نجکاری جو تمھاری مان لیں ناصحا
پبلک سیکٹرکے اداروں کی نجکاری کی مختلف شکلوں کے خلاف محنت کش مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔
PESHAWAR/TANK/BARA:
پبلک سیکٹرکے اداروں کی نجکاری کی مختلف شکلوں کے خلاف محنت کش مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں، ان میں پاکستاں اسٹیل ملز، واپڈا ، اسپتال اور تعلیمی اداروں کے علاوہ PIAکے ملازمین کی نجکاری مخالف تحریک بھی شامل ہے ۔ پی آئی اے کے ملازمین نے ایک زبردست مزاحمت کی اور 8 روزہ ہڑتال میں نجکاری منصوبے کو مسترد کردیا۔
پی آئی اے کے ملازمین کی منظم و پرامن ہڑتال ختم ہوئی ۔ادارے کی نجکاری کے خلاف اس تحریک میں دو ملازمین شہیدہوئے ۔ اس تحریک نے قومی اداروں کی نجکاری کے سوال کو بحث کا ایک سنجیدہ موضوع بنا دیا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نجکاری کی پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔
پاکستان میں اب تک نیلام کیے گئے اداروں کی اکثریت یا تو بند ہو چکی ہے یا پھر زبردست خسارے کا شکار ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت اداروں کی کارکردگی میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے ان سے گلو خلاصی کے درپے ہے جس سے اس کی بدنیتی کے علاوہ اپنی بنیادی ذمے داریوں سے دست بردار ہونے کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ریاست اگر شہریوں سے کیے گئے سوشل کنٹریکٹ سے روگردانی کرتی ہے تو پھر عوام کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے ۔
پاکستان نے بین الاقوامی معاہدات کے تحت جس میں GATS( جنرل ایگرمنٹس ٹریڈ اینڈ سروسز) بھی شامل ہے، یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں تجارت ،صنعت اور خصوصی طور پر سروسز( خدمات) سے متعلق اداروں سے ریاستی عمل دخل ختم کردے گا یعنی انھیں مکمل طور پر نجی ہاتھوں میں دے گا ۔ ایسے ریاستی ادارے جو شہریوں کو بجلی، گیس،پانی، صحت، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور نکاسی آب جیسی بنیادی سہولتیں پہنچانے کے ذمے دار ہیں، تیزی سے پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کیے جائیں گے جوکہ انھیں خالصتاً نفع اور نقصان کی بنیاد پر چلائیں گے ۔
اس عمل کے نتیجے میں یہ سب سولیات مہنگی ہوکر عوام کی اکثریت کے دسترس سے نکل جائیں گی۔ یوں سماج مکمل طور پر جنگل کے قانون کی عملی تصویر بن جائے گا جہاں طاقتور سب کچھ حاصل کر سکے گا، لیکن جو معاشی وسماجی طور پرکمزور ہے وہ ہر بنیادی سہولت سے محروم ہو جائے گا جو بحیثیت انسان اس کا بنیادی حق ہے ۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو نہ آپ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں گے ، نہ اسپتال میں علاج کراو سکیں گے اور نہ ہی آپ کو پانی جیسی زندگی کی بنیادی سہولت میسر آ سکے گی جب کہ بجلی ،گیس ٹرانسپورٹ تو عیاشی کے زمرے میں دکھائی دیں گے۔
پہلا تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ادارے مسلسل خسارے میںجا رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بے تحاشا اوربے جا بھرتیوں اور بدانتظامی کوقراردیا جاتا ہے۔اس کے بعد یہ حلقے عوامی حمایت کے حصول کے لیے یہ راگ الاپتے ہیں کہ اداروں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام سے ٹیکس کی مد میں حاصل کردہ رقوم کو استعمال کیا جاتا ہے ۔یعنی شہریوں کے ٹیکسوں پر ان اداروں کے ملازمین پلتے ہیں اور نتیجے کے طور پر عوام کی بہبود کے لیے خرچ کرنے کو کچھ زیادہ نہیں بچتا ۔