چلوایسا کرکے دیکھ لیتے ہیں
آئیں اب باتیں کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اس کچرے کے ڈھیر کو جمع کر نے کے ذمے دار ہیں
اگر آپ کچرے کے ڈھیر کے پاس جانے کی ذرا سی ہمت کر لیں، تو پہلے تو آپ کا وہاں اس کچرے سے اٹھنے والی بدبو کی وجہ سے ذرا سی بھی دیرکھڑے ہونا، دوبھر ہوجائے گا لیکن اگر آپ نے کھڑے ہونے کی ہمت کر بھی لی تو پھر آپ اس کچرے میں دبے 20 کروڑ انسانوں کی آوازیں سن کر دہل جائیں گے۔
ایسی ایسی آہ و بکا ایسی ایسی چیخ و پکار اور صدائیں آپ کو سننے کو ملیں گی جنہیں سن کر آپ کا دل پھٹ جائے گا اور پھر آپ اس طرح سے بھاگیں گے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی آپ میں ہمت ہی باقی نہیں رہے گی۔
آئیں اب باتیں کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اس کچرے کے ڈھیر کو جمع کر نے کے ذمے دار ہیں، جو اگر چاہیں تو اس کچرے کے ڈھیر کو صاف کرسکتے ہیں لیکن کیا کریں 20 کروڑ انسانوں کی بدقسمتی کہ انھیں اس ڈھیر کی طرف دیکھنے تک کی زحمت بھی گوارہ نہیں ہے اگر کوئی ان کا دھیان اس طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ یہ 68 سالہ ڈھیر ہے آج کا نہیں، کبھی ٖفرصت ملی تو اس کی طرف بھی دیکھ لیں گے اتنی جلدی بھی کیا ہے ، کونسی اس کی وجہ سے قیامت آنے والی ہے۔
چھوڑو ان کی بات کیا کرتے ہو کوئی فائد ے کی بات کرو کوئی کام کی بات کرو کوئی موڈ بنانے کی بات کرو خدارا موڈ بگاڑنے کی بات مت کرو نہ اپنا وقت ضایع کرو اور نہ ہی ہمار ا۔ وہ سب کے سب اپنی اپنی دھما چکڑیوں میں مصروف ہیں جس کو جہاں موقع مل رہا ہے وہ وہاں وہاں اپنے اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے۔
افلاطون کی وفات 347 ق م تک ایتھنز کی جمہوریت کے بارے میں اس کے مخاصمانہ تجزیے پر تاریخ نے اپنی تصدیق ثبت کردی تھی، ایتھنز معاشی طور پر دوبارہ خوشحال ہوگیا تھا، لیکن یہ خوشحالی زرعی آمدنی کے بجائے تجارتی دولت کے باعث ہوئی تھی اور اب صنعت کاروں، سودا گروں اور بینکاروں کی حکمرانی تھی۔
اس تبدیلی سے دولت کے حصول کی مجنونانہ جدوجہد کا آغاز ہوا، نودولتیوں نے پرتعیش محلات تعمیرکر لیے، اپنی خواتین کو مہنگے ملبوسات اور زیورات سے لاد دیا اور ان کی خدمتگاری کے لیے درجنوں ملازمین رکھ کر ان کا دماغ خراب کردیا وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارات اور ضیافتیں کرتے غریب اور امیر کے درمیان فرق وسیع تر ہوتا گیا۔ ایتھنز دوحصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔
جیساکہ افلاطون نے لکھا ہے دوشہر ایک غربا کا شہر اور دوسرا امراکا اور دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار۔ ارسطوکا کہنا ہے کہ طبقہ امرا کے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کرسکا کروں گا'' آئسوکریٹس نے 366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدرغیرانسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیا ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیر کے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی۔''کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان قبل مسیح کے زمانے کا ایتھنز بن گیا ہے۔
