مٹھی بھر یادیں
کشور ناہید سے محبت کرنے والوں کا دائرہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح کشور ناہید کی ان سے وابستہ یادیں
کشور ناہید سے محبت کرنے والوں کا دائرہ دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح کشور ناہید کی ان سے وابستہ یادیں۔ کچھ یادوں کو انھوں نے اپنی کتاب ''مٹھی بھر یادیں'' میں سمیٹا ہے اور اس انداز سے کہ جن شخصیات سے یہ یادیں وابستہ ہیں، ان کی آپ سے بھرپور ملاقات ہو جائے اور آپ کشور ناہید کو بھی دیکھ لیں۔
احسان دانشؔ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''ایک دن مشاعرے میں جانا تھا۔ اپنی شیروانی منگوائی دیکھا تو براق سفید دھلی ہوئی ہے۔ دیکھتے ہی بولے، ارے شاعر مزدور کیا ایسی شیروانی پہن کر جائے گا۔ میز پر مٹی پڑی تھی۔ اس پر دو تین دفعہ جھٹکا دے کر میز پر مسلا پھر کہا، اب یہ شاعر مزدور کے پہننے کے لائق ہو گئی۔ وہ شاعر مزدور کیوں کہلاتے تھے؟ ابتدائی زندگی میں احسان صاحب اینٹیں اٹھایا کرتے تھے اور یوں زندگی گزرتی تھی مگر مشاعرے میں اسی عزت سے بلائے جاتے تھے۔ پھر پاکستان بنا تو انارکلی میں ایک بلڈنگ ان کو الاٹ کر دی گئی۔ اپنی اچھی زندگی گزار کر ہمارے لیے اپنی اچھی یادیں چھوڑ گئے۔''
کشور ناہید کہتی ہیں کہ وہ اور فرازؔ دلی جاتے ہوئے کچھ پروگرام اور ملاقاتیں طے کر لیا کرتے تھے۔ ایک آدھ کے سوا باقی تمام پروگرام ادھورے بلکہ فراموش ہو جاتے تھے لیکن خوشونت سنگھ سے ان دونوں کی اکٹھی ملاقات ترک نہ ہوتی۔ لکھتی ہیں ''خوشونت سنگھ چاہے بھارت کے انگلینڈ میں سفیر رہے ہوں یا السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کے ایڈیٹر، ان کا اپنے جونیئرز اور ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ ہنسی مذاق میں ہی رہتا مگر کام ڈٹ کرکر لیتے تھے۔
خاندانی وجاہت ان کے گھرکی سجاوٹ اور رہن سہن سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے گھر کے کمرے میں لٹکے ہوئے سفید پردوں پر السلام وعلیکم لکھا ہوا دیکھ کر ان کی ہندوستان اور پاکستان میں محبت کو فروغ دینے کے جذبے کو سلام کرنے کو جی چاہتا تھا۔ خوشونت سنگھ پنجاب رتن کا خطاب ملنے پر بہت نازاں تھے۔ عورتوں سے تعلقات پر بھی وہ بہت خوش رہتے تھے مگر اسکینڈل نہیں بننے دیتے تھے۔''
گئے دور میں ہندوستانی فلموں کی ہیروئن کامنی کوشل سے کشور ناہید کی ملاقات لاہور میں ہوئی جب وہ ٹیلی ویژن کے لیے ان سے انٹرویو کرنے کے لیے بلائی گئیں۔ لکھتی ہیں ''من موہنی شکل اور بہت ہی نازک آواز والی کامنی کوشل کو بڑھاپے کا کوئی کمپلیکس نہیں تھا۔ پیچھے کو بالوں کا جوڑا بنا کر سادہ سی ساڑھی پہنے وہ باتیں کر رہی تھیں۔ کہنے لگیں میری اور دلیپ کمار کی جوڑی کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ جب پوچھا کہ آپ کا رومانس دلیپ کمار سے کس فلم سے شروع ہوا تھا۔