ایک اور بات زور وشور سے کہی جاتی ہے کہ ان اداروں کی فروخت سے حاصل شدہ رقوم سے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے گا اور ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے یا پھر یہ فریب نظر اور صریحاََ دھوکا دہی ہے۔خود انحصاری پر مبنی صنعتی ترقی کے لیے ضروری بنیادی نوعیت کی صنعتیں جیسے کہ اسٹیل ملز، ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس، شپ یارڈ اور بجلی کے پلانٹ،ڈیمز وغیرہ سب خزانے پر بوجھ محسوس ہوں گے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے کی کارکردگی کا پیمانہ صرف اور صرف نفع اور نقصان پر ہی منحصر نہیں ہے اس میں دیگر سوشل انڈیکیٹرزکو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری امر ہے جو کہ سماج کی مجموعی ترقی میں دور رس اورکلیدی کردار اد کرتے ہیں۔نجکاری کے نام پر ہونے والے تماشے کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ریاست بنیادی طور پر بعض بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی پابند ہے اگر وہ یہ سہولیات مہیا کرنے والے اداروں کو نفع نقصان کے تناظر میں ناپنے کی کوشش کرے گی تو پھر تعلیمی ادارے ، اسپتال، آبی نظام، روڈ رستے ، آبی گزرگاہیں ، بندرگاہیں،اسکول ،کالجز،یونیورسٹیاں وغیرہ اور رفاہ عامہ کے تمام منصوبے گھاٹے کا سودا نظر آئیں گے ۔
قومی اداروں میں بے تحاشا بھرتیوں کا رونا رونے والوں سے سوال ہے کہ اس ملک میں جمہوری حکومت ہو یا فوجی آمریت ،قومی اداروں کو مالِ غنیمت کے طور پر برتنے کی طرح عوام نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے ہی ڈالی ہے۔کیا ملازمت جیسے بنیادی آئینی حق کے لیے سرگرداں و پریشاں حال عوام اس بات کے ذمے دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں کہ انھوں نے ملازمت کیوں حاصل کی ۔یا پھر وہ حکمران ذمے دار ہیں جو ملازمتوں کے لیے ضروری منصفانہ نظام بنانے میں ناکام رہے ہیں ، ملازمت حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے اور اس سے اس کی استعداد کے مطابق کام لینا کلی طور پر ادارے کی ذمے داری ہے ۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ ادارے کے انتظامی نظام کو اس قدر شفاف اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے کہ کسی بھی غیر ضروری بھرتی کو روکا جاسکے۔PIAمیں جہازوں کی تعداد 100سے کم کرکے 38تک پہنچانے کے ذمے دار مزدور نہیں ہیں ،اس لیے اب جب 38جہاز رہ گئے ہیں تو ایسے میں ملازمین کی تعداد میں فی جہاز اضافہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔
حکمران خود جرم کرتے ہیں اور سزا کے طور پر اداروں ہی کی نیلامی لگا کرانھیں خود ہی خرید لیتے ہیں ۔ یعنی چٹ بھی ان کا پٹ بھی ان کا۔ اس ملک کے عوام حکمرانوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اب تک کی گئی نجکاری سے حاصل شدہ رقم سے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں کیا کمی واقع ہوئی ہے ۔ اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ غیر ملکی قرضہ پہلے سے بڑھ کر 75ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
