سندھ کی صوبائی حکومت کہاں ہے
پورے شہرکراچی اور مضافات کی ہر سڑک ہر گلی کچرے کے ڈھیر گٹروں کے گندے پانی سے بھری ہوئی ہے۔
KARACHI:
پورے شہرکراچی اور مضافات کی ہر سڑک ہر گلی کچرے کے ڈھیر گٹروں کے گندے پانی سے بھری ہوئی ہے۔ اس گندے پانیوں کے تالابوں سے بائیک، کار، ٹیکسی، رکشہ، ویگن آسانی سے گزر نہیں سکتی اور اگر گزرتی ہے تو گندے پانی کی ایسی پچکاری اٹھتی ہے کہ گزرنے والوں کے کپڑے گندے پانی سے رنگین ہو جاتے ہیں اور اس کی بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ خدا نے انسان کو جن حواس خمسہ سے نوازا ہے ان میں ایک حس سونگھنے کی بھی ہے۔ حواس خمسہ کا مرکز دماغ ہے اس مرکز میں سوچنے سمجھنے اچھے برے کو محسوس کرنے ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا وصف بھی موجود ہے۔ انسان زندہ اور ظلم و زیادتیوں خرابیوں کو محسوس کر رہا ہے تو ان کے خلاف اظہار ناراضگی اظہار نفرت ایک فطری بات ہے۔ ہر ظلم ہر زیادتی ہر خرابی ہر برائی پر اگر انسان چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے تو پھر اس میں اور زندہ لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
شہر میں پانی کا قحط ہے پانی اگر آتا ہے تو اس میں گٹر کا آمیزہ شامل ہوتا ہے، کراچی کا شہری پانی کے قحط پر خاموش ہے۔ کراچی بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے دن میں کئی بار بجلی جاتی ہے۔ کراچی کے شہری کو اس لوڈ شیڈنگ سے کوئی تکلیف نہیں' یہ لوڈ شیڈنگ اس کے لیے روزمرہ کا معمول ہے، اس لیے اس کا دھیان اس کی طرف جاتا ہی نہیں، کراچی میں گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
خواتین چولہوں کے پاس بے بس کھڑی ہوتی ہیں، بچے ناشتے کے بغیر اسکول، بڑے ناشتے کے بغیر کام پر جاتے ہیں، یہ صورتحال چونکہ روزمرہ کا معمول ہے، لہٰذا کسی شہری کی پیشانی پر بل نہیں پڑتا۔ کراچی والوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، گھنٹوں بس اسٹاپوں پر کھڑے بسوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر مجبوراً بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر یا دروازوں پر لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے۔موٹر سائیکل والوں کو روکتے ہیں، ان کے بے عزتی کرتے ہیں اور بلاجرم رشوت لیتے ہیں، کراچی کے موٹر سائیکل سواروں کی بھیڑ میں رشوت کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے چونکہ یہ روز کا معمول ہے۔
اس لیے کراچی کے شہریوں کو اس پر کوئی تشویش نہیں۔ ویگنوں بسوں سے محرومی کی وجہ کراچی کے شہری رکشوں، ٹیکسیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، کسی رکشے کسی ٹیکسی میں میٹر نہیں ہوتے رکشہ اور ٹیکسی کے ڈرائیور جو کرایہ مانگتے ہیں کراچی کا شہری دم دبا کر وہ کرایہ ادا کر دیتا ہے اس ناانصافی اس ظلم پر اسے ذرا غصہ نہیں آتا، اگر خدانخواستہ آتا بھی ہے تو وہ اسے پی جاتا ہے۔
کراچی میں چلنے والی ویگنوں بسوں میں کنڈیکٹر مسافروں کو جانوروں کی طرح ٹھونستے ہیں مسافروں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے لیکن مسافر صبر و رضا کی تصویر بنے سفر کرتے ہیں۔ بھیڑ میں جیب کترے مسافروں کی جیب صاف کر دیتے ہیں' مسافر غوں غاں ہائے وائے کر کے خاموش ہو جاتے ہیں منی بسوں، بسوں میں ڈکیت گھس جاتے ہیں اور اسلحے کے زور پر سب کی جیبیں خالی کروا لیتے ہیں موبائل چھین لیتے ہیں بے چارے مسافر خوف سے آواز تک نہیں نکالتے۔ تھانے شہریوں کو قانون فراہم کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں اور پولیس عوام کی خادم ہوتی ہے لیکن شہری تھانوں کے نام سے کان پکڑ لیتے ہیں اور پولیس سے اس طرح بچ کر نکلتے ہیں جس طرح لوگ چھوت کی بیماریوں سے بچ کر نکلتے ہیں۔
