چھوڑ دیں ایسی سیاست کو
2000 کے انتخابات کا اعلان ہو ا تو وزیر آباد کے مسلم لیگی زعماء نے جو روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے
لندن میں بھائی صاحب کے ساتھ بیرسٹری کے کلاس فیلوز کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ یورپ کے ماحول میں تمام تر مواقع اور ترغیبات کے باوجود جوانی میں بھی افتخار چیمہ صاحب نے اپنا دامن مکمل طور پر صاف رکھا اور اس پر کوئی داغ نہ لگنے دیا۔ان کے بقول چیمہ صاحب سے جب بھی اس کی وجہ پوچھی گئی انھوں نے کہا ''اللہ کا ڈراوروالدین کاخیال'' .
جج بنے تو مالی اور اخلاقی دیانتداری کا اعلیٰ معیار قائم کیا۔ چند سالوں میں ہی نوجوان ججوں کے لیے ایک استاد، گائیڈ اور رول ماڈل بن گئے مگردیانتداری کے ساتھ ساتھ بڑے سخت گیر تھے۔ ضلع پولیس افسران برملاکہتے تھے کہ "افتخارچیمہ صاحب جہاں بھی سیشن جج لگتے ہیں وہاں جرائم کا گراف نیچے آجا تا ہے" ۔
اس لیے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے سزاکا کڑا پن (Severity)نہیں سزا کا یقینی ہونا (Certainty) زیادہ مؤثر فیکٹرہے۔ بڑے بڑے مجرموں کے وکلاء کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ چیمہ صاحب کے تبدیل ہو جانے کے بعد ہمارا کیس لگے ۔ اس کے لیے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہتے تھے۔
عدالتی سروس میں بڑی روشن مثالیں قائم کرنے اور ایک یادگار دَور گزارنے کے بعد وہ ہائیکورٹ کے جج کی حیثیّت سے ریٹائر ہو کر گاؤں آگئے ان کا لاہور، اسلام آباد یا کسی بھی شہر میں کوئی مکان نہ تھااس لیے گاؤں میں ہی رہائش اختیار کر لی۔
2000 کے انتخابات کا اعلان ہو ا تو وزیر آباد کے مسلم لیگی زعماء نے جو روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے فیصلہ کیا کہ جاگیرداروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے جج صاحب کو سیاست میں لایا جائے کیونکہ انکاگھرانہ اپنی نیک نامی کی وجہ سے ہر حلقے میں عزّت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے اور یہی گھر ہمیں روایتی سیاستکاروں سے نجات دلا سکتا ہے لہٰذا انھوں نے جج صاحب کا گھیراؤ کر لیا۔ راقم نے گھرمیں بڑی سخت مخالفت کی کہ ھمارا مزاج سیاسی نہیں اس کے لیے بے تحاشا پیسے کے علاوہ ووٹروں کے مطالبات ماننے کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اورہم ایسا نہیں کر سکتے۔اس لیے ہم بھائیوں میں سے کسی کو بھی انتخابی سیاست میں نہیں آنا چاہیے ۔
مگر میری بات نہ مانی گئی وزیر آباد مسلم لیگ کے اکابرین نے ان کی درخواست جمع کرادی۔ میاں شہباز شریف نے ان کی اچھی شہرت سنکر انھیں بِن دیکھے ٹکٹ دے دیا اُسوقت تک ان کی میاں صاحبان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی الیکشن ہوئے توانھوں نے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر کوتئیس ہزار کی لیڈ سے شکست دیدی۔
