مذہبی جماعتوں کا نیا سیاسی اتحاد

جے یو آئی(ف)نے ایم ایم اے کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہے تو جماعت اسلامی نئے اتحاد کی قیادت کے لیے پرتول رہی ہے ۔

مذہبی جماعتوں کے نئے اتحاد کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہوں گے یا سید منور حسن۔ فوٹو ایکسپریس

KARACHI:
مولانا سمیع الحق نے جب دفاع پاکستان کونسل کی بنیاد رکھی تو یہ بات اس وقت سے عیاں تھی کہ عام انتخابات کے قریب آنے پر اس غیر انتخابی اتحاد کے بطن سے انتخابی اتحاد جنم لے گا ۔

حالانکہ یہ اتحاد پاکستان کے دفاع اور نیٹو وامریکی فورسز کو افغانستان کے راستے رسد کی سپلائی کے خلاف بنا، تاہم توقع یہی کی جارہی تھی کہ عام انتخابات کے قریب آنے پر اس اتحاد کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کیاجائے گا اور اب یہی کچھ ہونے جارہا ہے کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن نے جماعت اسلامی اور جے یو آئی(س)دونوں کو باہر رکھتے ہوئے ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کررکھا ہے اور ایسی صورت حال میں اس اتحاد سے باہر رہ جانے والی جماعتوں کے پاس اکھٹے ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

جب سے مولانا فضل الرحمان نے ایم ایم اے کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ کسی دوسرے کی وکٹ پر نہیں کھیلیں گے بلکہ دوسروں کو ان کی مرضی کے مطابق کھیلنا ہوگا، تب سے مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی نے مل کر دیگر مذہبی ودینی جماعتوں پر مشتمل نیا اتحاد بنانے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں جس میں وہ جماعتیں بھی شامل ہوں گی جو انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتیں، تاہم ان کے ورکر بھی موجود ہیں اور وہ فیلڈ میں کام کرنا بھی جانتی ہیں اوراسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی ودینی جماعتوں کے نئے اتحاد کے قیام کے لیے کوششیں شروع کی گئیں جس کا نام اور دیگر معاملات تاحال فائنل نہیں ہوئے اور ابھی یہ بھی نہیں طے پایا کہ اس نئے اتحاد کے سربراہ مولانا سمیع الحق ہوں گے یا سید منور حسن ۔


تاہم ایک بات واضح ہے کہ جس طریقہ سے جے یو آئی(ف)نے ایم ایم اے کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہے اسی طرح جماعت اسلامی اس نئے اتحاد کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے لیے پر تول رہی ہے جو اس اعتبار سے ذرا مشکل ہو گا کہ مولانا سمیع الحق دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین ہونے کے ناطے ایک قدم آگے ہیں اور ان پر دیگر تمام جماعتوں کا متفق ہونا بھی قرین قیاس ہے کیونکہ وہ پہلے ہی ان پر دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر اتفاق کرچکی ہیں۔

ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ مذہبی ودینی جماعتوں کا یہ اکٹھ ایک انتخابی نشان اور جھنڈے کے نیچے ہوگا یا صرف ایک نئے نام کے تحت صرف یہ جماعتیں اکھٹی ہوں گی اور الیکشن میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اپنائیں گی جس کے بارے میں زیادہ امکان ظاہر کیاجارہا ہے کیونکہ جماعت اسلامی اپنے لیے ترازو کا انتخابی نشان لینے کے لیے بھرپور کوشش کررہی ہے ،بعض حلقے اس بات کا بھی امکان ظاہر کررہے ہیں کہ یہ نیا اتحاد آئی جے آئی طرز کا انتخابی اتحاد ہوگا جس میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن)بھی شامل ہوں گی تاہم آئی جے آئی کا بیس سالوں کے بعد جس طریقہ سے پوسٹ مارٹم ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ نہ تو آئی جے آئی طرز کا کوئی اتحاد بنے گا اور نہ ہی ایسے کسی اتحاد کو فنڈنگ کرنے کا کوئی انتظام ہوپائے گا اس لیے مولانا سمیع الحق اور جماعت اسلامی دینی ومذہبی جماعتوں کے جس نئے اتحاد کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔

وہ ایک ایسا اتحاد ہوگا جوجے یوآئی (ف)اور موجودہ حکمران جماعتوں کے خلاف مسلم لیگ(ن)اور تحریک انصاف کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں فائدہ پہنچا سکے گا جس کے مقابلے میں ایم ایم اے کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا کہ وہ موجودہ حکمران جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مسلم لیگ(ق)کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے جس کے امکانات بھی نظر آرہے ہیں تاہم اس بارے میں ابھی بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے ایم اپی ایز کے لیے جاری آخری پارلیمانی سال انتہائی خوش بخت ثابت ہواہے۔

کیونکہ اس سال کے دوران ان میں سے ہر رکن اسمبلی کو آٹھ ،آٹھ کروڑ روپے کے فنڈز جاری ہوئے ہیں ،دو ،دو کروڑ روپے ان ممبران کو تعمیر خیبرپختونخوا پروگرام جبکہ چار ،چار کروڑ روپے وزیراعلیٰ نے سپیشل پیکج کے تحت جاری کیے ہیں جبکہ اب وزیراعظم نے بھی ان میں سے ہر ممبر کو دو ،دو کروڑ روپے کے فنڈز جاری کردیئے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان کو صرف دو ،دو کروڑ روپے کے فنڈز ہی مل سکے ہیں تاہم عام انتخابات کے موقع پر فنڈز کے استعمال سے زیادہ پارٹی ورکروں کا جوش وجذبہ اور کام اپنا اثر دکھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے ورکروں کو بھی متحرک اور فعال کرنے کا آغاز کردیا ہے۔
Load Next Story