اسٹریٹ کرائمز کراچی کی عوام کے لیے سب سے بڑی سوغات ہے ۔پہلے یہ نیک کام اہل کراچی ہی کرتے تھے اب قانون بلکہ قانون کی بالادستی کی وجہ سے کراچی کے باہر سے آنے والے مجرموں کی تعداد 90-80 فیصد ہے۔ گلی محلے میں موبائل چھیننا، بینک سے نکلتے ہوئے لٹ جانا، رات میں دیواریں پھلانگ کر گھروں میں گھسنا، گرّلیں کاٹنا اور گھروں کے مردوں پر تشدد خواتین کی بے حرمتی۔ خوف سے شہریوں کی زبان گنگ ہے۔ خواتین شاپنگ کے لیے مارکیٹ جاتی ہیں تو راستے میں پرس چھیننا روزمرہ کا مشغلہ ہے اور خواتین اس کی اس قدر عادی ہیں کہ ان وارداتوں کا ذکر اس طرح کرتی ہیں جیسے کسی ڈرامے کا کوئی دلچسپ سین سنا رہی ہوں۔
ظلم کے خلاف انصاف کے لیے عدالتیں کھلی ہوئی ہیں جب کوئی غریب انصاف کے لیے عدالت جاتا ہے تو اسے سب سے پہلے وکیل ڈھونڈنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتوں میں انصاف بذریعہ وکیل ہی حاصل ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے انصاف کا نظام اور مہنگائی ترقی کر رہے ہیں وکیل کی فیس میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے چونکہ غریب کی آمدنی ہمارے عقائد کی طرح ایک ہی جگہ جم کر رہ گئی ہے لہٰذا غریب وکیل نہیں کر سکتا، اگر وکیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو بیوی کا زیور بیچنا پڑتا ہے یا سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔
میں نے ایک معروف افسانہ نگار کا ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں ایک مظلوم دور دراز علاقے سے انصاف کے لیے انصاف کے محل آتا ہے۔ محل کے گیٹ پر ایک خونخوار قسم کا چوکیدار کھڑا ہوتا ہے۔ مظلوم اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اسے منصف کے پاس جانے دے لیکن چوکیدار یا پہریدار اسے اندر جانے نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ اگر میں تجھے اندر جانے بھی دوں تو اندر کئی اور گیٹ ہیں اور ہر گیٹ پر مجھ سے زیادہ خوفناک پہریدار موجود ہے تم کس طرح منصف تک پہنچو گے۔ مظلوم ساری زندگی انصاف کے انتظار میں انصاف کے محل کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے وہیں مر جاتا ہے۔
ڈیری فارم والوں نے دودھ کی قیمت اپنی مرضی سے مقرر کی ہے ہماری محترم عدلیہ بار بار حکم دے رہی ہے کہ دودھ کی قیمت کم کرو، لیکن ڈیری مافیا۔۔۔۔۔
مارکیٹ میں مرغی صبح 200 روپے کلو ملتی ہے شام میں 300 روپے ہو جاتی ہے ہم کان دبا کر خرید لیتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے سستا ہے۔ ٹماٹر صبح 40 روپے بکتے ہیں شام 80 روپے، پیاز 60 روپے، بھنڈی 100 روپے، بینگن80 روپے، مٹر 80 روپے، سیم 90 روپے، دالیں 150 روپے، مرچ 300 روپے، بیسن 140 روپے، گھی 270 روپے، کیلا100 روپے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری ہمت کو ہمارے صبر کو داد دیجیے کہ ہم صبر سے یہ سب بھگت رہے ہیں ہماری زبان پر نہ حرف شکایت ہے نہ ہم میں زندگی کی کوئی رمق۔ یہ صورتحال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی قبرستان میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں کروڑوں زندہ لاشیں چل پھر رہی ہیں اور سیکڑوں کفن چور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