ایم این اے بن کربھی ان کی سوچ اور طرزِ زندگی میں معمولی سی بھی تبدیلی نہ آئی ۔ سادہ ترین زندگی،کسی تقریب میںبھی شریک ہوں تو سب سے سادہ کپڑے انھی کے ہونگے۔ پوری پارلیمنٹ میں سب سے سستی کار بھی غالبََا انھی کی تھی،گرمیوں میں ائر کنڈیشنرکے بغیر سو جاتے ہیں۔
اپنے کاموں کے لیے آنے والے ووٹروں سے جر ع کرتے اور ناجائز کام کہنے والوں سے ناراض ہوتے تھے اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جج صاحب دوسری بار نہیں جیت سکتے۔ لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کسی جرم میں پکڑے جانے والوں کے لیے پولیس کو سفارش نہیں کرتے تھے ، کچہری اور تھانے کی سیاست وہ نہیں کرتے تھے،ان کا کوئی ساتھی ان کے نام پر ناجائز کام کروا کے مال بنانے کی جراٗت نہیں کر سکتا تھا ،بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے وہ خلاف تھے اور اسے پنپنے نہیں دیتے تھے ، اپنی تقریروں میں بار بار اعلان کرتے تھے کہ ترقیاتی کاموں میں کمیشن کھانا (جسے اکثر ممبران اپنا حق سمجھتے ہیں) سؤر کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔
ان کے کسی قریبی ساتھی کو ٹھیکہ لینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اسی لیے ان کے ایم پی اے ان سے ناخوش تھے مگر انھوں نے ان پابندیوں کا آغاز پہلے اپنے گھر سے کیا تھا،اپنی ایم این اے شپ میں کبھی اپنے گھروالوں کے لیے معمولی سی بھی سفارش نہیں کی۔ دونوں بیٹے اپنی محنت سے اپنے کنبوں کی کفالت کر رہے ہیں، بڑا بیٹا امتحان دیکر ایک سرکاری محکمے میں ایک جونئیر گریڈ کی نوکری کر رہا ہے ۔
اُسکے دوست جب بھی اُسے کہتے کہ تمہارے والد صاحب تمہیں ڈیپوٹیشن پر کسی اچھی جگہ پر کیوںتعینات نہیں کرواتے توفرشتہ سیرت بیٹا جواب دیتا "نہ میرے ابو جان ایسا کریں گے اور نہ میں چاہوں گا کہ وہ ایسا کریں" ۔ چھوٹا بیٹا بیرسٹر بن کر واپس آیا لیکن وہ بھی والد صاحب کی اس سپورٹ سے محروم ہے جو ابتدائی سالوں میں نوجوان وکیل کو درکار ہوتی ہے ۔ ہر ایم این اے کو ہر مہینے اپنے اور فیملی ممبرز کے سفر کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے سفری ووچرملتے ہیں۔
انھوں نے ساڑھے سات سالوں میں ایک بھی نہیں لیا اور ملک کے کروڑوں روپے اپنی ذات پر خرچ ہونے سے بچالیے۔ انھیں قریب سے جاننے والے عدلیہ کے کولیگ ہمیشہ کہتے تھے کہ چیمہ صاحب یہاںکی سیاست کے لیے فِٹ نہیں ہیں، 2013کے انتخابات میں میاں صاحب نے مخالفتوں کے باوجود انھیں ٹکٹ دے دیا ،میں نے پھرسیاست چھوڑنے کا مشورہ دیا جسے لوگوں نے رد کردیا اور انھیں ایک لاکھ ووٹ دیکر چٹھہ صاحب کو چالیس ہزارووٹوں کی لیڈ سے شکست دے دی۔
دوبارہ ایم این اے بن کر بھی وہ سیاستدان نہ بن سکے، قانونی اور عدالتی حلقوںکو توقع تھی کہ جسٹس چیمہ صاحب ہی وزیرِ قانون بنیں گے کیونکہ حکومت کے پاس ان سے بہتر چوائس نہیںمگر وہ سیاست نہ سیکھ سکے اس لیے پارلیمانی سیکریٹری بھی نہ بن سکے۔
