شاہ رخ جتوئی اورپولیس افسر کو خصوصی سہولتیں دی جاتی ہیں قیدیوں کا انکشاف
سینٹرل جیل کا ٹاور انچارج رفیق چنہ اور افسران کی ملی بھگت سے ہی قیدی حفیظ فرار ہوا تھا، کھولیاں فروخت کی جاتی ہیں
جیل حکام کی غفلت اور لاپروائی کے باعث قتل کے الزام میں قید جیل سے فرار ہونے والے ملزم حفیظ کے مقدمے کے مدعی مقتول کے ماں باپ کو عدالت میں پریشان اور روتا ہوا دیکھ کر عدالت میں موجود قیدی پھٹ پڑے ،جیل حکام کا راز فاش کردیا .
قیدیوں نے بتایا کہ جیل میں دہرا معیار اپنایا جارہا ہے، قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث اعلیٰ شخصیت اور دولت مند قیدیوں کو مکمل وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے،جیل کا تمام کام ہیڈ کلرک رفیق چنہ کرتا ہے جسے غیرقانونی طور پر ٹاور انچارج تعینات کیا گیا ہے اس نے قتل کے قیدی حفیظ رشید کو جونائیل جیل کے سپرنٹنڈنٹ اورنگ زیب کنگو کے پاس گھریلو کام کیلیے بھیجا تھا، چند روز تک 2 اہلکار اس کی نگرانی کرتے رہے ، بعدازاں اسے اکیلا ہی بھیجا جاتا رہا، اس نے پہلے اہلکاروں کواعتماد میں لیا ،کام ختم ہونے کے بعد از خود جیل آجاتا تھا ،10فروری کو اس کی پیشی تھی اسے جان بوجھ کر نہیں بھیجا گیا تھا ملزم موقع کی تلاش میں تھا۔
ایک لنگڑے قیدی کو اس معاملے کا علم تھا ،جیل حکام نے جیل میں دہرا معیار اپنایا ہوا ہے، دولت مند قیدی شاہ رخ جتوئی کی وجہ سے رفیق چنہ کو ٹاور انچارج بنایا گیا ہے جس نے شاہ رخ جتوئی کو زرداری وارڈ میں وی آئی پی بی کلاس دی ہوئی ہے جسے صبح9 بجے ماڑی بھیج دیا جاتا ہے جہاں اس کے اہل خانہ روزانہ ملاقات کرتے ہیں اور شام گئے تک وہ ماڑی میں ہی رہتا ہے ،تمام اہل خانہ روزانہ آتے ہیںملزم کو آرام دہ رہائش دی گئی ہے۔
ایس ایس پی بھی اپنی بیوی کے قتل میںقید ہے لیکن اسے ماڑی میں پرائیوٹ کمرا دیا ہوا ہے اس کمرے میں بیڈ ، کرسیاں میز اور تمام سہولت فراہم کی ہوئی ہیں جبکہ اس کے بچے بھی روزانہ ملنے آتے ہیں، وارڈ میں آنے کیلیے محکمہ داخلہ کی بھی اجازت نہیں ملتی لیکن اس کے دوست احباب روزانہ آتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں ، بی کلاس کی کھولیاں 5لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہیں ، دو اور3 لاکھ روپے میں اسپتال رہنے کیلیے ادا کرتے ہیں ، گٹکا جیل میں لانا منوعہ ہے لیکن رفیق روزانہ 10گٹکے فراہم کرتا ہے، تمام کام جیل سپرنٹنڈنٹ اور رفیق کی ملی بھگت سے ہورہا ہے ،قیدی کے فرار میں ان ہی افراد کو ہاتھ ہے۔
قیدیوں نے بتایا کہ جیل میں دہرا معیار اپنایا جارہا ہے، قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث اعلیٰ شخصیت اور دولت مند قیدیوں کو مکمل وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے،جیل کا تمام کام ہیڈ کلرک رفیق چنہ کرتا ہے جسے غیرقانونی طور پر ٹاور انچارج تعینات کیا گیا ہے اس نے قتل کے قیدی حفیظ رشید کو جونائیل جیل کے سپرنٹنڈنٹ اورنگ زیب کنگو کے پاس گھریلو کام کیلیے بھیجا تھا، چند روز تک 2 اہلکار اس کی نگرانی کرتے رہے ، بعدازاں اسے اکیلا ہی بھیجا جاتا رہا، اس نے پہلے اہلکاروں کواعتماد میں لیا ،کام ختم ہونے کے بعد از خود جیل آجاتا تھا ،10فروری کو اس کی پیشی تھی اسے جان بوجھ کر نہیں بھیجا گیا تھا ملزم موقع کی تلاش میں تھا۔
ایک لنگڑے قیدی کو اس معاملے کا علم تھا ،جیل حکام نے جیل میں دہرا معیار اپنایا ہوا ہے، دولت مند قیدی شاہ رخ جتوئی کی وجہ سے رفیق چنہ کو ٹاور انچارج بنایا گیا ہے جس نے شاہ رخ جتوئی کو زرداری وارڈ میں وی آئی پی بی کلاس دی ہوئی ہے جسے صبح9 بجے ماڑی بھیج دیا جاتا ہے جہاں اس کے اہل خانہ روزانہ ملاقات کرتے ہیں اور شام گئے تک وہ ماڑی میں ہی رہتا ہے ،تمام اہل خانہ روزانہ آتے ہیںملزم کو آرام دہ رہائش دی گئی ہے۔
ایس ایس پی بھی اپنی بیوی کے قتل میںقید ہے لیکن اسے ماڑی میں پرائیوٹ کمرا دیا ہوا ہے اس کمرے میں بیڈ ، کرسیاں میز اور تمام سہولت فراہم کی ہوئی ہیں جبکہ اس کے بچے بھی روزانہ ملنے آتے ہیں، وارڈ میں آنے کیلیے محکمہ داخلہ کی بھی اجازت نہیں ملتی لیکن اس کے دوست احباب روزانہ آتے ہیں اور شام کو واپس جاتے ہیں ، بی کلاس کی کھولیاں 5لاکھ روپے میں فروخت ہوتی ہیں ، دو اور3 لاکھ روپے میں اسپتال رہنے کیلیے ادا کرتے ہیں ، گٹکا جیل میں لانا منوعہ ہے لیکن رفیق روزانہ 10گٹکے فراہم کرتا ہے، تمام کام جیل سپرنٹنڈنٹ اور رفیق کی ملی بھگت سے ہورہا ہے ،قیدی کے فرار میں ان ہی افراد کو ہاتھ ہے۔