پی ٹی آئی کی فتح یا قدیمی مسلم لیگ کی شکست
احمد چٹھہ مسلم لیگ نون میں جا سکتے تھے لیکن حامد ناصر کے میاں صاحب سے شخصی اختلافات غالباً آڑے آ گئے،
پنجاب کے مشہور شہر گوجرانوالہ، جو سکھ حکمران راجہ رنجیت سنگھ کے دَور میں بڑے بڑے سِکھ زمینداروں اور مِسلوں کا مرکز و محور رہا ہے، کے حلقہ این اے ایک سو ایک میں زبردست سیاسی تبدیلی آئی ہے۔ احمد نگر کے جدی پُشتی اور قدیمی و اصلی مسلم لیگی خاندان کے ایک فرزند، محمد احمد چٹھہ، پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں۔
احمد چٹھہ صاحب پاکستان کے معروف سیاستدان جناب حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے اور قائد اعظم کے ایک معتمد ساتھی صلاح الدین چٹھہ کے پوتے ہیں۔ حامد ناصر چٹھہ اسی حلقے سے پانچ بار انتخابات جیت چکے ہیں۔ وہ صوبائی وزیر بھی رہے اور وفاقی کابینہ کے رکن بھی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی۔ سیاستدان وہ ہمیشہ شیل شبیلے رہے ہیں۔
ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج لاہور اور لنکنز اِنّ لندن کے اعلیٰ اور اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی فضاؤں اور ہواؤں میں سانس لے چکے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا، فیاض چیمہ، ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین تو رہ چکا ہے لیکن عوام دوستی کا سکّہ بٹھانے میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہو سکا۔ چھوٹے بیٹے محمد احمد چٹھہ کے بارے میں مگر باالیقین کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایسا ابھرتا ہوا نوجوان سیاستدان ہے جس کا ہاتھ اپنے ووٹروں کی نبض پر ہے اور وہ عوام دوستی کی افادیت سے آشنا بھی۔ اپنے خاندانی پس منظر کے ناتے چاہیے تو یہ تھا کہ محمد احمد چٹھہ مسلم لیگ نون میں شامل ہوتے مگر انھوں نے بوجوہ میاں نواز شریف صاحب کے مقابل جناب عمران خان کی امارت قبول کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس فیصلے پر ایک دنیا دنگ ہے۔
اکہتر سالہ بزرگ سیاستدان حامد ناصر چٹھہ کے چاہنے والے مگر دست بہ دعا ہیں کہ کامیابیاں احمد چٹھہ کے قدم چومیں۔ یہ راستہ لیکن خاصا دشوار ہے کہ حلقہ این اے 101 پر پہلے ہی مسلم لیگ نون کی فتح کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اب احمد چٹھہ نے یہ نیا کھڑاگ اس لیے کیا ہے کہ حلقہ این اے ایک سو ایک میں ایک بار پھر ضمنی انتخابات کا میدان لگنے والا ہے کہ پاکستان کی ایک معزز عدالت نے افتخار چیمہ صاحب کو اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیا ہے۔ محمد احمد چٹھہ اور افتخار احمد چیمہ، مئی 2013ء کی مانند، ایک بار پھر آمنے سامنے آنے والے ہیں؟
راز دانِ درونِ خانہ کا کہنا ہے کہ کپتان نے احمد ناصر چٹھہ کو اپنا ہمنوا بنا کر پی ٹی آئی کا حصہ تو بنا لیا ہے مگر اس شمولیت سے ان کے خودنگر والد گرامی، حامد ناصر چٹھہ، کے دل پر کیا گزر رہی ہے، اس حقیقت اور کیفیت سے کم لوگ ہی آگاہ ہوں گے۔ حامد ناصر چٹھہ خود، ان کے والد صلاح الدین چٹھہ اور ان کے دادا ہمیشہ مسلم لیگی رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، صلاح الدین چٹھہ تو قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کے ساتھی اور جانثار رہے ہیں۔ اب انھی صلاح الدین چٹھہ کا پوتا مسلم لیگ، خواہ وہ کوئی گروپ ہو، سے نکل کر پی ٹی آئی میں جا شامل ہوا ہے تو حامد ناصر چٹھہ صاحب کے جذبات و احساسات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