کئی سالوں سے میڈیا پر سیاستدانوں کی کرپشن کے تذکرے ہو رہے ہیں اور عدلیہ سے ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے بھی ہوتے ہیں لیکن معاملہ جوں کا توں ہے، ملک کا ہر باخبر شخص جانتا ہے کہ سیاست کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والے پارلیمنٹ میں کئی سالوں سے براجمان ہیں ، بے شمار لوگ ملکی قانون کو روندتے ہوئے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں جا پہنچے ۔
ان کے خلاف درجنوں پیٹیشنیں داخل ہوئیں مگرایک سروے کے مطابق کم از کم چالیس جعلی ڈگریوں والے حضرات پانچ سال تک پارلیمنٹ میں رہ کر تمام مراعات حاصل کرتے رہے، سیکڑوںبار پیشیاں ہوتی رہیں مگر کسی عدالت نے ان کی ممبر شپ ختم نہ کی۔
اور پھر گوجرانوالہ کے معروف کالم نگار اور جینوئن دانشور جناب فاروق عالم انصاری کے بقول ٹی وی چینلوں پر ایک دل چیر دینے والی خبر چلی جسے دیکھ کر ضلع گوجرانولہ کے لوگ سکتے میں آگئے، عدالت نے پوری پارلیمنٹ میںسے اگر کسی کی ممبر شپ پہلی پیشی پر ہی ختم کردی تو اس درویش صفت انسان کی جسکے دل و دماغ میں بد دیانتی اور کرپشن کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں۔
عدالتی فیصلے نے اس تاثّر کی تائید کردی کہ جج صاحب یہاں کی سیاست کے لیے اَن فٹ ہیں۔کہا گیا تھا کہ بینک میںان کے نام پرتین لاکھ کی رقم تھی (جو مسجد فنڈ تھا، امام مسجد کوتنخواہ بھی وہی دیتے ہیں)ایک دوسرے اکاؤنٹ میں چھ لاکھ تھے، گوجرہ میں ان کے نام پردو مرلے اور ان کی اہلیہ کے نام پر پراپرٹی کااندراج نہیں ہوا ۔
جواب دیا گیاکہ " فصل بیچنے پر جو پیسے بینک میں آتے ہیںوہ چند روز بعد کھاد اور تیل پر خرچ ہوجاتے ہیں ، اہلیہ کو اس کے والد صاحب نے جو کچھ دیا یا اپنی سروس سے اس نے جو کچھ بنایا نہ مجھے اس کا علم ہے ، اورنہ دلچسپی مگر وہ اپنی پراپرٹی کا ٹیکس ادا کررہی ہے"۔ سب سے بڑی عدالت قانون کے الفاظ نہیں اس کی اسپرٹ دیکھتی ہے اور اس کے اصل مقصد اور روح کے مطابق اس کی تشریح کرتی ہے۔ اثاثے اس لیے پوچھے جاتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جائیداد تو نہیں بنائی ۔
وہ اثاثے چھپانا جرم ہے جو ناجائز ذرایع سے بنائے گئے ہوں یا جو اس غرض سے چھپا ئے جائیں کہ ان پر ٹیکس نہ دینا پڑے ۔ اب اس ملک کا کوئی با خبر شخص ایک نظر پارلیمنٹ پر ڈال لے اور پھر ڈی سیٹ ہونے والے اس مرد ِ قلندر کو دیکھ لے جو اپنی پوری سروس اور ممبر ی کے دوران کسی شہر میں کوئی مکان نہ بناسکا اور پھر فیصلہ سن لے جس میں کہا گیا کہ اثاثوں کا اندراج نہ کرنے میں بدنیّتی نہیں ہے، یہ Bonafide omission ہے اس لیے نااہل قرار نہیں دیا گیا مگر الیکشن دوبارہ کرانے کا حکم دے دیا گیا۔
