دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور فلسطین دوسرا حصہ
1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی آمد نے مظلوم فلسطینیوں کی تحریک کو جلابخشی۔
1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کی آمد نے مظلوم فلسطینیوں کی تحریک کو جلابخشی اور دنیا میں پہلی مرتبہ کسی مسلمان رہنما نے کھلم کھلا مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ عملی طور پر فلسطینی مظلومین کی مدد کا راستہ کھول دیا گیا اور فلسطین و لبنان میں اسرائیل سے برسرپیکار ان مجاہدین اور نوجوانوں کی مکمل مدد کی گئی۔
البتہ ایران کی جانب سے فلسطینی مظلومین کی حمایت اور مدد کے جرم میں امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق نے ایران پر حملہ کر دیا اور پھر یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی، تاہم فلسطین اور لبنان کے ان نوجوانوں کی جو مدد انقلاب اسلامی ایران نے جاری رکھی، اس کے نتیجے میں لبنان اور فلسطین میں صیہونی افواج کے خلاف حملوں میں بھی تیزی آئی اور پھر یہ جدوجہد 2000ء میں اس وقت رنگ لائی جب لبنان پر قابض ریاست اسرائیل بد ترین شکست کے بعد ذلت کے ساتھ اپنا اسلحہ اور تمام مورچے چھوڑکر فرارکرگئی اور لبنان مکمل طور پر اسرائیلی تسلط سے آزاد ہوگیا۔
یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑ ی فوجی طاقت اسرائیل کولبنان میں شکست سے دوچارہونا پڑا،کیونکہ اس سے قبل تو اسرائیل نے تمام عرب ممالک کو جنگوں میں صرف چند گھنٹوں میں ہی چت کردیا تھا لیکن لبنان میں نوجوانوں کی مزاحمت نے اسرائیل کے'' عظیم تر اسرائیل''کے خواب کو چکنا چورکردیا تھا کیونکہ اسرائیل اب لبنان سے نکل کرآگے شام کو اپنا ہدف بناناچاہتا تھا اور پھر اسی طرح عراق اورکویت کے بعد سعودی عرب کا نمبر بھی تھا کیونکہ عظیم تر اسرائیل کے نقشے میں اس کی سرحدیں فلسطین سے مدینہ منورہ تک بنائی گئی تھیں۔
دوسری طرف 2001 اور 2003 میں امریکا افغانستان اور عراق میں وارد ہوچکا تھا جوکہ پہلے سے امریکی اور اسرائیلی منصوبہ بندیوں کا حصہ تھا۔
لبنان سے اسرائیلی مکمل انخلاء کی وجوہات پر جب غوروفکر کیا گیا تو امریکا اوراسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی مکمل حمایت اور سرپرستی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے نہ صرف لبنان میں جوانوں کو انگیز دیا ہے بلکہ فلسطین سمیت دنیا کے کئی ایک ممالک میں اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسی طرح امریکی اور اسرائیلی تحقیق دان اس نتیجے پربھی پہنچے تھے کہ لبنان میں حزب اللہ کی اٹھارہ سالہ جدوجہد میں ایران اورشام نے جو بنیادی کردار ادا کیا ہے وہ بھی ناقابل فراموش ہے کیونکہ ایران اور شام نے لبنان میں اسرائیل مخالف فلسطینی اورلبنانی مجاہدین کی جس انداز میں مدد کی ہے، اس کی مثال تاریخ میں پہلے نہیں ملی تھی، تاہم امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ عراق کو بھی اپنے تسلط میں لیا جائے اور اس کے بعد ایک طرف سے اسرائیل اور ایک طرف سے امریکا شام کو اپنا نشانہ بنائیں گے تاہم2000ء میں اسرائیلی اور امریکی خواب چکنا چور ہوگئے اور اسرائیل بدترین ذلت کے ساتھ لبنان سے فرارہوگیا۔