احمد چٹھہ مسلم لیگ نون میں جا سکتے تھے لیکن حامد ناصر کے میاں صاحب سے شخصی اختلافات غالباً آڑے آ گئے، حالانکہ دونوں رہنما کبھی باہم شیر و شکر رہے ہیں لیکن وقت نے دونوں کی راہیں جدا کر دیں۔ حامد ناصر چٹھہ صاحب اس سیاسی اتحاد کا مرکزی حصہ بھی بنے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بھی اور جس کا واحد مقصد یہی تھا کہ نواز شریف کو ہر صورت اقتدار سے محروم کرنا ہے۔
ماضی میں ہاتھوں سے لگائی گئیں یہ گرہیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھُل رہیں چنانچہ اسے جبر ہی کہا جائے گا کہ نواز شریف کے ایک زمانے کے معتمد ترین دوست کا بیٹا آج پی ٹی آئی کی ایک شاخ پر جا بیٹھا ہے۔ (محمد احمد پہلا چٹھہ نہیں ہے جس نے قدیمی مسلم لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی کو جوائن کیا ہے۔ ان سے قبل ایک اور معروف و ممتاز قدیمی مسلم لیگی، محمد حسین چٹھہ، کا پوتا عابد چٹھہ بھی مسلم لیگ کے سائے سے نکل کر پی ٹی آئی کی چھاؤں میں آ چکا ہے۔ عابد چٹھہ کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔) دونوں صاحبان کا بہر حال یہ ضرور کہنا ہے کہ محمد احمد چٹھہ نے تازہ حالات میں مناسب فیصلہ کیا ہے اور وہ ضمنی انتخابات میں بازی بھی لے جائیں گے۔ یہ بازی لے جانا اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ لاہور تا راولپنڈی، جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں مسلم لیگ نون کے ووٹر چھائے ہوئے ہیں۔
مئی 2013ء کے جنرل الیکشنز میں گوجرانوالہ کے اس حلقے، این اے ایک سو ایک، کی انتخابی معرکہ آرائیاں اور اس کے نتائج بڑے دلچسپ تھے۔ سترہ امیدواروں نے اس حلقے میں حصہ لیا تھا۔ ان میں تقریباً پچاس فیصد امیدوار آزاد تھے۔ سب سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ نون کے امیدوار جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ نے حاصل کیے۔ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 99191 تھی۔ وہی کامیاب ہو کر رکن قومی اسمبلی بنے۔
جناب حامد ناصر چٹھہ کے یہی چھوٹے صاحبزادے محمد احمد چٹھہ، جو اَب فروری 2016ء کے دوسرے ہفتے پی ٹی آئی کے باقاعدہ رکن بن گئے ہیں، دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ احمد چٹھہ نے مسلم لیگ جونیجو گروپ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ ان کے حاصل کردہ ووٹ 59878 تھے۔ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ قاف کے امیدوار چوہدری ساجد حسین چٹھہ آئے۔ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 13689 تھی۔ اسی حلقے سے چوہدری محمد شاہ نواز چیمہ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا لیکن وہ صرف گیارہ ہزار سات سو چار ووٹ حاصل کر سکے۔
