گولیاں برسا دو
سیاست کے میدان میں کھیلتے ہوئے عمر ہو گئی ہے اس لیے سمجھتے ہیں کہ کون سا مسئلہ کب سیاسی ہوتا ہے
وزیر اعظم صاحب کو سیاست کے میدان میں کھیلتے ہوئے عمر ہو گئی ہے اس لیے سمجھتے ہیں کہ کون سا مسئلہ کب سیاسی ہوتا ہے ۔ اور کب اس پر سیاست کی جاتی ہے ۔آئیے آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں ۔ بھٹو صاحب کے اقتدار میں آتے ہی ہر کمزور شخص یہ سمجھنے لگا تھا کہ اب طاقت عوام کے پاس آچکی ہے ۔
جگہ جگہ یونین بن رہی تھی ۔ اور عوامی حکومت ہونے کے باوجود جگہ جگہ مظاہرے بھی ہو رہے تھے ۔ کہیں طلبہ سڑکوں پر تھے تو کہیں مزدور اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ پولیس سڑکوں پر نکل آئی ۔ صوبہ کا آئی جی بھی مظاہروں میں شامل ہو گیا ۔ یقیناً آپ کا تجسس ہو گا کہ کیا پولیس بھی ہڑتال کر سکتی ہے ۔
وہ ہی پولیس جس پر عوا م کا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ اُس کی جان و مال کی حفاظت کرے گی اگر وہ ہی لوٹ مار کرنے لگے تو کیا ہوتا ہے۔؟ اور پولیس کا سربراہ بھی اُس میں شامل ہو سکتا ہے ۔؟ قصہ شروع کرتے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی کو پہلا اقتدار ملا ۔ اُس وقت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت NAP تھی ۔ جس کا اثر و رسوخ اُس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختون خواہ کے علاوہ بلوچستان میں بھی کافی تھا ۔ جو نعرے پہلے بھٹو ولی بھائی بھائی کے لگے تھے وہ ختم ہو چکے تھے ۔
اور دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔ بلکہ اگر یہ کہوں کہ اگر موقعہ نہیں ملتا تھا تو خود سے بنا دیا جاتا تھا ۔ پشاور کے چوک یادگار میں NAP کا جلسہ ہو رہا تھا ۔ اب یہ نہیں معلو م ہو سکا کہ یہ پلاننگ مرکزی سطح پر کی گئی تھی یا پھر علاقے کے چند رہنماؤں نے اس کی تیاری کی تھی ۔ مگر دیکھا یہ گیا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ جیالے وہاں پہنچ گئے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے عمران خان کے جلسے میں مسلم لیگ والے آجائیں ۔
دونوں جانب سے نعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ پولیس نے جیالوں کو روکنے کی کوشش کی مگر نتیجہ بے سود نہیں نکلا ۔ بلکہ اُس میں پولیس کو سود سمیت زدو کوب کیا گیا ۔ ویسے ہی انقلابی دور چل رہا تھا ۔ پولیس والوں نے گرفتاری کی کوشش کی مگر نتیجہ صفر نکلنے پر اپنا کام چھوڑ دیا ۔ اور پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پولیس نے ہڑتال کر دی ۔ پیپلز پارٹی والوں کا یہ الزام تھا کہ اُس ہڑتال کو بڑھانے میں NAP کا کردار ہے ۔ لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ ہڑتال اپوزیشن نے نہیں کرائی مگر ہڑتال ہونے کے بعد اُس پر تیل چھڑکنے کا پورا کام اپوزیشن کر رہی ہے ۔
ایسے میں پولیس کے اعلی افسران بالکل بے خبر تھے کہ ہڑتالی کیا کرینگے ۔ایک بڑا مجمع جمع تھا انھوں نے آئی جی کے گھر کا رخ کیا ۔ درمیان میں آنیوالی ساری پولیس کی پوسٹس کو پولیس والوں نے ہی جلا دیا۔ ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں ۔چہرے پر غصے کے تاثرات تھے۔ زبان سے نعرے بلند ہو رہے تھے ۔