2003ء میں جہاں امریکا ایک طرف افغانستان اورعراق میں فوجی چڑھائی کررہا تھا تو دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ کولن نے شام کے صدربشار الاسد سے ملاقات کی اور بشار الاسد کو ایک پیش کش کی گئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان اپنا کردار ادا نہ کریں اور اس کے نتیجے میں انھیں طویل مدتی اقتدار سمیت متعدد مراعات دی جا سکتی ہیں تاہم بشار الاسد جو کہ روز اول سے ہی اگر پرو، ایران نہیں تھے لیکن اسرائیل مخالف تھے اور فلسطینی مظلوموں کے بھرپور حامی تھے اور فلسطینی عوام سے بشار الاسد کی لگن اور محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ شام کی حکومت نے امریکا اور اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا فیصلہ کیا۔خلاصہ یہ کہ امریکا کو یہاں بھی سفارتی طور پر شکست کا سامنا ہوا، یعنی ایک طرف امریکا افغانستان اور عراق میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو دوسری جانب اسرائیل لبنان سے فرارکرہوگیا،اب امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل کی سفارتی دھمکی اور پیش کش بھی کارگر نہ رہی۔
یہی وہ دور تھا کہ جہاں امریکا اوراسرائیل کی پوری قوت کا مرکز ومحور مشرق وسطیٰ پر قابض ہونا تھا تو ایشیائی ریاستوں میں بھی حالات تیزی سے بدل رہے تھے، پاکستان اس دور میں ان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آچکا تھا کہ جن کو پہلے خود حکومتی مدد کے تحت افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف بھیجا گیا تھا، پاکستان میں بھی یہ صورتحال 1980ء سے شروع ہو چکی تھی کہ جہاں مذہبی منافرت کو باقاعدہ طور پر ہوا دی گئی اور مساجد اور امام بارگاہوں سمیت مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو نشانہ بنایا جانے لگا اور پھر بڑھتے بڑھتے آج 2015ء تک صورت حال یہ بن گئی کہ عام شہری توکیا پاکستان کی افواج سے لے کر دیگر سیکیورٹی اداروں سمیت ہر شہری دہشت گردوں کی کارروائیوں کی لپیٹ میں آنے لگا، معصوم بچوں سے خواتین، نوجوان اور بزرگ حتیٰ معذور افراد بھی اس دہشت گردی کا شکار بنے، خلاصہ یہ کہ پاکستان کے ہرگوش و کنار میں دہشت گردی اس تیزی سے پھیلی کہ ان چند برسوں میں ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بہادیا گیا اور یہ سب کچھ دنیا کے ان بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ربط تھا کہ جس کا آغاز امریکا کی سربراہی میں اسرائیل نے کیا تھا۔
بہرحال2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کی شام میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر اسرائیل نے 2006ء میں پوری دنیا کی طاقت کے ساتھ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوکر لبنان پر حملہ کر دیا اوراس حملے کا جواز تھا کہ حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے دو فوجیوں کوگرفتارکرلیا ہے تاہم اسرائیل نے اعلان کیا کہ ان دو فوجیوں کی بازیابی تک جنگ جاری رہے گی اور فلسطینی مظلومین کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل حزب اللہ لبنان کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا۔
اس مقصد کے لیے امریکا بھی بڑھ چڑھ کر سامنے آیا اور اسی طرح کے اعلانات سامنے آئے، تاہم اس جنگ کا دورانیہ بھی33 روز رہا لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل جو کہ ماضی میں کئی عرب ریاستوں کو بیک وقت چند گھنٹوں میں شکست دے چکا تھا، یہاں لبنان میں ایک فلسطینی مزاحمتی گروہ حزب اللہ کے سامنے 33 روز بھی نہ ٹک پایا اور پھر عالمی قوتوں سے ثالثی کی اپیل کرنے لگا اور بالآخر جنگ بندی ہوئی ۔
دراصل اسرائیل جہاں اپنے دو قیدیوں کی بازیابی چاہتا تھا وہاں فلسطینی مزاحمت کو بھی ختم کر کے2000ء میں لبنان سے فرار کے بعد اپنے ادھورے مقصد یعنی ''عظیم تر اسرائیل'' کے قیام کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تاہم اس مرتبہ بھی اسرائیل کے حصے میں ذلت اور رسوائی ہی رہی اور نہ تو اسرائیل کو دو فوجی ملے اور نہ ہی فلسطینی مزاحمت حزب اللہ کو ختم کیا جاسکا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا عظیم تر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ (جاری ہے)
