کراچی امن و امان کیس کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ
کراچی بد امنی کیس کے عبوری حکم میں سپریم کورٹ نے کم از کم یہ نہیں کہا کہ سندھ حکومت اپنا آئینی جواز کھو چکی ہے۔
کراچی امن و امان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے قائم کیے گئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کراچی رجسٹری میں تقریباً دو ہفتے کی سماعت کے بعد اگلے روز عبوری حکم جاری کردیا ۔
حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ بلوچستان بد امنی کیس کی طرح کراچی بد امنی کیس کے عبوری حکم میں سپریم کورٹ نے کم از کم یہ نہیں کہا کہ سندھ حکومت اپنا آئینی جواز کھو چکی ہے ۔ واضح رہے کہ بلوچستان بد امنی کیس کے عبوری حکم میں سپریم کورٹ بلوچستان حکومت کے آئینی جواز پر سوال اٹھا چکی ہے ، جس کی وجہ سے بلوچستان میں اس وقت آئینی بحران ہے ۔ سندھ حکومت سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے اگر چہ ممکنہ آئینی بحران سے بچ گئی ہے لیکن عبوری حکم میں کئی جگہ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت سندھ کو ناکام قرار دیا گیا ہے ۔
لارجر بینچ نے اپنے عبوری حکم میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال سے نمٹنے میں حکومت سندھ کا کردار بد نیتی پر مبنی ہے اور اگر حکومت سندھ کی یہی روش رہی تو کبھی امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سندھ پولیس کی رپورٹ الارمنگ ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم پر پورے سندھ میں بحث جاری ہے ۔
سندھ خصوصاً کراچی کے عوام کو سپریم کورٹ سے بڑی امید تھی ۔ عوام اس بات کا شدت سے انتظار کریں گے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہو اور کراچی ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے ، لیکن لگتا ہے کہ کراچی میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا اس کا سبب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس میں 13 ستمبر 2011 ء میں فیصلہ سنایا تھا اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی سربراہی میں ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ یہ کمیٹی حکومت سندھ کے اقدامات کی مانیٹرنگ کرتی رہی اور اس سے رپورٹس بھی طلب کرتی رہی ۔ کمیٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی دوبارہ سماعت کی اور پھر عبوری حکم جاری کیا ۔ یہ عبوری حکم اس طرح ایک دوسرا حکم ہے کہ جو پہلے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے جاری ہوا ہے ۔ اب دوسرے حکم پر عملدرآمد کیسے ہوگا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اگر سپریم کورٹ کے دوسرے حکم پر من و عن عملدرآمد ہو بھی جائے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کراچی شہر میں امن قائم ہوجائے گا ۔ کراچی کے عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے خلاف پولیس اور دیگر اداروں کی نام نہاد کارروائی ، بغیر رجسٹریشن گاڑیوں کے خلاف قواعد و ضوابط کے مطابق اجراء اور غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن جیسے اقدامات سے عام جرائم میں ضرور کمی ہوگی لیکن دہشت گردی پر کنٹرول پھر بھی ممکن نہیں ۔ کراچی کے مسئلے کو مذکورہ بالا مسائل سے قطعی طور پر جوڑ دینے سے الجھن تو پیدا ہوگی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے عبوری حکم میں سب سے اہم بات پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کے حوالے سے ہے ۔ سپریم کورٹ نے 35 خطرناک ملزمان کی پے رول پر رہائی کو سندھ حکومت کی بد نیتی سے تعبیر کیا ہے اور سندھ حکومت کو یہ واضح حکم دیا ہے کہ ان خطرناک ملزمان کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے ۔ عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے ضمانتیں مسترد ہونے والے ملزمان کو پے رول پر رہا کرکے متوازی عدالتی نظام قائم کیا ۔ حکومت سندھ نے 2003 ء میں خطرناک قیدیوں کو پے رول پر رہا کیا لیکن وہ واپس جیل میں نہیں آئے ۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ 2003 ء میں قائم ہونے والی سندھ حکومت نے خطرناک مجرموں کو پے رول پر رہا کیا موجودہ حکومت سندھ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ بات درست بھی ہے موجودہ حکومت 2008 ء میں قائم کی گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے متعلقہ اداروں کو ایک خط تحریر کیا تھا کہ پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کو گرفتار کیا جائے لیکن بعدازاں بتایا گیا کہ پے رول پر رہا ہونے والے قیدی ملک سے فرار ہوچکے ہیں ۔ یقیناً سپریم کورٹ کو اس وقت کے وزیراعلیٰ ، وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ سمیت دیگر متعلقہ حکام کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دینے چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی شخص اس طرح کے اقدامات کی جرآت بھی نہ کرسکے ۔
اگلے روز ہی سینٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ پر متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کی گئیں ۔ کمیٹی نے بھی پے رول پر خطرناک ملزمان کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سندھ سے گذشتہ دس سالوں کے دوران پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی ان کی سیاسی وابستگی اور مقدمات کی نوعیت کے ساتھ تفصیلات طلب کرلیں۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کو محکمہ داخلہ نے ایک خط لکھا ہے جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عسکری ونگز ختم کریں ۔ یہ کام کرنے کے لیے حکومت کا سیاسی عزم اہم ہوگا ۔ صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں گذشتہ چھ روز تک مسلسل مختلف اجلاسوں میں امن وا مان کے قیام کو فوقیت دی اور واضح ہدایت دی ہے کہ ہر حال میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کب تک امن قائم کرپائیں گے ؟
