’بیوٹی فل لیگز‘

مجھے پتہ لگ گیا کہ مسلمانوں کی جنونیت، شدّت پسندی، مذہبیت اور دشمنی کا حل کیا ہے، اور وہ ہے ہماری ثقافت۔

سلام پھیرتے ہی آدھی مسجد کی گردن اس کی طرف گھوم گئی اور چہ میگوئیوں سے خوب پتہ چلتا تھا کہ نماز میں بھی شاید اسی کا خیال ذہنوں پر چھایا رہا۔ فوٹو:فائل

مئی جیونگ اور عبداللہ نے ورلڈ بینک میں ایک ساتھ سمر انٹرن شِپ کی تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں ساتھ کام کرنے کے وہ 3 ماہ ایک مضبوط دوستی میں بدل گئے۔ عبداللہ اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم مکمل کرکے پاکستان چلا آیا تو مئی جیونگ نے مشہورِ زمانہ وال اِسٹریٹ جرنل میں صحافت کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس کی فیلڈ انسانی نفسیات تھی اور لوگوں کو ان کی باڈی لینگویج سے جانچنا اس کی مہارت۔

آج کئی سالوں بعد عبداللہ کو فون کال موصول ہوئی کہ وہ پاکستان آئی ہوئی ہے ایک اسٹوری لکھنے کے لئے اور اس سے ملنا چاہتی ہے۔ عبداللہ نے خوشی خوشی اسے کھانے کی دعوت دی اور ملاقات طے پا گئی۔ عبداللہ نے مئی سے پوچھا وہ کون سی اسٹوری ہے جسے کرنے کے لیے اُسے نیویارک سے اسلام آباد تک سفر کرنا پڑا۔

مئی نے جواب دیا، عبداللہ تمہیں تو پتہ ہے کہ میں خود لا دین ہوں۔ ان مذاہب کے چکروں سے مجھے خوف آتا ہے، یہ سارے مجھے خدا تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ آج کل میں مسلمانوں، ان کے متشدد نظریات، مرنے مارنے کی تاویلات اور ان کی طاقت کا اندازہ لگانے کی کھوج میں نکلی ہوئی ہوں۔ یہاں سے میں افغانستان بھی جاؤں گی۔

بہت خوب، میں کیا مدد کرسکتا ہوں؟ عبداللہ نے سوال پوچھا۔ عبداللہ میں آج تک کسی مسجد میں نہیں گئی۔ مجھے بڑا شوق ہے کہ کسی مسجد میں جا کر دیکھوں کہ تم لوگ اپنے خدا کی عبادت کیسے کرتے ہو؟ کیا تم مجھے کسی مسجد میں لے جاسکتے ہو؟ ٹھیک ہے، میں وزٹ کا بندوبست کردوں گا مگر دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب رپورٹ چھپ جائے تو مجھے لنک ضرور بھیجنا، اور دوئم یہ کہ یہ جو تم نے منی اسکرٹ پہنی ہوئی ہے، یہ مسجد میں جانے کے لئے موزوں نہیں ہے۔

عبداللہ اگلے دن مئی کو شہر کی مضافات میں بنی ایک شاندار مسجد میں لے گیا۔ مئی جیونگ، جیسا کہ عبداللہ کو ڈر تھا اپنے روایتی لباس میں تھی، منی اسکرٹ تو اُس نے نہ پہنا مگر لباس بہت چست تھا اور نیکر بھی گھٹنوں سے اوپر تھا۔ عبداللہ نے سوچا کہ اب اگر ٹوکا تو شاید یہ مسجد جائے ہی نہ اور وہ کم از کم اسکو اللہ سے دور کرنے کا الزام نہیں لے سکتا تھا۔

مسجد پہنچتے ہی عبداللہ نے وضو خانے کا رخ کیا تو وہ بھی ساتھ ساتھ چلی آئی۔ دیکھا دیکھی اس نے بھی وضو کیا۔ عبداللہ کو تو کوئی فرق نہیں پڑا مگر وضو خانے میں موجود درجنوں افراد میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کی نظروں نے مئی کی گوری گوری ٹانگوں کا طواف نہ کیا ہو۔ اس کے جسم پر سرسراتا ہر قطرہ داعیانِ حق کی پیاس بجھا رہا تھا۔


مغرب کی جماعت کھڑی ہوچکی تھی۔ مئی کو آخری صف میں کرسی پر بٹھا کرعبداللہ نماز میں شامل ہوگیا کہ نماز پڑھ کر اسے مسجد دکھا دے گا اور مولوی صاحب سے بات بھی کروا دے گا۔ جوں جوں نمازی آتے گئے مئی جیونگ کی ٹانگوں کا طواف ہوتا رہا۔ سلام پھیرتے ہی آدھی مسجد کی گردن اس کی طرف گھوم گئی اور چہ میگوئیوں سے خوب پتہ چلتا تھا کہ نماز میں بھی شاید اسی کا خیال ذہنوں پر چھایا رہا۔

نماز کے بعد مئی نے فوراً واپس چلنے کو کہا۔ عبدللہ نے بھی خیر اِسی میں جانی اور واپسی کی راہ لی۔ عبداللہ تمہارا شکریہ، تم نے یہ نایاب موقع فراہم کیا۔ مجھے میرے سوالوں کے جواب مل گئے۔ مئی نے گاڑی سے اُترتے ہوئے کہا۔

مگر کیسے؟ تم نے تو نہ مسجد پوری دیکھی، نہ کسی سے بات کی؟

عبداللہ، ضرورت ہی نہیں پڑی۔ مجھے پتہ لگ گیا کہ مسلمانوں کی جنونیت، شدّت پسندی، مذہبیت اور دشمنی کا حل کیا ہے، اور وہ ہے ہماری ثقافت۔ خدا کے مذہب کے وہ دعویدار اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے وہ اُمتی جن سے میری ایک ننگی ٹانگ برداشت نہ ہوسکی وہ ہماری ثقافت کے آگے کھڑے ہی کتنی دیر رہ سکتے ہیں؟ جو تلاطم تمہاری صفوں میں میری ٹانگ نے برپا کیا ہے، اس کے لئے فوج کی ضرورت ہی کیا ہے۔ عبدالله یاد رکھنا جب ثقافت مذہب سے ٹکرائی، ثقافت جیت جائے گی اور مذہب ہار جائے گا۔ پھر ملیں گے، گڈ بائے۔ عبداللہ کو 2 ماہ بعد رپورٹ کا لنک ای میل پر ملا۔ عنوان تھا،
''بیوٹی فل لیگز''

[poll id="964"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story