پی آئی اے کے بعد کیا

ملک کی تمام ٹریڈ یونینز تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوجائیں

MUMBAI:
یادش بخیر یہ ذکر ہے 11 نومبر 1990 کا جب موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پہلی بار پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔ یہ حلف انھوں نے 24 اکتوبر 1990 کو ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کی شکل میں اٹھایا تھا۔

ان عام انتخابات میں یہ کامیابی تنہا مسلم لیگ کی کامیابی نہ تھی بلکہ کثیر جماعتی اتحادی اسلامی جمہوری اتحادکی کامیابی تھی۔ بہرکیف اس وقت وزیر اعظم نے صنعتی ماحول میں ایک نئی چیز متعارف کروائی وہ چیز تھی نجکاری کا عمل۔اس عمل کی محنت کش حلقوں نے جس قدرممکن ہوسکا، مخالفت کی مگر حکومت نے نجکاری کا عمل جاری رکھا اور دیگر صنعتی یونٹس کے ساتھ ساتھ ایشیا کی سب سے بڑی سیمنٹ تیارکرنے والی فیکٹری جو حیدرآباد میں تھی بھی نجی شعبے میں دے دی، جس کے باعث فیکٹری کے مستقل ملازمین برطرف ہونے کے بعد اسی فیکٹری میں روزانہ اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوگئے۔

مگر حکمرانوں کو اس سے کیا غرض ہوسکتی تھی کہ فیکٹری کے ملازمین کن مشکلات کا شکار ہوچکے ہیں؟ ایک یہی فیکٹری ہی کیا دیگر نجکاری عمل سے متاثر ہونے والے ملازمین کس قرب میں مبتلا ہیں حکمرانوں کو اس سے کیا غرض ہوسکتی تھی۔

بہرکیف حکومت نے 18 جولائی 1993 تک نجکاری کا عمل جاری رکھا، تاوقت یہ کہ 18 جولائی 1993 کو اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحق خان نے مسلم لیگ ن کی حکومت برطرف کردی اور خود بھی صدارتی محل چھوڑ کرگوشہ گمنامی میں چلے گئے۔

نتیجہ یہ کہ 6 اکتوبر 1993 کو ملک میں عام انتخابات ہوئے اوران انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی اہم رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی دوسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا، مگر پاکستان پیپلز پارٹی کے اس دور حکومت میں بھی نجکاری کا عمل جاری رہا اور بیان کیا جاتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں 27 صنعتی یونٹس نجی شعبے میں دیے مگر پھر 5 نومبر 1996 کو اس وقت کے صدر پاکستان فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کو برطرف کردیا۔ نتیجہ 3 فروری 1997 کو عام انتخابات ہوئے۔

ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد 17 فروری 1997 کو میاں نواز شریف نے دوسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور صنعتی یونٹس کی نجکاری کا عمل پھر سے بھرپور طریقے سے شروع کردیا۔ جب کہ ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی۔ گولڈن ہینڈ شیک۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ سرکاری یونٹس میں کام کرنے والے ملازمین چند لاکھ روپے وصول کریں اور اپنی ملازمت سے لاتعلق ہوجائیں۔گولڈن ہینڈ شیک کی حکمت عملی کے تحت سرکاری ملازمین لاکھوں کی تعداد میں بے روزگارکردیے۔ نامعلوم یہ رویہ کہاں تھمتا کہ غیر متوقع طور پر 12 اکتوبر 1999 کو نواز حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

مگر اس وقت تک حکمران عوام میں اس قدر غیر مقبول ہوچکے تھے کہ جب 14 اکتوبر 1999 کو حکومت کے خاتمے کے خلاف احتجاج کا اعلان ہوا تو لاہور میں احتجاج کے لیے آنے والوں کی تعداد تھی 34 اورکراچی کے ریگل چوک کے مقام پر احتجاج کرنے والوں کی تعداد تھی پوری 33 نفوس پر مشتمل جب کہ نجکاری کے عمل کو آمر مشرف دور میں بھی جاری رکھا گیا اور آمر مشرف کے بعد نجکاری عمل کو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی ممکن حد تک جاری رکھا۔


11 مئی 2013 کے انتخابات کے نتائج کی روشنی میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد 5 جون 2013 کو میاں نواز شریف ملک کے تیسری بار حکومت سازی کے حقدار ٹھہرے اور مسند اقتدار پر تشریف فرما ہوئے مگر اپنے اس دور اقتدار میں بھی نجکاری کا عمل جاری رکھا اور فی الوقت حکومتی ہدف ہےPIA۔ یوں تو PIA کی نجکاری کے خلاف PIA کے ملازمین ایک عرصے سے احتجاجی تحریک پرامن طریقے سے جاری رکھے ہوئے تھے مگر 25 جنوری کو پی آئی اے ملازمین نے ایک بھرپور احتجاجی عمل کا آغازکردیا جب کہ 2 فروری سے تمام قسم کی پی آئی اے کی سرگرمیاں معطل کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

