شام کابحران مزید سنگین ہوگیا
خدشہ یہ ہےکہ کہیں یہ بحران بگڑتا ہوااس سطح پرنہ آ جائےکہ شام میں سعودی عرب اوردیگرممالک زمینی کارروائی پرمجبورہوجائیں
CUBA:
شام کا بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والا بڑی طاقتوں کا اجلاس بھی کوئی بریک تھرو نہیں کر سکا۔ ادھر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام میں داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کے لیے سعودی جنگی طیارے ترکی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، ترک وزیر خارجہ مولود جاویچ اوگلو نے کہا کہ ان کا ملک اور سعودی عرب شام میں داعش کے خلاف زمینی کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔
ترک روزنامے ''خبر ترک'' اور ''ینی شفق'' نے میونخ کانفرنس میں شرکت کے بعد مولودترک وزیر خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ اگر داعش کے خلاف حکمت عملی طے پائی تو اس بات کا امکان ہے کہ ریاض اور انقرہ شام میں زمینی کارروائی شروع کر دیں۔ ترک وزیر خارجہ نے تصدیق کی کہ سعودی عرب ترکی کے ایک اڈے پر اپنے جنگی جہاز تعینات کر رہا ہے۔یہ شام کے بحران کے حوالے سے بڑی پیش رفت ہے۔ اگر شام میں داعش کے خلاف کارروائی طیاروں کے ذریعے کی جاتی ہے تو معاملہ شاید زیادہ نہ بگڑے لیکن خدشہ یہ ہے کہ کہیں یہ بحران بگڑتا ہوا اس سطح پر نہ آ جائے کہ شام میں سعودی عرب اور دیگر ممالک زمینی کارروائی پر مجبور ہو جائیں۔
اس صورت حال سے حالات بہت خراب بھی ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ شام میں زمینی کارروائی روس اور ایران کو کسی صورت قبول نہیں ہو گی۔ اس لیے شام کے بحران کاجلد حل ضروری ہے۔ ادھر ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ تعاون اور خطے کے مسائل کے تصفیے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایران کی پالیسی میں واضح تبدیلی کا عندیہ ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ اس حوالے سے بحث جاری ہے آیا کہ شام میں داعش کے خلاف زمینی فوج کی ضرورت ہے یا نہیں' اگر زمینی فوج بھیجنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو سعودی عرب اپنے فوجی بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ شامی صدر بشار الاسد مستقبل میں صدر نہیں رہیں گے اور روسی جنگی طیاروں کی بمباری انھیں اقتدار میں رہنے میں مدد نہیں دے گی۔ امریکا نے کہا ہے کہ شام کے متنازع صدر بشارالاسد کا فوجی طاقت کے ذریعے پورے ملک پراپنی کھوئی ہوئی حکومت بحال کرنے کا دعویٰ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
میونخ میں سلامتی سے متعلق اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ ہفتہ تبدیلی کا ہفتہ ہوگا۔ اس تنازع کا خاتمہ اْسی وقت ہوگا جب فریق سیاسی عبوری دور کے منصوبے پر رضامند ہوں گے۔ کیری نے کہا کہ شام کا بحران فیصلہ کْن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں مستقبلِ قریب میں ہونے والے فیصلے یا تو لڑائی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، یا پھر آیندہ کے لیے بہت ہی مشکل راہیں پیدا ہوں گی۔روس کا موقف بھی سب کے سامنے ہے۔
قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ امریکا اور اس کی اتحادی قوتیں شام میں فیصلہ کن کارروائی کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ اگر یہ کارروائی روس اورایران کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو مشرق وسطیٰ ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں کو شام کے بحران کو کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ادھر روس اور ایران کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ شام کے بحران کے حل کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر آگے بڑھیں۔ کیونکہ شام میں جاری پراکسی وار کی وجہ سے داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ طاقتور ہو رہے ہیں۔
