ہمدرد و مسیحا قوم پر رحم کریں
پاکستانی عوام کو جتنے ہمہ وقتی سیاسی، سماجی، مذہبی، لسانی اور انسانیت کے علمبردار ہمدرد و مسیحا میسر ہیں
پاکستانی عوام کو جتنے ہمہ وقتی سیاسی، سماجی، مذہبی، لسانی اور انسانیت کے علمبردار ہمدرد و مسیحا میسر ہیں شاید ہی دنیا کے کسی اور ملک کے باشندوں کو نصیب ہوں۔ اسلام، رواداری اور مساوات کے نام آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کے قیام کے ساتھ ہی عالمی سامراج اور اس کے کھلے چھپے ایجنٹوں نے اس نوزائیدہ ملک کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا جس کے نتیجے میں اسلامی نظام اور جمہوریت دونوں محض نعرہ بن کر رہ گئے۔
وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کی وجہ سے بھوک غربت، جہالت، مذہبی و لسانی عصبیت و تقسیم، اقربا پروری، رشوت ستانی و بدعنوانی، معاشی پسماندگی اور امیر و غریب کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے قانون شکنی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ قوم کے ہمدرد و مسیحا نئے نئے کرتبوں، کرشمہ سازیوں، نعروں اور چالوں سے قوم کو ہیپناٹائز کیے ہوئے ہیں عوام ان کے لیے جانیں دینے اور لینے سے بھی احتراز نہیں برتتے اور کسی اچھے اور معجزے کی امید پر اپنا مستقبل بار بار داؤ پر لگاتے رہتے ہیں۔
مزدور راج، عوام راج، اسلامی نظام اور روشن پاکستان کے نام پر بار بار نیا پاکستان بنانے والوں کے لیے قربانیاں دینے کھڑے ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ ملک و معیشت کو نقصان سے دوچار کرنے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ ملک مستقل اندرونی و بیرونی بحرانوں سے دوچار رہتا ہے سیاسی بازی گر اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ ملک و بیرون ملک اثاثے جمع کر کے اپنے حواریوں سمیت پر تعیش زندگیاں گزارتے ہیں، محرومیاں و مصائب عوام کا مقدر بنتی ہیں۔
سیاسی و مذہبی رہنما انتخابات جیتنے اور دیگر مہمات سر کرنے کے لیے خوشنما، ناقابل عمل اور ناقابل فہم قسم کے پرفریب اور غیر حقیقی دعوے نعرے بلند کر کے مسند اقتدار کو حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کرنے عوام دوست قانون سازی کرنے اور حکومت کو تجاویز دینے اور غلط اقدام کو روکنے کی بجائے سازشوں کے جال بنتے اور غیر جمہوری و غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
اب تو باقاعدہ دھرنوں اور ریلیوں کی نئی ریت پڑ چکی ہے۔ دھرنے دینا اور کسی گروہ یا طبقے کی جانب سے دیے گئے دھرنوں، ریلیوں اور ہڑتالوں کی پشت پناہی کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ، میڈیا کی بھرپور تشہیر و دلچسپی اور عوام کی جذباتی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔
شعور سے عاری عوام اس پہلو کو قطعی طور پر نظرانداز کر بیٹھے ہیں کہ کم از کم اس بات پر تو غور کر لیں کہ وہ جس سیاسی جماعت کا ایندھن بننے جا رہے ہیں اس کے عزائم اور نظریات کیا ہیں؟ کیا اس کے دعوے اور منشور عقلی، عملی اور قانونی اعتبار سے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں؟ اس لیڈر یا جماعت کا کردار اور ماضی کیا رہا ہے؟
اب تو یہ بات روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور لیڈر اقتدار و اختیار کی جنگ میں قومی و عوامی مفادات کے بجائے تمام تر ترجیح و توجہ سیاسی جوڑ توڑ، بلیک میلنگ، صوبائی، لسانی، مذہبی و طبقاتی تقسیم کے ذریعے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز رکھتی ہیں۔
