فنکاروں کی محبتیں اور ناراضگیاں حصہ اول

بڑے بڑے فنکاروں کے درمیان بعض اوقات چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں پیدا ہو جاتی ہیں

hamdam.younus@gmail.com

بڑے بڑے فنکاروں کے درمیان بعض اوقات چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں پیدا ہو جاتی ہیں، یہ فنکار چاہے پاکستان کی فلم انڈسٹری سے تعلق رکھتے ہوں یا ہندوستان سے اکثر و بیشتر ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ فنکاروں کے درمیان محبتیں ہوں یا ناراضگیاں کبھی تو مختصر وقت کے لیے ہوتی ہیں مگر کبھی کبھی طویل مدت تک چلتی ہیں اور فنکاروں کی پیشہ ورانہ زندگی کو بھی متاثر کرتی ہیں ۔

میں پہلے ہندوستان کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر اور موسیقار او۔ پی نیئر کی ناراضگی کا تذکرہ کروں گا، ان دونوں کے درمیان ناراضگی کی یہ خلیج اس وقت پیدا ہوئی جب ایک نئی فلم کے گیت کی ریکارڈنگ کے لیے لتا منگیشکر سے رابطہ کیا گیا، لتا نے موسیقار کا نام پوچھا فلمساز نے بتایا کہ نیا موسیقار ہے اور اس کا نام ہے اوم پرشاد نیئر۔ لتا منگیشکر کا اس وقت سارے ہندوستان میں طوطی بول رہا تھا۔

لتا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ابھی اس کے پاس وقت نہیں ہے اور پھر وہ ایک نئے موسیقار جسے وہ جانتی تک نہیں ہے، اس کے لیے نہیں گا سکتی۔ نئے موسیقار کو لتا کے انکار سے بڑا دکھ ہوا مگر وہ اس دکھ کو پی گیا، وہ فلم تھی ''آسمان'' یہاں میں وضاحت کرتا چلوں کہ ''آسمان'' سے پہلے ایک فلم ''کنیز'' تھی جو او پی نیر کی پہلی فلم تھی اور ''کنیز'' میں صرف موسیقار نیّر نے بیک گراؤنڈ میوزک ہی دیا تھا یہ 1969ء کی فلم تھی جب کہ ''آسمان'' 1952ء کی فلم تھی۔ ''آسمان'' میں معمولی کاسٹ تھی، اور فلم زیادہ نہیں چل سکی تھی اور اس کا کوئی گیت بھی ہٹ نہ ہو سکا تھا۔

پھر اوم پرشاد نے اپنا نیا نام او پی نیئر رکھ لیا۔ او پی نیئر 1926ء میں لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ او پی نیئر نے اپنی ناکامی سے بڑا سبق حاصل کیا اور پھر اپنی تمام تر توجہ صرف موسیقی ہی کی طرف لگا دی، وہ دن رات ایک ہی کام کرتے تھے۔ صرف دھنیں بناتے رہتے تھے۔ اس طرح ان کی فنی صلاحیتیں بڑھتی چلی گئیں ان کی سوچ میں نکھار آتا چلا گیا اور پھر ایک دن ان کی ملاقات اداکار، فلمساز و ہدایت کار گرو دت سے ہوئی۔ گرو دت نے ان کی چند دھنیں سن کر فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنی فلم ''آر پار'' میں او پی نیّر سے ہی کام لیں گے۔

فلم ''آر پار'' میں گرو دت کے ساتھ شیاما ہیروئن تھی۔ اور اس وقت گلوکارہ گیتا رائے بھی کافی مشہور ہو رہی تھی، بعد میں وہ گیتا دت بن گئی تھی۔ موسیقار او پی نیّر نے دن رات ایک کر کے فلم ''آر پار'' کے لیے بڑی خوبصورت دھنیں بنائیں۔ اور گرودت ان کی ہر دھن کو پسند کرتے چلے گئے۔ جب فلم ''آر پار'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تو اس فلم کی کامیابی میں سب سے زیادہ دخل او پی نیّر کی موسیقی اور مسحور کن گیتوں کو حاصل تھا۔ فلم کا ہر گیت سپرہٹ گیت ثابت ہوا جیسے یہ چند گیت۔