جماعتِ اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر محمد عبید اللہ گوہر نے بھی یہیں سے حصہ لیا اور محض 6846 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ جنرل صدر پرویز مشرف کی پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، کے امیدوار سید مختار حسین شاہ نے اپنی اور اپنی پارٹی کی ناک ہی کٹوا دی۔ شاہ صاحب صرف 83 ووٹ لے سکے تھے۔ اب پی ٹی آئی کو ''شرفِ قبولیت'' بخشنے والے جناب محمد احمد چٹھہ اور ان کے انتہائی تجربہ کار سیاسی والد گرامی کی نیت اورا سٹرٹیجی یہ ہے کہ حلقہ ایک سو ایک میں ضمنی انتخابات کا رَن پڑتا ہے تو وہ کوشش کریں گے کہ میل ملاپ سے چوہدری ساجد حسین چٹھہ، محمد شاہ نواز چیمہ اور ڈاکٹر عبیداللہ گوہر کی محبتیں اور تعاون حاصل کر سکیں۔
یوں مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ان تینوں امیدواروں نے مجموعی طور پر تقریباً جو تیس ہزار ووٹ لیے تھے، وہ ضمنی انتخابات میں محمد احمد چٹھہ کا مقدر بن جائیں۔ اس طرح حامد ناصر چٹھہ صاحب کی کھوئی ہوئی چودھراہٹ واپس آ سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ بکھرے اور منقسم تیس ہزار ووٹ ان کے حریف، افتخار چیمہ، بھی لینے کی کوشش کیوں نہ کریں گے؟
گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد میں قصبہ احمد نگر کو پاور پالیٹکس میں ہمیشہ مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں جاٹ برادری کی دونوں شاخیں، چٹھے اور چیمے، ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل اور حریف رہے ہیں۔ یہ چیمے ہیں جنہوں نے پہلی بار احمد نگر کے طاقتور چٹھہ خاندان کی سیاست کو توڑتے ہوئے اقتدار کی صراحی تھام لی تھی۔ پہلے پیپلز پارٹی کے امیدوار میجر (ریٹائرڈ) غلام حیدر چیمہ اور پھر ان کے بیٹے، کرنل (ر) غلام سرور چیمہ، کا احمد نگر کے چٹھوں کو شکست دے کر اقتدار میں آنا۔
بعدازاں مسلم لیگ نواز کے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ نے انتخاب جیت کر محمد احمد چٹھہ کو پیچھے دھکیل دیا۔ پچھلے انتخابات میں پی پی پی کی عاصمہ شاہ نواز چیمہ نے بھی احمد نگر کے خود نگر سیاسی خاندان کو بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اب حامد ناصر چٹھہ کے نوجوان صاحبزادے، محمد احمد چٹھہ، جناب عمران خان کی سیادت و قیادت میں خاندان کا کھویا ہوا سیاسی وقار واپس لینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔
احمد چٹھہ صاحب پاکستان کے معروف سیاستدان جناب حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے اور قائد اعظم کے ایک معتمد ساتھی صلاح الدین چٹھہ کے پوتے ہیں۔ حامد ناصر چٹھہ اسی حلقے سے پانچ بار انتخابات جیت چکے ہیں۔ وہ صوبائی وزیر بھی رہے اور وفاقی کابینہ کے رکن بھی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہے اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی۔ سیاستدان وہ ہمیشہ شیل شبیلے رہے ہیں۔
ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج لاہور اور لنکنز اِنّ لندن کے اعلیٰ اور اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی فضاؤں اور ہواؤں میں سانس لے چکے ہیں۔ ان کا ایک بیٹا، فیاض چیمہ، ڈسٹرکٹ کونسل کا چیئرمین تو رہ چکا ہے لیکن عوام دوستی کا سکّہ بٹھانے میں خاطر خواہ کامیاب نہ ہو سکا۔ چھوٹے بیٹے محمد احمد چٹھہ کے بارے میں مگر باالیقین کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایسا ابھرتا ہوا نوجوان سیاستدان ہے جس کا ہاتھ اپنے ووٹروں کی نبض پر ہے اور وہ عوام دوستی کی افادیت سے آشنا بھی۔ اپنے خاندانی پس منظر کے ناتے چاہیے تو یہ تھا کہ محمد احمد چٹھہ مسلم لیگ نون میں شامل ہوتے مگر انھوں نے بوجوہ میاں نواز شریف صاحب کے مقابل جناب عمران خان کی امارت قبول کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس فیصلے پر ایک دنیا دنگ ہے۔