ذرا شرما کر بولیں فلم ''شہید'' سے شروع ہوا تھا۔'' کشور ناہید بتاتی ہیں کہ کامنی کوشل قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے بوٹنی کے استاد کی بیٹی تھیں۔ وہ اور کئی اور لڑکیاں مزے سے سائیکل پر کالج جایا کرتی تھیں، نہ کوئی لڑکا گھورتا تھا نہ چھیڑتا تھا۔ مشہور آرٹسٹ، ایم ایف حسین لاہور آئے ہوئے تھے۔ ان کی پینٹنگز کی نمائش الحمرا میں ہوئی تھی۔ کشور ناہید لکھتی ہیں ''ایک شام کو حسین صاحب رضا کاظم اور میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
رضا کی اور میری بحث چھڑ گئی۔ بات معلوم نہیں کتنی لمبی چلی کہ ایک دم ہم دونوں کو خیال آیا کہ حسین غائب ہیں۔ ہم دونوں چونکے، پلٹے حسین صاحب کے کمرے کی طرف کہ سامنے سے وہ آتے دکھائی دیے۔ ہاتھ میں ایک پینٹنگز سی پکڑی ہوئی تھی۔ منظر بتایا کہ ایک شیرنی دو ہاتھیوں سے لڑ رہی ہے۔ نام میرا لکھا تھا۔ بات سمجھ جائیے۔''
منیر نیازی کو کشور ناہید نے ''خوشگوار آنکھوں کا متلاشی شاعر'' قرار دیا ہے جو شکل صورت کا ایک خوبصورت آدمی تھا، جو شعر بھی سب سے مختلف اور انوکھی تشبیہات کے ساتھ کہتا تھا، نظم ہو یا غزل بنا سنوار کر۔ لکھتی ہیں ''بہت سے ادیبوں کے پاس گاڑیاں دیکھ کر منیر نیازی کو بھی گاڑی کی طلب ہوئی۔ کسی ادیب کے بیٹے کی شادی تھی جس میں شہباز شریف بھی آ رہے تھے۔ منیر وہیں چیئر پر بیٹھ کر اس شادی میں گیا۔
شہباز شریف نے پوچھا ''میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟'' منیر نے فوراً کہا ''میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔'' اگلے دن گاڑی دروازے پر موجود تھی۔ اب ہوا ڈرائیور کا مسئلہ۔ حکومت نے یہ بھی انتظام کر دیا۔ اب شام کو سیر کرنے گھر سے نکلے۔ کبھی مداحوں کے پاس جاتے، کبھی مداح ڈاکٹروں کے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی، گیس سلنڈر گھر پر تھا۔ بس ایسی ہی ایک اداس شام گھر سے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر کو دیکھ کر زندگی واپس چلی گئی۔''
خالد حسن بھٹو کے پریس سیکریٹری تھے، اخباروں میں کالم اور مضامین لکھتے تھے۔ منٹو کی کہانیوں کا ترجمہ کیا تو کہا جانے لگا کہ ترجمہ اسے کہتے ہیں۔ ان کی یادوں کے حوالے سے کشور ناہید لکھتی ہیں۔ ''ایک دفعہ لاہور میں منیر شیخ آیا ہوا تھا۔ میڈم نورجہاں نے اپنی صحتیابی کی دعوت دی تھی۔ میں نے اپنی جگہ خالد حسن کے ساتھ منیر شیخ کو بھجوا دیا۔ منیر شیخ نے میڈم کو بتایا کہ اس کا بھی دو سال ہوئے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ میڈم نے پوچھا، ڈاکٹر نے کیا احتیاط بتائی تھی۔ منیر بھی بڑا بذلہ سنج تھا، بولا ڈاکٹر نے آکھیا سی، گھٹ کے جپھی نہ پانا۔ میڈم نے فوراً کہا ''فیر ملن دا کی فیدہ''
بہت سال پہلے کشور ناہید نے ٹی وی پر اشفاق احمد کے ساتھ موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا، اس پروگرام میں جس کا نام تھا ''نکھار'' ایک دن اقبال بانو گانے آئیں۔ پس اس دن سے کشور ناہید سے ان کی دوستی شروع ہوئی۔ لکھتی ہیں ''ایک شام کو بانو کے لان میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، میرے دل میں کئی دن سے کرید تھی کہ قتیل شفائی کے ساتھ کیا واقعی ان کی شادی ہوئی تھی؟ بولیں فلم ''قاتل'' کے سیٹ پر عشق چلا۔ شادی کر کے ہوٹل میں رکھا۔ سارا خرچ میرے ذمے تھا۔ بیچ میں دو دو دن میرے پاس نہیں آتا تھا۔ سال بھر میں یہ کھیل ختم ہو گیا۔ پھر میں قتیل سے کبھی نہیں ملی۔''