٭محبت کر لو جی بھر لو، اجی کس نے روکا ہے۔

٭ارے سن سن ظالما پیار ہم کو تم سے ہو گیا۔

٭بابو جی دھیرے چلنا پیار میں ذرا سنبھلنا۔

٭ہوں ابھی میں جوان اے دل۔

اور او پی نیّر کے بنائے ہوئے ان گیتوں نے سارے برصغیر میں ایک دھوم مچا دی تھی۔ او پی نیّر نے اپنے گیتوں کے لیے گیتا دت، محمد رفیع اور شمشاد بیگم کی آوازوں کو منتخب کیا تھا، اپنی فلم ''آر پار'' کے بعد ہی او پی نیّر ایک چھلانگ لگا کر صف اول کے موسیقاروں میں شامل ہو گئے تھے۔

پھر تو او پی نیّر کی طرف ہر فلمساز نے اپنی محبت نچھاور کرنی شروع کر دی تھی اور ایک دم سے کئی فلمیں ان کے پاس آ گئیں اور یہ اتنے مصروف موسیقار ہو گئے کہ ان کو کان کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی تھی۔ اس دوران او پی نیّر کی فلموں مسٹر اینڈ مسز55، پھر وہی دل لایا ہوں، تم سا نہیں دیکھا، جعلی نوٹ، بمبئی کا بابو، باپ رے باپ، سی آئی ڈی کے گیتوں نے سارے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا اور ہر دوسرا فلمساز او پی نیّر کے گھر کے دروازے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔

او پی نیّر کی اوپر تلے بے شمار فلمیں ہٹ ہوتی چلی گئیں اور دلیپ کمار کی فلم ''نیا دور'' کے گیتوں نے تو ایک نئی تاریخ رقم کی تھی۔ او پی نیّر کو ''نیا دور'' کے علاوہ بھی کئی فلموں میں بہترین موسیقار کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ وہ دور او پی نیّر کا دور کہلایا جانے لگا اور ریڈیو سیلون سے گیت مالا کے پروگرام میں زیادہ تعداد او پی نیّر کے گیتوں کی ہی فرمائش ہوتی تھی۔


گرودت، دیوآنند، شمی کپور اور دلیپ کمار کی ہٹ فلموں کے موسیقاروں میں او پی نیّر کا نام بھی جگمگانے لگا تھا اس سارے عرصے میں او پی نیّر نے لتا منگیشکر سے کبھی کوئی گیت نہیں گوایا جب کہ لتا کی چھوٹی بہن آشا تک کو گوایا۔ واحد لتا منگیشکر او پی نیّر کی ناراضگی کا زندگی بھر باعث بنی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں کا جب بھی آمنا سامنا ہوتا تھا تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر صرف مسکراہٹوں کا تبادلہ کر لیتے تھے۔ ایک دوسرے کو پرنام کر لیتے تھے مگر ایک دوسرے کے ساتھ کبھی کام نہیں کیا۔

اب میں آتا ہوں پاکستان فلم انڈسٹری کے لیجنڈ موسیقار نثار بزمی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی طرف۔ بلاشبہ میڈم نور جہاں کا برصغیر میں کوئی نعم البدل نہیں تھا۔ ان کی آواز کا سوز و گداز، سروں کا رچاؤ، گلے کا لوچ برصغیر میں کسی اور گلوکارہ کو نصیب نہیں ہوا تھا۔ ان کی شہرت کے آگے کسی اور کا چراغ جلنا بڑا مشکل ہوتا تھا۔ وہ کبھی اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں سے ناراض ہو جاتی تھیں مگر جلد ہی بھول بھی جاتی تھیں وہ جو کہتے ہیں ناں کہ خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔

موسیقار خورشید انور سے لے کر موسیقار نثار بزمی تک وہ سب کی چہیتی گلوکارہ تھیں اور وہ ہر موسیقار کی قدر بھی کرتی تھیں اور عزت بھی بہت دیتی تھیں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ ایک بار موسیقار نثار بزمی سے ان کی بھی کچھ ناراضگی ہو گئی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک گیت کی ریکارڈنگ کے دوران ایک ٹیک میں میڈم نے ایک جگہ گائیکی کے ساتھ اپنے انداز میں بڑی خوبصورت ادائیگی کی مگر نثار بزمی کو وہ جگہ مناسب نہ لگی اور انھوں نے میڈم سے کہا۔ میڈم! جو میں نے جگہ رکھی ہے آپ اسی انداز میں گائیں تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا۔

