توانائی عطا کرنے والے

وہ ایک مشہور سازندہ تھا جسے ستار بجانے سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا

naeemshah802@gmail.com

وہ ایک مشہور سازندہ تھا جسے ستار بجانے سے عشق کی حد تک لگاؤ تھا، اسی کے ذریعے وہ گزر بسر کرتا۔ اسے دین میں کوئی دلچسپی تھی نہ ہی اس کی زندگی میں اس کا کوئی عمل دخل۔ ایک دن اس کی ستار کا ایک تار ٹوٹ گیا، وہ پریشان ہو گیا کہ اب کیا کرے، گزارا کیسے ہو گا۔

پریشانی کے عالم میں ٹوٹی ہوئی تار جڑوانے کے لیے وہ کسی کی تلاش میں نکلا مگر کوئی جوڑنے والا نہ ملا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک جوتے سینے والے بزرگ تک پہنچا اور بولا ''بھائی میرا یہ تار ٹوٹ گیا ہے کچھ پتہ ہے کہاں سے جڑے گا؟'' بوڑھے نے ایک گہری نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی اور کہا ''اس ساز کی ایک ٹوٹی ہوئی تار جڑوانے کی اتنی فکر اور اللہ سے اپنی ٹوٹی ہوئی تار جڑوانے کی کوئی پرواہ نہیں؟'' یہ چند الفاظ جیسے بجلی بن کر اس کے دل پر گر ے اور روح میں اتر گئے۔

اس ایک جملے نے اس کے دل کے ٹھہرے ہوئے سمندر میں ہلچل پیدا کر دی، اس نے اپنا ستار وہیں چھوڑا اور بوڑھے سے پوچھا ''... اللہ سے ٹوٹی ہوئی تار کہاں جڑتی ہے؟'' بوڑھے نے قریب ہی واقع مسجد کی طرف اشارہ کیا اور بولا ــ ''یہاں ... ان جگہوں پر اللہ سے ٹوٹی ہوئی تار جوڑی جاتی ہے۔''

ان چند الفاظ نے اسے اللہ سے دور ایک سازندے سے اللہ کا ولی بنا دیا۔ بعض دفعہ ایک جملہ، مسکراہٹ، نگاہ یا ہاتھ کا لمس بہت اہمیت رکھتا ہے، کسی کا مستقبل بدلنے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہے۔

خود میں اس تجربے سے گزرا، میں اپنی پہلی کتاب ''متلاشی'' کا مسودہ تقریباً تیار کر چکا تھا جسے میں نے ساڑھے تین سال میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود مکمل کیا تھا۔ اس تمام عرصے میں، میں غیر یقینی صورتِ حال کا شکار رہا کہ نجانے اپنی کتاب لکھنے کا میرا یہ خواب کبھی پورا ہو بھی پائے گا یا نہیں۔ مجھے اس لیے بھی یہ انتہائی دشوار نظر آتا تھا کیونکہ ہمارے خاندان میں مجھ سے پہلے کسی نے کتاب نہ لکھی تھی۔

میرے لیے یہ ایک بالکل نیا تجربہ، دشوار گزار اور انجان راستہ تھا جس پر مجھے تنہا سفر کرنا تھا۔ ایک ایسا راستہ جس پر میرا ساتھ دینے اور حوصلہ بڑھانے کے بجائے لوگ مجھے عموماً اس سے روکنے، میری ہمت توڑنے کی کوشش کرتے کہ میں کتاب لکھنے میں اپنا قیمتی وقت اور توانائی ضایع نہ کروں، آج کل کتاب پڑھتا کون ہے، خصوصاً ہمارے اس کتاب سے دور معاشرے میں، میری کتاب کوئی کیوں پڑھے گا؟

یہاں تک کہ اپنی کتاب چھپوانے کے لیے جب میں نے چند پبلشرز سے رابطہ کیا تو انھوں نے بھی مجھے ہمدردانہ مشورہ دیتے ہوئے کتاب چھپوانے سے منع کیا کہ میں خوامخواہ ہی پیسے ضایع کروں گا۔ مجھے بھلا کون جانتا ہے، میں کونسی مشہور شخصیت ہوں جس کی کتاب کوئی پڑھنا چاہے گا وہ بھی خرید کر... غرض ہر طرف سے مجھے مایوس کیا گیا۔

میں یقینا دلبرداشتہ ہو کر اس سے دستبردار ہو جاتا اگر یہ صرف میرا خواب ہوتا، مگر مجھے یہ اپنی بھاری ذمے داری محسوس ہوتا جسے نہ نبھانے کی صورت میں، میں خود کو قصور وار تصور کرتا۔ دنیا مجھے ایک طرف مگر میری روح مسلسل اس جانب کھینچتی۔ اکثر میری ہمت ٹوٹ جاتی اور میں کتاب لکھنا بند کر دیتا، مگر لمبے لمبے وقفوں کے بعد بھی میرا دل بار بار مجھے اس جانب کھینچ لیتا۔


رمضان کی اس رات بھی میں غیر یقینی سی صورت حال میں لیپ ٹاپ کھولے بیٹھا پبلشرز تلاش کر رہا تھا۔ میرے پاس کتاب چھپوانے کے پیسے تھے نہ ہی مستقبل قریب میں آنے کی کوئی امید۔ میں یونہی کمزور سی کیفیت میں بیٹھا مختلف سائٹس چیک کر رہا تھا کہ میری نظر پاک ٹی ہاؤس لاہور کی ایک وڈیو پر پڑی، جس کا ان ہی دنوں وزیر اعظم نوازشریف نے افتتاح کیا تھا۔ جسے ان کی ذاتی دلچسپی پر کئی سال بند رہنے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا گیا تھا۔ پاک ٹی ہاؤس ... جہاں کبھی اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض جیسی نامور شخصیات بیٹھا کرتی تھیں۔