ان میں سیاسی جمہوری، فوجی آمروں کے علاوہ درآمدی سربراہان حکومت، انقلابی نجات دہندے سب شامل ہیں جن کے ہاتھوں عوام اس توقع پر بار بار دھوکہ کھاتی ہے کہ شاید کسی جماعت، کسی دھرنے، کسی کنٹینر سے کوئی ایسا لیڈر، مجاہد یا مسیحا برآمد ہو جو ان کے درد کا درماں کر سکے مگر ان کے نصیب میں وہ ہی حکمراں آتے ہیں جو سامراجی، معاشی و سیاسی غلامی کی وجہ سے قومی و عوامی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں، ملکی اداروں کی بجائے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او جیسے سامراجی اداروں کے تابعدار ہوتے ہیں۔
معاشی و داخلی اور خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے بھی بیرونی طاقتوں اور اداروں کی مرضی و منشا کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اقتدار سے محروم سیاستدان بھی اپنے مفادات کے تحت غیر مرئی قوتوں کے اشارے پر سارا نظام تل پٹ کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اسمبلیوں کی بجائے سڑکوں پر دھرنے، جلوس اور ریلیاں نہ صرف حکومت کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ عوام کے لیے بھی اذیت و مشکلات کا باعث بنتی ہیں اور معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے سامراجی اداروں کی ہدایت اور شرائط پر ملک کی بنیادی صنعتوں، عوامی مفاد اور سماجی شعبے کے اداروں کی نجکاری کا تسلسل پچھلے 25 برسوں سے ہر سیاسی و فوجی حکومت میں جاری و ساری ہے۔ نجکاری کا بنیادی مقصد خسارے میں چلنے والی صنعتوں کو بحال کرنا اور مسلسل بیمار صنعتوں کی نجکاری کرنا تھا لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا۔ انتہائی منافع بخش اور حساس قومی اداروں کی بھی نجکاری کر دی گئی۔
PTCL جیسے حساس و دفاعی نوعیت اور انتہائی منافع بخش ادارے کو جس کی افرادی قوت 65 ہزار تھی اربوں روپے کا منافع کما رہا تھا، ملازمین کے احتجاج اور ماہرین کے اعتراضات کے باوجود پرائیویٹائز کر دیا گیا۔ اسٹیل ملز جیسے دفاعی نوعیت کے حامل ادارے کو جس کے ملازمین کی تعداد 25 ہزار سے زائد تھی، جس کا صنعتی پلانٹ اور 30 مربع کلومیٹر پر پھیلی زمین کی قیمت ہی کھربوں روپے بنتی تھی جو حکومت کو سالانہ 5 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں ادا کرتا تھا محض 20 ارب روپے میں فروخت کرنے کا سودا کر دیا گیا تھا اگر سپریم کورٹ از خود کارروائی نہیں کرتی تو یہ قومی ادارہ قومی افق سے غائب ہو چکا ہوتا۔
سیاسی مداخلت اور لوٹ مار کی وجہ سے آج اس ادارے کے ملازمین کو پانچ پانچ ماہ بعد تنخواہیں مل رہی ہیں ملازمین کو میڈیکل، ریٹائرمنٹ واجبات، پراویڈنٹ فنڈ سمیت کسی قسم کی سہولیات اور حقوق حاصل نہیں ہیں ملازمین اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں مگر اس قسم کے ادارے اور اس میں ملازمین کے ساتھ روا ظلم و زیادتی پر سیاسی رہنماؤں اور مسیحاؤں کی آنکھیں بند رہتی ہیں وہ تو ان موضوعات کو پکڑتے ہیں جن میں بلیک میلنگ و سیاسی دباؤ کے ذریعے شہرت اور مفادات حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں۔
حال ہی میں پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال پر سیاسی ہمدردوں اور مسیحاؤں نے ملازمین اور انتظامیہ میں مصالحت کرانے یا حکومت کو تنازعہ کے حل کے سلسلے میں تجاویز و سفارشات پیش کرنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کیا اور فریقین کے مابین تناؤ اور اشتعال کی فضا کو مزید بڑھایا۔ جس کی وجہ سے 900 پروازیں منسوخ ہوئیں، لاکھوں مسافر اذیت و پریشانی سے دوچار ہوئے قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا دو انسانی زندگیاں ضایع ہوئیں ادارے میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ ہوا درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ، سیکڑوں کو شوکاز اور تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا۔
