بلوچستان میں شدید خشک سالی سے اموات اور نقل مکانی

نوشکی میں 70 فیصد مویشیوں کی ہلاکت اور فصلیں تباہ ہونے سے لوگ غذائی کمی کا شکار ہورہے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے بلوچستان میں بارشیں نہ ہونے سے شدید خشک سالی کا راج ہے جس سے غلہ بانی اور زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں شدید خشک سالی کے باعث نہ صرف انسانوں کی اموات کی اطلاعات رپورٹ ہو رہی ہیں بلکہ زراعت، غلہ بانی اور کاشتکاری بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔

بلوچستان کی تحصیل چاغی سے 2 بچوں کی اموات کی تصدیق اور 1500 ایسے کیس رجسٹر ہو چکے ہیں جس میں بچے خوراک کی شدید قلت کے شکارہیں۔ 15 جنوری 2016 کو یواین ڈی پی پاکستان کی تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2013 سے ڈیرہ بگٹی، کوہلو، لورالائی، ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبداللہ، نوشکی، خاران، آواران، مستونگ، قلات، خضدار اور لسبیلہ میں معمول سے ایک چوتھائی کم بارشیں ہوئی ہیں۔ اس صورتحال سے 4 اقسام کی خشک سالی دیکھنے میں آئی ہے جن میں موسمیاتی، آبی، زرعی اور معاشی خشک سالی شامل ہے۔ زراعت اور گلہ بانی بلوچستان کے ان علاقوں میں ریڑھ کی ہڈی سے بھی ذیادہ اہمیت رکھتی ہے لیکن صرف نوشکی میں پانی اور چارے کی کمی سے 70 فیصد مویشی ہلاک ہوچکے ہیں۔

بلوچستان میں 50 سے 60 فیصد آبادی باقاعدہ روزگار سے محروم ہوچکی ہے یا پھر ان کی آمدنی گھٹ گئی ہے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں، روزگار نہ ہونے کے باعث لوگ اپنے مویشی اونے پونے فروخت کررہےہیں۔ ٹیوب ویل کے اندھا دھند استعمال سے زیرِ زمین پانی کی مقدار 3 سے 5 میٹرکم ہوچکی ہے۔ پانی کی کمی سے سیب کی پیداوار 20 سے 40 فیصد کم ہوچکی ہے جب کہ خوبانی، آلوچے اور ناشپاتی کی پیداوار 2 سے 32 فیصد تک کم ہوئی ہے۔ قلعہ سیف اللہ سب سے ذیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے جہاں 15 سے 25 فیصد پھلوں کے باغات تباہ ہوچکے ہیں۔


بالائی بلوچستان کے ضلع پیشین کے اسسٹنٹ کمشنر مقبول درخشانی نے بتایا کہ بند خوش دل خان ڈیم بالکل خشک ہوچکا ہے جس سے 20 سے 30 کلومیٹر اراضی سیراب ہوتی تھی، خشک سالی کی وجہ سے پشین میں 1998 سے اب تک عشر بھی وصول نہیں کیا گیا جب کہ شدید لوڈشیڈنگ سے ٹیوب ویل چلانا ناممکن ہوچکا ہے۔

ماہرِ زراعت اور یواین ڈی پی بلوچستان کے سربراہ ڈاکٹر خیر محمد نے بتایا کہ سیب کی بہتر پیداوار کے لیے موسمِ سرما میں 1200 سے 1300 گھنٹوں کی سردی درکار ہوتی ہے اور 12 فروری تک صرف 300 گھنٹے کی سردی پڑی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں آب و ہوا میں شدید تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور زراعت اجڑ رہی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے رابطہ کرنے پر محکمہ موسمیات بلوچستان کے ڈائریکٹر محمد طاہر خان نے تصدیق کی کہ بلوچستان میں موسمِ سرما کی بارشیں نہیں ہوئیں اور سردیوں میں اوسطاً 10 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جس سے واٹرٹیبل تیزی سے کم ہوا ہے اور کوئٹہ میں ہزار گنجی کے کچھ علاقوں میں 1000 فٹ پر بھی پانی نہیں مل رہا۔

بلوچستان میں مصنوعی بارش

طاہر خان نے خشکی سالی کے دورانیے اور کچھ حد تک آب و ہوا میں تبدیلی کو قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ شدید مالی مشکلات اور فنڈز کی کمی کا شکار ہے۔ اگر مناسب فنڈز مل جائیں تو کلاؤڈ سیڈنگ کے ذریعے بادلوں پر سلور آئیوڈائیڈ اور منجمند کاربن ڈائی آکسائیڈ چھڑک کر بادلوں سے مصنوعی بارش برسانے کا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2001 میں اٹک میں ہوائی جہاز کے ذریعے بادلوں پر سلورآئیوڈائیڈ چھڑک کر قریباً 54 ملی میٹر بارش حاصل کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ایک تجربے کے لیے کم ازکم 15 لاکھ روپے خرچ ہوں گے اور اگر قومی ائیرلائن اور ایوی ایشن ادارے تعاون کریں تو یہ خرچ مزید کم ہوسکتا ہے۔
Load Next Story