سینئر قانون دان فیصلے کو انصاف کی روح کے مطابق قرار نہیں دیتے ۔ ریٹائرڈ جج صاحبان کہتے ہیںکہ ممبر شپ جعلی ڈگری پر یا انتخاب میں دھاندلی ثابت ہونے پر ہی ختم کی جاتی ہے ۔ کیا مخالفین کے مذکورہ الزام سننے کے بعد ایک لاکھ ووٹراپنے رائے تبدیل کرلیتے ؟ ہرگز نہیں! اس فیصلے کے ملک پر کیا اثرات ہونگے؟کیا اس سے پارلیمنٹ کی صفائی ہوئی؟ کیا اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی؟ کیا اس سے انصاف کا بول بالا ہوا؟ گوجرانوالہ کے دیہاتوں میںتو ہر شخص کی زبان پرانصاری صاحب کے کالم میں لکھا ہوا مصرع ہے۔۔ ؎ چولے لَتھّے انصاف دے تے خلقت حیران کھڑی ۔لوگ کہتے ہیں اس سے ہر ایماندار اور باکردار شخص بددل اور کمزور ہوا ہے جمہوریت بھی کمزور ہوئی ہے۔
اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وزیرآباد کے تمام سیاستدانوں نے اپنی اپنی پارٹیاں تبدیل کر لی ہیں۔ وہ بھی جو مسلم لیگ کے پرچم میں دفن ہونے کا اعلان کرتے تھے اور وہ بھی جو نصف صدی سے مسلم لیگ کی مخالفت کررہے تھے۔ کیا الیکشن کاٹکٹ یا ممبری اتنی ہی اہم ہے کہ اس کے لیے برسوں کا ساتھ یا دھڑا چھوڑ دیا جائے ، اس موقعے پر برادرم قمرزمان کائرہ یاد آتے ہیںجب بھی کوئی اینکر ان سے پوچھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا آپ کو ہر پارٹی بخوشی قبول کریگی آپ کب کسی دوسری پارٹی میں شامل ہورہے ہیں؟
تو وہ کہتے ہیں"بھائی پارٹی تو ماں کی طرح ہوتی ہے ،کیا ماں کو بھی چھوڑا جاسکتا ہے؟ " یہ کیسے لیڈر ہیں کہ دھرم اور دھڑا چھوڑتے وقت دانت نکال کر فوٹو بنواتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں کہ اصولوں اور اقدار کو دفن ہوتا دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں ۔
بھائی صاحب کی سختی اور غصے سے ڈر بھی لگتا ہے مگرپھر بھی ان سے گزارش کرونگا کہ آپکی امانت، دیانت اور پاکیزہ زندگی کا سیاست نے کیا صلہ دیا؟ اثاثے چھپانے کی غلط خبریں!نااہل کردینے کی جھوٹی بریکنگ نیوز! اس سیاست نے آپ کوان چھینٹوں کے سوا کیا دیا؟چھوڑ دیںاس کو منہ موڑ لیں اس سے!!
جج بنے تو مالی اور اخلاقی دیانتداری کا اعلیٰ معیار قائم کیا۔ چند سالوں میں ہی نوجوان ججوں کے لیے ایک استاد، گائیڈ اور رول ماڈل بن گئے مگردیانتداری کے ساتھ ساتھ بڑے سخت گیر تھے۔ ضلع پولیس افسران برملاکہتے تھے کہ "افتخارچیمہ صاحب جہاں بھی سیشن جج لگتے ہیں وہاں جرائم کا گراف نیچے آجا تا ہے" ۔
اس لیے کہ جرائم کی روک تھام کے لیے سزاکا کڑا پن (Severity)نہیں سزا کا یقینی ہونا (Certainty) زیادہ مؤثر فیکٹرہے۔ بڑے بڑے مجرموں کے وکلاء کی خواہش اور کوشش ہوتی تھی کہ چیمہ صاحب کے تبدیل ہو جانے کے بعد ہمارا کیس لگے ۔ اس کے لیے وہ تاخیری حربے استعمال کرتے رہتے تھے۔
عدالتی سروس میں بڑی روشن مثالیں قائم کرنے اور ایک یادگار دَور گزارنے کے بعد وہ ہائیکورٹ کے جج کی حیثیّت سے ریٹائر ہو کر گاؤں آگئے ان کا لاہور، اسلام آباد یا کسی بھی شہر میں کوئی مکان نہ تھااس لیے گاؤں میں ہی رہائش اختیار کر لی۔