کیا وہی سب کچھ جو اس وقت ایتھنز میں ہوتا تھا، آج یہاں نہیں ہورہا ہے۔ کیا ہمارے یہاں آج سارے دو نمبر اور غلط کاموں کا عروج نہیں ہے، کیا آج سب کو اپنے اپنے دھندے کی نہیں پڑی ہوئی ہے، آج تک کچھ بھی نہیں بدلا سب کا سب ویسا کا ویسا ہی چلا آرہا ہے۔ اب تک بہت سونے اسے بدلنے کی کوشش کی لیکن سب کی سب کوششیں ناکامی سے ہم کنار ہوئیں نجانے کتنے لوگ تبدیلی کی باتیں کرتے کرتے چلے گئے۔
نجانے کتنے ان 20 کروڑوں کے غم میں خون تھوکتے تھوکتے مرگئے نجانے کتنوں کے دل غم سے پھٹ گئے، نجانے کتنے فکر سے فالج زدہ ہوگئے، لیکن پھر بھی کچھ نہ بدلا اور لگتا ہے کل بھی کچھ نہیں بدلنے والا ہے چلو پھر ایسا ہی کر لیتے ہیں کہ سارے غلط غیر قانونی اور دونمبرکاموں کو جائز اور قانونی قرار دے دیتے ہیں سارے ملک میں یہ اعلان کروا دیتے ہیں کہ آج کے بعد غنڈوں، لٹیروں، قاتلوں، راشیوں، کمیشن ایجنٹوں کو کوئی نفرت وحقارت کی نظروں سے نہیں دیکھے گا، آج کے بعد کوئی انھیں غنڈہ ، لٹیرا ، راشی نہیں کہے گا اس لیے کہ اس سے ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اور وہ خود ہی اپنے لیے کوئی مناسب، شریفانہ اور معزز نام تجویزکرلیں گے اب چوری چکاری، ڈکیتی اور رہزنی ، جعل سازی، کمیشن ، رشوت، دھوکا دہی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ افعال قبیحہ کے بجائے فنون لطیفہ میں شمار ہوں گے۔
ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو برا سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کی مکمل تلافی کی جائے گی۔ آیندہ ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں معاشرے میں اعلیٰ اور باعزت رتبے دلوانے کی کوشش کی جائے گی اور اس جدوجہد اور کوشش کو کامیابی سے ہم کنار کر نے کے لیے کوئی بھی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر کسی نے بھی انھیں دوبارہ پرانے ناموں سے پکارنے کی کوشش کی تو اس فتنے کو فوراً کچل دیا جائے گا ۔
کیونکہ اس کی اس ناجائز حرکت کی وجہ سے معاشرے میں ایسا زہر پھیلنے کا خدشہ ہوگا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہوجائے گا اور آیندہ چوری چکاری، ڈکیتی، جعلسازی، کمیشن، رشوت کے فوائد کے بڑے بڑے اشتہارات اخبارات میں شایع کیے جائیں گے، تاکہ قوم کوان کے فوائد سے مکمل آگاہی حاصل ہوسکے اور لوگوں کے رحجانات اس کی طرف راغب ہوسکیں اور ایسی قانون سازی بھی کی جائے گی کہ یہ عناصر ہر ماہ اپنی ناجائز ذرایع سے پیدا کی ہوئی آمدنی کا بیشتر حصہ بطور جزیے میں ادا کریں تاکہ ان کی سرگرمیوں کو قانونی اور اخلاقی جواز مہیا ہوسکے ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ سب کے سب پہلے انسان ہیں بعد میں کچھ اور اس لیے ان کے بھی وہ ہی حقوق ہیں جو شریف انسانوں کو حاصل ہیں۔ اس لیے وہ تمام حقوق بھی ان کو مہیا کیے جائیں گے، آؤ ایسا بھی کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ شاید اس سے کچھ فرق پڑجائے شاید 20 کروڑ دکھیاروں کو کچھ سکھ مل جائے، شاید ان کی تکلیفیں کچھ کم ہوسکیں، شاید انھیں مسائل کے کچرے کے ڈھیر سے نجات مل جائے شاید شاید ۔
