پاکستانی انجینئر نے کینسر کی ابتدائی تشخیص کا آلہ تیار کرلیا

سمیراقبال نے نیوٹیکنالوجی سے بنی ساختوں کو استعمال کیا ہے جو ہاتھوں ہاتھ کینسر کا شروع میں ہی پتا لگا لیتی ہیں۔

سمیراقبال نے نیوٹیکنالوجی سے بنی ساختوں کو استعمال کیا ہے جو ہاتھوں ہاتھ کینسر کا شروع میں ہی پتا لگا لیتی ہیں۔

یونیورسٹی آف ٹیکساس سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر سمیر اقبال نے ابتدائی مرحلے میں کینسر کی تشخیص کا نظام تیار کرلیا ہے جس میں نینوٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔

سمیر اقبال الیکٹرک انجینئرنگ سے وابستہ ہیں اور ان کا نظام کینسر کو اس وقت بھانپ لیتا ہے جب وہ خلیاتی سطح پر پیدا ہوتے ہیں اور اس سے مرض کی شناخت اور لوگوں کی جانیں بچانا ممکن ہوسکے گا۔ سمیراقبال نے نیوٹیکنالوجی سے بنی ساختوں کو استعمال کیا ہے جو ہاتھوں ہاتھ کینسر کا شروع میں ہی پتا لگا لیتی ہیں۔ ان کی یہ تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے جب کہ سمیر اقبال اور ان کے ساتھیوں، محمد معتصم باللہ، عدیل سجاد، اور محمد ریاض الحسن نے مشترکہ طور پر انسانی جسم میں ایسی بافتوں ( ٹشوز) کو دریافت کیا اور ان کی نقل کا نظام تیار کیا، اسے نینوپرت یا دیوار کا نام دیا گیا اور جب ان میں ( انسانوں سے حاصل کردہ) کینسر کے خلیات داخل کیے گئے تو انہوں نے بالکل الگ برتاؤ کیا جس کی بنیاد پر ان کی شناخت ہوئی ۔


انہیں رقص کرتے خلیات (سیلز) کا نام دیا گیا ہے جو ابتدائی مرحلے میں ہی کینسر کا پتا دیتے ہیں اور علاج شروع کرکے پہلے مرحلے میں ہی کینسر کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ سمیر اقبال کا کہنا ہےکہ ہمارا آلہ کینسر خلیات کو ابتدائی مراحل میں ہی شناخت کرلیتا ہے اور یہ کام نیشنل سائنس فاؤنڈیشن امریکا کی 5 لاکھ ڈالر کی گرانٹ سے ممکن ہوا ہے۔

واضح رہے کہ سمیر اقبال اقبال نے کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے اور پوردوا یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ہے۔ 2009 میں انہیں این ایس ایف کیریئر ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2013 میں انہیں یونیورسٹی آف ٹیکساس کا غیرمعمولی انجینئر کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ سمیر اقبال کو 2014 میں سگما سائی کی جانب سے غیرمعمولی تحقیق کا ایوارڈ بھی عطا کیا گیا تھا۔

Load Next Story