مقامی سیاست پر حاوی خاندانوں میں اختلافات

مہر اور دھاریجو برادران کے درمیان صوبائی نشست پر کھینچا تانی

گھوٹکی میں مہر برادران کی شمولیت کے بعد پی پی پی انتشار کا شکار نظر آرہی ہے، فوٹو : فائل

مہر برادران کی ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی میں شمولیت نے گھوٹکی کی سیاسی فضاء تبدیل کر دی ہے۔

سردار علی محمد خان مہر، علی نواز عرف راجا خان مہر، علی گوہر کی شمولیت کے بعد دھاریجو برادران، صوبائی وزیر جام سیف اللہ دھاریجو، ایم پی اے جام اکرام اللہ دھاریجو اور ان کے حامی پی پی پی کے کارکنوں نے مہر بھائیوں کی پارٹی میں شمولیت سے متعلق قیادت کے فیصلے کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہی سبب ہے کہ گھوٹکی میں دھاریجو برادران، مہر برادران کے خلاف الزامات کی سیاست اور ان کی کردار کُشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے۔ اس طرح گھوٹکی میں مہر برادران کی شمولیت کے بعد پی پی پی مضبوط ہونے کے بجائے انتشار کا شکار نظر آرہی ہے، لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دونوں گروپوں کی طرف سے الیکشن سے قبل رابطہ مہم بڑے پیمانے پر شروع کی گئی ہے۔ دونوں گروپوں میں سیاسی کشیدگی کی اصل وجہ ضلع پر اپنا راج قائم کرنا ہے۔ مہر اور دھاریجو برادران میں ایک تنازع من پسند افسران کی تقرری اور تبادلوں کا بھی ہے۔


مہر برادران نے اپنے من پسند افسران کی تقرری کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ دھاریجو اپنے افسروں کے تبادلے رکوانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ الیکشن سے قبل پی پی پی کے راہ نمائوں میں سیاسی کشیدگی کے بعد انتخابات کے موقعے پر امیدواروں کو ٹکٹ دینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں کہ مہر بھائیوں کی شمولیت کے بعد کافی امیدوار سامنے نظر آرہے ہیں۔ صوبائی حلقہ 6 گھوٹکی کو بہت اہمیت دی جارہی ہے، کیوں کہ اسی حلقے سے گذشتہ الیکشن میں جام اکرام اللہ دھاریجو نے علی نواز مہر کو شکست دی تھی۔

یہی سبب ہے کہ پی پی پی میں شمولیت کے لیے مذاکرات کے دوران پی پی پی کی قیادت پر اس سیٹ کے لیے بات کی گئی جب کہ پی پی پی کی قیادت نے اسی دوران جام سیف اللہ دھاریجو کے بنگلے پر کارکنوں سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد دھاریجو بھائیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان سے پی ایس 6 کی نشست واپس نہیں لی جائے گی۔ دونوں جانب سے دعووں کی وجہ سے اس نشست سے متعلق صورت حال واضح نہیں ہے۔ دونوں گروپوں میں کشیدگی کے معاملے پر پی پی پی سندھ کی قیادت نے مہر اور دھاریجو برادران کو کراچی طلب کر لیا ہے۔

ادھر ساڑھے چار سال کے بعد مہر برادران کے ویران بنگلے آباد ہوگئے ہیں۔ سرکاری افسران اور مختلف قبائل کے افراد کی آمدورفت شروع ہو چکی ہے، جب کہ مہر گروپ کی طرف سے اپنے حمایتیوں کو نوکریوں کے آرڈر بھی دیے جارہے ہیں۔ اس سے قبل دھاریجو بھائیوں نے اپنے حمایتوں میں نوکریوں کی بندر بانٹ کی تھی۔ مقامی سیاست میں تبدیلیوں کا سلسلہ تو جاری رہے گا، لیکن ان دونوں خاندانوں کے اقتدار میں رہنے کے باوجود غریب کی حالت آج بھی نہیں بدلی۔ شہر کے لیے ترقیاتی کام ہوں یا مقامی شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کا معاملہ ہو، یہاں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نظر آتی۔ ایک مرتبہ پھر مقامی سیاست میں الزامات کی بارش کے ساتھ دعووں کا جال پھیلایا جارہا ہے، لیکن حقیقی تبدیلی اسی صورت میں ممکن ہے، جب سیاست داں عوام سے مخلص ہوں گے۔
Load Next Story