیں تھیں۔ 20 ہزار کے قریب فلائٹس منسوخ ہوئیں اور 50 ارب ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا۔ 'کٹرینا' کے بعد اسے سب سے زیادہ تباہ کن اور مہنگا سمندری طوفان قرار دیا گیا ہے۔ حیرت ہے جس سمندری طوفان نے امریکا میں ایک ہزار میل کے علاقے میں تباہی مچائی اس میں صرف سو سے تھوڑے اوپر افراد مارے گئے۔ بڑے پیمانے پر چھتیں ٹوٹیں نہ دیواریں گریں۔ ذرا سوچیں ہمارے جیسے کسی ملک میں ایسا سمندری طوفان آتا تو اس کے جانے کے بعد ہمارا کیا بچتا۔ ہمارے ہاں تو ان دریائوں کے اندر تک لوگوں نے پکے مکان تعمیر کر لیے ہیں جن میں پانی کم ہو چکا ہے۔
زیادہ بارشیں ہو جائیں یا سیلاب کا خطرہ ہو تو وارننگ دینے پر بھی یہ لوگ گھر خالی کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہاں چند میل کے علاقے کو متاثر کرنے والا سیلاب سیکڑوں جانیں لے جاتا ہے۔دور کیوں جائیں، بلوچستان اور سندھ میں حالیہ سیلاب اور بارشوں کے متاثرین ابھی تک خیموں میں پڑے ہیں اور ان کے گھروں اور گوٹھوں میں پانی کھڑا ہے۔ پاکستان زندہ باد، سیاستدان زندہ باد، بیوروکریسی زندہ باد اور امریکا کی تباہی کی دعائیں مانگنے والے پایندہ باد۔
میں نے امریکا کا سفر کیا ہے، وہاں لوگوں سے ملا ہوں، ان کے نظام کو بھی دیکھا ہے۔ امریکی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ لاکھوں بے گھر کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں، لاکھوں بجلی سے محروم ہیں، خوراک اور پٹرول کی نایابی کا سلسلہ بھی اپنی جگہ ہے لیکن ان سب مشکلات پر صدارتی الیکشن حاوی ہو چکا ہے۔ ادھر پانی اترنا شروع ہوا ادھر الیکشن کا سونامی چڑھ گیا۔ اوباما اور رومنی انتخابی مہم کے آخری معرکے پر نکل کھڑے ہوئے۔ دونوں امیدواروں نے متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی' ان کے نام پر سیاست نہیں، مٹ رومنی نے تو اس معاملے میں اوبامہ کی تعریف بھی کر دی۔ کیا ہمارے کوئی جید سیاست دان کسی مخالف سیاست دان کی مدد کر سکتا ہے؟ امریکی انتظامیہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے کام میں مصروف ہے، کیونکہ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔
اس کے لیے کسی صدر کے نوٹس لینے کی ضرورت نہیں' کسی وزیر اعلیٰ (وہاں گورنر سمجھ لیں)کو پانی میں اترنے کی مجبوری نہیں۔ کچھ ریاستوں میں پولنگ بھی شروع ہو چکی۔ پاکستان میں آج رات گئے جب امریکا میں سورج غروب ہو رہا ہو گا تو ووٹر اپنا فیصلہ سنا چکے ہوں گے۔ اوباما دوسری بار صدارت سنبھالیں گے یا مٹ رومنی ان سے اقتدار چھین لیں گے۔ الیکشن کا جو بھی نتیجہ نکلے اس سے پاکستان یا پاکستانیوں کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔ مبصرین کے مطابق انتخابی مہم کے آخری لمحات میں دونوں صدارتی امیدواروں کی مقبولیت میں ایک فیصد کا بھی فرق نہیں تھا۔ دونوں برابر تھے۔ سمندری طوفان ''مداخلت'' نہ کرتا تو شاید رومنی مقبولیت میں اپنے حریف سے آگے نکل چکے ہوتے۔ میں الیکشن نتائج کے بارے میں کوئی پیش گوئی تو نہیں کر سکتا لیکن مجھے رومنی کی جیت کے امکانات زیادہ لگتے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ دوسری بار اوباما کو ملک پر حکمرانی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ 2000ء کے الیکشن اگر یاد ہوں تو اس وقت ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الگور کے پاپولر ووٹ زیادہ تھے مگر سپریم کورٹ نے بعد میں افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کرنے والے بش کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں اس بار بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ الیکشن سے صرف ایک ہفتہ پہلے امریکا کی تاریخ کا دوسرا بڑا سمندری طوفان آیا لیکن پورے ملک میں کسی ایک شخص نے بھی یہ مطالبہ نہ کیا کہ الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔
پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی طویل قطاروں میں لوگ آپس میں الجھتے بھی رہے لیکن الیکشن کے خلاف کوئی نہیں بولا۔ آٹھ دن سے بجلی سے محروم امریکیوں نے بھی الیکشن کے التوا کی بات نہیں کی۔ عارضی کیمپوں میں پناہ لینے والے بھی ووٹ ڈالنے کے لیے پرجوش نظر آئے۔ زندگی معمول پر آنے میں ابھی ہفتوں لگیں گے لیکن امریکی الیکشن وقت پر ہو جائیں گے۔ نیو جرسی کے ووٹر ای میل کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
نیو یارک کے بے گھر افراد عارضی کیمپوں میں ہی ووٹ ڈالیں گے۔ ریاست نیو جرسی تاریخ میں پہلی بار بے گھر ہونے والے ووٹروں کو تارکین وطن کا درجہ دے رہی ہے، وہ فیکس کے ذریعے بھی اپنا ووٹ ڈال سکیں گے۔ آج منگل 6 نومبر کا دن (امریکا میں دس گھنٹے بعد) امریکا کی جمہوری تاریخ میں یادگار بن جائے گا۔ طوفان نے کافی نقصان پہنچایا، بہت سے کام رک گئے، کچھ تقریبات ملتوی ہوئیں اور بعض منسوخ کر دی گئیں۔ یہ طوفان اگر ناکام رہا تو صرف امریکی الیکشن روکنے میں۔ اس سے تھوڑا بہت کسی کو فایدہ ہوا تو وہ اوباما کو جن کی مقبولیت میں کچھ اضافہ ہوا اور وہ اپنے حریف کے برابر آ گئے۔
ہمیں امریکا کی تباہی کے لیے کسی اور بڑے سانحے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ امریکا کو کسی اور مسلمان ملک میں الجھانا پڑے گا۔ یہ دعا بھی مسلسل مانگنا پڑے گی کہ ''یا اللہ ... دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔'' اس بار ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں تو کیا ہوا؟ ہمیں ہمت نہیں ہارنی ہے۔ مایا تہذیب نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اس سال کے آخر تک قیامت آنی ہے۔ یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ پیش گوئی صرف امریکا کے لیے ہے۔ امریکا اس سال کے آخر تک تباہ نہ ہو سکا تو شاید اگلے سال کے پہلے دو تین ماہ میں اس کا کام تمام ہو جائے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی مزید طوفانوں کا خطرہ موجود ہے۔ آنے والا کوئی اور طوفان ہماری خواہش پوری کر سکتا ہے۔