حیرت کی بات ہے پی آئی اے میں لازمی سروسز ایکٹ کی سب سے بڑی مخالف پی ٹی آئی نے اپنے مفاد کی خاطر KPK میں خود یہی قانون نافذ کیا جو اس کے متضاد رویے اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے حکومت کو 5 مطالبات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ سڑکوں پر نکلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سارے معاملات سڑکوں پر ہی طے کیے جانے ہیں تو پھر ان کے اسمبلیوں میں براجمان ہونے کا کیا جواز ہے۔ بلدیہ فیکٹری میں 200 مزدور زندہ جلا دیے گئے جن کے لواحقین آج بھی داد رسی کے منتظر ہیں، تھرپارکر میں بھوک و بیماریوں سے ہلاکتوں کا لامتناہی سلسلہ سالوں سے چل رہا ہے۔
سیلاب متاثرین، آئی ڈی پیز اور زلزلہ متاثرین کی بحالی کا کام کئی حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود تعطل کا شکار ہے ان سے بڑا انسانی المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ کاش ان کے لیے بھی کوششیں کی جاتیں، کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جاتا، کسی دھرنے و احتجاج میں ان کے لیے بھی آواز بلند کی جاتی۔ قوم طویل ترین دھرنوں اور ہڑتالوں کا بوجھ سہار چکی ہے ملک کی موجودہ سیاسی انتشار، معاشی ابتری اور بیروزگاری و بے امنی کی فضا میں جہاں روزمرہ اشیا کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں، عوام کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے ایسے میں وہ مزید دھرنوں، ہڑتالوں اور نج کاری کے نتیجے میں مزید بیروزگاری کی متحمل نہیں ہو سکتے۔ کاش ہمارے سیاستدان و حکمران اور خود عوام اس بات کا ادراک و شعور پیدا کریں۔
وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کی وجہ سے بھوک غربت، جہالت، مذہبی و لسانی عصبیت و تقسیم، اقربا پروری، رشوت ستانی و بدعنوانی، معاشی پسماندگی اور امیر و غریب کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی جس کی وجہ سے قانون شکنی اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا، لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ قوم کے ہمدرد و مسیحا نئے نئے کرتبوں، کرشمہ سازیوں، نعروں اور چالوں سے قوم کو ہیپناٹائز کیے ہوئے ہیں عوام ان کے لیے جانیں دینے اور لینے سے بھی احتراز نہیں برتتے اور کسی اچھے اور معجزے کی امید پر اپنا مستقبل بار بار داؤ پر لگاتے رہتے ہیں۔
مزدور راج، عوام راج، اسلامی نظام اور روشن پاکستان کے نام پر بار بار نیا پاکستان بنانے والوں کے لیے قربانیاں دینے کھڑے ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ ملک و معیشت کو نقصان سے دوچار کرنے کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ ملک مستقل اندرونی و بیرونی بحرانوں سے دوچار رہتا ہے سیاسی بازی گر اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ ملک و بیرون ملک اثاثے جمع کر کے اپنے حواریوں سمیت پر تعیش زندگیاں گزارتے ہیں، محرومیاں و مصائب عوام کا مقدر بنتی ہیں۔
