مسلم لیگ میں آ……شیر محمد چشتی
2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی مقبولیت کی بِنا پر (ق) مسلم لیگ کو زبردست شکست دی
آل انڈیا مسلم لیگ ایک تاریخ ساز پارٹی تھی۔ 1906ء میں غیر منقسم انڈیا کے اس وقت کے عظیم مسلم زعما نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے یہ پارٹی بنائی تھی جو اپنے مقصد میں کامیاب رہی۔
یہ پارٹی ایک متحرک پارٹی ثابت ہوچکی ہے، جو مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت بنام ''پاکستان'' حاصل کرکے ایک سنہری تاریخ رقم کرچکی ہے اور ایک انقلاب برپا کرنے کا اعزاز رکھتی ہے۔ پاکستان علامہ اقبالؒ کے تصور کے مطابق قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دور اندیش اور ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگی قائدین اور مسلم عوام نے بے لوث خدمات اور گراں قدر قربانیاں دے کر اور خاک اور خون کا سمندر عبور کرکے حاصل کیا۔ اس میں ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلمانوں کی کوششیں شامل ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں علاقے کے مسلم عوام اس میں شامل نہیں تھے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد بھی ملک کے تمام حصّوں کے عوام نے اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، اسے ایٹمی پاور بنا کر موجودہ صورت حال تک پہنچایا۔ اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ ہم گزشتہ 65 برس سے آزاد فضا میں اور اپنی سرزمین میں سر فخر سے بلند کرکے رہ رہے ہیں جس کا ماضی بڑا تابناک، حال اگرچہ کچھ مضطرب اور دل گیر ہے لیکن مستقبل درخشندہ نظر آرہا ہے۔ زمانہ حال سے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں، یہ سیاہ رات بہت جلد چھٹ جائے گی۔ انشاء اﷲ آیندہ وطنِ عزیز کامیابیاں اور کامرانیاںحاصل کرکے قوموں کی برادری میں اعلیٰ مقام حاصل کرے گا۔
موجودہ مسلم لیگ کو مضبوط و مقبول بنانے میں جہاں دوسرے قائدین کا تعلق ہے، وہاں چوہدری برادران کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ یہ چوہدری برادران، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ یہ مسلم لیگ کے ستون رہے ہیں۔ نہ صرف یہ خود بلکہ دو تین پشتوں سے ان کا خاندان مسلم لیگ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے جمہوری دور میں جب میاں محمد نواز شریف کی قیادت اور وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ چوہدری شجاعت حسین مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ اکتوبر 1999 میں میاں نواز شریف کی قیادت میں جب مسلم لیگ برسر اقتدار تھی، فوجی آمر پرویز مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مار کر تختہ الٹ دیا اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس پر تمام مسلم لیگی زعماء پرویز مشرف سے سخت ناراض تھے۔
جب میاں نواز شریف کو بیڑیاں پہنا کر جیل میں ڈالا اور پھر جلاوطن کردیا۔ تو پرویز مشرف کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ پرویز مشرف کو حکومت چلانے کے لیے مقبول عام قائدین کی ضرورت تھی، اس نے مسلم لیگیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے رابطے شروع کردیے لیکن ہر جگہ سے نفی میں جواب آتا رہا۔ چوہدری برادران نے بھی صاف انکار کردیا۔ پرویز مشرف چوہدریوں کی منّت سماجت کرتے رہے۔ بالآخر چوہدری برادران کو اپنی حمایت میں تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
دراصل چوہدری برادران اعلیٰ خاندانی لوگ ہیں، ان کی روایات بھی اعلیٰ ہیں، کوئی دشمن بھی ان کے دروازے پر آجائے تو اسے معاف کرکے گلے لگالیتے ہیں اور اس کے پکے دوست بن جاتے ہیں۔ یہی صورت حال پرویز مشرف کے بارے میں پیدا ہوئی۔ یہ اس کی زیادتیوں کو بھلا کر اس کی حکومت کو اپنی حمایت کا کندھا دینے پر تیار ہوگئے۔ انھوں نے مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرکے نئے سرے سے منظم کیا اور اپنی پارٹی قائداعظم مسلم لیگ بنائی جب کہ ان سے اختلاف کرنیوالے مسلم لیگ (ن) ہی میں رہے اور عوامی حمایت بھی مسلم لیگ (ن) کو ہی حاصل رہی ہے۔