اکہتر سالہ بزرگ سیاستدان حامد ناصر چٹھہ کے چاہنے والے مگر دست بہ دعا ہیں کہ کامیابیاں احمد چٹھہ کے قدم چومیں۔ یہ راستہ لیکن خاصا دشوار ہے کہ حلقہ این اے 101 پر پہلے ہی مسلم لیگ نون کی فتح کا پرچم لہرا رہا ہے۔ اب احمد چٹھہ نے یہ نیا کھڑاگ اس لیے کیا ہے کہ حلقہ این اے ایک سو ایک میں ایک بار پھر ضمنی انتخابات کا میدان لگنے والا ہے کہ پاکستان کی ایک معزز عدالت نے افتخار چیمہ صاحب کو اسمبلی کی رکنیت سے فارغ کر دیا ہے۔ محمد احمد چٹھہ اور افتخار احمد چیمہ، مئی 2013ء کی مانند، ایک بار پھر آمنے سامنے آنے والے ہیں؟
راز دانِ درونِ خانہ کا کہنا ہے کہ کپتان نے احمد ناصر چٹھہ کو اپنا ہمنوا بنا کر پی ٹی آئی کا حصہ تو بنا لیا ہے مگر اس شمولیت سے ان کے خودنگر والد گرامی، حامد ناصر چٹھہ، کے دل پر کیا گزر رہی ہے، اس حقیقت اور کیفیت سے کم لوگ ہی آگاہ ہوں گے۔ حامد ناصر چٹھہ خود، ان کے والد صلاح الدین چٹھہ اور ان کے دادا ہمیشہ مسلم لیگی رہے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، صلاح الدین چٹھہ تو قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کے ساتھی اور جانثار رہے ہیں۔ اب انھی صلاح الدین چٹھہ کا پوتا مسلم لیگ، خواہ وہ کوئی گروپ ہو، سے نکل کر پی ٹی آئی میں جا شامل ہوا ہے تو حامد ناصر چٹھہ صاحب کے جذبات و احساسات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
احمد چٹھہ مسلم لیگ نون میں جا سکتے تھے لیکن حامد ناصر کے میاں صاحب سے شخصی اختلافات غالباً آڑے آ گئے، حالانکہ دونوں رہنما کبھی باہم شیر و شکر رہے ہیں لیکن وقت نے دونوں کی راہیں جدا کر دیں۔ حامد ناصر چٹھہ صاحب اس سیاسی اتحاد کا مرکزی حصہ بھی بنے جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب بھی اور جس کا واحد مقصد یہی تھا کہ نواز شریف کو ہر صورت اقتدار سے محروم کرنا ہے۔
ماضی میں ہاتھوں سے لگائی گئیں یہ گرہیں اب دانتوں سے بھی نہیں کھُل رہیں چنانچہ اسے جبر ہی کہا جائے گا کہ نواز شریف کے ایک زمانے کے معتمد ترین دوست کا بیٹا آج پی ٹی آئی کی ایک شاخ پر جا بیٹھا ہے۔ (محمد احمد پہلا چٹھہ نہیں ہے جس نے قدیمی مسلم لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی کو جوائن کیا ہے۔ ان سے قبل ایک اور معروف و ممتاز قدیمی مسلم لیگی، محمد حسین چٹھہ، کا پوتا عابد چٹھہ بھی مسلم لیگ کے سائے سے نکل کر پی ٹی آئی کی چھاؤں میں آ چکا ہے۔ عابد چٹھہ کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔) دونوں صاحبان کا بہر حال یہ ضرور کہنا ہے کہ محمد احمد چٹھہ نے تازہ حالات میں مناسب فیصلہ کیا ہے اور وہ ضمنی انتخابات میں بازی بھی لے جائیں گے۔ یہ بازی لے جانا اتنا آسان بھی نہیں ہے کہ لاہور تا راولپنڈی، جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف میں مسلم لیگ نون کے ووٹر چھائے ہوئے ہیں۔