2000 کے انتخابات کا اعلان ہو ا تو وزیر آباد کے مسلم لیگی زعماء نے جو روایتی سیاست سے تنگ آچکے تھے فیصلہ کیا کہ جاگیرداروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے جج صاحب کو سیاست میں لایا جائے کیونکہ انکاگھرانہ اپنی نیک نامی کی وجہ سے ہر حلقے میں عزّت اور احترام سے دیکھا جاتا ہے اور یہی گھر ہمیں روایتی سیاستکاروں سے نجات دلا سکتا ہے لہٰذا انھوں نے جج صاحب کا گھیراؤ کر لیا۔ راقم نے گھرمیں بڑی سخت مخالفت کی کہ ھمارا مزاج سیاسی نہیں اس کے لیے بے تحاشا پیسے کے علاوہ ووٹروں کے مطالبات ماننے کے لیے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ اورہم ایسا نہیں کر سکتے۔اس لیے ہم بھائیوں میں سے کسی کو بھی انتخابی سیاست میں نہیں آنا چاہیے ۔
مگر میری بات نہ مانی گئی وزیر آباد مسلم لیگ کے اکابرین نے ان کی درخواست جمع کرادی۔ میاں شہباز شریف نے ان کی اچھی شہرت سنکر انھیں بِن دیکھے ٹکٹ دے دیا اُسوقت تک ان کی میاں صاحبان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی الیکشن ہوئے توانھوں نے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر کوتئیس ہزار کی لیڈ سے شکست دیدی۔
ایم این اے بن کربھی ان کی سوچ اور طرزِ زندگی میں معمولی سی بھی تبدیلی نہ آئی ۔ سادہ ترین زندگی،کسی تقریب میںبھی شریک ہوں تو سب سے سادہ کپڑے انھی کے ہونگے۔ پوری پارلیمنٹ میں سب سے سستی کار بھی غالبََا انھی کی تھی،گرمیوں میں ائر کنڈیشنرکے بغیر سو جاتے ہیں۔
اپنے کاموں کے لیے آنے والے ووٹروں سے جر ع کرتے اور ناجائز کام کہنے والوں سے ناراض ہوتے تھے اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ جج صاحب دوسری بار نہیں جیت سکتے۔ لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے کہ کسی جرم میں پکڑے جانے والوں کے لیے پولیس کو سفارش نہیں کرتے تھے ، کچہری اور تھانے کی سیاست وہ نہیں کرتے تھے،ان کا کوئی ساتھی ان کے نام پر ناجائز کام کروا کے مال بنانے کی جراٗت نہیں کر سکتا تھا ،بدمعاشی اور غنڈہ گردی کے وہ خلاف تھے اور اسے پنپنے نہیں دیتے تھے ، اپنی تقریروں میں بار بار اعلان کرتے تھے کہ ترقیاتی کاموں میں کمیشن کھانا (جسے اکثر ممبران اپنا حق سمجھتے ہیں) سؤر کا گوشت کھانے کے برابر ہے۔
ان کے کسی قریبی ساتھی کو ٹھیکہ لینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اسی لیے ان کے ایم پی اے ان سے ناخوش تھے مگر انھوں نے ان پابندیوں کا آغاز پہلے اپنے گھر سے کیا تھا،اپنی ایم این اے شپ میں کبھی اپنے گھروالوں کے لیے معمولی سی بھی سفارش نہیں کی۔ دونوں بیٹے اپنی محنت سے اپنے کنبوں کی کفالت کر رہے ہیں، بڑا بیٹا امتحان دیکر ایک سرکاری محکمے میں ایک جونئیر گریڈ کی نوکری کر رہا ہے ۔
اُسکے دوست جب بھی اُسے کہتے کہ تمہارے والد صاحب تمہیں ڈیپوٹیشن پر کسی اچھی جگہ پر کیوںتعینات نہیں کرواتے توفرشتہ سیرت بیٹا جواب دیتا "نہ میرے ابو جان ایسا کریں گے اور نہ میں چاہوں گا کہ وہ ایسا کریں" ۔ چھوٹا بیٹا بیرسٹر بن کر واپس آیا لیکن وہ بھی والد صاحب کی اس سپورٹ سے محروم ہے جو ابتدائی سالوں میں نوجوان وکیل کو درکار ہوتی ہے ۔ ہر ایم این اے کو ہر مہینے اپنے اور فیملی ممبرز کے سفر کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے سفری ووچرملتے ہیں۔