نجکاری کے ضمن میں پاکستان دنیا بھر کے لیے ایک زبردست کیس اسٹڈی بن سکتا ہے کہ کس طرح اس کے حکمرانوں نے مالیاتی اداروں سے ایک طرف قرض میں ڈالر لیے تو دوسری طرف بیچے گئے اداروں کو بے دریغ لوٹا ۔ یہ کہانی مختلف اداروں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان اداروں کی نجکاری میں حکمرانوں کی دلچسپی قابل ِ دید ہے جو قیمتی زمینوں کی حامل ہیں۔ سو ان اداروں کی نجکاری کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حکمرانوں کی سوچ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے PIAکے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ مناسب نہیں لگایا ہے ۔ PIAکا کراچی کی سب سے اہم اور قیمتی شاہراہ فیصل پر واقع چھ سو گز کے دو منزلہ میڈیکل سینٹر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے دکھائی گئی ہے ۔بالکل ایسا ہی انھوں نے KESCاورPTCLکے اثاثوں کے متعلق بھی کیا تھا ۔ اسٹیل ملز سے 19ہزار ایکڑ سے زائد کی قیمتی اراضی منسلک ہے جس کے ایک ایکڑ کی قیمت کم ازکم پانچ کروڑ روپے کے حساب سے کھربوں میں چلی جاتی ہے۔
حکومت اگر واقعی قومی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی حقیقی معنوں میں متمنی ہے تو اس کے لیے کسی کمپیوٹر سائنس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف انتظامی امور میں بہتری، گورننگ بورڈ میں اہل پروفیشنلز کی نامزدگی سے اداروں کو ان کے اصل اہداف حاصل کرنے کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔قرائن بتا رہے ہیں کہ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ اداروں کو ہر قیمت پر بیچنا ہی ہے۔
اگر حکومت واقعتاََ اداروں کی بہتری ہی کی متمنی ہے تو پھر ان اداروں کو چلانے اور ان کی کارکردگی کے لیے مفصل متبادل منصوبے موجود ہیں جن پر عمل کر کے ریلوے، واپڈا ، PIA،اسٹیل ملزاور اسپتالوں کو مثالی ادارے بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی مزدور تنظیموں اور ان کے ہمدرد ماہرین معاشیات کے پاس اداروںکی بہتری کے متبادل منصوبے کو ہر فورم پر بحث کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے اور نجکاری کے ریاستی بیانیہ کے عوام دشمنی پر مبنی نتائج سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ حکمران بین الاقوامی مالیاتی اداروںکی خوشنودی کے لیے زہرکو تریاق بناکر بیچنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔
پبلک سیکٹرکے اداروں کی نجکاری کی مختلف شکلوں کے خلاف محنت کش مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں، ان میں پاکستاں اسٹیل ملز، واپڈا ، اسپتال اور تعلیمی اداروں کے علاوہ PIAکے ملازمین کی نجکاری مخالف تحریک بھی شامل ہے ۔ پی آئی اے کے ملازمین نے ایک زبردست مزاحمت کی اور 8 روزہ ہڑتال میں نجکاری منصوبے کو مسترد کردیا۔
پی آئی اے کے ملازمین کی منظم و پرامن ہڑتال ختم ہوئی ۔ادارے کی نجکاری کے خلاف اس تحریک میں دو ملازمین شہیدہوئے ۔ اس تحریک نے قومی اداروں کی نجکاری کے سوال کو بحث کا ایک سنجیدہ موضوع بنا دیا ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نجکاری کی پالیسی بری طرح ناکام ہوئی ہے ۔
پاکستان میں اب تک نیلام کیے گئے اداروں کی اکثریت یا تو بند ہو چکی ہے یا پھر زبردست خسارے کا شکار ہیں ۔ اس کے باوجود حکومت اداروں کی کارکردگی میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے ان سے گلو خلاصی کے درپے ہے جس سے اس کی بدنیتی کے علاوہ اپنی بنیادی ذمے داریوں سے دست بردار ہونے کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ریاست اگر شہریوں سے کیے گئے سوشل کنٹریکٹ سے روگردانی کرتی ہے تو پھر عوام کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کے خلاف بھرپور مزاحمت کرے ۔