سیاسی و مذہبی رہنما انتخابات جیتنے اور دیگر مہمات سر کرنے کے لیے خوشنما، ناقابل عمل اور ناقابل فہم قسم کے پرفریب اور غیر حقیقی دعوے نعرے بلند کر کے مسند اقتدار کو حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ناکامی کی صورت میں اسمبلیوں میں اپنا کردار ادا کرنے عوام دوست قانون سازی کرنے اور حکومت کو تجاویز دینے اور غلط اقدام کو روکنے کی بجائے سازشوں کے جال بنتے اور غیر جمہوری و غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔
اب تو باقاعدہ دھرنوں اور ریلیوں کی نئی ریت پڑ چکی ہے۔ دھرنے دینا اور کسی گروہ یا طبقے کی جانب سے دیے گئے دھرنوں، ریلیوں اور ہڑتالوں کی پشت پناہی کر کے اپنے مفادات حاصل کرنا سیاستدانوں کا پسندیدہ مشغلہ، میڈیا کی بھرپور تشہیر و دلچسپی اور عوام کی جذباتی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔
شعور سے عاری عوام اس پہلو کو قطعی طور پر نظرانداز کر بیٹھے ہیں کہ کم از کم اس بات پر تو غور کر لیں کہ وہ جس سیاسی جماعت کا ایندھن بننے جا رہے ہیں اس کے عزائم اور نظریات کیا ہیں؟ کیا اس کے دعوے اور منشور عقلی، عملی اور قانونی اعتبار سے قابل عمل بھی ہیں یا نہیں؟ اس لیڈر یا جماعت کا کردار اور ماضی کیا رہا ہے؟
اب تو یہ بات روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور لیڈر اقتدار و اختیار کی جنگ میں قومی و عوامی مفادات کے بجائے تمام تر ترجیح و توجہ سیاسی جوڑ توڑ، بلیک میلنگ، صوبائی، لسانی، مذہبی و طبقاتی تقسیم کے ذریعے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول پر مرکوز رکھتی ہیں۔
ان میں سیاسی جمہوری، فوجی آمروں کے علاوہ درآمدی سربراہان حکومت، انقلابی نجات دہندے سب شامل ہیں جن کے ہاتھوں عوام اس توقع پر بار بار دھوکہ کھاتی ہے کہ شاید کسی جماعت، کسی دھرنے، کسی کنٹینر سے کوئی ایسا لیڈر، مجاہد یا مسیحا برآمد ہو جو ان کے درد کا درماں کر سکے مگر ان کے نصیب میں وہ ہی حکمراں آتے ہیں جو سامراجی، معاشی و سیاسی غلامی کی وجہ سے قومی و عوامی مفادات کے بجائے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کو فوقیت دیتے ہیں، ملکی اداروں کی بجائے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ڈبلیو ٹی او جیسے سامراجی اداروں کے تابعدار ہوتے ہیں۔
معاشی و داخلی اور خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہوئے بھی بیرونی طاقتوں اور اداروں کی مرضی و منشا کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اقتدار سے محروم سیاستدان بھی اپنے مفادات کے تحت غیر مرئی قوتوں کے اشارے پر سارا نظام تل پٹ کرنے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اسمبلیوں کی بجائے سڑکوں پر دھرنے، جلوس اور ریلیاں نہ صرف حکومت کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں بلکہ عوام کے لیے بھی اذیت و مشکلات کا باعث بنتی ہیں اور معیشت کو بھی اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے سامراجی اداروں کی ہدایت اور شرائط پر ملک کی بنیادی صنعتوں، عوامی مفاد اور سماجی شعبے کے اداروں کی نجکاری کا تسلسل پچھلے 25 برسوں سے ہر سیاسی و فوجی حکومت میں جاری و ساری ہے۔ نجکاری کا بنیادی مقصد خسارے میں چلنے والی صنعتوں کو بحال کرنا اور مسلسل بیمار صنعتوں کی نجکاری کرنا تھا لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا۔ انتہائی منافع بخش اور حساس قومی اداروں کی بھی نجکاری کر دی گئی۔
