’میں‘ سے نکلنے کے لیے میسی کا شاندار سبق
ہمیں اپنے اندر سے ’میں‘ کو کھینچ کر نکالنا پڑے گا۔ کامیابی کی منزل پر پہلا قدم تو یہ ہے کہ اپنی انا کو زیر کیا جائے۔
کچھ دن قبل ایک فٹ بال لیگ کا میچ کھیلتے ہوئے ارجنٹینا کے مشہور زمانہ اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی '' لیونل میسی'' نے بارسلونا کی جانب سے کھیلتے ہوئے پنالٹی کِک پر خود گول کرنے کے بجائے اپنے ساتھی کھلاڑی لیوس سواریز کو صرف اس لئے پاس دیا تاکہ وہ میچ میں گول کرکے اپنی ہیٹرک مکمل کرسکے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ کوئی انٹرنیشل میچ نہیں تھا کہ کھلاڑی کو ہم وطن ہونے کی وجہ سے مدد کی جاتی، بلکہ یہ ایک کلب میچ تھا اور لیوس سواریز کا تعلق یوراگوئے سے تھا، لیکن یہ دیکھنے کے بجائے کہ کھلاڑی کا تعلق کس ملک سے تھا، میسی نے کھیل کو تقویت دی اور اپنے شاندار کھیل کے ساتھ ساتھ بڑے دل کا بھی مظاہرہ کیا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بارسلونا نے یہ میچ جیتا تھا، بلکہ صرف جیتا نہیں تھا بلکہ 1-6 سے جیتا تھا، میسی نے جس وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لئے سوچنے کی کئی راہیں کھول گیا۔ جس میں احساس کی بھینی بھینی خوشبو والے پھول مہکے ہیں۔
اب آتے ہیں اِس موضوع کی طرف کہ ہمارے کھلاڑی کس طرح کھیلتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں کی ترجیح کیوں ٹیم کی فتح سے زیادہ اپنی کارکردگی پر ہوتی ہے، اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اِس 'میں' کے سبب ہمیں مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ زیادہ بعید کی مثال نہیں ہے کہ جب گزشتہ برس نومبر میں پاکستان اور انگلستان کے درمیان ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوران دو دفعہ کھلاڑیوں نے اپنی وکٹ بچانے کے لئے ایک ہی طرف دوڑ لگادی۔ نتیجہ وہی ہوا جو اِس حرکت کہ بعد آنا چاہیے تھا کہ ٹیم ہار گئی، اِس شکست سے بھی بڑھ کر جو نقصان ہوا وہ یہ کہ دنیا میں ہمارا تماشاں بنا کہ کس طرح بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ انفرادی کارکردگیوں کی بنیاد پر شاید ٹیم ایک، دو یا تین دفعہ تو کامیابی حاصل کرلے مگر اجتماعی حیثیت میں محرومیوں کا شکار ہو کر تتر بتر ہوجاتی ہے۔
مغرب ہمارے لئے بس اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے کہ اس معاشرے کی اچھی چیزوں سے خیال کشید کرکے انہیں اپنے معاشرے میں تہذیب و تمدن کے حساب سے ڈھال لیا جائے۔ قوموں کی ترقی میں سب سے اہم چیز اس کا اجتماعی شعور ہے۔ لوگوں کے آپس کے تعلقات اور معاملات کے بیچ اگر احساس کی دھیمی لو بھی جلتی رہے تو معاشرے کا توازن ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے اور قومیں ترقی کی وہ راہیں متعین کرتی ہیں جن کے پیچھے پھر ساری دنیا چار و نا چار دوڑتی ہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اجتماعی شعور اور احساس کا شدید فقدان ہے۔ شعبہ کوئی بھی ہو، سیاست سے متعلقہ افراد ہوں، مذہبی فرقہ واریت ہو، تعلیمی ادارے ہوں، جائے ملازمت ہو، کھیل ہو یا چاہے جو بھی میدان ہو۔ ہر شخص انفرادی حیثیت میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں تعمیر کئے بیٹھا ہے اور دوسرے کے خلاف زہر ہی اُگل رہا ہے۔ کسی دوسروں کو موقع دینا یا حوصلہ افزائی کرنا تو قرین از قیاس دوسرے کی بات سمجھنے کو تیار تک نہیں ہیں اور ''میں'' اور ''میں نہ مانوں'' والے اصول پر سختی سے کاربند ہیں۔