انھوں نے ساڑھے سات سالوں میں ایک بھی نہیں لیا اور ملک کے کروڑوں روپے اپنی ذات پر خرچ ہونے سے بچالیے۔ انھیں قریب سے جاننے والے عدلیہ کے کولیگ ہمیشہ کہتے تھے کہ چیمہ صاحب یہاںکی سیاست کے لیے فِٹ نہیں ہیں، 2013کے انتخابات میں میاں صاحب نے مخالفتوں کے باوجود انھیں ٹکٹ دے دیا ،میں نے پھرسیاست چھوڑنے کا مشورہ دیا جسے لوگوں نے رد کردیا اور انھیں ایک لاکھ ووٹ دیکر چٹھہ صاحب کو چالیس ہزارووٹوں کی لیڈ سے شکست دے دی۔
دوبارہ ایم این اے بن کر بھی وہ سیاستدان نہ بن سکے، قانونی اور عدالتی حلقوںکو توقع تھی کہ جسٹس چیمہ صاحب ہی وزیرِ قانون بنیں گے کیونکہ حکومت کے پاس ان سے بہتر چوائس نہیںمگر وہ سیاست نہ سیکھ سکے اس لیے پارلیمانی سیکریٹری بھی نہ بن سکے۔
کئی سالوں سے میڈیا پر سیاستدانوں کی کرپشن کے تذکرے ہو رہے ہیں اور عدلیہ سے ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے بھی ہوتے ہیں لیکن معاملہ جوں کا توں ہے، ملک کا ہر باخبر شخص جانتا ہے کہ سیاست کے ذریعے کروڑ پتی اور ارب پتی بننے والے پارلیمنٹ میں کئی سالوں سے براجمان ہیں ، بے شمار لوگ ملکی قانون کو روندتے ہوئے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں جا پہنچے ۔
ان کے خلاف درجنوں پیٹیشنیں داخل ہوئیں مگرایک سروے کے مطابق کم از کم چالیس جعلی ڈگریوں والے حضرات پانچ سال تک پارلیمنٹ میں رہ کر تمام مراعات حاصل کرتے رہے، سیکڑوںبار پیشیاں ہوتی رہیں مگر کسی عدالت نے ان کی ممبر شپ ختم نہ کی۔
اور پھر گوجرانوالہ کے معروف کالم نگار اور جینوئن دانشور جناب فاروق عالم انصاری کے بقول ٹی وی چینلوں پر ایک دل چیر دینے والی خبر چلی جسے دیکھ کر ضلع گوجرانولہ کے لوگ سکتے میں آگئے، عدالت نے پوری پارلیمنٹ میںسے اگر کسی کی ممبر شپ پہلی پیشی پر ہی ختم کردی تو اس درویش صفت انسان کی جسکے دل و دماغ میں بد دیانتی اور کرپشن کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں۔
عدالتی فیصلے نے اس تاثّر کی تائید کردی کہ جج صاحب یہاں کی سیاست کے لیے اَن فٹ ہیں۔کہا گیا تھا کہ بینک میںان کے نام پرتین لاکھ کی رقم تھی (جو مسجد فنڈ تھا، امام مسجد کوتنخواہ بھی وہی دیتے ہیں)ایک دوسرے اکاؤنٹ میں چھ لاکھ تھے، گوجرہ میں ان کے نام پردو مرلے اور ان کی اہلیہ کے نام پر پراپرٹی کااندراج نہیں ہوا ۔
جواب دیا گیاکہ " فصل بیچنے پر جو پیسے بینک میں آتے ہیںوہ چند روز بعد کھاد اور تیل پر خرچ ہوجاتے ہیں ، اہلیہ کو اس کے والد صاحب نے جو کچھ دیا یا اپنی سروس سے اس نے جو کچھ بنایا نہ مجھے اس کا علم ہے ، اورنہ دلچسپی مگر وہ اپنی پراپرٹی کا ٹیکس ادا کررہی ہے"۔ سب سے بڑی عدالت قانون کے الفاظ نہیں اس کی اسپرٹ دیکھتی ہے اور اس کے اصل مقصد اور روح کے مطابق اس کی تشریح کرتی ہے۔ اثاثے اس لیے پوچھے جاتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنی پوزیشن کا ناجائز فائدہ اٹھا کر جائیداد تو نہیں بنائی ۔