2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی مقبولیت کی بِنا پر (ق) مسلم لیگ کو زبردست شکست دی اور صوبہ پنجاب میں اپنی حکومت بھی بنالی۔ چوہدریوں کی لیگ کو ان انتخابات میں مرکز اور باقی تینوں صوبوں میں شکست ہوئی۔ صرف صوبہ بلوچستان میں یہ جیتے، لیکن یہ اس سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے، اس لیے کہ ان کے حامی ممبران اسمبلی نے ان کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی اطاعت قبول کرلی۔ یہ ان کے ساتھیوں کی ان سے پہلی بغاوت تھی۔ اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں ان کے گروپ کی مسلم لیگ کے 50 کے قریب ممبران بھی ان کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کے حامی بن گئے۔
یہ ان سے دوسری بغاوت تھی۔مئی 2011 میں چوہدری برادران نے پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کرلیا، جس پر ان کے بہت سے ممبرانِ اسمبلی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کرلیا اور اپنا ''ہم خیال گروپ'' بنا کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یہ ان کے حامیوں کی تیسری بغاوت تھی۔ اس کے بعد ان کے حامی مسلم لیگیوں کی تعداد ایک تانگے کی سواریوں کے برابر رہ گئی۔ ان کے ساتھیوں نے مسلم لیگ (ن) میں جانے سے پہلے اور بعد میں بھی ان پر زور دیا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور مسلم لیگ کو مضبوط بناتے ہیں، لیکن یہاں وڈیرا چوہدری منفی ذہنیت ان کے آڑے آرہی ہے اور ضد کرکے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ہیں، آیندہ انتخابات میں غیروں کے ہاتھوں میں کھیل کر مسلم لیگی امیدواروں کے مقابلے میں دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
حالانکہ یہ وہی مسلم لیگ ہے جو ان کے بزرگوں کی اور خود ان کی رہی ہے۔ اس کو نقصان پہنچا کر یہ کس کی روح کو ثواب پہنچائیں گے؟ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی صورتحال یہ ہے کہ تمام مسلم لیگی قائدین متحد ہوچکے ہیں۔ عوام النّاس اور دوسری پارٹیوں کی اچھی اچھی شہرت کی حامل شخصیات بھی اس میں شامل ہوچکی ہیں۔ اس طرح اب یہ مسلم لیگ مضبوط اور عوام کی محبوب پارٹی بن چکی ہے۔مسلم لیگ کے جاں نثار کارکنان چوہدری برادران کی منت سماجت کرتے ہیں کہ مسلم لیگ میں واپس آجائیں، اپنے محترم بزرگ قائدین ایس ایم ظفر، وسیم سجاد اور مشاہد اﷲ سید سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ چوہدری برادران کو قائل کریں کیونکہ اب مسلم لیگ ایک سیسہ پلائی دیوار بنتی جارہی ہے۔ انشاء اﷲ اب اسے نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرنیوالوں کی کشتی پاکستان کے پانچ دریائوں میں جہاں سے بھی گزرے گی، ضرور ڈوب جائے گی۔
جہاں تک مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تعلق ہے، وہ نہ صرف میاں محمد نواز شریف کی مقناطیسی شخصیت کا اثر ہے، بلکہ تمام مسلم لیگی ممبران قومی اسمبلی/ سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں عہدے داروں اور کارکنوں کے استقلال کا اعجاز بھی ہے۔ اس لیے یہ سب قابلِ مبارک باد ہیں۔اگر اب بھی چوہدری برادران مسلم لیگ (ن) میں آجائیں تو ان کو کئی گنا زیادہ عزت ملے گی کیونکہ عزت اپنوں کو نقصان پہنچا کر حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنوں سے گلے شکوے دور کرکے اپنے برسوں کے پرانے بھائیوں کے ساتھ باہم شِیر و شکر ہو کر ہی ملتی ہے، جس دن یہ مسلم لیگ میں آجائیں گے، ان کا زبردست استقبال ہوگا۔ تمام مسلم لیگی خوش ہو کر جشن منائیں گے اور چراغاں کریں گے، ان کے صدقے واری جائیں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ پھر چوہدریوں کو اور بھی بہتر عزت، مقام اور مرتبہ ضرور ملے گا۔