میں اس نئے تعمیر شدہ پاک ٹی ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب کی وڈیو دیکھنے لگا جس میں ایک انگریزی کتاب ''ہیرو'' پر تبصرہ کیا جا رہا تھا۔ جوں جوں میں اس تبصرہ کو سنتا گیا، اس مبصر کی باتیں میرے دل میں اترتی گئیں، میری کمزور کیفیت کو قوت فراہم ہونے لگی، میرے اندر پھیلی غیر یقینی امید میں بدلنے لگی۔

مجھے محسوس ہونے لگا جیسے میرے اندر توانائی بھر دی گئی ہو۔ وہ تبصرہ کرنے والا شخص درمیانی عمر کا ایک اسمارٹ جوان قاسم علی شاہ تھا جسے تب میں نہ جانتا تھا۔ تقریباً چالیس منٹ کے اس انرجی سے بھرے موٹیویشنل لیکچر نے مجھے اندر سے پھر سے مضبوط و یکجا کر دیا، مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا کتاب چھپوانے کا خواب یقینا پورا ہو سکتا تھا۔

چند ماہ بعد میری کتاب چھپ گئی۔ میرا دیرینہ خواب حقیقت بن کر میرے ہاتھوں میں اور کتاب کی دکانوں کی شیلفوں تک پہنچ گیا۔ میری کتاب کا چھپ جانا میری زندگی کا اہم ترین واقعہ تھا۔ جس نے مجھے دولت تو نہیں لیکن وہ کچھ عطا کیا جو اس سے پہلے کوئی دولت بھی عطا نہ کر پائی تھی۔ اس نے مجھے احساس ِ تکمیل سے سر شار کر دیا، میری روح کو شاد کر دیا، مجھے دنیا کے ان چند خوش نصیبوں کی صف میں شامل کر دیا جنھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے خواب کو حقیقت بنتے دیکھا تھا۔

قاسم علی شاہ کے وہ چند جملے اپنے اندر بڑی توانائی لیے ہوئے تھے جنھوں نے مجھے اپنے مقصد تک پہنچنے میں بڑی مدد دی۔ عجیب بات ہے فقط الفاظ انسان کے لیے کس قدر فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں بشرطیکہ صحیح وقت پر دل بڑا کر کے انھیں اس کے حق دار کو ادا کر دیا جائے۔ الفاظ اگر سچائی و پاکیزگی سے ادا کیے جائیں تو انسان کی کایا پلٹ دیتے ہیں، ڈگمگائے قدموں، شکستہ حوصلوں میں نئی روح پھونک دیتے ہیں، مایوسی کے اندھیروں میں امید کے چراغ روشن کر دیتے ہیں۔

لیکن اگر انھیں صحیح وقت پر اد ا کرنے کے بجائے خاموشی اور سرد رویہ اختیار کر لیا جائے تو یہ معاشرے کو مستقبل کے بڑے ناموں سے محروم کر دینا ہے، مثلاً میں نے اپنی کتاب چھپنے کے بعد اسے ملک کے آٹھ دس معروف ترین مصنفوں، دانشوروں اور شعراء کی خدمت میں پیش کیا، مگر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی حوصلہ افزائی کا ایک لفظ تک مجھے موصول نہ ہوا۔ یقینا میری کتاب قابلِ تعریف نہ ہو گی، مگر اس کے باوجود کسی بڑے کی جانب سے چھوٹے کی حوصلہ افزائی کے لیے کہے دو الفاظ بہت معنی رکھتے ہیں، اسے منزل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ چند الفاظ ہی بعض دفعہ اس کی کامیابی کی وجہ بن جاتے ہیں۔

مگر ہمارے معاشرے کا یہ ایک المیہ رہا ہے کہ ہم اپنے فن اور تجربے کو اگلی نسل تک منتقل نہیں کرتے، اسے اپنے یا اپنی اولاد تک محدود رکھتے ہیں، دوسروں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے پہلوانی ہو، کلاسیکی موسیقی، شعراء یا ہمارے نامور مصنفین انھوں نے اپنے کوئی شاگرد نہیں بنائے جن پر محنت کر کے، ان کی تربیت کر کے ان میں اپنی صلاحیتیں منتقل کرتے، تا کہ ان کے بعد اگلی کھیپ ان کی جگہ لینے کے لیے تیار ہوتی اور معاشرہ قد آور شخصیات سے خالی نہ ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے ہمارے یہاں مزید بڑے نام پیدا نہیں ہو رہے۔ پ

چھلے چند ماہ میں اردو ادب کے جتنے بڑے نام انتظار حسین، کمال احمد رضوی، جمیل الدین عالی، فاطمہ ثریا بجیا ہم سے جدا ہو گئے اتنے آگے آ نہیں رہے۔کسی معاشرے کے لیے توانائی عطا کرنے والے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے زندگی کے لیے جسم میں دوڑنے والا خون۔ کاش ہم الفاظ کی طاقت کو سمجھ لیں، دولت کی طرح ہمارے الفاظ پر بھی دوسروں کا حق ہوتا ہے جنھیں ادا کرنے سے ہمارا معاشرہ تیزی سے پھل پھول اور ترقی کر سکتا ہے۔
Load Next Story