اس موقعے پر حکومتی بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو تصادم یقینی تھا اور ایسا ہی ہوا جب کہ یکم فروری 2016 کو حکومت نے گورنمنٹ لازمی سروس ایکٹ 1952 نافذ کردیا۔ اس ایکٹ کے نفاذ کے بعد پی آئی اے ملازمین کسی قسم کے احتجاج میں شرکت نہیں کرسکتے۔ ان کی تمام ٹریڈ یونینزسرگرمیاں معطل ہوگئیں اور وہ ملازمین لازمی طور پر اپنی اپنی ڈیوٹیاں کرنے کے پابند ہوگئے ۔

پی آئی اے ملازمین نے اس ایکٹ کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھا اور 2 فروری کو اس احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت نے ریاستی قوت کا مظاہرہ کیا۔ جس کے نتیجے میں پی آئی اے کے تین ملازمین عنایت رضا، ارشد حسین جعفری و سلیم اکبر شہید ہوگئے۔ گولیاں تو لگ بھگ 20 افراد کو لگی تھیں مگر دیگر 17 کی زندگیاں ابھی باقی تھیں کہ وہ بچ گئے اب ہڑتال واپس لینے کے بعد کیفیت یہ ہے کہ حکومتی ارکان و پی آئی اے ملازمین کے درمیان تنازعہ پی آئی اے ہڑتالی ملازمین کو شو کاز نوٹس ملنے سے شدید ہونے کا اندیشہ ہے ۔

مقام افسوس ہے کہ اگلے ماہ ایک اور تنازعہ جنم لینے والا ہے اور وہ تنازعہ ہے اسٹیل ملز کی نجکاری کا کیونکہ شنید یہ ہے کہ مارچ 2016 تک اسٹیل ملزکی نجکاری کا عمل مکمل کرنا ہے جب کہ اسٹیل ملز وہ قومی ادارہ ہے جوکہ روس کی کمیونسٹ حکومت کا عطا کردہ ایک تحفہ ہے اور جب اس ادارے کا افتتاح ہوا تو پاکستان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یعنی صنعتی اعتبار سے ترقی کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

جب کہ اسٹیل ملز کی تعمیر سے قبل یہی کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے چنانچہ اسٹیل ملز کو پاکستان کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی بھی قرار دیا گیا بلاشبہ اسٹیل ملز ایک منافع بخش ادارہ تھا مگر ہر گزرتے وقت کے ساتھ اسٹیل ملز میں سیاسی مداخلت بڑھتی گئی کرپشن کے کیسز سامنے آتے رہے مگر کسی نے اسٹیل ملز میں ہونے والی بدعنوانی کا تدارک کرنے کی کوشش نہ کی۔ اس وقت بھی 26 ارب روپے کی کرپشن کا ایک کیس جوکہ اسٹیل ملز میں کی گئی ، سردخانے میں پڑا ہے۔

اب اسٹیل ملز میں کیفیت یہ ہے کہ اسٹیل ملز کو مکمل خسارے میں ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسٹیل ملز کی نجکاری کا اعلان جب سے سامنے آیا ہے اسٹیل ملز کے ملازمین شدید بے یقینی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔

ریٹائرڈ ملازمین جنھوں نے اپنی پوری زندگی اسٹیل ملزکی تعمیروترقی کی نذر کی،کئی برسوں سے ان کی گریجویٹی و دیگر واجبات رکے ہوئے ہیں جب کہ PSFCL کے ملازمین کو اسٹیل میں ضم کرنے کا مسئلہ بھی ابھی تک حل طلب ہے جب کہ کانٹریکٹ پر کام کرنیوالے اساتذہ و ڈاکٹرزکے مسائل بھی توجہ طلب ہیں مگر ان تمام مسائل کا حل اسٹیل ملز کی نجکاری نہیں ہے بلکہ بھرپور محنت و جدوجہد کے ذریعے اسٹیل ملزکو ایک منافع بخش ادارہ بنایا جائے اور اسے اپنے پاؤں پرکھڑا ہونے کا موقعہ دیا جائے جب کہ اسٹیل ملز کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلوے کو بھی نجی ملکیت میں دینے کے لیے کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی تمام ٹریڈ یونینز تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوجائیں تاکہ قومی اداروں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ بصورت دیگر قومی ادارے کوڑیوں کے بھاؤ بکتے رہیں گے اور محنت کش بے روزگار ہوتے رہیں گے۔
Load Next Story