یہ پارٹی ایک متحرک پارٹی ثابت ہوچکی ہے، جو مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت بنام ''پاکستان'' حاصل کرکے ایک سنہری تاریخ رقم کرچکی ہے اور ایک انقلاب برپا کرنے کا اعزاز رکھتی ہے۔ پاکستان علامہ اقبالؒ کے تصور کے مطابق قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دور اندیش اور ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگی قائدین اور مسلم عوام نے بے لوث خدمات اور گراں قدر قربانیاں دے کر اور خاک اور خون کا سمندر عبور کرکے حاصل کیا۔ اس میں ہندوستان کے تمام علاقوں کے مسلمانوں کی کوششیں شامل ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں علاقے کے مسلم عوام اس میں شامل نہیں تھے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آجانے کے بعد بھی ملک کے تمام حصّوں کے عوام نے اس کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، اسے ایٹمی پاور بنا کر موجودہ صورت حال تک پہنچایا۔ اﷲ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ ہم گزشتہ 65 برس سے آزاد فضا میں اور اپنی سرزمین میں سر فخر سے بلند کرکے رہ رہے ہیں جس کا ماضی بڑا تابناک، حال اگرچہ کچھ مضطرب اور دل گیر ہے لیکن مستقبل درخشندہ نظر آرہا ہے۔ زمانہ حال سے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں، یہ سیاہ رات بہت جلد چھٹ جائے گی۔ انشاء اﷲ آیندہ وطنِ عزیز کامیابیاں اور کامرانیاںحاصل کرکے قوموں کی برادری میں اعلیٰ مقام حاصل کرے گا۔
موجودہ مسلم لیگ کو مضبوط و مقبول بنانے میں جہاں دوسرے قائدین کا تعلق ہے، وہاں چوہدری برادران کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ یہ چوہدری برادران، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ یہ مسلم لیگ کے ستون رہے ہیں۔ نہ صرف یہ خود بلکہ دو تین پشتوں سے ان کا خاندان مسلم لیگ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیتا رہا ہے۔ مسلم لیگ کے جمہوری دور میں جب میاں محمد نواز شریف کی قیادت اور وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ چوہدری شجاعت حسین مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ اور چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ اکتوبر 1999 میں میاں نواز شریف کی قیادت میں جب مسلم لیگ برسر اقتدار تھی، فوجی آمر پرویز مشرف نے جمہوری حکومت پر شب خون مار کر تختہ الٹ دیا اور اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس پر تمام مسلم لیگی زعماء پرویز مشرف سے سخت ناراض تھے۔
جب میاں نواز شریف کو بیڑیاں پہنا کر جیل میں ڈالا اور پھر جلاوطن کردیا۔ تو پرویز مشرف کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے۔ پرویز مشرف کو حکومت چلانے کے لیے مقبول عام قائدین کی ضرورت تھی، اس نے مسلم لیگیوں کا تعاون حاصل کرنے کے لیے رابطے شروع کردیے لیکن ہر جگہ سے نفی میں جواب آتا رہا۔ چوہدری برادران نے بھی صاف انکار کردیا۔ پرویز مشرف چوہدریوں کی منّت سماجت کرتے رہے۔ بالآخر چوہدری برادران کو اپنی حمایت میں تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
دراصل چوہدری برادران اعلیٰ خاندانی لوگ ہیں، ان کی روایات بھی اعلیٰ ہیں، کوئی دشمن بھی ان کے دروازے پر آجائے تو اسے معاف کرکے گلے لگالیتے ہیں اور اس کے پکے دوست بن جاتے ہیں۔ یہی صورت حال پرویز مشرف کے بارے میں پیدا ہوئی۔ یہ اس کی زیادتیوں کو بھلا کر اس کی حکومت کو اپنی حمایت کا کندھا دینے پر تیار ہوگئے۔ انھوں نے مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرکے نئے سرے سے منظم کیا اور اپنی پارٹی قائداعظم مسلم لیگ بنائی جب کہ ان سے اختلاف کرنیوالے مسلم لیگ (ن) ہی میں رہے اور عوامی حمایت بھی مسلم لیگ (ن) کو ہی حاصل رہی ہے۔
