سیاست دانوں کی عوام میں واپسی
سکھر، روہڑی، پنوعاقل سے منتخب نمائندوں نے ایک مرتبہ پھر عوام سے رابطے شروع کر دیے ہیں ۔
سکھر سمیت ملک بھر میں سیاسی موسم تیزی سے بدل رہا ہے اور 2008 کے عام انتخابات میں کام یاب سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت کا آئینی وقت مکمل ہونے کو ہے۔
ہر طرف نگراں حکومت کے قیام کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ سکھر، روہڑی، پنوعاقل سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹر اور مشیروں نے ایک مرتبہ پھر عوام سے رابطے شروع کر دیے ہیں، جس کا مقصد عوام کے ووٹ حاصل کر کے پھر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ منتخب اراکین جن کا زیادہ وقت اسلام آباد، کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں گزرتا تھا، اب اپنے حلقوں میں عوام سے ان کے مسائل معلوم کرتے نظر آرہے ہیں۔ خصوصاً تاجروں، معززین کے عزیز و اقارب کے انتقال پر ان سے اظہار تعزیت اور خوشی کی تقریبات میں شریک ہونے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔
وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ، سینیٹر اسلام الدین شیخ، ریلوے کے پارلیمانی سیکریٹری، نعمان اسلام شیخ اور صوبائی اراکین کی جانب سے نگراں سیٹ اپ سے چند ہفتے قبل ایک مرتبہ پھر لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا، جو سکھر کے عوام کے ان زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ شہری طویل عرصے سے اپنے مسائل کے حل کے لیے سکھر ہائوس، شاہ ہائوس، بلوچ ہائوس، مہر ہائوس کے چکر کاٹتے رہے، لیکن انھیں کسی نے نہیں پوچھا۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد اس شہر کو سیاست میں اہم مقام حاصل ہے اور یہاں سے منتخب اراکین اسمبلی وفاق اور صوبے میں انتہائی اہم ذمے داریاں انجام دیتے ہیں۔ ساڑھے چار سال کے دوران پیپلزپارٹی کے نمایندوں کی جانب سے عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے، اربوں روپے کے منصوبے التواء کا شکار رہنے، ترقیاتی کاموں میں معیار کو نظر انداز کرنے اور کرپشن کی شکایات کا نوٹس نہ لینے کی وجہ سے سکھر کے عوام شدید مایوس نظر آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے آیندہ انتخابات میں اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے مہر گروپ سے الحاق کیا اور ان کے پیپلزپارٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن سکھر اور گھوٹکی میں بہ ظاہر مضبوط نظر آتی ہے۔ تاہم مہر گروپ کی پیپلز پارٹی کی شمولیت پر پارٹی کے اندر اختلافات سر اٹھا رہے ہیں، جو عام انتخابات سے قبل ظاہر ہو جائیں گے۔ اگر پیپلزپارٹی نے سکھر، روہڑی، پنوعاقل، گھوٹکی میں ٹکٹ دیتے وقت بہتر امیدوار کا انتخاب نہ کیا، تو اس کے نتائج بھی مختلف نظر آئیں گے۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام، متحدہ مجلس عمل، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ فنکشنل و دیگر جماعتوں نے اپنی صف بندیاں شروع کردی ہیں۔ گذشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام نے ایر پورٹ کے نزدیک جلسہ منعقد کر کے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
سکھر کی تاریخ میں کسی بھی مذہبی جماعت کی جانب سے لاکھوں افراد کو ایک جگہ جمع کرنا جے یو آئی کا ایک کارنامہ شمار کیا جارہا ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے منعقدہ 'اسلام زندہ باد کانفرنس' میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور ضلعی راہ نما آغا سید محمد ایوب خان نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ناکام سیاست دانوں سے چھٹکارا پانے کے لیے عوام کو میدان میں آنا ہو گا، امریکی غلامی سے نجات کا فارمولا جے یو آئی کے پاس ہے، اگر عوام ملک میں امن و سکون اور بھائی چارہ چاہتے ہیں، تو 64 سال سے حکم رانی کرنے والوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔
19ویں صدی میں قیادت علماء کے ہاتھ میں تھی تو نہ ہی فرقہ واریت تھی اور نہ ہی مسجد و مندر میں تصادم کا کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا۔ علماء کی صورت میں جے یو آئی کے پاس نئی قیادت موجود ہے، جو ملک کو بہتر انداز سے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکم راں عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں، ملکی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے، فاٹا، بلوچستان، کراچی، اندرون سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک انسانوں کی قتل و غارت گری، ٹارگیٹ کلنگ، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملکی بجٹ کا 70فی صد حصہ بارود کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ غریب کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تک میسر نہیں جب کہ جاگیردار کے پالتو جانور بھی عیش کرتے ہیں۔ تین دہائی سے سکھر شہر میں اپوزیشن جماعت نہ ہونے کی وجہ سے رولنگ پارٹی اور اس کے منتخب نمایندوں کی جانب سے عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔
سندھ میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد قوم پرست جماعتوں اور مسلم لیگ فنکشنل کی احتجاجی تحریک سے ان کی پوزیشن بھی خاصی مستحکم ہو رہی ہے، جب کہ متحدہ قومی موومینٹ اپنی پالیسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں اپنے انداز سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ رابطہ کمیٹی، اندرون سندھ تنظیمی کمیٹی اور زونل کمیٹی کے اراکین کی جانب سے کارنر میٹنگز،جنرل ورکرز اجلاس کا سلسلہ جاری ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر جدوجہد کرنے سے آیندہ بلدیاتی اور عام انتخابات کے نتائج پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ باشعور حلقوں کا کہنا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور جے یو آئی کی تیز ہوتی ہوئی سرگرمیاں پیپلز پارٹی کو سکھر سمیت مضافاتی علاقوں کی یو سیز اور اسمبلیوں کی نشستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ہر طرف نگراں حکومت کے قیام کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ سکھر، روہڑی، پنوعاقل سے منتخب ہونے والے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹر اور مشیروں نے ایک مرتبہ پھر عوام سے رابطے شروع کر دیے ہیں، جس کا مقصد عوام کے ووٹ حاصل کر کے پھر اقتدار حاصل کرنا ہے۔ منتخب اراکین جن کا زیادہ وقت اسلام آباد، کراچی یا دیگر بڑے شہروں میں گزرتا تھا، اب اپنے حلقوں میں عوام سے ان کے مسائل معلوم کرتے نظر آرہے ہیں۔ خصوصاً تاجروں، معززین کے عزیز و اقارب کے انتقال پر ان سے اظہار تعزیت اور خوشی کی تقریبات میں شریک ہونے کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔
وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ، سینیٹر اسلام الدین شیخ، ریلوے کے پارلیمانی سیکریٹری، نعمان اسلام شیخ اور صوبائی اراکین کی جانب سے نگراں سیٹ اپ سے چند ہفتے قبل ایک مرتبہ پھر لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا، جو سکھر کے عوام کے ان زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ شہری طویل عرصے سے اپنے مسائل کے حل کے لیے سکھر ہائوس، شاہ ہائوس، بلوچ ہائوس، مہر ہائوس کے چکر کاٹتے رہے، لیکن انھیں کسی نے نہیں پوچھا۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد اس شہر کو سیاست میں اہم مقام حاصل ہے اور یہاں سے منتخب اراکین اسمبلی وفاق اور صوبے میں انتہائی اہم ذمے داریاں انجام دیتے ہیں۔ ساڑھے چار سال کے دوران پیپلزپارٹی کے نمایندوں کی جانب سے عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے، اربوں روپے کے منصوبے التواء کا شکار رہنے، ترقیاتی کاموں میں معیار کو نظر انداز کرنے اور کرپشن کی شکایات کا نوٹس نہ لینے کی وجہ سے سکھر کے عوام شدید مایوس نظر آتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے آیندہ انتخابات میں اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے مہر گروپ سے الحاق کیا اور ان کے پیپلزپارٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے پارٹی کی پوزیشن سکھر اور گھوٹکی میں بہ ظاہر مضبوط نظر آتی ہے۔ تاہم مہر گروپ کی پیپلز پارٹی کی شمولیت پر پارٹی کے اندر اختلافات سر اٹھا رہے ہیں، جو عام انتخابات سے قبل ظاہر ہو جائیں گے۔ اگر پیپلزپارٹی نے سکھر، روہڑی، پنوعاقل، گھوٹکی میں ٹکٹ دیتے وقت بہتر امیدوار کا انتخاب نہ کیا، تو اس کے نتائج بھی مختلف نظر آئیں گے۔ 2013 کے عام انتخابات سے قبل جمعیت علمائے اسلام، متحدہ مجلس عمل، متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ فنکشنل و دیگر جماعتوں نے اپنی صف بندیاں شروع کردی ہیں۔ گذشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام نے ایر پورٹ کے نزدیک جلسہ منعقد کر کے سیاسی میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
سکھر کی تاریخ میں کسی بھی مذہبی جماعت کی جانب سے لاکھوں افراد کو ایک جگہ جمع کرنا جے یو آئی کا ایک کارنامہ شمار کیا جارہا ہے۔ جے یو آئی کی جانب سے منعقدہ 'اسلام زندہ باد کانفرنس' میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین، جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، عبدالغفور حیدری، ڈاکٹر خالد محمود سومرو اور ضلعی راہ نما آغا سید محمد ایوب خان نے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ناکام سیاست دانوں سے چھٹکارا پانے کے لیے عوام کو میدان میں آنا ہو گا، امریکی غلامی سے نجات کا فارمولا جے یو آئی کے پاس ہے، اگر عوام ملک میں امن و سکون اور بھائی چارہ چاہتے ہیں، تو 64 سال سے حکم رانی کرنے والوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔
19ویں صدی میں قیادت علماء کے ہاتھ میں تھی تو نہ ہی فرقہ واریت تھی اور نہ ہی مسجد و مندر میں تصادم کا کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا۔ علماء کی صورت میں جے یو آئی کے پاس نئی قیادت موجود ہے، جو ملک کو بہتر انداز سے چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حکم راں عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں، ملکی معیشت تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے، فاٹا، بلوچستان، کراچی، اندرون سندھ میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر ہوچکی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک انسانوں کی قتل و غارت گری، ٹارگیٹ کلنگ، بھتا خوری، اغوا برائے تاوان کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملکی بجٹ کا 70فی صد حصہ بارود کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ غریب کو تن ڈھانپنے کے لیے کپڑے تک میسر نہیں جب کہ جاگیردار کے پالتو جانور بھی عیش کرتے ہیں۔ تین دہائی سے سکھر شہر میں اپوزیشن جماعت نہ ہونے کی وجہ سے رولنگ پارٹی اور اس کے منتخب نمایندوں کی جانب سے عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔
سندھ میں بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بعد قوم پرست جماعتوں اور مسلم لیگ فنکشنل کی احتجاجی تحریک سے ان کی پوزیشن بھی خاصی مستحکم ہو رہی ہے، جب کہ متحدہ قومی موومینٹ اپنی پالیسی کے تحت الیکشن کی تیاریاں اپنے انداز سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ رابطہ کمیٹی، اندرون سندھ تنظیمی کمیٹی اور زونل کمیٹی کے اراکین کی جانب سے کارنر میٹنگز،جنرل ورکرز اجلاس کا سلسلہ جاری ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ سندھ میں اپوزیشن جماعتوں کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر جدوجہد کرنے سے آیندہ بلدیاتی اور عام انتخابات کے نتائج پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ باشعور حلقوں کا کہنا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور جے یو آئی کی تیز ہوتی ہوئی سرگرمیاں پیپلز پارٹی کو سکھر سمیت مضافاتی علاقوں کی یو سیز اور اسمبلیوں کی نشستوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