پاکستان نے بین الاقوامی معاہدات کے تحت جس میں GATS( جنرل ایگرمنٹس ٹریڈ اینڈ سروسز) بھی شامل ہے، یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ آنے والے برسوں میں تجارت ،صنعت اور خصوصی طور پر سروسز( خدمات) سے متعلق اداروں سے ریاستی عمل دخل ختم کردے گا یعنی انھیں مکمل طور پر نجی ہاتھوں میں دے گا ۔ ایسے ریاستی ادارے جو شہریوں کو بجلی، گیس،پانی، صحت، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور نکاسی آب جیسی بنیادی سہولتیں پہنچانے کے ذمے دار ہیں، تیزی سے پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کیے جائیں گے جوکہ انھیں خالصتاً نفع اور نقصان کی بنیاد پر چلائیں گے ۔
اس عمل کے نتیجے میں یہ سب سولیات مہنگی ہوکر عوام کی اکثریت کے دسترس سے نکل جائیں گی۔ یوں سماج مکمل طور پر جنگل کے قانون کی عملی تصویر بن جائے گا جہاں طاقتور سب کچھ حاصل کر سکے گا، لیکن جو معاشی وسماجی طور پرکمزور ہے وہ ہر بنیادی سہولت سے محروم ہو جائے گا جو بحیثیت انسان اس کا بنیادی حق ہے ۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں تو نہ آپ بچوں کو تعلیم دلوا سکیں گے ، نہ اسپتال میں علاج کراو سکیں گے اور نہ ہی آپ کو پانی جیسی زندگی کی بنیادی سہولت میسر آ سکے گی جب کہ بجلی ،گیس ٹرانسپورٹ تو عیاشی کے زمرے میں دکھائی دیں گے۔
پہلا تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ادارے مسلسل خسارے میںجا رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ ان اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بے تحاشا اوربے جا بھرتیوں اور بدانتظامی کوقراردیا جاتا ہے۔اس کے بعد یہ حلقے عوامی حمایت کے حصول کے لیے یہ راگ الاپتے ہیں کہ اداروں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام سے ٹیکس کی مد میں حاصل کردہ رقوم کو استعمال کیا جاتا ہے ۔یعنی شہریوں کے ٹیکسوں پر ان اداروں کے ملازمین پلتے ہیں اور نتیجے کے طور پر عوام کی بہبود کے لیے خرچ کرنے کو کچھ زیادہ نہیں بچتا ۔ایک اور بات زور وشور سے کہی جاتی ہے کہ ان اداروں کی فروخت سے حاصل شدہ رقوم سے غیر ملکی قرضوں کا بوجھ کم کیا جائے گا اور ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے ۔
کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے یا پھر یہ فریب نظر اور صریحاََ دھوکا دہی ہے۔خود انحصاری پر مبنی صنعتی ترقی کے لیے ضروری بنیادی نوعیت کی صنعتیں جیسے کہ اسٹیل ملز، ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس، شپ یارڈ اور بجلی کے پلانٹ،ڈیمز وغیرہ سب خزانے پر بوجھ محسوس ہوں گے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے کی کارکردگی کا پیمانہ صرف اور صرف نفع اور نقصان پر ہی منحصر نہیں ہے اس میں دیگر سوشل انڈیکیٹرزکو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری امر ہے جو کہ سماج کی مجموعی ترقی میں دور رس اورکلیدی کردار اد کرتے ہیں۔نجکاری کے نام پر ہونے والے تماشے کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ریاست بنیادی طور پر بعض بنیادی سہولیات مہیا کرنے کی پابند ہے اگر وہ یہ سہولیات مہیا کرنے والے اداروں کو نفع نقصان کے تناظر میں ناپنے کی کوشش کرے گی تو پھر تعلیمی ادارے ، اسپتال، آبی نظام، روڈ رستے ، آبی گزرگاہیں ، بندرگاہیں،اسکول ،کالجز،یونیورسٹیاں وغیرہ اور رفاہ عامہ کے تمام منصوبے گھاٹے کا سودا نظر آئیں گے ۔