پنجابی کے مشہور شاعر استاد دامن سے کشور ناہید کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ''استاد جی شاہی مسجد کے آخری کنارے پر ایک کٹیا میں رہتے تھے۔ اس میں ایک پلنگ تھا اور باقی ہر طرف ہر زبان کی کتابیں تھیں۔ وہ اتنی معصومیت سے جھوٹ بولتے تھے کہ اس پر یقین کرنے کو جی چاہتا تھا۔ مثلاً ان کے حجرے میں بہت سی رشین زبان میں کتابیں تھیں۔ پوچھا آپ کو روسی زبان آتی ہے۔ فوراً ہاں میں جواب دیتے۔ ان کی کٹیا میں سارے سرکاری افسر، سیاستدان، ادیب اور ہندوستان سے آنے والے مہمان، سبھی آتے تھے۔ زیادہ تر ولائتی بوتلیں سرکاری افسر لاتے تھے۔
کشور ناہید نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بے مثال شخص کہا ہے۔ لکھتی ہیں ''ہر چند دوسری شادی مسلمان بن کر کی، پھر بھی گوپی چند رہے۔ اردو سے عشق کیا اور دوسری بیوی منورما سے بھی۔ جن ادیبوں سے محبت کی اور دوست مانا ان کو انعامات دلوانے میں بھی بے مثل رہے اور جن ادیبوں سے ذہنی اختلاف ہوا ان کا ذکر بھی مناسب سمجھا۔'' گوپی چند کی شخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''مجھے کبھی ان کا گھر اجنبی نہیں لگا۔ صبح کو اٹھ کر منورما اور میں اکٹھے ناشتہ بناتے رہے ہیں۔ مجھے منورما کا جو کپڑا پسند آتا وہ میں لے لیتی اور یہی منورما کرتی۔''
انور سجاد کا ذکر کرتے ہوئے کشور ناہید لکھتی ہیں ''وہ اور میں قد میں تقریباً ایک جیسے تھے اور ہم ہمیشہ ایک دوسرے کو سہیلی کہا کرتے تھے۔ میری سسرال کے جتنے مریض تھے وہ سب انور سجاد سے مشورہ کرتے اور دوائی لیتے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں سیاست کے طفیل آرٹس کونسل کے چیئرمین بنے۔ وہاں استاد مہاراج کتھک سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے انور سجاد کے پاؤں میں گھنگھرو بندھوا دیے۔''
احسان دانشؔ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''ایک دن مشاعرے میں جانا تھا۔ اپنی شیروانی منگوائی دیکھا تو براق سفید دھلی ہوئی ہے۔ دیکھتے ہی بولے، ارے شاعر مزدور کیا ایسی شیروانی پہن کر جائے گا۔ میز پر مٹی پڑی تھی۔ اس پر دو تین دفعہ جھٹکا دے کر میز پر مسلا پھر کہا، اب یہ شاعر مزدور کے پہننے کے لائق ہو گئی۔ وہ شاعر مزدور کیوں کہلاتے تھے؟ ابتدائی زندگی میں احسان صاحب اینٹیں اٹھایا کرتے تھے اور یوں زندگی گزرتی تھی مگر مشاعرے میں اسی عزت سے بلائے جاتے تھے۔ پھر پاکستان بنا تو انارکلی میں ایک بلڈنگ ان کو الاٹ کر دی گئی۔ اپنی اچھی زندگی گزار کر ہمارے لیے اپنی اچھی یادیں چھوڑ گئے۔''
کشور ناہید کہتی ہیں کہ وہ اور فرازؔ دلی جاتے ہوئے کچھ پروگرام اور ملاقاتیں طے کر لیا کرتے تھے۔ ایک آدھ کے سوا باقی تمام پروگرام ادھورے بلکہ فراموش ہو جاتے تھے لیکن خوشونت سنگھ سے ان دونوں کی اکٹھی ملاقات ترک نہ ہوتی۔ لکھتی ہیں ''خوشونت سنگھ چاہے بھارت کے انگلینڈ میں سفیر رہے ہوں یا السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا کے ایڈیٹر، ان کا اپنے جونیئرز اور ساتھیوں کے ساتھ برتاؤ ہنسی مذاق میں ہی رہتا مگر کام ڈٹ کرکر لیتے تھے۔