مئی 2013ء کے جنرل الیکشنز میں گوجرانوالہ کے اس حلقے، این اے ایک سو ایک، کی انتخابی معرکہ آرائیاں اور اس کے نتائج بڑے دلچسپ تھے۔ سترہ امیدواروں نے اس حلقے میں حصہ لیا تھا۔ ان میں تقریباً پچاس فیصد امیدوار آزاد تھے۔ سب سے زیادہ ووٹ مسلم لیگ نون کے امیدوار جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ نے حاصل کیے۔ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 99191 تھی۔ وہی کامیاب ہو کر رکن قومی اسمبلی بنے۔
جناب حامد ناصر چٹھہ کے یہی چھوٹے صاحبزادے محمد احمد چٹھہ، جو اَب فروری 2016ء کے دوسرے ہفتے پی ٹی آئی کے باقاعدہ رکن بن گئے ہیں، دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ احمد چٹھہ نے مسلم لیگ جونیجو گروپ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ ان کے حاصل کردہ ووٹ 59878 تھے۔ تیسرے نمبر پر مسلم لیگ قاف کے امیدوار چوہدری ساجد حسین چٹھہ آئے۔ ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد 13689 تھی۔ اسی حلقے سے چوہدری محمد شاہ نواز چیمہ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا لیکن وہ صرف گیارہ ہزار سات سو چار ووٹ حاصل کر سکے۔
جماعتِ اسلامی کے امیدوار ڈاکٹر محمد عبید اللہ گوہر نے بھی یہیں سے حصہ لیا اور محض 6846 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ جنرل صدر پرویز مشرف کی پارٹی، آل پاکستان مسلم لیگ، کے امیدوار سید مختار حسین شاہ نے اپنی اور اپنی پارٹی کی ناک ہی کٹوا دی۔ شاہ صاحب صرف 83 ووٹ لے سکے تھے۔ اب پی ٹی آئی کو ''شرفِ قبولیت'' بخشنے والے جناب محمد احمد چٹھہ اور ان کے انتہائی تجربہ کار سیاسی والد گرامی کی نیت اورا سٹرٹیجی یہ ہے کہ حلقہ ایک سو ایک میں ضمنی انتخابات کا رَن پڑتا ہے تو وہ کوشش کریں گے کہ میل ملاپ سے چوہدری ساجد حسین چٹھہ، محمد شاہ نواز چیمہ اور ڈاکٹر عبیداللہ گوہر کی محبتیں اور تعاون حاصل کر سکیں۔
یوں مئی 2013ء کے عام انتخابات میں ان تینوں امیدواروں نے مجموعی طور پر تقریباً جو تیس ہزار ووٹ لیے تھے، وہ ضمنی انتخابات میں محمد احمد چٹھہ کا مقدر بن جائیں۔ اس طرح حامد ناصر چٹھہ صاحب کی کھوئی ہوئی چودھراہٹ واپس آ سکتی ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ بکھرے اور منقسم تیس ہزار ووٹ ان کے حریف، افتخار چیمہ، بھی لینے کی کوشش کیوں نہ کریں گے؟
گوجرانوالہ کی تحصیل وزیرآباد میں قصبہ احمد نگر کو پاور پالیٹکس میں ہمیشہ مرکزی مقام حاصل رہا ہے۔ یہاں جاٹ برادری کی دونوں شاخیں، چٹھے اور چیمے، ہمیشہ ایک دوسرے کے مقابل اور حریف رہے ہیں۔ یہ چیمے ہیں جنہوں نے پہلی بار احمد نگر کے طاقتور چٹھہ خاندان کی سیاست کو توڑتے ہوئے اقتدار کی صراحی تھام لی تھی۔ پہلے پیپلز پارٹی کے امیدوار میجر (ریٹائرڈ) غلام حیدر چیمہ اور پھر ان کے بیٹے، کرنل (ر) غلام سرور چیمہ، کا احمد نگر کے چٹھوں کو شکست دے کر اقتدار میں آنا۔
بعدازاں مسلم لیگ نواز کے جسٹس (ر) افتخار احمد چیمہ نے انتخاب جیت کر محمد احمد چٹھہ کو پیچھے دھکیل دیا۔ پچھلے انتخابات میں پی پی پی کی عاصمہ شاہ نواز چیمہ نے بھی احمد نگر کے خود نگر سیاسی خاندان کو بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اب حامد ناصر چٹھہ کے نوجوان صاحبزادے، محمد احمد چٹھہ، جناب عمران خان کی سیادت و قیادت میں خاندان کا کھویا ہوا سیاسی وقار واپس لینے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