شاید میڈم کی طبیعت اس دن کچھ بوجھل سی تھی اور ان کا گلا بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ بزمی صاحب بولے لگتا ہے میڈم! آج شاید یہ گانا ریکارڈ نہیں ہو سکے گا۔ آج آپ ریسٹ کر لیں کل ریکارڈنگ رکھ لیتے ہیں۔ میڈم بولیں ٹھیک ہے۔ مگر یہ ریکارڈنگ کل نہیں ہو گی میں آپ کو فون کر کے نئی تاریخ دوں گی۔ یہ کہنے کے بعد میڈم ریکارڈنگ کینسل کرا کر گھر چلی گئیں۔ پھر چند روز کے بعد وہ گانا خوش اسلوبی سے نثار بزمی صاحب کے پاس سے بہت اچھا ریکارڈ ہو گیا تھا۔ مگر دونوں فنکاروں کے درمیان ایک ہلکی سی خفگی اور خلش سی پیدا ہو گئی تھی۔

پھر جب 1970ء میں نثار بزمی نے حسن طارق کی فلم ''انجمن'' کی موسیقی دی تو انھوں نے میڈم نور جہاں کے ساتھ ساتھ گلوکارہ رونا لیلیٰ کو بھی گوایا۔ ''انجمن'' میں گائے گئے رونا لیلیٰ کے گیت جس کے بول تھے۔ ''آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے'' نے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ پھر جب 1972ء میں ہدایت کار حسن طارق نے اپنی فلم ''امراؤ جان ادا'' بنائی تھی اس کے موسیقار بھی نثار بزمی تھے۔ ''امراؤ جان ادا'' میں میڈم نور جہاں کا گایا ہوا ایک گیت:

جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں

آخری گیت سنانے کے لیے آئے ہیں

بہت مشہور تھا اور اسی فلم میں رونا لیلیٰ کو نثار بزمی نے کئی گیت گوائے تھے خاص طور پر یہ گیت بڑے مقبول ہوئے تھے۔

٭کاٹے نہ کٹے رے رتیاں سیّاں انتظار میں۔

٭آپ فرمائیں کیا کیا خریدیں گے' دردِ دل کی دوا فری ہے۔

٭جھومیں کبھی ناچیں۔

اور فلم ''امراؤ جان ادا'' کے گیتوں نے رونا لیلیٰ کی آواز کی ہر طرف دھوم مچا دی تھی۔ اب رونا لیلیٰ ملکہ ترنم نور جہاں کے بعد دوسری مشہور گلوکارہ کے بطور اپنی جگہ بنا چکی تھی جب کہ رونا لیلیٰ کے ساتھ ہی ناہید اختر، نیّرہ نور اور مہ ناز نے بھی اپنا ایک مقام حاصل کر لیا تھا۔ اس دور میں ایک وقت ایسا آیا کہ اردو فلموں پر زوال آنے لگا اور پنجابی فلموں کی بہتات ہو گئی۔

میڈم نور جہاں کی بھی توجہ پنجابی فلموں کی طرف مرکوز ہوگئی تھی۔ میڈم نور جہاں کی ناراضگی بہر صورت ختم ہو چکی تھی اور پھر سے یہ دونوں فنکار آپس میں شیر و شکر ہو گئے تھے کچھ عرصے بعد نثار بزمی لاہور چھوڑ کر دوبارہ کراچی شفٹ ہو گئے اور لاہور اس صورت میں جاتے جب لاہور کا کوئی فلمساز انھیں اپنی فلم کی موسیقی کے لیے بلاتا تھا اور انھیں ہوٹل کی رہائش فراہم کرتا تھا۔ بہت عرصے کے بعد نثار بزمی صاحب نے کراچی کی ایک فلم ''خوش نصیب'' کی موسیقی دی تھی۔ (جاری ہے۔)
Load Next Story