ایسی ایسی آہ و بکا ایسی ایسی چیخ و پکار اور صدائیں آپ کو سننے کو ملیں گی جنہیں سن کر آپ کا دل پھٹ جائے گا اور پھر آپ اس طرح سے بھاگیں گے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی آپ میں ہمت ہی باقی نہیں رہے گی۔
آئیں اب باتیں کرتے ہیں ان لوگوں کی جو اس کچرے کے ڈھیر کو جمع کر نے کے ذمے دار ہیں، جو اگر چاہیں تو اس کچرے کے ڈھیر کو صاف کرسکتے ہیں لیکن کیا کریں 20 کروڑ انسانوں کی بدقسمتی کہ انھیں اس ڈھیر کی طرف دیکھنے تک کی زحمت بھی گوارہ نہیں ہے اگر کوئی ان کا دھیان اس طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ یہ 68 سالہ ڈھیر ہے آج کا نہیں، کبھی ٖفرصت ملی تو اس کی طرف بھی دیکھ لیں گے اتنی جلدی بھی کیا ہے ، کونسی اس کی وجہ سے قیامت آنے والی ہے۔
چھوڑو ان کی بات کیا کرتے ہو کوئی فائد ے کی بات کرو کوئی کام کی بات کرو کوئی موڈ بنانے کی بات کرو خدارا موڈ بگاڑنے کی بات مت کرو نہ اپنا وقت ضایع کرو اور نہ ہی ہمار ا۔ وہ سب کے سب اپنی اپنی دھما چکڑیوں میں مصروف ہیں جس کو جہاں موقع مل رہا ہے وہ وہاں وہاں اپنے اپنے کرتب دکھانے میں مصروف ہے۔
افلاطون کی وفات 347 ق م تک ایتھنز کی جمہوریت کے بارے میں اس کے مخاصمانہ تجزیے پر تاریخ نے اپنی تصدیق ثبت کردی تھی، ایتھنز معاشی طور پر دوبارہ خوشحال ہوگیا تھا، لیکن یہ خوشحالی زرعی آمدنی کے بجائے تجارتی دولت کے باعث ہوئی تھی اور اب صنعت کاروں، سودا گروں اور بینکاروں کی حکمرانی تھی۔
اس تبدیلی سے دولت کے حصول کی مجنونانہ جدوجہد کا آغاز ہوا، نودولتیوں نے پرتعیش محلات تعمیرکر لیے، اپنی خواتین کو مہنگے ملبوسات اور زیورات سے لاد دیا اور ان کی خدمتگاری کے لیے درجنوں ملازمین رکھ کر ان کا دماغ خراب کردیا وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہمانوں کی خاطر مدارات اور ضیافتیں کرتے غریب اور امیر کے درمیان فرق وسیع تر ہوتا گیا۔ ایتھنز دوحصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔
جیساکہ افلاطون نے لکھا ہے دوشہر ایک غربا کا شہر اور دوسرا امراکا اور دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار۔ ارسطوکا کہنا ہے کہ طبقہ امرا کے افراد کی ایک تنظیم کے اراکین یہ حلف اٹھایا کرتے تھے ''میں عوام کا دشمن رہوں گا اور کونسل میں ان کی مخالفت میں جو کچھ بھی کرسکا کروں گا'' آئسوکریٹس نے 366 قبل مسیح میں یہ لکھا ہے ''امرا کا رویہ اس قدرغیرانسانی ہوگیا ہے کہ وہ اپنی اشیا ضرورت مندوں کو بطور قرض امداد دینے کے بجائے انھیں سمندر میں پھینک دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور غربا کا یہ حال ہے کہ انھیں کوئی خزانہ مل جانے کی اس قدر خوشی نہیں ہوگی جتنی کہ کسی امیر کے مال اسباب پر قبضہ کرنے سے ہوگی۔''کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان قبل مسیح کے زمانے کا ایتھنز بن گیا ہے۔