یہ مجمع پولیس کے اعلی افسران کے گھروں کا رخ کر رہا تھا ۔ سب سے پہلے ان کے راستے میں DIG کا گھر آیا ۔ انھوں نے اُس میں توڑ پھوڑ کی ۔ شیشے توڑ دیے ، فرنیچر میں کچھ بھی نا بچا ۔ صاحب تو گھر پر نہیں تھے ۔لیکن ان کی بیوی اور بچوں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ۔ان کے ہڑتال اور مظاہرے کرنیوالوں کے پاس ہتھیار تھے اور اب تھانوں پر بھی انھیں باغی پولیس اہلکاروں کا کنٹرول تھا ۔ یقیناً اس میں اب اپوزیشن بھی شامل تھی ۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت یعنی شیر پاؤ صاحب کے بس کی بات اب رہی نہیں تھی اور وفاق میں بھٹو صاحب کو یہ بتایا گیا تھا کہ اس ہڑتال کے پیچھے اپوزیشن ہیں ۔ ان میں پولیس والوں کی تعداد کم اور دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ہڑتال کرنیوالوں کے پاس ٹیلی فون کی بھی سہولت تھی انھوں نے تمام اضلاع میں فون کر دیے اور پھر دیکھا یہ گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ ، ایبٹ آباد بلکہ پورے صوبے سے پولیس والوں کا رخ پشاور کی طرف تھا ۔
ٹرک کے ٹرک آرہے تھے ۔ ساری سرکاری مشینری بے کار ہو چکی تھی ۔ صوبائی حکومت کے بے بس ہونے کے بعد بھٹو صاحب نے اپنے ایک وزیر جنرل اکبر خان کو پشاور روانہ کیا۔ جن کے متعلق ویسے بھی مشہور تھا کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ معاملے کو سلجھانے کی بجائے بگاڑ سکتے ہیں۔ شیر پاؤ اُن کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے ۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اکبر خان کے پاس سارا مینڈیٹ ہے ۔ توقع کیمطابق اکبر خان نے فیصلہ کیا کہ فوج سے کہا جائے کہ وہ راتوں رات تھانوں اور پولیس لائینز کا محاصرہ کر لے۔اگر اس سے بات نا بنے تو پھر پولیس والوں کو ہتھیار پھینکنے کا الٹی میٹم دیں ۔ اگر اس دباؤ میں آکر پولیس والے ہتھیار پھینک دیں تو انھیں گرفتار کر لیا جائے ۔
اگر اس سے بھی بات نا بن پائے تو تھانوں اور پولیس والوں کو توپوں سے اڑا دیا جائے ۔ سُنا ہے کہ اُس وقت کے کئی پولیس آفیسر اور مقامی سیاست دانوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو گیا اور ایک بھی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا تو پھر طوفان کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ پولیس آفسروں نے آئی جی صاحب کو مجبور کیا کہ وہ جلوس میں شریک ہوں ۔ اور آئی جی بنگش بھی پیٹی اُتار کر مظاہرے میں شامل ہو گئے ۔
دیگر پولیس افسران اکبر خان کی بات سے متفق نہیں تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب سے ڈائریکٹ بات کی جائے اور انھیں بتایا جائے کہ اس طرح بات اور بگڑ جائے گئی ۔ مگر بھٹو صاحب سے بات کون کرے ؟ پھر کسی سیانے کو خیال آیا کہ اکبر خان کے ساتھ میاں انور علی بھی آئے ہوئے ہیں ۔ سب لوگ مل کر میاں انور علی کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ وہ بھٹو صاحب سے بات کرے۔ انور علی اس کے لیے راضی ہو گئے ۔