البتہ ایران کی جانب سے فلسطینی مظلومین کی حمایت اور مدد کے جرم میں امریکا اور اسرائیل کے اشاروں پر عراق نے ایران پر حملہ کر دیا اور پھر یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی، تاہم فلسطین اور لبنان کے ان نوجوانوں کی جو مدد انقلاب اسلامی ایران نے جاری رکھی، اس کے نتیجے میں لبنان اور فلسطین میں صیہونی افواج کے خلاف حملوں میں بھی تیزی آئی اور پھر یہ جدوجہد 2000ء میں اس وقت رنگ لائی جب لبنان پر قابض ریاست اسرائیل بد ترین شکست کے بعد ذلت کے ساتھ اپنا اسلحہ اور تمام مورچے چھوڑکر فرارکرگئی اور لبنان مکمل طور پر اسرائیلی تسلط سے آزاد ہوگیا۔
یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑ ی فوجی طاقت اسرائیل کولبنان میں شکست سے دوچارہونا پڑا،کیونکہ اس سے قبل تو اسرائیل نے تمام عرب ممالک کو جنگوں میں صرف چند گھنٹوں میں ہی چت کردیا تھا لیکن لبنان میں نوجوانوں کی مزاحمت نے اسرائیل کے'' عظیم تر اسرائیل''کے خواب کو چکنا چورکردیا تھا کیونکہ اسرائیل اب لبنان سے نکل کرآگے شام کو اپنا ہدف بناناچاہتا تھا اور پھر اسی طرح عراق اورکویت کے بعد سعودی عرب کا نمبر بھی تھا کیونکہ عظیم تر اسرائیل کے نقشے میں اس کی سرحدیں فلسطین سے مدینہ منورہ تک بنائی گئی تھیں۔
دوسری طرف 2001 اور 2003 میں امریکا افغانستان اور عراق میں وارد ہوچکا تھا جوکہ پہلے سے امریکی اور اسرائیلی منصوبہ بندیوں کا حصہ تھا۔
لبنان سے اسرائیلی مکمل انخلاء کی وجوہات پر جب غوروفکر کیا گیا تو امریکا اوراسرائیل اس نتیجے پر پہنچے کہ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں آنے والے اسلامی انقلاب اور امام خمینی کی مکمل حمایت اور سرپرستی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے نہ صرف لبنان میں جوانوں کو انگیز دیا ہے بلکہ فلسطین سمیت دنیا کے کئی ایک ممالک میں اپنے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسی طرح امریکی اور اسرائیلی تحقیق دان اس نتیجے پربھی پہنچے تھے کہ لبنان میں حزب اللہ کی اٹھارہ سالہ جدوجہد میں ایران اورشام نے جو بنیادی کردار ادا کیا ہے وہ بھی ناقابل فراموش ہے کیونکہ ایران اور شام نے لبنان میں اسرائیل مخالف فلسطینی اورلبنانی مجاہدین کی جس انداز میں مدد کی ہے، اس کی مثال تاریخ میں پہلے نہیں ملی تھی، تاہم امریکا اور اسرائیل اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ افغانستان کے ساتھ ساتھ عراق کو بھی اپنے تسلط میں لیا جائے اور اس کے بعد ایک طرف سے اسرائیل اور ایک طرف سے امریکا شام کو اپنا نشانہ بنائیں گے تاہم2000ء میں اسرائیلی اور امریکی خواب چکنا چور ہوگئے اور اسرائیل بدترین ذلت کے ساتھ لبنان سے فرارہوگیا۔
2003ء میں جہاں امریکا ایک طرف افغانستان اورعراق میں فوجی چڑھائی کررہا تھا تو دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ کولن نے شام کے صدربشار الاسد سے ملاقات کی اور بشار الاسد کو ایک پیش کش کی گئی جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان اپنا کردار ادا نہ کریں اور اس کے نتیجے میں انھیں طویل مدتی اقتدار سمیت متعدد مراعات دی جا سکتی ہیں تاہم بشار الاسد جو کہ روز اول سے ہی اگر پرو، ایران نہیں تھے لیکن اسرائیل مخالف تھے اور فلسطینی مظلوموں کے بھرپور حامی تھے اور فلسطینی عوام سے بشار الاسد کی لگن اور محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ شام کی حکومت نے امریکا اور اسرائیل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بننے کا فیصلہ کیا۔