2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی مقبولیت کی بِنا پر (ق) مسلم لیگ کو زبردست شکست دی اور صوبہ پنجاب میں اپنی حکومت بھی بنالی۔ چوہدریوں کی لیگ کو ان انتخابات میں مرکز اور باقی تینوں صوبوں میں شکست ہوئی۔ صرف صوبہ بلوچستان میں یہ جیتے، لیکن یہ اس سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھاسکے، اس لیے کہ ان کے حامی ممبران اسمبلی نے ان کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی کی اطاعت قبول کرلی۔ یہ ان کے ساتھیوں کی ان سے پہلی بغاوت تھی۔ اس کے بعد پنجاب اسمبلی میں ان کے گروپ کی مسلم لیگ کے 50 کے قریب ممبران بھی ان کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) کے حامی بن گئے۔
یہ ان سے دوسری بغاوت تھی۔مئی 2011 میں چوہدری برادران نے پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کرلیا، جس پر ان کے بہت سے ممبرانِ اسمبلی نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کرلیا اور اپنا ''ہم خیال گروپ'' بنا کر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان کردیا۔ یہ ان کے حامیوں کی تیسری بغاوت تھی۔ اس کے بعد ان کے حامی مسلم لیگیوں کی تعداد ایک تانگے کی سواریوں کے برابر رہ گئی۔ ان کے ساتھیوں نے مسلم لیگ (ن) میں جانے سے پہلے اور بعد میں بھی ان پر زور دیا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور مسلم لیگ کو مضبوط بناتے ہیں، لیکن یہاں وڈیرا چوہدری منفی ذہنیت ان کے آڑے آرہی ہے اور ضد کرکے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کر بیٹھ گئے ہیں، آیندہ انتخابات میں غیروں کے ہاتھوں میں کھیل کر مسلم لیگی امیدواروں کے مقابلے میں دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔
حالانکہ یہ وہی مسلم لیگ ہے جو ان کے بزرگوں کی اور خود ان کی رہی ہے۔ اس کو نقصان پہنچا کر یہ کس کی روح کو ثواب پہنچائیں گے؟ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی صورتحال یہ ہے کہ تمام مسلم لیگی قائدین متحد ہوچکے ہیں۔ عوام النّاس اور دوسری پارٹیوں کی اچھی اچھی شہرت کی حامل شخصیات بھی اس میں شامل ہوچکی ہیں۔ اس طرح اب یہ مسلم لیگ مضبوط اور عوام کی محبوب پارٹی بن چکی ہے۔مسلم لیگ کے جاں نثار کارکنان چوہدری برادران کی منت سماجت کرتے ہیں کہ مسلم لیگ میں واپس آجائیں، اپنے محترم بزرگ قائدین ایس ایم ظفر، وسیم سجاد اور مشاہد اﷲ سید سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ وہ چوہدری برادران کو قائل کریں کیونکہ اب مسلم لیگ ایک سیسہ پلائی دیوار بنتی جارہی ہے۔ انشاء اﷲ اب اسے نقصان نہیں پہنچے گا، بلکہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرنیوالوں کی کشتی پاکستان کے پانچ دریائوں میں جہاں سے بھی گزرے گی، ضرور ڈوب جائے گی۔
جہاں تک مسلم لیگ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا تعلق ہے، وہ نہ صرف میاں محمد نواز شریف کی مقناطیسی شخصیت کا اثر ہے، بلکہ تمام مسلم لیگی ممبران قومی اسمبلی/ سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں عہدے داروں اور کارکنوں کے استقلال کا اعجاز بھی ہے۔ اس لیے یہ سب قابلِ مبارک باد ہیں۔اگر اب بھی چوہدری برادران مسلم لیگ (ن) میں آجائیں تو ان کو کئی گنا زیادہ عزت ملے گی کیونکہ عزت اپنوں کو نقصان پہنچا کر حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنوں سے گلے شکوے دور کرکے اپنے برسوں کے پرانے بھائیوں کے ساتھ باہم شِیر و شکر ہو کر ہی ملتی ہے، جس دن یہ مسلم لیگ میں آجائیں گے، ان کا زبردست استقبال ہوگا۔ تمام مسلم لیگی خوش ہو کر جشن منائیں گے اور چراغاں کریں گے، ان کے صدقے واری جائیں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ پھر چوہدریوں کو اور بھی بہتر عزت، مقام اور مرتبہ ضرور ملے گا۔