PTCL جیسے حساس و دفاعی نوعیت اور انتہائی منافع بخش ادارے کو جس کی افرادی قوت 65 ہزار تھی اربوں روپے کا منافع کما رہا تھا، ملازمین کے احتجاج اور ماہرین کے اعتراضات کے باوجود پرائیویٹائز کر دیا گیا۔ اسٹیل ملز جیسے دفاعی نوعیت کے حامل ادارے کو جس کے ملازمین کی تعداد 25 ہزار سے زائد تھی، جس کا صنعتی پلانٹ اور 30 مربع کلومیٹر پر پھیلی زمین کی قیمت ہی کھربوں روپے بنتی تھی جو حکومت کو سالانہ 5 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں ادا کرتا تھا محض 20 ارب روپے میں فروخت کرنے کا سودا کر دیا گیا تھا اگر سپریم کورٹ از خود کارروائی نہیں کرتی تو یہ قومی ادارہ قومی افق سے غائب ہو چکا ہوتا۔
سیاسی مداخلت اور لوٹ مار کی وجہ سے آج اس ادارے کے ملازمین کو پانچ پانچ ماہ بعد تنخواہیں مل رہی ہیں ملازمین کو میڈیکل، ریٹائرمنٹ واجبات، پراویڈنٹ فنڈ سمیت کسی قسم کی سہولیات اور حقوق حاصل نہیں ہیں ملازمین اور ان کے اہل خانہ فاقہ کشی کی زندگیاں گزار رہے ہیں مگر اس قسم کے ادارے اور اس میں ملازمین کے ساتھ روا ظلم و زیادتی پر سیاسی رہنماؤں اور مسیحاؤں کی آنکھیں بند رہتی ہیں وہ تو ان موضوعات کو پکڑتے ہیں جن میں بلیک میلنگ و سیاسی دباؤ کے ذریعے شہرت اور مفادات حاصل کرنے کے مواقع موجود ہوں۔
حال ہی میں پی آئی اے ملازمین کی ہڑتال پر سیاسی ہمدردوں اور مسیحاؤں نے ملازمین اور انتظامیہ میں مصالحت کرانے یا حکومت کو تنازعہ کے حل کے سلسلے میں تجاویز و سفارشات پیش کرنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کیا اور فریقین کے مابین تناؤ اور اشتعال کی فضا کو مزید بڑھایا۔ جس کی وجہ سے 900 پروازیں منسوخ ہوئیں، لاکھوں مسافر اذیت و پریشانی سے دوچار ہوئے قومی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا دو انسانی زندگیاں ضایع ہوئیں ادارے میں لازمی سروسز ایکٹ نافذ ہوا درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ، سیکڑوں کو شوکاز اور تبادلوں کا سامنا کرنا پڑا۔
حیرت کی بات ہے پی آئی اے میں لازمی سروسز ایکٹ کی سب سے بڑی مخالف پی ٹی آئی نے اپنے مفاد کی خاطر KPK میں خود یہی قانون نافذ کیا جو اس کے متضاد رویے اور عزائم کو ظاہر کرتا ہے۔ ڈیرہ مراد جمالی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے حکومت کو 5 مطالبات پر مبنی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو وہ سڑکوں پر نکلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سارے معاملات سڑکوں پر ہی طے کیے جانے ہیں تو پھر ان کے اسمبلیوں میں براجمان ہونے کا کیا جواز ہے۔ بلدیہ فیکٹری میں 200 مزدور زندہ جلا دیے گئے جن کے لواحقین آج بھی داد رسی کے منتظر ہیں، تھرپارکر میں بھوک و بیماریوں سے ہلاکتوں کا لامتناہی سلسلہ سالوں سے چل رہا ہے۔
سیلاب متاثرین، آئی ڈی پیز اور زلزلہ متاثرین کی بحالی کا کام کئی حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود تعطل کا شکار ہے ان سے بڑا انسانی المیہ کیا ہو سکتا ہے۔ کاش ان کے لیے بھی کوششیں کی جاتیں، کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا جاتا، کسی دھرنے و احتجاج میں ان کے لیے بھی آواز بلند کی جاتی۔ قوم طویل ترین دھرنوں اور ہڑتالوں کا بوجھ سہار چکی ہے ملک کی موجودہ سیاسی انتشار، معاشی ابتری اور بیروزگاری و بے امنی کی فضا میں جہاں روزمرہ اشیا کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں، عوام کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے ایسے میں وہ مزید دھرنوں، ہڑتالوں اور نج کاری کے نتیجے میں مزید بیروزگاری کی متحمل نہیں ہو سکتے۔ کاش ہمارے سیاستدان و حکمران اور خود عوام اس بات کا ادراک و شعور پیدا کریں۔