یاد آیا ہمارے الیکشن بھی تو قریب آ رہے ہیں۔ بظاہر تو 10 مئی تک الیکشن کا وزیر اطلاعات کا اعلان ٹھیک لگتا ہے لیکن بلوچستان حکومت اور کراچی کے حالات پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے کوئی اور منظر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ امریکا میں تو آج الیکشن ہو جائیں گے، شاید ہم بھی اگلے سال کے وسط سے پہلے نئی حکومت کا انتخاب کر لیں؟ وہاں سمندری طوفان الیکشن نہیں روک سکا لیکن ہمیں معمولی سیلاب سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا۔ یہاں تھوڑا سا پانی بھی سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔
میری بات پر یقین نہیں تو پیر کی سہ پہر پہلے آرمی چیف کا آئی ایس پی آر کی طرف سے ہینڈ آئوٹ کی شکل میں جاری ہونے والاخطاب جو انھوں نے جی ایچ کیو میں فوجی افسروں سے کیا اور اس کے بعد جناب چیف جسٹس کی ساتویں مینجمنٹ کورس کے شرکا سے خطاب ملاحظہ کر لیں۔ آرمی چیف نے فرد واحد اور ادارے کی بات کی۔ چیف جسٹس نے کہا وہ دور گذر گیا جب میزائلوں اور ٹینکوں سے ملکی استحکام اور ترقی کا تعین ہوتا تھا۔ دونوں شخصیات کے یہ اہم ترین خیالات مستقبل قریب کا منظر نامہ بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تبدیلی نظر تو آ رہی ہے لیکن کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا۔ جس طرح امریکی سینڈی سے ڈر رہے تھے مجھے اپنے ملک میں امنڈتے ہوئے طوفان سے اتنا خوف تو نہیں لیکن ڈر ضرور لگ رہا ہے۔
امریکا میں سینڈی طوفان آیا اور گزر گیا۔ ہماری خواہشیں پھر ادھوری رہ گئیں۔
یہ طوفان جس نوعیت کا تھا اس سے لگتا تھا کہ امریکا مکمل تباہ نہ بھی ہوا تو اس کی حالت ایسی ضرور ہو جائے گی کہ وہ سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے کے قابل نہیں رہے گا' لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس طوفان سے تباہی ہوئی لیکن امریکا کی دس ریاستوں میں صرف 100افراد ہلاک ہوئے۔ان میں وہ ہلاکتیں بھی شامل ہیں جو خود طوفانی لہروں سے اٹھکیلیاں کرنے اسکیٹنگ کے لیے گئے۔ ادھر لاکھوں گھر اور کارخانے بجلی سے محروم ہوگئے' یہ بھی کچھ انوکھا نہیں ہمارے کارخانے اور گھر ایک مدت سے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
نیو یارک اور نیو جرسی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستیں تھیں۔ 20 ہزار کے قریب فلائٹس منسوخ ہوئیں اور 50 ارب ڈالر کے قریب مالی نقصان ہوا۔ 'کٹرینا' کے بعد اسے سب سے زیادہ تباہ کن اور مہنگا سمندری طوفان قرار دیا گیا ہے۔ حیرت ہے جس سمندری طوفان نے امریکا میں ایک ہزار میل کے علاقے میں تباہی مچائی اس میں صرف سو سے تھوڑے اوپر افراد مارے گئے۔ بڑے پیمانے پر چھتیں ٹوٹیں نہ دیواریں گریں۔ ذرا سوچیں ہمارے جیسے کسی ملک میں ایسا سمندری طوفان آتا تو اس کے جانے کے بعد ہمارا کیا بچتا۔ ہمارے ہاں تو ان دریائوں کے اندر تک لوگوں نے پکے مکان تعمیر کر لیے ہیں جن میں پانی کم ہو چکا ہے۔
زیادہ بارشیں ہو جائیں یا سیلاب کا خطرہ ہو تو وارننگ دینے پر بھی یہ لوگ گھر خالی کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہاں چند میل کے علاقے کو متاثر کرنے والا سیلاب سیکڑوں جانیں لے جاتا ہے۔دور کیوں جائیں، بلوچستان اور سندھ میں حالیہ سیلاب اور بارشوں کے متاثرین ابھی تک خیموں میں پڑے ہیں اور ان کے گھروں اور گوٹھوں میں پانی کھڑا ہے۔ پاکستان زندہ باد، سیاستدان زندہ باد، بیوروکریسی زندہ باد اور امریکا کی تباہی کی دعائیں مانگنے والے پایندہ باد۔
