میں جھوٹ نہیں بولتا

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کچھ اداروں اور قوانین کو بھی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ کا ذمے دار قرار دیا۔

ayazkhan@express.com.pk

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی پھر ایک پیج پر آ گئی ہیں۔ دونوں جماعتوں میں بظاہر جو دوریاں نظر آ رہی تھیں وہ ایک ہی دن میں چند گھنٹوں کے درمیان ختم ہو گئیں۔

اس پیج کا عنوان ہے ''احتساب''۔ یہ کہانی شروع ہوتی ہے وزیر اعظم کے بہاولپور میں بلدیاتی نمایندوں سے خطاب کے ساتھ۔ وزیر اعظم نے فرمایا ''قومی احتساب بیورو(نیب) غلط اور صحیح دیکھے بغیر لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گھس جاتا ہے، تصدیق کے بغیر لوگوں کو تنگ کرنا قابل برداشت ہے نہ لوگوں کی عزتیں اچھالنا درست۔ معصوم لوگوں پر ہاتھ ڈالنا اور سرکاری افسروں کو خوفزدہ کرنا قبول نہیں''۔ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کو وارننگ بھی دی کہ وہ اس صورتحال کا خود نوٹس لیں ورنہ قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

نواز شریف صاحب کے اس بیان کی بازگشت ابھی جاری تھی کہ سابق صدر آصف علی زرداری بھی میدان میں کود پڑے۔ یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ، زرداری و نواز۔ وہ گویا ہوئے میاں صاحب یہی تو ہم کہتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کو مہینوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔ آپ کا اپنا وزیر کہہ چکا کہ ڈاکٹر عاصم نے کرپشن یا چوری نہیں کی۔ نیب کے ساتھ ساتھ میاں صاحب آپ کی ایف آئی اے بھی اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔

یہ تو اچھا ہوا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے ایف آئی اے کو میاں صاحب کے کھاتے میں ڈالا ورنہ اس بات کی قوی امید تھی کہ وہ اس ایجنسی کو وزیر داخلہ چوہدری نثار کے کھاتے میں ڈال دیتے۔ پیپلز پارٹی کے کچھ اور رہنما اپنے قائد کی حمایت میں سامنے آئے اور انھوں نے رینجرز کو بھی ہدف تنقید بنایا۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کچھ اداروں اور قوانین کو بھی ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ کا ذمے دار قرار دیا۔ میاں صاحب کی خطابت اور زرداری صاحب کی بیان بازی کے بعد مجھے چوہدری شجاعت کی چند دن پہلے کہی گئی بات یاد آئی۔ چوہدری صاحب نے کہا تھا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں لڑائی عارضی ہے یہ دونوں بہت جلد پھر گھی شکر ہو جائیں گے۔

عمران خان بھی ان دونوں جماعتوں پر مک مکا کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ نواز شریف اورآصف علی زرداری نے نیب کو براہ راست نشانہ بنایا ہے جب کہ کچھ باتیں اشاروں کنایوں میں بھی کہی ہیں۔ یہ اشارے کس ادارے کی طرف ہیں یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہا ''ووٹ عوام دیتے ہیں، حکومت کوئی اور توڑ دیتا ہے''۔ زرداری بولے ''18ویں ترمیم کے خلاف مسلسل کام ہو رہا ہے''۔ اشارے واضح ہیں اور میرے خیال میں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

وزیر اعظم نے اچانک نیب کو نشانے پر کیوں رکھا؟ ماہرین اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح و توضیح کر رہے ہیں۔ اچانک کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کیونکہ اس سے پہلے میاں صاحب نے اشارتاً بھی نیب پر تنقید نہیں کی۔ اور پھر زیادہ وقت نہیں گزرا جب حکومت کے وزراء نیب کی کارکردگی کو بہترین قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اتنی تعریفیں انھوں نے کسی اور ادارے کی نہیں کیں۔ نیب پر تنقید کا صرف ایک موقع آیا تھا جب اس نے سپریم کورٹ میں کچھ ہائی پروفائل کیسز کی فہرست پیش کی تھی۔

ان کیسز میں وزیر اعظم کے خلاف اختیارات سے تجاوز، خزانے کو نقصان پہنچانے اور ایف آئی اے میں غیر قانونی بھرتیوں کے الزامات وغیرہ شامل ہیں۔ نیب کا کہنا ہے کہ رائے ونڈ فارم ہاؤس تک سڑک کی تعمیر سے وزیر اعظم نے قومی خزانے کو 12کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا تھا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق کیس کی انکوائری 31مارچ تک مکمل ہونی ہے جب کہ دیگر معاملات پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔


