40 سال سے روزانہ محبت نامے لکھنے والا بل برنسن

امریکی شوہر نے دیار الفت میں انوکھی مثال قائم کر دی

امریکی شوہر نے دیار الفت میں انوکھی مثال قائم کر دی ۔ فوٹو : فائل

جس کا مشاہدہ براہ راست پانچ انسانی حسوں سے نہ کیا جا سکے۔اسے الفاظ کے ذریعے ذہن کے کورے کاغذ پر کاڑھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔ انسانی جذبات اور احساسات بھی اسی طرح مشاہدہ نہیں کیے جا سکتے، بلکہ ہم کسی عمل کے ذریعے ان جذبات کا اظہار دیکھتے، سنتے یا پڑھتے ہیں۔۔۔ اور پھر اسی توسط سے ہم اس جذبے کا ایک عکس اپنے ذہن میں بنالیتے ہیں، یعنی جذبات اور احساسات کا اظہار ہی اس تک رسائی کا واحد وسیلہ قرار پاتا ہے۔۔۔ جب تذکرہ ہو اس دھرتی اور سنسار کے سب سے حلاوت انگیز جذبے محبت کا۔۔۔ اس کا شمار ہم بہ آسانی ان جذبات میں کر سکتے ہیں کہ جس کا اظہار مخاطب کو ایک دم سے بہت خاص قسم کا احساس دلا دیتا ہے۔

خوشیوں کی طرح محبت کا شمار بھی انہی جذبات میں ہوتا ہے کہ جسے بانٹنے سے ان کی عمر اور حجم میں خوب اضافہ ہوتا ہے، جب کہ کچھ جذبات ایسے ہوتے ہیں کہ وسیلۂ اظہار ان کی شدت میں کمی پیدا کرتا ہے۔ جیسے غم کا اظہار اس کے رنج کو کم کر دیتا ہے۔

کسی سے اپنی لگن کا احساس اگر تحریر کی صورت میں ہو، تو وہ عام سا کاغذ کا ٹکڑا بھی کتنی اہم دستاویز اور کتنی قیمتی شے بن جاتا ہے۔۔۔ اس میں لکھے گئے لفظ چاہنے والے کے خوب صورت جذبات کا اظہار ہوتے ہیں، تو اس کاغذ میں اس کے ہاتھوں کا لمس اور اس کے وجود کی خوش بو کچھ اس طرح رچ بس جاتی ہے کہ جب تک الفاظ قائم رہیں، انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ہر چند کے جدید دور میں تحریر صرف کاغذ اور قلم کی محتاج نہیں رہی، یعنی تحریری اظہار بھی اب موبائل اور کمپیوٹر وغیرہ کے جلتے بجھتے پردے پر آتا اور چلا جاتا ہے، مگر وہ قلم اور قرطاس والی بات ان برقی آلوں میں کہاں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی ریاست نیو جرسی کے ایک قصبے ٹومز ریور Toms River کے ایک رہائشی بل برسنن Bill Bresnan گزشتہ 40 سال سے اپنی اہلیہ کرسٹن برسنن Kirsten Bresnan کو بلاناغہ روزانہ چٹھی لکھ رہے ہیں۔۔۔ یہ خطوط کیا ہیں، ان کے محبت نامے ہیں، جن کے اختتام پر محبت سے بھرپور اختتامیہ مع دستخط درج ہوتا ہے۔

خطوط کا سلسلہ اُس وقت تو جچتا بھی ہے، جب دو افراد الگ، الگ جگہ رہ رہے ہوں یا ایک دوسرے سے دور ہوں، تب تو وہ حال دل بیان کرنے کے واسطے ایک دوسرے کو یہ نامے روانہ کرتے ہوں، لیکن شادی کے بعد ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی اس دل چسپ مشق کو جاری رکھنا یقیناً تعجب میں مبتلا کر دینے والی حقیقت ہے۔۔۔ کم ہی جوڑے شادی کے بعد ایک دوسرے کے لیے اس قدر شدت سے محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، بلکہ محبت میں ڈوب کر اس ناتے کو بنانے والے بھی شادی کے بعد اپنے شریک حیات سے اپنے قلبی جذبات کا اظہار نہیں کرتے۔۔۔ جب کہ بل برسنن دو، چار سال سے نہیں، بلکہ مسلسل چالیس سال سے اپنی محبوب بیوی کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔۔۔