میں نے امریکا کا سفر کیا ہے، وہاں لوگوں سے ملا ہوں، ان کے نظام کو بھی دیکھا ہے۔ امریکی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ لاکھوں بے گھر کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں، لاکھوں بجلی سے محروم ہیں، خوراک اور پٹرول کی نایابی کا سلسلہ بھی اپنی جگہ ہے لیکن ان سب مشکلات پر صدارتی الیکشن حاوی ہو چکا ہے۔ ادھر پانی اترنا شروع ہوا ادھر الیکشن کا سونامی چڑھ گیا۔ اوباما اور رومنی انتخابی مہم کے آخری معرکے پر نکل کھڑے ہوئے۔ دونوں امیدواروں نے متاثرین کی مدد کرنے کی کوشش کی' ان کے نام پر سیاست نہیں، مٹ رومنی نے تو اس معاملے میں اوبامہ کی تعریف بھی کر دی۔ کیا ہمارے کوئی جید سیاست دان کسی مخالف سیاست دان کی مدد کر سکتا ہے؟ امریکی انتظامیہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے کام میں مصروف ہے، کیونکہ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔
اس کے لیے کسی صدر کے نوٹس لینے کی ضرورت نہیں' کسی وزیر اعلیٰ (وہاں گورنر سمجھ لیں)کو پانی میں اترنے کی مجبوری نہیں۔ کچھ ریاستوں میں پولنگ بھی شروع ہو چکی۔ پاکستان میں آج رات گئے جب امریکا میں سورج غروب ہو رہا ہو گا تو ووٹر اپنا فیصلہ سنا چکے ہوں گے۔ اوباما دوسری بار صدارت سنبھالیں گے یا مٹ رومنی ان سے اقتدار چھین لیں گے۔ الیکشن کا جو بھی نتیجہ نکلے اس سے پاکستان یا پاکستانیوں کو خاص فرق نہیں پڑے گا۔ مبصرین کے مطابق انتخابی مہم کے آخری لمحات میں دونوں صدارتی امیدواروں کی مقبولیت میں ایک فیصد کا بھی فرق نہیں تھا۔ دونوں برابر تھے۔ سمندری طوفان ''مداخلت'' نہ کرتا تو شاید رومنی مقبولیت میں اپنے حریف سے آگے نکل چکے ہوتے۔ میں الیکشن نتائج کے بارے میں کوئی پیش گوئی تو نہیں کر سکتا لیکن مجھے رومنی کی جیت کے امکانات زیادہ لگتے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی گوری اسٹیبلشمنٹ دوسری بار اوباما کو ملک پر حکمرانی کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ 2000ء کے الیکشن اگر یاد ہوں تو اس وقت ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الگور کے پاپولر ووٹ زیادہ تھے مگر سپریم کورٹ نے بعد میں افغانستان اور عراق پر جنگ مسلط کرنے والے بش کو فاتح قرار دے دیا تھا۔ ماہرین کے خیال میں اس بار بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ الیکشن سے صرف ایک ہفتہ پہلے امریکا کی تاریخ کا دوسرا بڑا سمندری طوفان آیا لیکن پورے ملک میں کسی ایک شخص نے بھی یہ مطالبہ نہ کیا کہ الیکشن ملتوی کر دیے جائیں۔
پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی طویل قطاروں میں لوگ آپس میں الجھتے بھی رہے لیکن الیکشن کے خلاف کوئی نہیں بولا۔ آٹھ دن سے بجلی سے محروم امریکیوں نے بھی الیکشن کے التوا کی بات نہیں کی۔ عارضی کیمپوں میں پناہ لینے والے بھی ووٹ ڈالنے کے لیے پرجوش نظر آئے۔ زندگی معمول پر آنے میں ابھی ہفتوں لگیں گے لیکن امریکی الیکشن وقت پر ہو جائیں گے۔ نیو جرسی کے ووٹر ای میل کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
