آئن اسٹائن نے خود کو سب سے بڑا سائنسدان ثابت کردیا
کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔
MUMBAI:
جی ہاں آج سے تقریباً سو برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن نے ''عمومی اضافیت'' کے نظریے میں گریویٹیشنل (ثقلی) موجوں کی موجودگی کے بارے میں پیشگوئی کی تھی۔ آئن اسٹائن نےعمومی نظریہ اضافت 1915 میں تین صفحات میں واضح کیا تھا، جن میں سے آخری اور سب سے جامع پیپر 25 نومبر 1915 کو شائع ہوا تھا اس لئے 25 نومبر 1915 کو اس نظریے کی دریافت کا دن تصور کیا جاتا ہے، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی امواج کی نشاندہی نہیں ہوسکی تھی۔
چونکہ خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لئے کافی عرصہ سے کوششیں جاری ہیں، اور ان عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک حیران کن دریافت کی ہے۔ جس نے آئن اسٹائن کے نظریہ کو خاصی تقویت بخشی ہے آئن اسٹائن نےایک صدی پہلے اپنا یہ نظریہ پیش کیا تھا، جس کے بعد ثقلی امواج کو عالمی پیمانے پر تلاش کیا جارہا تھا۔
آج سائنس دانوں نے جدید سائنسی آلات کی مدد سے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے درمیان تصادم کی وجہ سے ''اسپیس ٹائم'' میں بدلاؤ کا ایک مشاہدہ کیا ہے اور یہ بدلاؤ بہت معمولی تھا یعنی ایک ایٹم کی جسامت کے بھی ہزارویں حصے کے برابر۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی کہیں بھی یہ پہلی مرتبہ نشاندہی ہے اور اب فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے، اور خود کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں بہت مدد ملے گی۔
فزیکل ریویو لیٹرز نامی رسالے نے لیزر انٹر فیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لائگو) کی اس رپورٹ کو اشاعت کے لئے قبول کرلیا تھا، جو کل اس جریدے نے شائع کی اور اس کے بعد لائگو سے وابستہ ماہرین نے واشنگٹن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اس کی تفصیلات بیان کی تھیں۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ لہریں کیا ہیں اور ان لہروں کا مشاہدہ کیسے کیا گیا، اس کے بارے آپ کو تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس قسم کی موجیں اسپیس اور ٹائم (زمان و مکاں) میں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کائنات میں بعض شدید ترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑے ستاروں کا دھماکے سے پھٹ جانا یا دو بلیک ہولز کا آپس میں تصادم ہوجانا۔ چونکا دینے والی بات تو یہ ہے کہ ثقلی موجیں ٹھوس مادے میں سے بھی آرپار گزر جاتی ہیں، اس لئے ان کے مرکز کو چھپایا نہیں جاسکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کی اندرونی تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔
بلیک ہولز دراصل کسی ستارے کی آخری حالت ہوسکتی ہے جس میں خود کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوجاتی ہے کہ اس سے روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی اور اسی مناسبت سے انہیں بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ پچھلے برس مارچ کے اوائل میں سائنس دانوں نے امریکہ میں ایک مخصوص تقریب میں ایڈوانسڈ لیگو( Laser Interferometer Gravitational-wave Observatories) تجربہ گاہوں کا افتتاح کیا۔ حساس اور جدید ترین لائگو نظام کو دنیا کے 15 ممالک کے ماہرین کے تعاون سے بنایا گیا ہے جن میں خاص طور پر برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا نے بڑا اہم کردار ادار کیا ہے۔ یہ دو الگ الگ تجربہ گاہیں کششِ ثقل کی لہروں کو تلاش کرنے کیلیے تعمیر کی گئی تھیں۔ اس تمام ڈیٹا کو جانچنے کے لئے بہت طاقتور کمپیوٹرز کا استعمال بھی کیا گیا ہے کیونکہ ایٹم کے اندر معمولی سی حرکت کو بھی ریکارڈ کیاجانا ضروری تھا۔
لائگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسی لہروں کی تلاش کے لئے قائم لیزر انٹر فیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انگریزی حرف ایل کی شکل کی 4 کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا گیا ہے، جہاں سے وہ منعکس ہوکر واپس پلٹ آتی ہیں۔
اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو بھی متاثر کرتی ہیں، لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔ گزشتہ تجربہ میں اسی وقت دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہروں کو امریکہ میں دو الگ الگ ''لائگو'' تجربہ گاہوں میں محسوس کیا گیا ہے۔