وہ اثاثے چھپانا جرم ہے جو ناجائز ذرایع سے بنائے گئے ہوں یا جو اس غرض سے چھپا ئے جائیں کہ ان پر ٹیکس نہ دینا پڑے ۔ اب اس ملک کا کوئی با خبر شخص ایک نظر پارلیمنٹ پر ڈال لے اور پھر ڈی سیٹ ہونے والے اس مرد ِ قلندر کو دیکھ لے جو اپنی پوری سروس اور ممبر ی کے دوران کسی شہر میں کوئی مکان نہ بناسکا اور پھر فیصلہ سن لے جس میں کہا گیا کہ اثاثوں کا اندراج نہ کرنے میں بدنیّتی نہیں ہے، یہ Bonafide omission ہے اس لیے نااہل قرار نہیں دیا گیا مگر الیکشن دوبارہ کرانے کا حکم دے دیا گیا۔
سینئر قانون دان فیصلے کو انصاف کی روح کے مطابق قرار نہیں دیتے ۔ ریٹائرڈ جج صاحبان کہتے ہیںکہ ممبر شپ جعلی ڈگری پر یا انتخاب میں دھاندلی ثابت ہونے پر ہی ختم کی جاتی ہے ۔ کیا مخالفین کے مذکورہ الزام سننے کے بعد ایک لاکھ ووٹراپنے رائے تبدیل کرلیتے ؟ ہرگز نہیں! اس فیصلے کے ملک پر کیا اثرات ہونگے؟کیا اس سے پارلیمنٹ کی صفائی ہوئی؟ کیا اس سے جمہوریت مضبوط ہوئی؟ کیا اس سے انصاف کا بول بالا ہوا؟ گوجرانوالہ کے دیہاتوں میںتو ہر شخص کی زبان پرانصاری صاحب کے کالم میں لکھا ہوا مصرع ہے۔۔ ؎ چولے لَتھّے انصاف دے تے خلقت حیران کھڑی ۔لوگ کہتے ہیں اس سے ہر ایماندار اور باکردار شخص بددل اور کمزور ہوا ہے جمہوریت بھی کمزور ہوئی ہے۔
اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وزیرآباد کے تمام سیاستدانوں نے اپنی اپنی پارٹیاں تبدیل کر لی ہیں۔ وہ بھی جو مسلم لیگ کے پرچم میں دفن ہونے کا اعلان کرتے تھے اور وہ بھی جو نصف صدی سے مسلم لیگ کی مخالفت کررہے تھے۔ کیا الیکشن کاٹکٹ یا ممبری اتنی ہی اہم ہے کہ اس کے لیے برسوں کا ساتھ یا دھڑا چھوڑ دیا جائے ، اس موقعے پر برادرم قمرزمان کائرہ یاد آتے ہیںجب بھی کوئی اینکر ان سے پوچھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا آپ کو ہر پارٹی بخوشی قبول کریگی آپ کب کسی دوسری پارٹی میں شامل ہورہے ہیں؟
تو وہ کہتے ہیں"بھائی پارٹی تو ماں کی طرح ہوتی ہے ،کیا ماں کو بھی چھوڑا جاسکتا ہے؟ " یہ کیسے لیڈر ہیں کہ دھرم اور دھڑا چھوڑتے وقت دانت نکال کر فوٹو بنواتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے اور یہ کیسے لوگ ہیں کہ اصولوں اور اقدار کو دفن ہوتا دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں ۔
بھائی صاحب کی سختی اور غصے سے ڈر بھی لگتا ہے مگرپھر بھی ان سے گزارش کرونگا کہ آپکی امانت، دیانت اور پاکیزہ زندگی کا سیاست نے کیا صلہ دیا؟ اثاثے چھپانے کی غلط خبریں!نااہل کردینے کی جھوٹی بریکنگ نیوز! اس سیاست نے آپ کوان چھینٹوں کے سوا کیا دیا؟چھوڑ دیںاس کو منہ موڑ لیں اس سے!!