خلاصہ یہ کہ امریکا کو یہاں بھی سفارتی طور پر شکست کا سامنا ہوا، یعنی ایک طرف امریکا افغانستان اور عراق میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا تو دوسری جانب اسرائیل لبنان سے فرارکرہوگیا،اب امریکی وزیرخارجہ کولن پاؤل کی سفارتی دھمکی اور پیش کش بھی کارگر نہ رہی۔
یہی وہ دور تھا کہ جہاں امریکا اوراسرائیل کی پوری قوت کا مرکز ومحور مشرق وسطیٰ پر قابض ہونا تھا تو ایشیائی ریاستوں میں بھی حالات تیزی سے بدل رہے تھے، پاکستان اس دور میں ان دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں آچکا تھا کہ جن کو پہلے خود حکومتی مدد کے تحت افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف بھیجا گیا تھا، پاکستان میں بھی یہ صورتحال 1980ء سے شروع ہو چکی تھی کہ جہاں مذہبی منافرت کو باقاعدہ طور پر ہوا دی گئی اور مساجد اور امام بارگاہوں سمیت مذہبی جلوسوں اور اجتماعات کو نشانہ بنایا جانے لگا اور پھر بڑھتے بڑھتے آج 2015ء تک صورت حال یہ بن گئی کہ عام شہری توکیا پاکستان کی افواج سے لے کر دیگر سیکیورٹی اداروں سمیت ہر شہری دہشت گردوں کی کارروائیوں کی لپیٹ میں آنے لگا، معصوم بچوں سے خواتین، نوجوان اور بزرگ حتیٰ معذور افراد بھی اس دہشت گردی کا شکار بنے، خلاصہ یہ کہ پاکستان کے ہرگوش و کنار میں دہشت گردی اس تیزی سے پھیلی کہ ان چند برسوں میں ستر ہزار پاکستانیوں کا خون بہادیا گیا اور یہ سب کچھ دنیا کے ان بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ربط تھا کہ جس کا آغاز امریکا کی سربراہی میں اسرائیل نے کیا تھا۔
بہرحال2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کی شام میں ناکامی کے بعد ایک مرتبہ پھر اسرائیل نے 2006ء میں پوری دنیا کی طاقت کے ساتھ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہوکر لبنان پر حملہ کر دیا اوراس حملے کا جواز تھا کہ حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے دو فوجیوں کوگرفتارکرلیا ہے تاہم اسرائیل نے اعلان کیا کہ ان دو فوجیوں کی بازیابی تک جنگ جاری رہے گی اور فلسطینی مظلومین کی آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل حزب اللہ لبنان کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا۔
اس مقصد کے لیے امریکا بھی بڑھ چڑھ کر سامنے آیا اور اسی طرح کے اعلانات سامنے آئے، تاہم اس جنگ کا دورانیہ بھی33 روز رہا لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل جو کہ ماضی میں کئی عرب ریاستوں کو بیک وقت چند گھنٹوں میں شکست دے چکا تھا، یہاں لبنان میں ایک فلسطینی مزاحمتی گروہ حزب اللہ کے سامنے 33 روز بھی نہ ٹک پایا اور پھر عالمی قوتوں سے ثالثی کی اپیل کرنے لگا اور بالآخر جنگ بندی ہوئی ۔
دراصل اسرائیل جہاں اپنے دو قیدیوں کی بازیابی چاہتا تھا وہاں فلسطینی مزاحمت کو بھی ختم کر کے2000ء میں لبنان سے فرار کے بعد اپنے ادھورے مقصد یعنی ''عظیم تر اسرائیل'' کے قیام کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا تاہم اس مرتبہ بھی اسرائیل کے حصے میں ذلت اور رسوائی ہی رہی اور نہ تو اسرائیل کو دو فوجی ملے اور نہ ہی فلسطینی مزاحمت حزب اللہ کو ختم کیا جاسکا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مرتبہ پھر اسرائیل کا عظیم تر اسرائیل کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ (جاری ہے)