خاندانی وجاہت ان کے گھرکی سجاوٹ اور رہن سہن سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کے گھر کے کمرے میں لٹکے ہوئے سفید پردوں پر السلام وعلیکم لکھا ہوا دیکھ کر ان کی ہندوستان اور پاکستان میں محبت کو فروغ دینے کے جذبے کو سلام کرنے کو جی چاہتا تھا۔ خوشونت سنگھ پنجاب رتن کا خطاب ملنے پر بہت نازاں تھے۔ عورتوں سے تعلقات پر بھی وہ بہت خوش رہتے تھے مگر اسکینڈل نہیں بننے دیتے تھے۔''
گئے دور میں ہندوستانی فلموں کی ہیروئن کامنی کوشل سے کشور ناہید کی ملاقات لاہور میں ہوئی جب وہ ٹیلی ویژن کے لیے ان سے انٹرویو کرنے کے لیے بلائی گئیں۔ لکھتی ہیں ''من موہنی شکل اور بہت ہی نازک آواز والی کامنی کوشل کو بڑھاپے کا کوئی کمپلیکس نہیں تھا۔ پیچھے کو بالوں کا جوڑا بنا کر سادہ سی ساڑھی پہنے وہ باتیں کر رہی تھیں۔ کہنے لگیں میری اور دلیپ کمار کی جوڑی کو بہت پسند کیا جاتا تھا۔ جب پوچھا کہ آپ کا رومانس دلیپ کمار سے کس فلم سے شروع ہوا تھا۔
ذرا شرما کر بولیں فلم ''شہید'' سے شروع ہوا تھا۔'' کشور ناہید بتاتی ہیں کہ کامنی کوشل قیام پاکستان سے پہلے کے زمانے میں گورنمنٹ کالج کے بوٹنی کے استاد کی بیٹی تھیں۔ وہ اور کئی اور لڑکیاں مزے سے سائیکل پر کالج جایا کرتی تھیں، نہ کوئی لڑکا گھورتا تھا نہ چھیڑتا تھا۔ مشہور آرٹسٹ، ایم ایف حسین لاہور آئے ہوئے تھے۔ ان کی پینٹنگز کی نمائش الحمرا میں ہوئی تھی۔ کشور ناہید لکھتی ہیں ''ایک شام کو حسین صاحب رضا کاظم اور میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
رضا کی اور میری بحث چھڑ گئی۔ بات معلوم نہیں کتنی لمبی چلی کہ ایک دم ہم دونوں کو خیال آیا کہ حسین غائب ہیں۔ ہم دونوں چونکے، پلٹے حسین صاحب کے کمرے کی طرف کہ سامنے سے وہ آتے دکھائی دیے۔ ہاتھ میں ایک پینٹنگز سی پکڑی ہوئی تھی۔ منظر بتایا کہ ایک شیرنی دو ہاتھیوں سے لڑ رہی ہے۔ نام میرا لکھا تھا۔ بات سمجھ جائیے۔''
منیر نیازی کو کشور ناہید نے ''خوشگوار آنکھوں کا متلاشی شاعر'' قرار دیا ہے جو شکل صورت کا ایک خوبصورت آدمی تھا، جو شعر بھی سب سے مختلف اور انوکھی تشبیہات کے ساتھ کہتا تھا، نظم ہو یا غزل بنا سنوار کر۔ لکھتی ہیں ''بہت سے ادیبوں کے پاس گاڑیاں دیکھ کر منیر نیازی کو بھی گاڑی کی طلب ہوئی۔ کسی ادیب کے بیٹے کی شادی تھی جس میں شہباز شریف بھی آ رہے تھے۔ منیر وہیں چیئر پر بیٹھ کر اس شادی میں گیا۔
شہباز شریف نے پوچھا ''میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟'' منیر نے فوراً کہا ''میرے پاس گاڑی نہیں ہے۔'' اگلے دن گاڑی دروازے پر موجود تھی۔ اب ہوا ڈرائیور کا مسئلہ۔ حکومت نے یہ بھی انتظام کر دیا۔ اب شام کو سیر کرنے گھر سے نکلے۔ کبھی مداحوں کے پاس جاتے، کبھی مداح ڈاکٹروں کے۔ جسم میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی، گیس سلنڈر گھر پر تھا۔ بس ایسی ہی ایک اداس شام گھر سے ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر کو دیکھ کر زندگی واپس چلی گئی۔''