پورے شہرکراچی اور مضافات کی ہر سڑک ہر گلی کچرے کے ڈھیر گٹروں کے گندے پانی سے بھری ہوئی ہے۔ اس گندے پانیوں کے تالابوں سے بائیک، کار، ٹیکسی، رکشہ، ویگن آسانی سے گزر نہیں سکتی اور اگر گزرتی ہے تو گندے پانی کی ایسی پچکاری اٹھتی ہے کہ گزرنے والوں کے کپڑے گندے پانی سے رنگین ہو جاتے ہیں اور اس کی بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ خدا نے انسان کو جن حواس خمسہ سے نوازا ہے ان میں ایک حس سونگھنے کی بھی ہے۔ حواس خمسہ کا مرکز دماغ ہے اس مرکز میں سوچنے سمجھنے اچھے برے کو محسوس کرنے ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھانے اور احتجاج کرنے کا وصف بھی موجود ہے۔ انسان زندہ اور ظلم و زیادتیوں خرابیوں کو محسوس کر رہا ہے تو ان کے خلاف اظہار ناراضگی اظہار نفرت ایک فطری بات ہے۔ ہر ظلم ہر زیادتی ہر خرابی ہر برائی پر اگر انسان چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے تو پھر اس میں اور زندہ لاش میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
شہر میں پانی کا قحط ہے پانی اگر آتا ہے تو اس میں گٹر کا آمیزہ شامل ہوتا ہے، کراچی کا شہری پانی کے قحط پر خاموش ہے۔ کراچی بھی لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے دن میں کئی بار بجلی جاتی ہے۔ کراچی کے شہری کو اس لوڈ شیڈنگ سے کوئی تکلیف نہیں' یہ لوڈ شیڈنگ اس کے لیے روزمرہ کا معمول ہے، اس لیے اس کا دھیان اس کی طرف جاتا ہی نہیں، کراچی میں گیس کی بھی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔
خواتین چولہوں کے پاس بے بس کھڑی ہوتی ہیں، بچے ناشتے کے بغیر اسکول، بڑے ناشتے کے بغیر کام پر جاتے ہیں، یہ صورتحال چونکہ روزمرہ کا معمول ہے، لہٰذا کسی شہری کی پیشانی پر بل نہیں پڑتا۔ کراچی والوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، گھنٹوں بس اسٹاپوں پر کھڑے بسوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر مجبوراً بسوں کی چھتوں پر بیٹھ کر یا دروازوں پر لٹک کر سفر کرنا پڑتا ہے۔موٹر سائیکل والوں کو روکتے ہیں، ان کے بے عزتی کرتے ہیں اور بلاجرم رشوت لیتے ہیں، کراچی کے موٹر سائیکل سواروں کی بھیڑ میں رشوت کا بھی ایک حصہ ہوتا ہے چونکہ یہ روز کا معمول ہے۔
اس لیے کراچی کے شہریوں کو اس پر کوئی تشویش نہیں۔ ویگنوں بسوں سے محرومی کی وجہ کراچی کے شہری رکشوں، ٹیکسیوں میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، کسی رکشے کسی ٹیکسی میں میٹر نہیں ہوتے رکشہ اور ٹیکسی کے ڈرائیور جو کرایہ مانگتے ہیں کراچی کا شہری دم دبا کر وہ کرایہ ادا کر دیتا ہے اس ناانصافی اس ظلم پر اسے ذرا غصہ نہیں آتا، اگر خدانخواستہ آتا بھی ہے تو وہ اسے پی جاتا ہے۔
کراچی میں چلنے والی ویگنوں بسوں میں کنڈیکٹر مسافروں کو جانوروں کی طرح ٹھونستے ہیں مسافروں کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے لیکن مسافر صبر و رضا کی تصویر بنے سفر کرتے ہیں۔ بھیڑ میں جیب کترے مسافروں کی جیب صاف کر دیتے ہیں' مسافر غوں غاں ہائے وائے کر کے خاموش ہو جاتے ہیں منی بسوں، بسوں میں ڈکیت گھس جاتے ہیں اور اسلحے کے زور پر سب کی جیبیں خالی کروا لیتے ہیں موبائل چھین لیتے ہیں بے چارے مسافر خوف سے آواز تک نہیں نکالتے۔ تھانے شہریوں کو قانون فراہم کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں اور پولیس عوام کی خادم ہوتی ہے لیکن شہری تھانوں کے نام سے کان پکڑ لیتے ہیں اور پولیس سے اس طرح بچ کر نکلتے ہیں جس طرح لوگ چھوت کی بیماریوں سے بچ کر نکلتے ہیں۔