کتابوں اور قصے کہانیوں کی دنیا میں تو اس کا تذکرہ ملتا ہے۔۔۔ 'دی نوٹ بک' نامی فلم کا مرکزی کردار بھی مسلسل ایک سال تک اپنی محبوبہ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اسے روزانہ خط لکھتا ہے، لیکن حقیقی زندگی میں بل برسنن نے یہ شاید ایسا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ملتی۔


بل برسنن اس طویل عرصے میں روزانہ اپنا یہ کام کبھی نہیں بھولے، حتیٰ کہ دوران سفر بھی وہ بلاناغہ ایک پوسٹ کارڈ پر اپنے جذبات رقم کر کے ارسال کر دیتے ہیں۔ چار عشروں کے دنوں کا شمار کیا جائے، تو یہ تعداد ساڑھے 14 ہزار سے زائد بنتی ہے۔۔۔ ان میں سے 10 ہزار سے زائد منتخب خطوط کو محفوظ رکھا گیا ہے، برسنن کے اپنی بیوی کو لکھے گئے ان مکتوبات کو گتے کے 25 بڑے ڈبوں میں تاریخ وار رکھا گیا ہے۔

برسنن بطور شوہر اس عمل کو بہترین ازدواجی تعلقات کا ایک تیر بہ ہدف نسخہ گردانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''بہترین تعلقات کے لیے روزانہ اس پر توجہ دینا بہت ضروری ہے اور کسی دن بھی سونے سے پہلے تمام خلشیں اور تلخیاں دور کرلینی چاہئیں، اس کے بعد ہی ایک دوسرے کو شب بخیر کہیں۔''

بل برسنن، کرسٹن(Kirsten) سے پہلی بار ایک محافظی ادارے میں ملے، جہاں وہ لائسنس حاصل کرنے کے خواہش مند طلبا کی تدریس پر مامور تھیں۔ شمالی یورپ سے تعلق رکھنے والی کرسٹن، برسنن کو پہلی نظر میں بہت پسند آئیں۔ یہیں سے دونوں کے تعلقات کا آغاز ہوا اور پھر جلد ہی دونوں نے سادگی سے شادی کر لی۔

برسنن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ چالیس برسوں میں کبھی نہیں جھگڑے۔ دونوں کے درمیان بہت سے اختلافات ہوتے ہیں، لیکن اسے باہمی بات چیت سے حل کر لیا جاتا ہے۔ دونوں میاں بیوی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ابھی، بھی اپنی پہلی ملاقات کی طرح مناتے ہیں۔ ناشتے کے دسترخوان سے رات کے کھانے کی بیٹھک تک، وہ دونوں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو جمع کرتے رہتے ہیں۔ بل برسنن کو کچھ عرصہ قبل جب سرطان (کینسر) ہوا، تو اُن کی بیوی کرسٹن برسنن Kirsten Bresnan نے کہا کہ یہ سرطان تمہیں نہیں، بلکہ ہمیں ہوا ہے اور میں بھی وہی کچھ کروں گی، جو تمہیں اس مرض سے نجات حاصل کرنے کے لیے کرنا پڑے گا۔

بل برسنن آج کل کی محبت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ''میں دیکھتا ہوں کہ ریستورانوں میں نوجوان میاں بیوی کھانے کے لیے بیٹھتے تو آمنے سامنے ہیں، لیکن عالَم یہ ہوتا ہے کہ ان کی نگاہیں ہاتھ میں موجود موبائل یا کسی دوسرے آلے پر ہی مرکوز رہتی ہیں اور شاید ایک بار بھی ان کی نگاہیں چار نہیں ہوتیں۔۔۔! میں یہ کہتا ہوں، کہ یہ ساتھ بیتنے والا وقت کسی خزانے کی مانند ہے، اسے مشینوں کے ہاتھوں نہ گنواؤ۔''

بل برسنن آج بھی یہ یقین رکھتے ہیں کہ چیزوں سے زیادہ ساتھ مل کر بیٹھنا اور خوش ہونا زیادہ قیمتی اور معنی رکھتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم ایک دوسرے کے لیے بہت زیادہ خرچ کریں۔ اصل قیمت سچے جذبوں کی ہوتی ہے۔ انہیں امید ہے کہ ان کی کہانی سے نوجوان نسل کچھ ضرور سیکھے گی، جو شریک حیات سے زیادہ مختلف برقی آلات کی محبت میں مبتلا ہو چکی ہے۔
Load Next Story