انھوں نے بھٹو صاحب کو فون کیا ۔اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔ ؟ بھٹو صاحب نے کہا کہ میں اکبر خان سے بات کرتا ہوں ۔ بھٹو نے اکبر خان کو کال کر کے کہا کہ تم یہ سب نہیں کرو گے ۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ راؤ رشید صاحب کیمطابق بھٹو نے انھیں کہا کہ میاں انور علی کے مشورے کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں بڑھانا ۔انور علی نے مذاکرات کی میز لگا دی ۔ دوسری طرف اپوزیشن نہیں چاہتی تھی کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں ۔ لیکن ہڑتالی پولیس اہلکاروں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ۔ حکومت نے یہ مان لیا پولیس کو یونین بنانے کی اجازت ہو گی ۔ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہو گیا ۔
اور سب کی جان میں جان آئی کہ کم سے کم توپیں نہیں چلیں ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ پہلے سانحہ ہوا اور اُس کے بعد سیاست شروع ہوئی ۔ اور اُس کا حل تصادم کی بجائے مذاکرات سے ہی نکلا ۔اب اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھیں ۔ یہاں ہڑتال ختم ہوئی اور اُس کے بعد پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کر دی ۔ سُنا ہے کہ اُس وقت بھی یہ مشورے دیے گئے تھے کہ فوج کو استعمال کیا جائے ۔ جب کہ اُس وقت پنجاب کے گورنر کھر تھے ۔ یہ دنیا بھی عجیب چیز ہے جہاں کبھی کبھی ضرورت اور مجبوریوں پر سیاست ہو جاتی ہے اور کبھی سیاست خود مجبور ہو جاتی ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت گرانے کے بعد امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ وہ کہیں پر بھی صورتحال کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ موجود حالات کو بڑھاوا دے کر اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ ہمیشہ سیاست کے کھیل نے کیا ۔مجھے ہمیشہ سے شک رہا کہ مشرق وسطی میں آنے والا سوشل میڈیا انقلاب پیدا کیا گیا یا پھر یہ ظلم کے خلاف قدرتی عمل ہے ۔ سوچیں کہ PIA کی ہڑتال ، خیبر پختون خوا میں ڈاکٹرز کے مطالبات اصل ایشو ہے یا سیاست ہو رہی ہے ۔ جب تک عوام کو اُن کا حق نہیں دیا جائے گا آپ کو یہ شکایت رہے گی کہ سیاست ہو رہی ہے ۔ اور پھر آپ کی صفوں میں موجود کوئی اکبر خان یہ مشورہ دے گا کہ گولیاں برسا دو ، توپیں چلا دو ۔
جگہ جگہ یونین بن رہی تھی ۔ اور عوامی حکومت ہونے کے باوجود جگہ جگہ مظاہرے بھی ہو رہے تھے ۔ کہیں طلبہ سڑکوں پر تھے تو کہیں مزدور اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ پولیس سڑکوں پر نکل آئی ۔ صوبہ کا آئی جی بھی مظاہروں میں شامل ہو گیا ۔ یقیناً آپ کا تجسس ہو گا کہ کیا پولیس بھی ہڑتال کر سکتی ہے ۔
وہ ہی پولیس جس پر عوا م کا اعتماد ہوتا ہے کہ وہ اُس کی جان و مال کی حفاظت کرے گی اگر وہ ہی لوٹ مار کرنے لگے تو کیا ہوتا ہے۔؟ اور پولیس کا سربراہ بھی اُس میں شامل ہو سکتا ہے ۔؟ قصہ شروع کرتے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی کو پہلا اقتدار ملا ۔ اُس وقت سب سے بڑی اپوزیشن جماعت NAP تھی ۔ جس کا اثر و رسوخ اُس وقت کے صوبہ سرحد اور آج کے خیبر پختون خواہ کے علاوہ بلوچستان میں بھی کافی تھا ۔ جو نعرے پہلے بھٹو ولی بھائی بھائی کے لگے تھے وہ ختم ہو چکے تھے ۔
اور دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔ بلکہ اگر یہ کہوں کہ اگر موقعہ نہیں ملتا تھا تو خود سے بنا دیا جاتا تھا ۔ پشاور کے چوک یادگار میں NAP کا جلسہ ہو رہا تھا ۔ اب یہ نہیں معلو م ہو سکا کہ یہ پلاننگ مرکزی سطح پر کی گئی تھی یا پھر علاقے کے چند رہنماؤں نے اس کی تیاری کی تھی ۔ مگر دیکھا یہ گیا کہ پیپلز پارٹی کے کچھ جیالے وہاں پہنچ گئے ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے عمران خان کے جلسے میں مسلم لیگ والے آجائیں ۔