حکومت اس بات سے مطمئن ہے کہ بلوچستان بد امنی کیس کی طرح کراچی بد امنی کیس کے عبوری حکم میں سپریم کورٹ نے کم از کم یہ نہیں کہا کہ سندھ حکومت اپنا آئینی جواز کھو چکی ہے ۔ واضح رہے کہ بلوچستان بد امنی کیس کے عبوری حکم میں سپریم کورٹ بلوچستان حکومت کے آئینی جواز پر سوال اٹھا چکی ہے ، جس کی وجہ سے بلوچستان میں اس وقت آئینی بحران ہے ۔ سندھ حکومت سپریم کورٹ کے عبوری حکم سے اگر چہ ممکنہ آئینی بحران سے بچ گئی ہے لیکن عبوری حکم میں کئی جگہ امن و امان کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے حکومت سندھ کو ناکام قرار دیا گیا ہے ۔
لارجر بینچ نے اپنے عبوری حکم میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں امن و امان کی خراب صورت حال سے نمٹنے میں حکومت سندھ کا کردار بد نیتی پر مبنی ہے اور اگر حکومت سندھ کی یہی روش رہی تو کبھی امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا ۔ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے سندھ پولیس کی رپورٹ الارمنگ ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس عبوری حکم پر پورے سندھ میں بحث جاری ہے ۔
سندھ خصوصاً کراچی کے عوام کو سپریم کورٹ سے بڑی امید تھی ۔ عوام اس بات کا شدت سے انتظار کریں گے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہو اور کراچی ایک بار پھر امن کا گہوارہ بن جائے ، لیکن لگتا ہے کہ کراچی میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا اس کا سبب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بد امنی کیس میں 13 ستمبر 2011 ء میں فیصلہ سنایا تھا اور اپنے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی سربراہی میں ایک مانیٹرنگ کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ یہ کمیٹی حکومت سندھ کے اقدامات کی مانیٹرنگ کرتی رہی اور اس سے رپورٹس بھی طلب کرتی رہی ۔ کمیٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں کیس کی دوبارہ سماعت کی اور پھر عبوری حکم جاری کیا ۔ یہ عبوری حکم اس طرح ایک دوسرا حکم ہے کہ جو پہلے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے جاری ہوا ہے ۔ اب دوسرے حکم پر عملدرآمد کیسے ہوگا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
اگر سپریم کورٹ کے دوسرے حکم پر من و عن عملدرآمد ہو بھی جائے تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ کراچی شہر میں امن قائم ہوجائے گا ۔ کراچی کے عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان کے خلاف پولیس اور دیگر اداروں کی نام نہاد کارروائی ، بغیر رجسٹریشن گاڑیوں کے خلاف قواعد و ضوابط کے مطابق اجراء اور غیر قانونی تارکین وطن کی رجسٹریشن جیسے اقدامات سے عام جرائم میں ضرور کمی ہوگی لیکن دہشت گردی پر کنٹرول پھر بھی ممکن نہیں ۔ کراچی کے مسئلے کو مذکورہ بالا مسائل سے قطعی طور پر جوڑ دینے سے الجھن تو پیدا ہوگی مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔
سپریم کورٹ کے عبوری حکم میں سب سے اہم بات پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کے حوالے سے ہے ۔ سپریم کورٹ نے 35 خطرناک ملزمان کی پے رول پر رہائی کو سندھ حکومت کی بد نیتی سے تعبیر کیا ہے اور سندھ حکومت کو یہ واضح حکم دیا ہے کہ ان خطرناک ملزمان کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے ۔ عبوری حکم میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے ضمانتیں مسترد ہونے والے ملزمان کو پے رول پر رہا کرکے متوازی عدالتی نظام قائم کیا ۔ حکومت سندھ نے 2003 ء میں خطرناک قیدیوں کو پے رول پر رہا کیا لیکن وہ واپس جیل میں نہیں آئے ۔
سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ 2003 ء میں قائم ہونے والی سندھ حکومت نے خطرناک مجرموں کو پے رول پر رہا کیا موجودہ حکومت سندھ کا اس سے کوئی تعلق نہیں، یہ بات درست بھی ہے موجودہ حکومت 2008 ء میں قائم کی گئی اور اس وقت کے وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے متعلقہ اداروں کو ایک خط تحریر کیا تھا کہ پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کو گرفتار کیا جائے لیکن بعدازاں بتایا گیا کہ پے رول پر رہا ہونے والے قیدی ملک سے فرار ہوچکے ہیں ۔ یقیناً سپریم کورٹ کو اس وقت کے وزیراعلیٰ ، وزیر داخلہ ، سیکرٹری داخلہ سمیت دیگر متعلقہ حکام کے خلاف سخت کارروائی کے احکامات دینے چاہئیں تاکہ آئندہ کوئی شخص اس طرح کے اقدامات کی جرآت بھی نہ کرسکے ۔
اگلے روز ہی سینٹ کی اسٹیڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر افراسیاب خٹک کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کراچی کی ٹارگٹ کلنگ پر متعلقہ اداروں سے رپورٹس طلب کی گئیں ۔ کمیٹی نے بھی پے رول پر خطرناک ملزمان کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت سندھ سے گذشتہ دس سالوں کے دوران پے رول پر رہا ہونے والے قیدیوں کی ان کی سیاسی وابستگی اور مقدمات کی نوعیت کے ساتھ تفصیلات طلب کرلیں۔ اجلاس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ وسیم احمد نے انکشاف کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سیاسی جماعتوں کو محکمہ داخلہ نے ایک خط لکھا ہے جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے عسکری ونگز ختم کریں ۔ یہ کام کرنے کے لیے حکومت کا سیاسی عزم اہم ہوگا ۔ صدر آصف علی زرداری نے کراچی میں گذشتہ چھ روز تک مسلسل مختلف اجلاسوں میں امن وا مان کے قیام کو فوقیت دی اور واضح ہدایت دی ہے کہ ہر حال میں امن و امان کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کب تک امن قائم کرپائیں گے ؟