عدلیہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا نوٹس لےمیر افضل
پٹرولیم کی قیمت کم ہوتے ہی ٹرانسپورٹرز کیخلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے.
ISLAMABAD:
سندھ بس اونرز ایسوسی ایشن کے صدر میر افضل خان نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ سی این جی کی قیمتیں کم کرنے کے احکامات کے بعد سندھ میں اسٹیشن مالکان کی جانب سے کم پریشر گیس کی فراہمی اور اسٹیشنز بند کرنے کا نوٹس لیں اور ایسے سی این جی اسٹیشنز کیخلاف کارروائی کا حکم جاری کریں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں کمی ہوتی ہے تو ٹرانسپورٹروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ زاید کرایہ وصول کیا جا رہا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ٹرانسپورٹر کن مشکلات کا شکار ہیں، اسپیئر پارٹس کی قیمتوں میں اس دوران سو فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
جبکہ اس شعبے سے منسلک افراد کی تنخواہوں میں بھی50 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن کرائے مقرر کرتے وقت حکومت ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتی ہے، جبکہ ستم ظریفی یہ کہ حکومت نے اے سی اور نان اے سی بسوں کا کرایہ بھی برابر کر دیا ہے، جبکہ اس سے پہلے ایئر کنڈیشنڈ بسوں کا کرایہ ڈبل ہوتا تھا، کیونکہ اے سی بسوں کے فیول کے اخراجات زیادہ اور مسافروں کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرائے مقرر کرے۔
سندھ بس اونرز ایسوسی ایشن کے صدر میر افضل خان نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ سی این جی کی قیمتیں کم کرنے کے احکامات کے بعد سندھ میں اسٹیشن مالکان کی جانب سے کم پریشر گیس کی فراہمی اور اسٹیشنز بند کرنے کا نوٹس لیں اور ایسے سی این جی اسٹیشنز کیخلاف کارروائی کا حکم جاری کریں۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیتموں میں کمی ہوتی ہے تو ٹرانسپورٹروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ زاید کرایہ وصول کیا جا رہا ہے، لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ٹرانسپورٹر کن مشکلات کا شکار ہیں، اسپیئر پارٹس کی قیمتوں میں اس دوران سو فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
جبکہ اس شعبے سے منسلک افراد کی تنخواہوں میں بھی50 فیصد اضافہ ہوا ہے، لیکن کرائے مقرر کرتے وقت حکومت ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتی ہے، جبکہ ستم ظریفی یہ کہ حکومت نے اے سی اور نان اے سی بسوں کا کرایہ بھی برابر کر دیا ہے، جبکہ اس سے پہلے ایئر کنڈیشنڈ بسوں کا کرایہ ڈبل ہوتا تھا، کیونکہ اے سی بسوں کے فیول کے اخراجات زیادہ اور مسافروں کی گنجائش کم ہوتی ہے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ٹرانسپورٹ کے کرائے مقرر کرے۔