دونوں جانب سے نعروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ پولیس نے جیالوں کو روکنے کی کوشش کی مگر نتیجہ بے سود نہیں نکلا ۔ بلکہ اُس میں پولیس کو سود سمیت زدو کوب کیا گیا ۔ ویسے ہی انقلابی دور چل رہا تھا ۔ پولیس والوں نے گرفتاری کی کوشش کی مگر نتیجہ صفر نکلنے پر اپنا کام چھوڑ دیا ۔ اور پھر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پولیس نے ہڑتال کر دی ۔ پیپلز پارٹی والوں کا یہ الزام تھا کہ اُس ہڑتال کو بڑھانے میں NAP کا کردار ہے ۔ لیکن لوگوں کا خیال تھا کہ ہڑتال اپوزیشن نے نہیں کرائی مگر ہڑتال ہونے کے بعد اُس پر تیل چھڑکنے کا پورا کام اپوزیشن کر رہی ہے ۔
ایسے میں پولیس کے اعلی افسران بالکل بے خبر تھے کہ ہڑتالی کیا کرینگے ۔ایک بڑا مجمع جمع تھا انھوں نے آئی جی کے گھر کا رخ کیا ۔ درمیان میں آنیوالی ساری پولیس کی پوسٹس کو پولیس والوں نے ہی جلا دیا۔ ان کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں ۔چہرے پر غصے کے تاثرات تھے۔ زبان سے نعرے بلند ہو رہے تھے ۔
یہ مجمع پولیس کے اعلی افسران کے گھروں کا رخ کر رہا تھا ۔ سب سے پہلے ان کے راستے میں DIG کا گھر آیا ۔ انھوں نے اُس میں توڑ پھوڑ کی ۔ شیشے توڑ دیے ، فرنیچر میں کچھ بھی نا بچا ۔ صاحب تو گھر پر نہیں تھے ۔لیکن ان کی بیوی اور بچوں نے بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ۔ان کے ہڑتال اور مظاہرے کرنیوالوں کے پاس ہتھیار تھے اور اب تھانوں پر بھی انھیں باغی پولیس اہلکاروں کا کنٹرول تھا ۔ یقیناً اس میں اب اپوزیشن بھی شامل تھی ۔
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت یعنی شیر پاؤ صاحب کے بس کی بات اب رہی نہیں تھی اور وفاق میں بھٹو صاحب کو یہ بتایا گیا تھا کہ اس ہڑتال کے پیچھے اپوزیشن ہیں ۔ ان میں پولیس والوں کی تعداد کم اور دشمنوں کی تعداد زیادہ ہے ۔ ہڑتال کرنیوالوں کے پاس ٹیلی فون کی بھی سہولت تھی انھوں نے تمام اضلاع میں فون کر دیے اور پھر دیکھا یہ گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ، کوہاٹ ، ایبٹ آباد بلکہ پورے صوبے سے پولیس والوں کا رخ پشاور کی طرف تھا ۔
ٹرک کے ٹرک آرہے تھے ۔ ساری سرکاری مشینری بے کار ہو چکی تھی ۔ صوبائی حکومت کے بے بس ہونے کے بعد بھٹو صاحب نے اپنے ایک وزیر جنرل اکبر خان کو پشاور روانہ کیا۔ جن کے متعلق ویسے بھی مشہور تھا کہ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ معاملے کو سلجھانے کی بجائے بگاڑ سکتے ہیں۔ شیر پاؤ اُن کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے ۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اکبر خان کے پاس سارا مینڈیٹ ہے ۔ توقع کیمطابق اکبر خان نے فیصلہ کیا کہ فوج سے کہا جائے کہ وہ راتوں رات تھانوں اور پولیس لائینز کا محاصرہ کر لے۔اگر اس سے بات نا بنے تو پھر پولیس والوں کو ہتھیار پھینکنے کا الٹی میٹم دیں ۔ اگر اس دباؤ میں آکر پولیس والے ہتھیار پھینک دیں تو انھیں گرفتار کر لیا جائے ۔