خالد حسن بھٹو کے پریس سیکریٹری تھے، اخباروں میں کالم اور مضامین لکھتے تھے۔ منٹو کی کہانیوں کا ترجمہ کیا تو کہا جانے لگا کہ ترجمہ اسے کہتے ہیں۔ ان کی یادوں کے حوالے سے کشور ناہید لکھتی ہیں۔ ''ایک دفعہ لاہور میں منیر شیخ آیا ہوا تھا۔ میڈم نورجہاں نے اپنی صحتیابی کی دعوت دی تھی۔ میں نے اپنی جگہ خالد حسن کے ساتھ منیر شیخ کو بھجوا دیا۔ منیر شیخ نے میڈم کو بتایا کہ اس کا بھی دو سال ہوئے دل کا آپریشن ہوا تھا۔ میڈم نے پوچھا، ڈاکٹر نے کیا احتیاط بتائی تھی۔ منیر بھی بڑا بذلہ سنج تھا، بولا ڈاکٹر نے آکھیا سی، گھٹ کے جپھی نہ پانا۔ میڈم نے فوراً کہا ''فیر ملن دا کی فیدہ''
بہت سال پہلے کشور ناہید نے ٹی وی پر اشفاق احمد کے ساتھ موسیقی کا ایک پروگرام شروع کیا، اس پروگرام میں جس کا نام تھا ''نکھار'' ایک دن اقبال بانو گانے آئیں۔ پس اس دن سے کشور ناہید سے ان کی دوستی شروع ہوئی۔ لکھتی ہیں ''ایک شام کو بانو کے لان میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں، میرے دل میں کئی دن سے کرید تھی کہ قتیل شفائی کے ساتھ کیا واقعی ان کی شادی ہوئی تھی؟ بولیں فلم ''قاتل'' کے سیٹ پر عشق چلا۔ شادی کر کے ہوٹل میں رکھا۔ سارا خرچ میرے ذمے تھا۔ بیچ میں دو دو دن میرے پاس نہیں آتا تھا۔ سال بھر میں یہ کھیل ختم ہو گیا۔ پھر میں قتیل سے کبھی نہیں ملی۔''
پنجابی کے مشہور شاعر استاد دامن سے کشور ناہید کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ وہ لکھتی ہیں ''استاد جی شاہی مسجد کے آخری کنارے پر ایک کٹیا میں رہتے تھے۔ اس میں ایک پلنگ تھا اور باقی ہر طرف ہر زبان کی کتابیں تھیں۔ وہ اتنی معصومیت سے جھوٹ بولتے تھے کہ اس پر یقین کرنے کو جی چاہتا تھا۔ مثلاً ان کے حجرے میں بہت سی رشین زبان میں کتابیں تھیں۔ پوچھا آپ کو روسی زبان آتی ہے۔ فوراً ہاں میں جواب دیتے۔ ان کی کٹیا میں سارے سرکاری افسر، سیاستدان، ادیب اور ہندوستان سے آنے والے مہمان، سبھی آتے تھے۔ زیادہ تر ولائتی بوتلیں سرکاری افسر لاتے تھے۔
کشور ناہید نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو بے مثال شخص کہا ہے۔ لکھتی ہیں ''ہر چند دوسری شادی مسلمان بن کر کی، پھر بھی گوپی چند رہے۔ اردو سے عشق کیا اور دوسری بیوی منورما سے بھی۔ جن ادیبوں سے محبت کی اور دوست مانا ان کو انعامات دلوانے میں بھی بے مثل رہے اور جن ادیبوں سے ذہنی اختلاف ہوا ان کا ذکر بھی مناسب سمجھا۔'' گوپی چند کی شخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''مجھے کبھی ان کا گھر اجنبی نہیں لگا۔ صبح کو اٹھ کر منورما اور میں اکٹھے ناشتہ بناتے رہے ہیں۔ مجھے منورما کا جو کپڑا پسند آتا وہ میں لے لیتی اور یہی منورما کرتی۔''
انور سجاد کا ذکر کرتے ہوئے کشور ناہید لکھتی ہیں ''وہ اور میں قد میں تقریباً ایک جیسے تھے اور ہم ہمیشہ ایک دوسرے کو سہیلی کہا کرتے تھے۔ میری سسرال کے جتنے مریض تھے وہ سب انور سجاد سے مشورہ کرتے اور دوائی لیتے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں سیاست کے طفیل آرٹس کونسل کے چیئرمین بنے۔ وہاں استاد مہاراج کتھک سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے انور سجاد کے پاؤں میں گھنگھرو بندھوا دیے۔''