ہمیں اپنے اندر سے ''میں'' کو کھینچ کر نکالنا پڑے گا۔ کامیابی کی منزل پر پہلا قدم تو یہ ہے کہ اپنی انا کو زیر کیا جائے۔ ''میں'' کو کھینچ کر خود سے الگ کردیا جائے پھر اس کے بعد معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے اخوت و بھائی چارے سے کام کیا جائے۔ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ ان سے نرمی سے نمٹا جائے۔ روشن اور صحت مند معاشرے کی مٹی کو گھٹن زدہ ماحول سے نکال سے کر مثبت سوچ اور افکار کے ساتھ ملا کر پھر سے گوندھا جائے۔ پھر وہ دن دور نہیں کہ جب ہماری ملک و ملت کو ماضی کی عظیم سلطنت بغداد کے طرح ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ سمجھا جائے گا۔
[poll id="963"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
اب آتے ہیں اِس موضوع کی طرف کہ ہمارے کھلاڑی کس طرح کھیلتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں کی ترجیح کیوں ٹیم کی فتح سے زیادہ اپنی کارکردگی پر ہوتی ہے، اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ اِس 'میں' کے سبب ہمیں مسلسل شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ زیادہ بعید کی مثال نہیں ہے کہ جب گزشتہ برس نومبر میں پاکستان اور انگلستان کے درمیان ایک روزہ میچوں کی سیریز کے دوران دو دفعہ کھلاڑیوں نے اپنی وکٹ بچانے کے لئے ایک ہی طرف دوڑ لگادی۔ نتیجہ وہی ہوا جو اِس حرکت کہ بعد آنا چاہیے تھا کہ ٹیم ہار گئی، اِس شکست سے بھی بڑھ کر جو نقصان ہوا وہ یہ کہ دنیا میں ہمارا تماشاں بنا کہ کس طرح بچوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ یہ ثابت شدہ ہے کہ انفرادی کارکردگیوں کی بنیاد پر شاید ٹیم ایک، دو یا تین دفعہ تو کامیابی حاصل کرلے مگر اجتماعی حیثیت میں محرومیوں کا شکار ہو کر تتر بتر ہوجاتی ہے۔
مغرب ہمارے لئے بس اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے کہ اس معاشرے کی اچھی چیزوں سے خیال کشید کرکے انہیں اپنے معاشرے میں تہذیب و تمدن کے حساب سے ڈھال لیا جائے۔ قوموں کی ترقی میں سب سے اہم چیز اس کا اجتماعی شعور ہے۔ لوگوں کے آپس کے تعلقات اور معاملات کے بیچ اگر احساس کی دھیمی لو بھی جلتی رہے تو معاشرے کا توازن ہمیشہ قائم و دائم رہتا ہے اور قومیں ترقی کی وہ راہیں متعین کرتی ہیں جن کے پیچھے پھر ساری دنیا چار و نا چار دوڑتی ہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں اجتماعی شعور اور احساس کا شدید فقدان ہے۔ شعبہ کوئی بھی ہو، سیاست سے متعلقہ افراد ہوں، مذہبی فرقہ واریت ہو، تعلیمی ادارے ہوں، جائے ملازمت ہو، کھیل ہو یا چاہے جو بھی میدان ہو۔ ہر شخص انفرادی حیثیت میں ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں تعمیر کئے بیٹھا ہے اور دوسرے کے خلاف زہر ہی اُگل رہا ہے۔ کسی دوسروں کو موقع دینا یا حوصلہ افزائی کرنا تو قرین از قیاس دوسرے کی بات سمجھنے کو تیار تک نہیں ہیں اور ''میں'' اور ''میں نہ مانوں'' والے اصول پر سختی سے کاربند ہیں۔
ہمیں اپنے اندر سے ''میں'' کو کھینچ کر نکالنا پڑے گا۔ کامیابی کی منزل پر پہلا قدم تو یہ ہے کہ اپنی انا کو زیر کیا جائے۔ ''میں'' کو کھینچ کر خود سے الگ کردیا جائے پھر اس کے بعد معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے اخوت و بھائی چارے سے کام کیا جائے۔ اختلافات کو ہوا نہ دی جائے بلکہ ان سے نرمی سے نمٹا جائے۔ روشن اور صحت مند معاشرے کی مٹی کو گھٹن زدہ ماحول سے نکال سے کر مثبت سوچ اور افکار کے ساتھ ملا کر پھر سے گوندھا جائے۔ پھر وہ دن دور نہیں کہ جب ہماری ملک و ملت کو ماضی کی عظیم سلطنت بغداد کے طرح ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ سمجھا جائے گا۔
[poll id="963"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