قومی اداروں میں بے تحاشا بھرتیوں کا رونا رونے والوں سے سوال ہے کہ اس ملک میں جمہوری حکومت ہو یا فوجی آمریت ،قومی اداروں کو مالِ غنیمت کے طور پر برتنے کی طرح عوام نے نہیں بلکہ حکمرانوں نے ہی ڈالی ہے۔کیا ملازمت جیسے بنیادی آئینی حق کے لیے سرگرداں و پریشاں حال عوام اس بات کے ذمے دار ٹھہرائے جا سکتے ہیں کہ انھوں نے ملازمت کیوں حاصل کی ۔یا پھر وہ حکمران ذمے دار ہیں جو ملازمتوں کے لیے ضروری منصفانہ نظام بنانے میں ناکام رہے ہیں ، ملازمت حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے اور اس سے اس کی استعداد کے مطابق کام لینا کلی طور پر ادارے کی ذمے داری ہے ۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ ادارے کے انتظامی نظام کو اس قدر شفاف اور غیر جانبدارانہ بنایا جائے کہ کسی بھی غیر ضروری بھرتی کو روکا جاسکے۔PIAمیں جہازوں کی تعداد 100سے کم کرکے 38تک پہنچانے کے ذمے دار مزدور نہیں ہیں ،اس لیے اب جب 38جہاز رہ گئے ہیں تو ایسے میں ملازمین کی تعداد میں فی جہاز اضافہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ۔
حکمران خود جرم کرتے ہیں اور سزا کے طور پر اداروں ہی کی نیلامی لگا کرانھیں خود ہی خرید لیتے ہیں ۔ یعنی چٹ بھی ان کا پٹ بھی ان کا۔ اس ملک کے عوام حکمرانوں سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اب تک کی گئی نجکاری سے حاصل شدہ رقم سے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں کیا کمی واقع ہوئی ہے ۔ اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ غیر ملکی قرضہ پہلے سے بڑھ کر 75ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
نجکاری کے ضمن میں پاکستان دنیا بھر کے لیے ایک زبردست کیس اسٹڈی بن سکتا ہے کہ کس طرح اس کے حکمرانوں نے مالیاتی اداروں سے ایک طرف قرض میں ڈالر لیے تو دوسری طرف بیچے گئے اداروں کو بے دریغ لوٹا ۔ یہ کہانی مختلف اداروں کا احاطہ کرتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان اداروں کی نجکاری میں حکمرانوں کی دلچسپی قابل ِ دید ہے جو قیمتی زمینوں کی حامل ہیں۔ سو ان اداروں کی نجکاری کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
حکمرانوں کی سوچ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے PIAکے اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ مناسب نہیں لگایا ہے ۔ PIAکا کراچی کی سب سے اہم اور قیمتی شاہراہ فیصل پر واقع چھ سو گز کے دو منزلہ میڈیکل سینٹر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے دکھائی گئی ہے ۔بالکل ایسا ہی انھوں نے KESCاورPTCLکے اثاثوں کے متعلق بھی کیا تھا ۔ اسٹیل ملز سے 19ہزار ایکڑ سے زائد کی قیمتی اراضی منسلک ہے جس کے ایک ایکڑ کی قیمت کم ازکم پانچ کروڑ روپے کے حساب سے کھربوں میں چلی جاتی ہے۔
حکومت اگر واقعی قومی اداروں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی حقیقی معنوں میں متمنی ہے تو اس کے لیے کسی کمپیوٹر سائنس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف انتظامی امور میں بہتری، گورننگ بورڈ میں اہل پروفیشنلز کی نامزدگی سے اداروں کو ان کے اصل اہداف حاصل کرنے کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔قرائن بتا رہے ہیں کہ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ اداروں کو ہر قیمت پر بیچنا ہی ہے۔
اگر حکومت واقعتاََ اداروں کی بہتری ہی کی متمنی ہے تو پھر ان اداروں کو چلانے اور ان کی کارکردگی کے لیے مفصل متبادل منصوبے موجود ہیں جن پر عمل کر کے ریلوے، واپڈا ، PIA،اسٹیل ملزاور اسپتالوں کو مثالی ادارے بنایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی مزدور تنظیموں اور ان کے ہمدرد ماہرین معاشیات کے پاس اداروںکی بہتری کے متبادل منصوبے کو ہر فورم پر بحث کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے اور نجکاری کے ریاستی بیانیہ کے عوام دشمنی پر مبنی نتائج سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ حکمران بین الاقوامی مالیاتی اداروںکی خوشنودی کے لیے زہرکو تریاق بناکر بیچنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