اگر اس سے بھی بات نا بن پائے تو تھانوں اور پولیس والوں کو توپوں سے اڑا دیا جائے ۔ سُنا ہے کہ اُس وقت کے کئی پولیس آفیسر اور مقامی سیاست دانوں نے کہا کہ اگر ایسا ہو گیا اور ایک بھی پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا تو پھر طوفان کو روکنا ممکن نہیں رہے گا۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ پولیس آفسروں نے آئی جی صاحب کو مجبور کیا کہ وہ جلوس میں شریک ہوں ۔ اور آئی جی بنگش بھی پیٹی اُتار کر مظاہرے میں شامل ہو گئے ۔
دیگر پولیس افسران اکبر خان کی بات سے متفق نہیں تھے ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب سے ڈائریکٹ بات کی جائے اور انھیں بتایا جائے کہ اس طرح بات اور بگڑ جائے گئی ۔ مگر بھٹو صاحب سے بات کون کرے ؟ پھر کسی سیانے کو خیال آیا کہ اکبر خان کے ساتھ میاں انور علی بھی آئے ہوئے ہیں ۔ سب لوگ مل کر میاں انور علی کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ وہ بھٹو صاحب سے بات کرے۔ انور علی اس کے لیے راضی ہو گئے ۔
انھوں نے بھٹو صاحب کو فون کیا ۔اور ساری صورتحال سے آگاہ کیا ۔ ؟ بھٹو صاحب نے کہا کہ میں اکبر خان سے بات کرتا ہوں ۔ بھٹو نے اکبر خان کو کال کر کے کہا کہ تم یہ سب نہیں کرو گے ۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ راؤ رشید صاحب کیمطابق بھٹو نے انھیں کہا کہ میاں انور علی کے مشورے کے بغیر کوئی بھی قدم نہیں بڑھانا ۔انور علی نے مذاکرات کی میز لگا دی ۔ دوسری طرف اپوزیشن نہیں چاہتی تھی کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں ۔ لیکن ہڑتالی پولیس اہلکاروں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ۔ حکومت نے یہ مان لیا پولیس کو یونین بنانے کی اجازت ہو گی ۔ معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہو گیا ۔
اور سب کی جان میں جان آئی کہ کم سے کم توپیں نہیں چلیں ۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ پہلے سانحہ ہوا اور اُس کے بعد سیاست شروع ہوئی ۔ اور اُس کا حل تصادم کی بجائے مذاکرات سے ہی نکلا ۔اب اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھیں ۔ یہاں ہڑتال ختم ہوئی اور اُس کے بعد پنجاب میں پولیس نے ہڑتال کر دی ۔ سُنا ہے کہ اُس وقت بھی یہ مشورے دیے گئے تھے کہ فوج کو استعمال کیا جائے ۔ جب کہ اُس وقت پنجاب کے گورنر کھر تھے ۔ یہ دنیا بھی عجیب چیز ہے جہاں کبھی کبھی ضرورت اور مجبوریوں پر سیاست ہو جاتی ہے اور کبھی سیاست خود مجبور ہو جاتی ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت گرانے کے بعد امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ وہ کہیں پر بھی صورتحال کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ موجود حالات کو بڑھاوا دے کر اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں ۔ اور یہ سب کچھ ہمیشہ سیاست کے کھیل نے کیا ۔مجھے ہمیشہ سے شک رہا کہ مشرق وسطی میں آنے والا سوشل میڈیا انقلاب پیدا کیا گیا یا پھر یہ ظلم کے خلاف قدرتی عمل ہے ۔ سوچیں کہ PIA کی ہڑتال ، خیبر پختون خوا میں ڈاکٹرز کے مطالبات اصل ایشو ہے یا سیاست ہو رہی ہے ۔ جب تک عوام کو اُن کا حق نہیں دیا جائے گا آپ کو یہ شکایت رہے گی کہ سیاست ہو رہی ہے ۔ اور پھر آپ کی صفوں میں موجود کوئی اکبر خان یہ مشورہ دے گا کہ گولیاں برسا دو ، توپیں چلا دو ۔