اسٹریٹ کرائمز کراچی کی عوام کے لیے سب سے بڑی سوغات ہے ۔پہلے یہ نیک کام اہل کراچی ہی کرتے تھے اب قانون بلکہ قانون کی بالادستی کی وجہ سے کراچی کے باہر سے آنے والے مجرموں کی تعداد 90-80 فیصد ہے۔ گلی محلے میں موبائل چھیننا، بینک سے نکلتے ہوئے لٹ جانا، رات میں دیواریں پھلانگ کر گھروں میں گھسنا، گرّلیں کاٹنا اور گھروں کے مردوں پر تشدد خواتین کی بے حرمتی۔ خوف سے شہریوں کی زبان گنگ ہے۔ خواتین شاپنگ کے لیے مارکیٹ جاتی ہیں تو راستے میں پرس چھیننا روزمرہ کا مشغلہ ہے اور خواتین اس کی اس قدر عادی ہیں کہ ان وارداتوں کا ذکر اس طرح کرتی ہیں جیسے کسی ڈرامے کا کوئی دلچسپ سین سنا رہی ہوں۔
ظلم کے خلاف انصاف کے لیے عدالتیں کھلی ہوئی ہیں جب کوئی غریب انصاف کے لیے عدالت جاتا ہے تو اسے سب سے پہلے وکیل ڈھونڈنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتوں میں انصاف بذریعہ وکیل ہی حاصل ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے انصاف کا نظام اور مہنگائی ترقی کر رہے ہیں وکیل کی فیس میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے چونکہ غریب کی آمدنی ہمارے عقائد کی طرح ایک ہی جگہ جم کر رہ گئی ہے لہٰذا غریب وکیل نہیں کر سکتا، اگر وکیل کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو بیوی کا زیور بیچنا پڑتا ہے یا سود پر قرض لینا پڑتا ہے۔
میں نے ایک معروف افسانہ نگار کا ایک افسانہ پڑھا تھا جس میں ایک مظلوم دور دراز علاقے سے انصاف کے لیے انصاف کے محل آتا ہے۔ محل کے گیٹ پر ایک خونخوار قسم کا چوکیدار کھڑا ہوتا ہے۔ مظلوم اس سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اسے منصف کے پاس جانے دے لیکن چوکیدار یا پہریدار اسے اندر جانے نہیں دیتا اور کہتا ہے کہ اگر میں تجھے اندر جانے بھی دوں تو اندر کئی اور گیٹ ہیں اور ہر گیٹ پر مجھ سے زیادہ خوفناک پہریدار موجود ہے تم کس طرح منصف تک پہنچو گے۔ مظلوم ساری زندگی انصاف کے انتظار میں انصاف کے محل کے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے وہیں مر جاتا ہے۔
ڈیری فارم والوں نے دودھ کی قیمت اپنی مرضی سے مقرر کی ہے ہماری محترم عدلیہ بار بار حکم دے رہی ہے کہ دودھ کی قیمت کم کرو، لیکن ڈیری مافیا۔۔۔۔۔
مارکیٹ میں مرغی صبح 200 روپے کلو ملتی ہے شام میں 300 روپے ہو جاتی ہے ہم کان دبا کر خرید لیتے ہیں اور شکر ادا کرتے ہیں کہ مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے سستا ہے۔ ٹماٹر صبح 40 روپے بکتے ہیں شام 80 روپے، پیاز 60 روپے، بھنڈی 100 روپے، بینگن80 روپے، مٹر 80 روپے، سیم 90 روپے، دالیں 150 روپے، مرچ 300 روپے، بیسن 140 روپے، گھی 270 روپے، کیلا100 روپے وغیرہ وغیرہ۔ ہماری ہمت کو ہمارے صبر کو داد دیجیے کہ ہم صبر سے یہ سب بھگت رہے ہیں ہماری زبان پر نہ حرف شکایت ہے نہ ہم میں زندگی کی کوئی رمق۔ یہ صورتحال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی قبرستان میں زندگی گزار رہے ہیں جہاں کروڑوں زندہ لاشیں چل پھر رہی ہیں اور سیکڑوں کفن چور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