شام کا بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والا بڑی طاقتوں کا اجلاس بھی کوئی بریک تھرو نہیں کر سکا۔ ادھر میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام میں داعش کے خلاف مشترکہ کارروائی کے لیے سعودی جنگی طیارے ترکی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں، ترک وزیر خارجہ مولود جاویچ اوگلو نے کہا کہ ان کا ملک اور سعودی عرب شام میں داعش کے خلاف زمینی کارروائی شروع کر سکتے ہیں۔
ترک روزنامے ''خبر ترک'' اور ''ینی شفق'' نے میونخ کانفرنس میں شرکت کے بعد مولودترک وزیر خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ اگر داعش کے خلاف حکمت عملی طے پائی تو اس بات کا امکان ہے کہ ریاض اور انقرہ شام میں زمینی کارروائی شروع کر دیں۔ ترک وزیر خارجہ نے تصدیق کی کہ سعودی عرب ترکی کے ایک اڈے پر اپنے جنگی جہاز تعینات کر رہا ہے۔یہ شام کے بحران کے حوالے سے بڑی پیش رفت ہے۔ اگر شام میں داعش کے خلاف کارروائی طیاروں کے ذریعے کی جاتی ہے تو معاملہ شاید زیادہ نہ بگڑے لیکن خدشہ یہ ہے کہ کہیں یہ بحران بگڑتا ہوا اس سطح پر نہ آ جائے کہ شام میں سعودی عرب اور دیگر ممالک زمینی کارروائی پر مجبور ہو جائیں۔
اس صورت حال سے حالات بہت خراب بھی ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ شام میں زمینی کارروائی روس اور ایران کو کسی صورت قبول نہیں ہو گی۔ اس لیے شام کے بحران کاجلد حل ضروری ہے۔ ادھر ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت سامنے آئی ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ان کا ملک شام کے حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ تعاون اور خطے کے مسائل کے تصفیے کے لیے تیار ہے۔ یہ ایران کی پالیسی میں واضح تبدیلی کا عندیہ ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ اس حوالے سے بحث جاری ہے آیا کہ شام میں داعش کے خلاف زمینی فوج کی ضرورت ہے یا نہیں' اگر زمینی فوج بھیجنے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو سعودی عرب اپنے فوجی بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ شامی صدر بشار الاسد مستقبل میں صدر نہیں رہیں گے اور روسی جنگی طیاروں کی بمباری انھیں اقتدار میں رہنے میں مدد نہیں دے گی۔ امریکا نے کہا ہے کہ شام کے متنازع صدر بشارالاسد کا فوجی طاقت کے ذریعے پورے ملک پراپنی کھوئی ہوئی حکومت بحال کرنے کا دعویٰ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
میونخ میں سلامتی سے متعلق اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ یہ ہفتہ تبدیلی کا ہفتہ ہوگا۔ اس تنازع کا خاتمہ اْسی وقت ہوگا جب فریق سیاسی عبوری دور کے منصوبے پر رضامند ہوں گے۔ کیری نے کہا کہ شام کا بحران فیصلہ کْن مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں مستقبلِ قریب میں ہونے والے فیصلے یا تو لڑائی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے، یا پھر آیندہ کے لیے بہت ہی مشکل راہیں پیدا ہوں گی۔روس کا موقف بھی سب کے سامنے ہے۔
قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ امریکا اور اس کی اتحادی قوتیں شام میں فیصلہ کن کارروائی کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ اگر یہ کارروائی روس اورایران کو اعتماد میں لیے بغیر کی گئی تو مشرق وسطیٰ ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔امریکا اور اس کی اتحادی قوتوں کو شام کے بحران کو کسی بڑی جنگ کا پیش خیمہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ادھر روس اور ایران کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ شام کے بحران کے حل کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر آگے بڑھیں۔ کیونکہ شام میں جاری پراکسی وار کی وجہ سے داعش اور دیگر انتہا پسند گروہ طاقتور ہو رہے ہیں۔