لیگو منصوبے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ ریتزی نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ''ہم نے ثقلی امواج کی نشاندہی تقریباً کرلی ہے''۔ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ راستہ ہوسکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ اگر ہم ان امواج کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال بھی جان سکتے ہیں۔
ثقلی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکیڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں (زمان و مکاں ایک طبیعیاتی تصور ہے اور انگریزی میں اسے spacetime یا space and time بھی کہتے ہیں)۔ یہ امواج مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ثقلی امواج کی جھلک دیکھنے کے لئے ایسی امواج کا ملنا انتہائی اہم تھا جو کہ کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں جنم لیتی رہتی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعلق رکھنے والے ٹک سٹیبنز نے کہا ہے کہ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی مدد سے سائنس دانوں کو کشش ثقل کی لہروں کو ڈھونڈنے کے لئے حساس ترین آلات میسر آسکتے ہیں۔ ان لہروں کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ ان میں ان کے آغاز اور کشش ثقل کی قسم کے بارے میں وہ معلومات حاصل ہوتی ہیں، جن کے بارے عام فلکیاتی آلات ہماری کچھ زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔
اس اہم دریافت کو اس سال کے نوبیل انعام کا موزوں ترین امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ انسانی ذہن اور فکر کی بھی فتح ہے کیونکہ آئن اسٹائن نے ان کی پیشگوئی اس وقت کی تھی جب حساس آلات کا وجود نہ تھا۔ اس نے صرف ریاضی اور اپنی ذہانت سے ان امواج کی نشاندہی کی تھی جو 101 سال بعد درست ثابت ہوئی۔
[poll id="951"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
جی ہاں آج سے تقریباً سو برس قبل مشہور سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن نے ''عمومی اضافیت'' کے نظریے میں گریویٹیشنل (ثقلی) موجوں کی موجودگی کے بارے میں پیشگوئی کی تھی۔ آئن اسٹائن نےعمومی نظریہ اضافت 1915 میں تین صفحات میں واضح کیا تھا، جن میں سے آخری اور سب سے جامع پیپر 25 نومبر 1915 کو شائع ہوا تھا اس لئے 25 نومبر 1915 کو اس نظریے کی دریافت کا دن تصور کیا جاتا ہے، تاہم کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تلاش کے باوجود ایسی امواج کی نشاندہی نہیں ہوسکی تھی۔
چونکہ خلا میں کششِ ثقل کی لہروں کی تلاش کے لئے کافی عرصہ سے کوششیں جاری ہیں، اور ان عالمی کوششوں سے منسلک سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کششِ ثقل کو مکمل طور پر سمجھنے کے سلسلے میں ایک حیران کن دریافت کی ہے۔ جس نے آئن اسٹائن کے نظریہ کو خاصی تقویت بخشی ہے آئن اسٹائن نےایک صدی پہلے اپنا یہ نظریہ پیش کیا تھا، جس کے بعد ثقلی امواج کو عالمی پیمانے پر تلاش کیا جارہا تھا۔
آج سائنس دانوں نے جدید سائنسی آلات کی مدد سے زمین سے ایک ارب نوری سال سے زیادہ مسافت پر واقع دو بلیک ہولز کے درمیان تصادم کی وجہ سے ''اسپیس ٹائم'' میں بدلاؤ کا ایک مشاہدہ کیا ہے اور یہ بدلاؤ بہت معمولی تھا یعنی ایک ایٹم کی جسامت کے بھی ہزارویں حصے کے برابر۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل کی ان لہروں کی کہیں بھی یہ پہلی مرتبہ نشاندہی ہے اور اب فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے جارہا ہے، اور خود کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے میں بہت مدد ملے گی۔
فزیکل ریویو لیٹرز نامی رسالے نے لیزر انٹر فیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری (لائگو) کی اس رپورٹ کو اشاعت کے لئے قبول کرلیا تھا، جو کل اس جریدے نے شائع کی اور اس کے بعد لائگو سے وابستہ ماہرین نے واشنگٹن میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں اس کی تفصیلات بیان کی تھیں۔
آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ یہ لہریں کیا ہیں اور ان لہروں کا مشاہدہ کیسے کیا گیا، اس کے بارے آپ کو تفصیل سے آگاہ کرتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اس قسم کی موجیں اسپیس اور ٹائم (زمان و مکاں) میں اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کائنات میں بعض شدید ترین واقعات رونما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر بڑے ستاروں کا دھماکے سے پھٹ جانا یا دو بلیک ہولز کا آپس میں تصادم ہوجانا۔ چونکا دینے والی بات تو یہ ہے کہ ثقلی موجیں ٹھوس مادے میں سے بھی آرپار گزر جاتی ہیں، اس لئے ان کے مرکز کو چھپایا نہیں جاسکتا اور وہ بلیک ہولز جیسے اجسام کی اندرونی تفصیلات فراہم کرتی ہیں۔
بلیک ہولز دراصل کسی ستارے کی آخری حالت ہوسکتی ہے جس میں خود کششِ ثقل اتنی طاقتور ہوجاتی ہے کہ اس سے روشنی بھی باہر نہیں نکل سکتی اور اسی مناسبت سے انہیں بلیک ہول کہا جاتا ہے۔ پچھلے برس مارچ کے اوائل میں سائنس دانوں نے امریکہ میں ایک مخصوص تقریب میں ایڈوانسڈ لیگو( Laser Interferometer Gravitational-wave Observatories) تجربہ گاہوں کا افتتاح کیا۔ حساس اور جدید ترین لائگو نظام کو دنیا کے 15 ممالک کے ماہرین کے تعاون سے بنایا گیا ہے جن میں خاص طور پر برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا نے بڑا اہم کردار ادار کیا ہے۔ یہ دو الگ الگ تجربہ گاہیں کششِ ثقل کی لہروں کو تلاش کرنے کیلیے تعمیر کی گئی تھیں۔ اس تمام ڈیٹا کو جانچنے کے لئے بہت طاقتور کمپیوٹرز کا استعمال بھی کیا گیا ہے کیونکہ ایٹم کے اندر معمولی سی حرکت کو بھی ریکارڈ کیاجانا ضروری تھا۔
لائگو کے تحت دنیا بھر میں قائم تجربہ گاہوں میں ایسی لہروں کی تلاش کے لئے قائم لیزر انٹر فیرومیٹر گریویٹیشنل ویو آبزرویٹری میں ایک لیزر شعاع کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انگریزی حرف ایل کی شکل کی 4 کلومیٹر طویل ایک جیسی عمودی متوازی سرنگوں میں بھیجا گیا ہے، جہاں سے وہ منعکس ہوکر واپس پلٹ آتی ہیں۔
اگر اس دوران کسی دور دراز کہکشاں میں پیدا ہونے والی کششِ ثقل کی لہریں تجربہ گاہ میں سے گزریں تو یہ تجربہ گاہ کے حساس ترین آلات کو بھی متاثر کرتی ہیں، لیکن یہ فرق انتہائی کم یعنی ایک ایٹم کی چوڑائی سے بھی کہیں کم ہوتا ہے۔ گزشتہ تجربہ میں اسی وقت دو بلیک ہولز کے اتصال سے خارج ہونے والی کششِ ثقل کی لہروں کو امریکہ میں دو الگ الگ ''لائگو'' تجربہ گاہوں میں محسوس کیا گیا ہے۔
لیگو منصوبے کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ ریتزی نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ ''ہم نے ثقلی امواج کی نشاندہی تقریباً کرلی ہے''۔ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ راستہ ہوسکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ اگر ہم ان امواج کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم بگ بینگ کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصے کا حال بھی جان سکتے ہیں۔
ثقلی لہریں ہم مرکز دائروں کی شکل میں زمان و مکان کی چادر کو سکیڑتی اور پھیلاتی رہتی ہیں (زمان و مکاں ایک طبیعیاتی تصور ہے اور انگریزی میں اسے spacetime یا space and time بھی کہتے ہیں)۔ یہ امواج مادے کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اتنی کمزور ہوتی ہیں کہ ان کی پیمائش نہیں کی جا سکتی۔
آج کے دور کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ثقلی امواج کی جھلک دیکھنے کے لئے ایسی امواج کا ملنا انتہائی اہم تھا جو کہ کائنات میں دھماکوں یا ستاروں اور بلیک ہولز کے تصادم جیسے واقعات کے نتیجے میں جنم لیتی رہتی ہیں۔ امریکی خلائی ادارے ناسا سے تعلق رکھنے والے ٹک سٹیبنز نے کہا ہے کہ کششِ ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ کھڑکی ہو سکتی ہیں جس سے ہمیں کائنات کی ابتداء کے بارے میں پتہ چل سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی مدد سے سائنس دانوں کو کشش ثقل کی لہروں کو ڈھونڈنے کے لئے حساس ترین آلات میسر آسکتے ہیں۔ ان لہروں کے بارے میں ہمارا خیال ہے کہ ان میں ان کے آغاز اور کشش ثقل کی قسم کے بارے میں وہ معلومات حاصل ہوتی ہیں، جن کے بارے عام فلکیاتی آلات ہماری کچھ زیادہ مدد نہیں کر سکتے۔
اس اہم دریافت کو اس سال کے نوبیل انعام کا موزوں ترین امیدوار قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن یہ انسانی ذہن اور فکر کی بھی فتح ہے کیونکہ آئن اسٹائن نے ان کی پیشگوئی اس وقت کی تھی جب حساس آلات کا وجود نہ تھا۔ اس نے صرف ریاضی اور اپنی ذہانت سے ان امواج کی نشاندہی کی تھی جو 101 سال بعد درست ثابت ہوئی۔
[poll id="951"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