نیو یارک کے بے گھر افراد عارضی کیمپوں میں ہی ووٹ ڈالیں گے۔ ریاست نیو جرسی تاریخ میں پہلی بار بے گھر ہونے والے ووٹروں کو تارکین وطن کا درجہ دے رہی ہے، وہ فیکس کے ذریعے بھی اپنا ووٹ ڈال سکیں گے۔ آج منگل 6 نومبر کا دن (امریکا میں دس گھنٹے بعد) امریکا کی جمہوری تاریخ میں یادگار بن جائے گا۔ طوفان نے کافی نقصان پہنچایا، بہت سے کام رک گئے، کچھ تقریبات ملتوی ہوئیں اور بعض منسوخ کر دی گئیں۔ یہ طوفان اگر ناکام رہا تو صرف امریکی الیکشن روکنے میں۔ اس سے تھوڑا بہت کسی کو فایدہ ہوا تو وہ اوباما کو جن کی مقبولیت میں کچھ اضافہ ہوا اور وہ اپنے حریف کے برابر آ گئے۔
ہمیں امریکا کی تباہی کے لیے کسی اور بڑے سانحے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ امریکا کو کسی اور مسلمان ملک میں الجھانا پڑے گا۔ یہ دعا بھی مسلسل مانگنا پڑے گی کہ ''یا اللہ ... دشمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔'' اس بار ہماری امیدیں پوری نہیں ہوئیں تو کیا ہوا؟ ہمیں ہمت نہیں ہارنی ہے۔ مایا تہذیب نے پیش گوئی کر رکھی ہے کہ اس سال کے آخر تک قیامت آنی ہے۔ یہ امید رکھنی چاہیے کہ وہ پیش گوئی صرف امریکا کے لیے ہے۔ امریکا اس سال کے آخر تک تباہ نہ ہو سکا تو شاید اگلے سال کے پہلے دو تین ماہ میں اس کا کام تمام ہو جائے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی مزید طوفانوں کا خطرہ موجود ہے۔ آنے والا کوئی اور طوفان ہماری خواہش پوری کر سکتا ہے۔
یاد آیا ہمارے الیکشن بھی تو قریب آ رہے ہیں۔ بظاہر تو 10 مئی تک الیکشن کا وزیر اطلاعات کا اعلان ٹھیک لگتا ہے لیکن بلوچستان حکومت اور کراچی کے حالات پر سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے کوئی اور منظر ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ امریکا میں تو آج الیکشن ہو جائیں گے، شاید ہم بھی اگلے سال کے وسط سے پہلے نئی حکومت کا انتخاب کر لیں؟ وہاں سمندری طوفان الیکشن نہیں روک سکا لیکن ہمیں معمولی سیلاب سے بھی ہوشیار رہنا ہو گا۔ یہاں تھوڑا سا پانی بھی سب کچھ بہا کر لے جا سکتا ہے۔
میری بات پر یقین نہیں تو پیر کی سہ پہر پہلے آرمی چیف کا آئی ایس پی آر کی طرف سے ہینڈ آئوٹ کی شکل میں جاری ہونے والاخطاب جو انھوں نے جی ایچ کیو میں فوجی افسروں سے کیا اور اس کے بعد جناب چیف جسٹس کی ساتویں مینجمنٹ کورس کے شرکا سے خطاب ملاحظہ کر لیں۔ آرمی چیف نے فرد واحد اور ادارے کی بات کی۔ چیف جسٹس نے کہا وہ دور گذر گیا جب میزائلوں اور ٹینکوں سے ملکی استحکام اور ترقی کا تعین ہوتا تھا۔ دونوں شخصیات کے یہ اہم ترین خیالات مستقبل قریب کا منظر نامہ بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ تبدیلی نظر تو آ رہی ہے لیکن کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا۔ جس طرح امریکی سینڈی سے ڈر رہے تھے مجھے اپنے ملک میں امنڈتے ہوئے طوفان سے اتنا خوف تو نہیں لیکن ڈر ضرور لگ رہا ہے۔