کچھ اور قیمتی لوگوں کے کیس بھی نیب میں زیر سماعت ہیں۔ ایک کاروباری شخصیت کے خلاف عدالتوں نے نیب کو کارروائی سے روک رکھا ہے۔ ایک اور کاروباری شخصیت جس کا آئل اینڈ گیس کے شعبے سے تعلق ہے وہ بھی نیب کی زد میں ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس شخصیت کی ذمے داری ایل پی جی کے کوٹے دینا تھا۔ یہ کوٹے جیالوں کو بیرون ملک سے طلب کر کے بھی دیے گئے۔ ایک اور کاروباری گھرانے کے چشم و چراغ جو اس وقت وفاقی حکومت میں مشیر ہیں ان پر بھی نیب کی نظر ہے۔ حکمرانوں کے کچھ اور لاڈلے بھی نیب کے دائرے میں ہیں۔ دیکھیں یہ نیب کی گرفت میں آتے ہیں یا حکومت نیب کو اپنی پکڑ میں لیتی ہے۔

مجھے یاد ہے جب ن لیگ والے نیب کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے تو میں نے ان سے گذارش کی تھی کہ جب نیب کے ہاتھ ان تک پہنچیں تب بھی تعریف کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔ ایسا کہنا آسان ہوتا ہے مگر کرنا بہت مشکل۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ نیب 12 اہم افراد کو گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن ن لیگ رکاوٹ بن گئی ہے۔

شیخ صاحب کی بات میں وزن ہے۔ ان افراد میں سے کچھ کا ذکر میں نے اوپر کر دیا ہے' دیگر کے نام بھی جلد سامنے آ جائیں گے جب کہ کچھ نام پہلے سے ہی مارکیٹ میں چل رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ پنجاب میں بھی کرپشن کے خلاف نیب کی کارروائی شروع ہونے کی نوید کئی بار سنی گئی تھی۔ امید تھی کہ جنوری میں کچھ ہائی پروفائل کیسز میں مطلوب افراد پر ہاتھ ڈالا جائے گا مگر پھر سب کچھ ٹھنڈا پڑ گیا۔ ممکن ہے اب اس میں تیزی لانے کی کوشش ہو رہی ہو جو شریف حکومت کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

وزیر اعظم نیب پر برسے ہیں تو اس کی یقیناً کوئی ٹھوس وجہ ہو گی۔ حالات و واقعات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اس وقت مضبوط ترین پوزیشن میں ہے۔ قومی اسمبلی میں اس کے پاس اتنی اکثریت ہے کہ وہ کوئی بھی قانون سازی کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کو قانونی کارروائی کی دھمکی بلاوجہ نہیں دی۔ نیب کے اختیارات کے حوالے سے کوئی قانون سازی کرنا چاہیں تو پیپلزپارٹی دل و جان کے ساتھ ان کی سائیڈ پر ہو گی۔

اب تو پاکستان تحریک انصاف سے بھی توقع نہیں کہ وہ حکومت کی مخالفت کر سکے۔ خیبر پختون خوا کی حکومت نے احتساب کے حوالے سے جو ترامیم کی ہیں اس کے بعد پی ٹی آئی والے بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی صف میں کھڑے نظر آ رہے ہیں۔ حکومت کو اپوزیشن سے بھی کوئی خطرہ نہیں۔ ''جمہوریت'' بچانے کے لیے سب میں گٹھ جوڑ ہے۔ فوج نے دھرنے کے دنوں میں حکومت کو کچھ نہیں کہا تو اب کیوں کہے گی۔

وزیر اعظم اورآرمی چیف میں جتنی ملاقاتیں ہوتی ہیں اتنی تو میاں صاحب کی اپنے کسی وزیر سے بھی نہیں ہوتیں۔ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا جب گوادر ہوشاب شاہراہ کے افتتاح کے موقع پر آرمی چیف گاڑی چلا رہے تھے اور وزیر اعظم فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ تصویر جب اخبارات کے فرنٹ پیج پر شایع ہوئی تو اسے بڑا خوش آیند قرار دیا گیا۔

ایک دوست نے اس پر دلچسپ تبصرہ کیا جو کچھ یوں تھا''آرمی چیف جمہوریت کی گاڑی چلا رہے ہیں''۔ اتنا کچھ پازیٹو ہو تو پھر نیب پر چڑھائی سمجھ سے باہر ہے۔ ممکن ہے زرداری صاحب کو یہ پیغام دیا گیا ہو کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف نیب کی کارروائی کے ہم بھی خلاف ہیں۔ شیخ رشید کی بات بھی درست ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے کوئی ایسی بات بھی ہو جو میرے جیسے عام آدمی کی سمجھ میں نہیں آ سکتی۔

وزیر اعظم جس پوزیشن میں ہیں انھیں حالات کا بہتر ادراک ہے لیکن نیب جیسے ادارے پر چڑھائی انھیں زیب نہیں دیتی۔

نیب کیا کرتا ہے یا اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ بات وزیر اعظم کے خطاب سے شروع ہوئی تھی کیوں نہ ختم بھی اسی پر کی جائے۔ وزیر اعظم نے کہا میں جھوٹ نہیں بولتا۔ آئیں ہم سب ان کی ہر بات کو سچ مان لیں۔
Load Next Story