کیا وہی سب کچھ جو اس وقت ایتھنز میں ہوتا تھا، آج یہاں نہیں ہورہا ہے۔ کیا ہمارے یہاں آج سارے دو نمبر اور غلط کاموں کا عروج نہیں ہے، کیا آج سب کو اپنے اپنے دھندے کی نہیں پڑی ہوئی ہے، آج تک کچھ بھی نہیں بدلا سب کا سب ویسا کا ویسا ہی چلا آرہا ہے۔ اب تک بہت سونے اسے بدلنے کی کوشش کی لیکن سب کی سب کوششیں ناکامی سے ہم کنار ہوئیں نجانے کتنے لوگ تبدیلی کی باتیں کرتے کرتے چلے گئے۔
نجانے کتنے ان 20 کروڑوں کے غم میں خون تھوکتے تھوکتے مرگئے نجانے کتنوں کے دل غم سے پھٹ گئے، نجانے کتنے فکر سے فالج زدہ ہوگئے، لیکن پھر بھی کچھ نہ بدلا اور لگتا ہے کل بھی کچھ نہیں بدلنے والا ہے چلو پھر ایسا ہی کر لیتے ہیں کہ سارے غلط غیر قانونی اور دونمبرکاموں کو جائز اور قانونی قرار دے دیتے ہیں سارے ملک میں یہ اعلان کروا دیتے ہیں کہ آج کے بعد غنڈوں، لٹیروں، قاتلوں، راشیوں، کمیشن ایجنٹوں کو کوئی نفرت وحقارت کی نظروں سے نہیں دیکھے گا، آج کے بعد کوئی انھیں غنڈہ ، لٹیرا ، راشی نہیں کہے گا اس لیے کہ اس سے ان کی تذلیل و توہین ہوتی ہے اور وہ خود ہی اپنے لیے کوئی مناسب، شریفانہ اور معزز نام تجویزکرلیں گے اب چوری چکاری، ڈکیتی اور رہزنی ، جعل سازی، کمیشن ، رشوت، دھوکا دہی، بلیک مارکیٹنگ وغیرہ افعال قبیحہ کے بجائے فنون لطیفہ میں شمار ہوں گے۔
ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو برا سلوک روا رکھا گیا ہے، اس کی مکمل تلافی کی جائے گی۔ آیندہ ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ انھیں معاشرے میں اعلیٰ اور باعزت رتبے دلوانے کی کوشش کی جائے گی اور اس جدوجہد اور کوشش کو کامیابی سے ہم کنار کر نے کے لیے کوئی بھی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور اگر کسی نے بھی انھیں دوبارہ پرانے ناموں سے پکارنے کی کوشش کی تو اس فتنے کو فوراً کچل دیا جائے گا ۔
کیونکہ اس کی اس ناجائز حرکت کی وجہ سے معاشرے میں ایسا زہر پھیلنے کا خدشہ ہوگا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہوجائے گا اور آیندہ چوری چکاری، ڈکیتی، جعلسازی، کمیشن، رشوت کے فوائد کے بڑے بڑے اشتہارات اخبارات میں شایع کیے جائیں گے، تاکہ قوم کوان کے فوائد سے مکمل آگاہی حاصل ہوسکے اور لوگوں کے رحجانات اس کی طرف راغب ہوسکیں اور ایسی قانون سازی بھی کی جائے گی کہ یہ عناصر ہر ماہ اپنی ناجائز ذرایع سے پیدا کی ہوئی آمدنی کا بیشتر حصہ بطور جزیے میں ادا کریں تاکہ ان کی سرگرمیوں کو قانونی اور اخلاقی جواز مہیا ہوسکے ۔
یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ سب کے سب پہلے انسان ہیں بعد میں کچھ اور اس لیے ان کے بھی وہ ہی حقوق ہیں جو شریف انسانوں کو حاصل ہیں۔ اس لیے وہ تمام حقوق بھی ان کو مہیا کیے جائیں گے، آؤ ایسا بھی کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ شاید اس سے کچھ فرق پڑجائے شاید 20 کروڑ دکھیاروں کو کچھ سکھ مل جائے، شاید ان کی تکلیفیں کچھ کم ہوسکیں، شاید انھیں مسائل کے کچرے کے ڈھیر سے نجات مل جائے شاید شاید ۔